• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرعی خلافت وامارت

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
اسلام میں اجتماعیت کے لئے جو شرعی نظام ہے وہ خلافت ہے اسی کو امارت سے تعبیرکیا گیا ہےاسلام میں اس کے اصول وضوابط بتلادئے گئے ہیں، اگران اصول ضوابط کے مطابق خلافت و امارت کا قیام ممکن ہو تو اس پر عمل ہوگا بصورت دیگر اپنے خود ساختہ اصولوں سے خلافت وامارت کی کوشش کرنا یا اس پر عمل کرنا غیرشرعی ہوگا۔
کتاب وسنت کی روشنی میں خلافت وامارت کے اصول وضوابط کو اہل علم نے بالتفصیل بیان کیا ذیل چند اہم اصولوں کاتذکرہ پیش خدمت ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
پہلا اصول

(خلافت وامارت دین اسلام کے ساتھ لازم ملزوم نہیں)​
خلاف و امارت اسلام کے ساتھ لازم ملزوم نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کے بغیر اسلام کا تصور نہیں یا اس کے بنا دین پرعمل یا اس کی تبلیغ ممکن نہیں یا یہ کہ یہ نظام تسلسل کے ساتھ ہردور میں موجود ہوگا ۔
بلکہ بعض صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت امارت کبھی رہے گی اورکبھی نہیں رہے گی اورنہ رہنے کی صورت میں بھی دین اسلام اپنے اصلی شکل میں موجودرہے گا ۔
عن حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ قال: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ» قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ»[صحيح البخاري: 4/ 199 رقم 3606]۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر و برکت (اسلام کی) عطا فرمائی، اب کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سوال کیا، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہو گا۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہو گا؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ ان میں کوئی بات اچھی ہو گی کوئی بری۔ میں نے سوال کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جوان کی بات قبول کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیجئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم و مذہب کے ہوں گے۔ ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا، پھر اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو۔ آپ نے فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آ جائے اور تو اسی حالت پر ہو (تو یہ تیرے حق میں ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہو گا)۔
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ کبھی ایسا دور بھی آسکتاہے جب نہ تو مسلمانوں کی کوئی حقیقی جماعت یعنی خلافت وامارت ہوگی اورنہ ہی ان کا کوئی شرعی خلیفہ و امیر۔
اور ایسے دور میں اگربعض لوگ غیرشرعی امارتوں کی بناد رکھیں تو اس طرح کی تمام خود ساختہ امارتوں اورتمام غیر شرعی امیروں سے علحدگی ضروری ہے۔
ایک اورحدیث ملاحظہ ہو:
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا فِي فی مسجد رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَكَانَ بَشِيرٌ رَجُلاً يَكُفُّ حَدِيثَهُ ، فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ ، فَقَالَ : يَا بَشِيرُ بْنَ سَعْدٍ أَتَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فِي الأُمَرَاءِ ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ : أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَهُ ، فَجَلَسَ أَبُو ثَعْلَبَةَ ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ خِلاَفَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا ، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ خِلاَفَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ ثُمَّ سَكَتَ.[مسند أحمد موافقا لثلاث طبعات 4/ 273 رقم 18406]۔
نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہم سب مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے اور(میرے والد) بشیر حدیث روک کررکھتے تھے، اتنے میں ابوثعلبہ الخشنی آئے اورکہا اے بشیر ! کیا امراء کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمہیں یاد ہے ؟ توحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یادہے ، پھرابوثعلبہ بیٹھ گئے اورحذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اسے اٹھا لے گا اس کے بعد تمارے درمیان خلافت علی منہاج النبوت قائم ہوگی یہ جب تک اللہ چاہے گا باقی رہے گی پھرجب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا، اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشات قائم ہوگئی اوریہ بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی پھر اللہ تعالی اسے اٹھا لے، اس کے بعد ظلم کی بادشاہت قائم ہوگی اورجب تک اللہ چاہے گا رہے گی پھر اللہ اسے جب چاہے گا اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر خلافت نبوی منہاج پرقائم ہوگی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔
نوٹ: (١) : اصل الفاظ ہیں : كُنَّا قُعُودًا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ ، لیکن لگتاہے کہ یہ کسی راوی کا وھم ہے اور صحیح الفاظ یوں ہونے چاہئیں: کنا قعودا فی مسجد رسول اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ بزار کے الفاظ اسی مفہوم کو بیان کرتے ہیں چنانچہ بزار کے الفاظ ہیں: عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ كَانَ مَعَ أَبِيهِ بَشِيرِ بْنِ سَعْدٍ، فِي الْمَسْجِدِ فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ [مسند البزار 7/ 223]. ترجمہ اسی اعتبارسے کیا گیا ہے۔
اس حدیث سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ خلافت وامارت مسلمانوں کے ساتھ ہمشہ رہنے والی چیز نہیں ہے ۔
جبکہ دین اسلام قیامت تک ہمیشہ اپنے اصلی شکل میں محفوظ رہے گا، جیساکہ حدیث ہے:
عَنِ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ»[صحيح البخاري: 9/ 101 رقم 7311]
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا (اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے) یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دوسرا اصول

