• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرعی علم کے حصول کے دوران وفات پانے والےکی فضیلت میں ایک حدیث

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آج ایک گروپ میں ایک حدیث کی تحقیق کے متعلق سوال کیا گیا ، حدیث درج ذیل ہے :
’ سیدنا حسن سے مرسلا روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو علم تلاش کرتے ہوئے موت آئی ، تاکہ اس علم کے ساتھ اسلام زندہ کرے ، اس کے درمیان اور انبیا کے درمیان جنت میں ایک درجہ کا فرق ہو گا ۔(دارمی) ‘
کئی ایک اہل علم نے اس حدیث کا ضعیف ہونا واضح کردیا تھا ، لیکن چونکہ اس طرح کی باتیں ایک واٹس ایپ مجموعہ میں ہی بند ہو کر رہ جاتی ہیں ، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے متعلق مزید کچھ تحقیق کرکے معلومات فورم پر دستیاب کردی جائیں ، تاکہ اگر کوئی سرچ کرے تو اسے اس کے متعلق اردو زبان میں مواد مل سکے ۔
امام دارمی فرماتے ہیں :
366 - أخبرنا بشر بن ثابت البزار، حدثنا نصر بن القاسم، عن محمد بن إسماعيل، عن عمرو بن كثير، عن الحسن قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من جاءه الموت وهو يطلب العلم ليحيي به الإسلام، فبينه وبين النبيين درجة واحدة في الجنة»
سنن الدارمي (1/ 368)
محقق نے اس سند کو ’ مسلسل بالمجاھیل ‘ کہا ہے ۔
سند کا پہلا راوی ’ صدوق ‘ ہے ، بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے ۔
البتہ نصر بن القاسم ، اس کا شیخ محمد بن اسماعیل اور اس کا شیخ عمرو بن کثیر مجہول ہیں ۔
سند میں دوسری وجہ ضعف ارسال ہے ، حسن بصری نے اس کو مرسل روایت کیا ہے ۔
اسی حدیث کو ابن شاہین نے بھی بیان کیا ہے :
214 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَيْفٍ، ثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ثنا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِيَ بِهِ الْإِسْلَامَ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ»
الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين (ص: 73)
احمد بن عبد اللہ ابو بکر سجستانی ہیں ، خطیب بغدادی نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے ۔
یونس بن عبد الاعلی معروف ثقہ امام ہیں ۔
ابن ابی فدیک ، محمد بن اسماعیل المدنی ہیں ، صدوق اور صحیحین کے راوی ہیں ۔
اس کے بعد سند میں وہی عمرو بن کثیر ہیں ، اس کے بعد ایک اور ابی العلاء نامی راوی کا اضافہ ہے ، جن کے متعلق کوئی تفصیل نہیں مل سکی ، محقق کوبھی ان کا ترجمہ نہیں مل سکا ، اس لیے انہوں نے حاشیہ میں اس طرف اشارہ کیا ہے ۔
عمرو بن کثیر عن ابی العلاء کی سند سے ابن عبد البر نے جامع بیان العلم و فضلہ ( ج1ص 206 ط ابن الجوزی ) میں اس کو روایت کیا ہے ۔ محقق نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔
اسی سند سے ابن بطہ نے الابانہ (ج 1 ص 200 ) میں نقل کیا ہے ، لیکن اس میں عمرو بن کثیر اور حسن بصری کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے ۔
گویا یہ روایت سند میں اضطراب ، جہالت رواۃ اور ارسال کی بنا پر ضعیف ہے ۔
اس کے کچھ شواہد بھی ہیں ، لیکن سب ضعیف یا انتہائی ضعیف ہیں ، چند ایک ملاحظہ کیجیے :
طبرانی فرماتے ہیں :
9454 -
حدثنا يعقوب بن إسحاق المخرمي، ثنا العباس بن بكار الضبي، ثنا محمد بن الجعد القرشي، عن الزهري، عن علي بن زيد بن جدعان، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جاء أجله وهو يطلب العلم لقي الله ولم يكن بينه وبين النبيين إلا درجة النبوة»
لم يرو هذا الحديث عن الزهري إلا محمد بن الجعد، تفرد به العباس بن بكار

( المعجم الاوسط ج 9 ص 174 )
شیخ البانی نے اس سند کو العباس بن بکار کے سبب سخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
ہیثمی نے محمد بن الجعد کو متروک کہا ہے ۔
علی بن زید بن جدعان کو سوء حفظ کے سبب کئی ایک علماء کرام نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
خطیب نے الفقیہ و المتفقہ اور ابن عبد البر نے جامع بیان العلم میں اس کو ذکر کیا ہے ، لیکن انہوں نے محمد بن الجعد عن الزہری عن علی بن زید کی بجائے عن الزہری و علی بن زید ذکر کیا ہے ۔
بہر صورت یہ سند جیسے بھی ہو ، عباس بن بکار جسے علماء کرام نے کذاب قرار دیا ہے ، کی وجہ سے موضوع کہلائے گی ۔
علامہ متقی ہندی نے اس کے کچھ شواہد ذکر کیے ہیں ( کنز العمال ج 10 ص 160 ) ، لیکن ان کی اسانید تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
ممکن وہ بھی اوپر مذکورہ اسانید ہی ہوں ۔ واللہ اعلم ۔
خلاصہ : یہ حدیث اپنی تمام تر دستیاب اسانید کے ساتھ سخت ضعیف ہے ، حافظ عراقی نے تخریج إحیاء علوم الدین (ج 1 ص 61 ۔ 62 ) میں اس کے کئی ایک طرق ذکر کرکے اس پر کلام کیا ہے ، اسی طرح شیخ البانی نے السلسلہ الضعیفہ (ج 11 ص 259 ح 5156)میں اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
 
Top