(خلیفہ خاندان قریش ہی کا فرد بن سکتاہے)​
شرعی خلافت سے متعلق دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ خلیفہ صرف اورصرف خاندان قریش کا فرد ہی بن سکتاہے، جیساکہ صحیح احادیث ثابت ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ هَذَا الأَمْرُ فِي قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنْهُمُ اثْنَانِ»[صحيح البخاري: 4/ 179 رقم 3501]۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ خلافت اس وقت تک قریش کے ہاتھوں میں باقی رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هَذِهِ الْأَحَادِيثُ وَأَشْبَاهُهَا دَلِيلٌ ظَاهِرٌ أَنَّ الْخِلَافَةَ مُخْتَصَّةٌ بِقُرَيْشٍ لَا يَجُوزُ عَقْدُهَا لِأَحَدٍ مِنْ غَيْرِهِمْ وَعَلَي هَذَا انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ فِي زَمَنِ الصَّحَابَةِ فَکَذَلِکَ بَعْدَهُمْ وَمَنْ خَالَفَ فِيهِ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ أَوْ عَرَّضَ بِخِلَافٍ مِنْ غَيْرِهِمْ فَهُوَ مَحْجُوجٌ بِإِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَمَنْ بَعْدَهُمْ بِالْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ قَالَ الْقَاضِي اشْتِرَاطُ کَوْنِهِ قُرَشِيًّا هُوَ مَذْهَبُ الْعُلَمَاء ِ کَافَّةً [شرح النووي علي مسلم 12/ 200].
یہ اور اس جیسی احادیث واضح دلیل ہیں کہ خلافت قریش ہی کے ساتھ خاص ہے ، قریش کے علاوہ کسی اورکو خلیفہ بناناجائز نہیں ہے اس بات پر دور صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں اجماع ہوچکاہے ، اورصحیح احادیث کی بنیاد پر صحابہ کرام تابعین اوراس کے بعد کے لوگوں کے اجماع کی وجہ سے ، اہل بدعت میں سے جس نے بھی اس سلسلے میں مخالفت کی ہے یا بدعتیوں کے علاوہ جس نے بھی اختلاف کیا ہے ، ان سب کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خلیفہ کے قریشی ہونے کی شرط ، یہی تمام اہل علم کا مذہب ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
تیسرا اصول

(خلیفہ باختیارہو)​
شرعی خلافت سے متعلق تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ خلافت کسی کے ماتحت نہ ہو اورخلیفہ باختیار ہو ، دلائل ملاحظہ ہوں:
قران میں داؤد علیہ السلام کے خلیفہ ہونے کاذکر ہے اسی کے ساتھ ان کے باختیار ہونے کا بھی ذکر ہے، ارشادہے:
{ يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ } [ص: 26]۔
اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وه تمہیں اللہ کی راه سے بھٹکا دے گی، یقیناً جو لوگ اللہ کی راه سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔
اس آیت میں داؤد علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اوراس کی وجہ یہ بتلائی گی کہ وہ خلیفہ ہیں معلوم ہوا کہ خلیفہ بننے والے کے لازم ہے کہ وہ حاکم ہے اور باختیار ہو تاکہ حق کےساتھ فیصلہ کرسکے۔
عن ابی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال قال رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ يُطِعِ الأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ يَعْصِ الأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي، وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ، فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ»[صحيح البخاري: 4/ 50 رقم 2957]۔
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں (یعنی اس کے ساتھ ہو کر) جنگ کی جاتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ (دشمن کے حملہ سے) بچا جاتا ہے، پس اگر امام تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دے اور انصاف کرے اس کا ثواب اسے ملے گا، لیکن اگر بیانصافی کرے گا تو اس کا وبال اس پر ہو گا۔
اس حدیث میں کہا گیا کہ خلیفہ وامیر کے ساتھ جنگ ہوتی ہے ، اورخلیفہ کے ساتھ جنگ تبھی ہوسکتی ہے جب وہ بااختیارہو۔
قاضی ي أبو يعلي ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء المتوفی ٤٥٨فرماتے ہیں:
الثالث: أن يکون قيماً بأمر الحرب والسياسة وإقامة الحدود، لا تلحقه رأفة في ذلک، والذب عن الأمة.[الأحکام السلطانية لأبي يعلي الفراء ص: 22 ].
خلیفہ کے لئے تیسری شرط یہ ہے کہ وہ جنگی وسیاسی معاملات ، امت کے دفاع اوراقامت حدود کا سربراہ ہو ، اور اس سلسلے میں اسے نرمی لاحق نہ ہو ۔
ا بو الحسن علي بن محمد الشهير بالماوردي المتوفی ٥٤٠ فرماتے ہیں :
وَالسَّادِسُ: الشَّجَاعَةُ وَالنَّجْدَةُ الْمُؤَدِّيَةُ إلَي حِمَايَةِ الْبَيْضَةِ وَجِهَادِ الْعَدُو [الأحکام السلطانية للماوردي :ص: 5 ].
خلیفہ کے تیسری شرط ہے: شجاعت اور اورایسی قوت جس سے سرحدوں کی حفاظت ، اوردشمن سے جہاد پر ہوسکے۔
امام ابوبکر بن خلال کہتے ہیں:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي هَارُونَ، أَنَّ إِسْحَاقَ، حَدَّثَهُمْ أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ سُئِلَ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ لَهُ إِمَامٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ، مَا مَعْنَاهُ؟ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: " تَدْرِي مَا الْإِمَامُ؟ الْإِمَامُ الَّذِي يُجْمِعُ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ، کُلُّهُمْ يَقُولُ: هَذَا إِمَامٌ، فَهَذَا مَعْنَاهُ "[السنة لأبي بکر بن الخلال:ص 80 ].
امام احمد بن حنبل رحمہ سے اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا گیا کہ ''جواس حال میں فوت ہوا کہ اس کا کوئی امام نہ تھا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی '' اس کا کیا مطلب ؟ تو امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے جواب دیا: تمہیں معلوم ہے کہ امام کون ہوتا ہے؟؟ امام وہ ہوتا ہے جس پر سارے مسلمان متفق ہوں اورسبھی کہیں کہ یہ امام ہے یہ امام ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
چوتھا اصول

(خلیفہ کا انتخاب شوری کمیٹی کرے)​
شرعی خلافت سے متعلق تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ اس کے خلیفہ وامیر کا انتخاب شوری کمیٹی کرے گی ۔
یعنی نہ تو اس میں جمہوریت ہے اورنہ ہی مطلق العنانی ، بلکہ مستنداراکین مجلس شوری کے انتخاب ہی سے کوئی شخص خلیفہ بنے گا۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلاَنِ مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ: أَمِّرْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَالَ الآخَرُ مِثْلَهُ، فَقَالَ: «إِنَّا لاَ نُوَلِّي هَذَا مَنْ سَأَلَهُ، وَلاَ مَنْ حَرَصَ عَلَيْهِ» [صحيح البخاري: 9/ 64 رقم 7149]۔
صحابی رسول ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کے دو آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمیں کہیں کا حاکم بنا دیجئیے اور دوسرے بھی یہی خواہش ظاہر کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ایسے شخص کو یہ ذمہ داری نہیں سونپتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو اس کا حریص ہو۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
شبہات کا ازالہ

بعض قران و احادیث سے غلط استدلال کرکے یا ضعیف و مردود روایات پیش کرکے لوگوں کو یا باور کراتے ہیں کہ امارت ہرحال میں ضروری ہے خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہے ، ایسے لوگوں کے شبہات کا ازالہ پیش خدمت ہے:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امیرکی اطاعت کا حکم ہے تو کیا امیر بنانا لازمی ہے؟؟

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا} [النساء: 59]
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔
اول تو اس آیت میں اولی الامر سے مراد صرف امراء نہیں بلکہ بعض نے علماء بھی مراد لیا ہے ۔
دوم اگرتسلیم کرلیں کہ صرف امراء ہی مراد ہیں تو اس آیت میں یہ نہیں ہے کہ ہرحال میں امیر بناؤ بلکہ صرف یہ ہے کہ امیر کی اطاعت کرو ۔ اور اس حکم پرعمل تبھی ہوگا جب حقیقی امیر وخلیفہ موجود ہوگا ، اگرخلیفہ ہی نہ تو اس پرعمل کا موقع ہی نہیں ۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ مسلمانوں کی والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا تو ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہرشخص لازمی طور پر اپنے والدین کا ہربندوبست کرے یعنی اگر بچپن میں کسی کے والدین فوت ہوگئے تو وہ بھی دوسرے والدین کا انتظام کرے کیونکہ والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے !!
ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ جب والدین موجود ہوں تو ان کی اطاعت کی جائے ، یہی مطلب مذکورہ آیت کا ہے کہ جب امیروخلیفہ موجود ہو تب اس کی اطاعت کی جائے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیا امارت کے بغیر اسلام نہیں ؟

امام دارمي رحمه الله (المتوفى255)نے کہا:
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنبَأَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ رُسْتُمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَطَاوَلَ النَّاسُ فِي الْبِنَاءِ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ عُمَرُ: «يَا مَعْشَرَ الْعُرَيْبِ، الْأَرْضَ الْأَرْضَ، إِنَّهُ لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ، فَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى الْفِقْهِ، كَانَ حَيَاةً لَهُ وَلَهُمْ، وَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى غَيْرِ فِقْهٍ، كَانَ هَلَاكًا لَهُ وَلَهُمْ» [سنن الدارمي 1/ 315 رقم 257]۔
اس حدیث میں ہے :
إِنَّهُ لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ
یعنی بے شک جماعت کے بغیر کوئی اسلام نہیں اور امارت کے بغیر کوئی جماعت نہیں اوراطاعت کے بغیر کوئی امارت نہیں ۔
یہ روایت ضعیف ہے ، دو وجوہات کی بنا پرضعیف ہے:
اول:
صَفْوَانُ بْنُ رُسْتُمَ مجہول ہے۔
دوم:
عبد الرحمن بن ميسرة کا سماع تمیم داری سے ثابت نہیں ہے۔
ابن عبدالبر کی کتاب جامع بيان العلم وفضله (1/ 263) میں عبد الرحمن بن ميسرة اور تمیم داری کے بیچ ابوعبدالرحمان کا واسطہ ہے ،چنانچہ:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ، نا أَبُو صَالِحٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِمِصْرَ، نا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْبُخَارِيُّ، نا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ وَضَّاحٍ الْبُخَارِيُّ السِّمْسَارُ، ثنا حَفْصُ بْنُ دَاوُدَ الرَّبْعِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ رُسْتُمَ أَبُو كَامِلٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ: " تَطَاوَلَ النَّاسُ فِي الْبُنْيَانِ زَمَنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ الْأَرْضَ الْأَرْضَ إِنَّهُ لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ، أَلَا فَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى فِقْهٍ كَانَ ذَلِكَ خَيْرًا لَهُ وَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى غَيْرِ فِقْهٍ كَانَ ذَلِكَ هَلَاكًا لَهُ وَلِمَنِ اتَّبَعَهُ " [جامع بيان العلم وفضله (الزهيري): 1/ 263]۔
لیکن ابوعبدالرحمان کون ہے یہ بھی نامعلوم ہے اس کے ساتھ صَفْوَانُ بْنُ رُسْتُمَ مجہول راوی اس میں بھی موجود ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت دو علتوں کے سبب ضعیف ہے۔
یادرہے کہ یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث کے خلاف بھی ہے کیونکہ گذشتہ سطور میں ایسی صحیح احادیث پیش کی جاچکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسادور بھی آئے گا جب نہ توخلافت وامارت ہوگی اورنہ ہی کوئی خلیفہ وامیر لیکن ایسے دور میں بھی اسلام باقی رہے گا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیا امیر کے بغیر زندگی گذارنا حرام ہے؟

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ يَحِلُّ أَنْ يَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِطَلاَقِ أُخْرَى ، وَلاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَبِيعَ عَلَى بَيْعِ صَاحِبِهِ حَتَّى يَذَرَهُ ، وَلاَ يَحِلُّ لِثَلاَثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلاَةٍ إِلاَّ أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ ، وَلاَ يَحِلُّ لِثَلاَثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلاَةٍ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا.[مسند أحمد موافقا لثلاث طبعات 2/ 176 رقم 6647]۔
صحابی رسول عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے دوسری کو طلاق ہونے کی وجہ سے نکاح کرنا حلال نہیں ،کسی شخص کے لئے اپنے ساتھی کی بیع پر بیع کرنا حلال نہیں ، جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے ، اورایسے تین آدمیوں کے لئے جو کسی اجنبی علاقہ (جنگل) میں ہوں ضروری ہے کہ اپنے اوپر کسی کو امیر مقررکرلیں ، اورایسے تین آدمیوں کے لئے جو کسی جنگل میں ہوں حلال نہیں کہ ان میں سے دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی کرنے لگیں ۔
یہ روایت ضعیف ہے ، اس کی سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ ہیں اور یہ ضعیف ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ [فتح الباري لابن حجر: 3/ 597]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیا ہرصبح وشام امیر کے ساتھ گذرنی چاہئے؟

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ، أَتَى أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، فَقَالَ : يَا أَبَا سَعِيدٍ ، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ بَايَعْتَ أَمِيرَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلَى أَمِيرٍ وَاحِدٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، بَايَعْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ ، فَجَاءَ أَهْلُ الشَّامِ ، فَسَاقُونِي إِلَى حُبَيْشِ بْنِ دَلَجَةَ فَبَايَعْتُهُ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِيَّاهَا كُنْتُ أَخَافُ ، إِيَّاهَا كُنْتُ أَخَافُ - وَمَدَّ بِهَا حَمَّادٌ صَوْتَهُ - قَالَ أَبُو سَعِيدٍ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لاَ يَنَامَ نَوْمًا ، وَلاَ يُصْبِحَ صَبَاحًا ، وَلاَ يُمْسِيَ مَسَاءً إِلاَّ وَعَلَيْهِ أَمِيرٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُبَايِعَ أَمِيرَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلَى أَمِيرٍ وَاحِدٍ[مسند أحمد: 3/ 29]۔
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو إسحاق إبراهيم بن سعيد بن عبد الله الحبال سنة خمس وسبعين بمصر نا الشيخ الحافظ أبو محمد عبد الغني بن أبي بشر سعيد بن علي الأزدي لفظا يوم الخميس العاشر من المحرم سنة تسع وأربعمائة والخصيب بن عبد الله قالا نا أبو عمرو عثمان بن محمد السمرقندي نا أحمد بن شيبان نا مؤمل بن إسماعيل عن حماد بن سلمة نا بشر وهو ابن حرب قال شهدت أبا سعيد الخذري وأتاه ابن عمر فقال له يا أبا سعيد ألم أخبر أنك بايعت لأميرين قبل أن يجتمع الناس على أمير واحد قال قد والله فعلت لقد بايعت ابن الزبير ثم أتاني أهل الشام فساقوني بعتوهم إلى حبيش بن دلجة فبايعته قال فقال ابن عمر أنا ما كنت أخاف أنا ما كنت أخاف ثلاثا أن أبايع لأميرهم قبل أن يجتمع الناس عل أمير واحد قال فقال أبو سعيد يا أبا عبد الرحمن أما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من استطاع منكم أن لا ينام نوما ولا يصبح صبحا إلا وعليه إمام فليفعل، قال بلى ولكن لم أكن لأبايع لأميرين من قبل أن يجتمع الناس على أمير واحد [تاريخ مدينة دمشق 36/ 396]۔
یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو اس بات کی استطاعت رکھے کہ ہرصبح وشام اس کی امیر کے ساتھ گذرے تو وہ ایساکرے ۔
یہ روایت بھی ضعیف ہے مسنداحمد اورتاریخ ابن عساکر سند ایک ہی ہے جس میں بشر بن حرب راوی ہے اور یہ ضعیف ہے ۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
شيخ ضعيف الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 353]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
بشر بن حَرْب ضَعِيف بَصرِي ندبي أَبُو عَمْرو[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 23]۔
 
Top