• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
شرک

شرک کا لغوی معنی:
لفظ شرک شرکت سے بنا ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات يا اس كی صفات میں اوروں کو شر یک مانا جائے۔
صاحب لسان العرب لکھتے ہیں:
الشركة والشركة سواء: مخالطة الشریکین، یقال: اشترکنا بمعنی تشارکنا ، وقد اشترك الرجلان وتشارکان وشارك أحدهما الأخر (لسان العرب لإبن منظور الأفريقي:10/ 448)
’’ شرکۃ اور شرکۃ کا معنی دو شریکوں کا ایک چیز میں ملنا ہے جسے کہا جاتا ہے کہ ہم شریک ہوئے یعنی آپس میں ہماری شراکت ہوئی اور دو شخص باہم شریک ہوئے یعنی دونوں میں شراکت ہو گی اور ایک دوسرے کےساتھ شریک بن گیا۔
شرک کاشرعی اصطلاحی مفہوم:
1. ائمہ علم الکلام اور ائمہ لغت نے شرک کا شرعی و اصطلاحی مفہوم درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
علامہ سعد الدین لکھتے ہیں:
الإشراك هو إثبات الشريكم في الألوهية ، بمعني وجوب الوجود كما للمجوس أوبمعنى استحقاق العبادة كما لعبده الأصنام(شرح العقائد از سعد الدين: 61)
’’ مجوس کی طرح کسی کو واجب الو جود سمجھ کر الوہیت میں شریک کرنا یا بتوں کی پوجا کرنے والوں کی طرح کسی کو مستحق سمجھنا اشراک کہلاتا ہے۔‘‘
2. صاحب لسان العرب علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
وأشرك بالله: جعل له شریکا فی ملكه ، تعالی االله عن ذالك ، والشرك أن یجعل لله شریکا فی ربوبیته ، تعالی الله عن الشرکاء ولانداد لأن الله وحده لا شریك له ولا ندله ولا بدید(لسان العرب لإبن منظور الأفريقي:10/ 449)
’’ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اللہ تعالی سے شرک کیا تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس نے کسی اور کو اللہ تعالی کے ملکہ اور سلطنت میں شریک بنا دیا جبکہ اللہ تعالی اس سے بلند وبرتر ہے اور شرک کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کی ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے حالانکہ اللہ تعالی کی ذات شریکوں اور ہمسروں سے پاک ہے۔ کیونکہ وہ ذات واحد ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ اس کی کوئی نظیر اور نہ مثل۔‘‘
موجود عہد میں جہان اور تصورات دین غلط ملط اور گڈ مڈ ہوئے وہاں بنیادی عقائد اسلام بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ایمانیات کے باب میں توحید اور شرک ضمن میں بہت سے ابہام و التباس ، مغالطے اور وساوس در آئے ہیں۔بعض لوگوں نے بہت سی غلط فہمیاں اور عجیب و غریب قسم کے شکوک وشبہات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا کر دئیے ہیں اس لیے امت میں شدید ٹکراؤ اور الجھاؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
شرک کیا ہے؟:
شرک اسی پر موقوف نہیں کہ کسی کو اللہ کے برابر سمجھے اور اسی کے مقابل جانے بلکہ شرک کے معنی یہ ہیں کہ جو چیزیں اللہ نے أپنے واسطے خاص کی ہیں اور اپنے بندوں کے ذمہ نشان بندگی کے ٹھہرائے ہیں وہ چیزیں اور کسی کے واسطے کرنی جیسے سجدہ کرنا اور اس کے نام کے جانور کرنا اور اس کی منت ماننا، مشکل کے وقت پکارنا اور ہر جگہ حاضر وناظر سمجھنا اور قدرت تصرف کی ثابت کرنی سو ان باتوں سے شرک ثابت ہوتا ہے گو کہ اللہ سے چھوٹا ہی سمجھے اور اسی کا مخلوق اور اسی کا بندہ اوراسی بات میں اولیاء و انبیاء میں اور جن و شیطان میں اور بھوت وپری میں کوئی فرق نہیں۔ یعنی جس سے کوئی یہ معاملہ کرے گا وہ مشرک ہو جائے گا خواہ انبیاء اولیاء سے، خواہ پیروں و شہیدوں سے ، خواہ بھوت پری سے۔(تقویۃ الإیمان از مولانا محمد اسماعیل شہید : ص 18۔19)
شرک اورجادوہلاک کرنے والی چیزیں ہیں :
« اجْتَنِبُوا الْمُوبِقَاتِ الشِّرْكُ بِاللَّهِ ، وَالسِّحْرُ » (صحيح البخارى ، كتاب الطب :2615)
’’ہلاک انگیز چیزوں سےیعنی شرک اورجادوسے پرہیز کرو‘‘
بہت سارے جاہل مسلمانوں کے دلوں میں عقیدہ کی طرح اس ؟؟کوجمادیاگیاہے کہ خدائی نظام کی طرح اس دنیامیں اس کے متوازی ایک اورنظام قائم ہے جس کی باگ دوڑبت ،ستارے غوث قطب ،ابدال ،صالحین اورپیروں فقیروں کے ہاتھوں میں ہے زندگی اورموت،عزت وذلت ،نفع ونقصان اوراس قسم کی تمام چیزوں کادینالینا سب ان کے دائرہ اختیارمیں ہے بارگاہ خداوندی کی طرح ان کابھی دربارلگتاہے جہاں سے مختلف قسم کے فرمان اورفیصلے صادرہوتےہیں ۔
اس فاسدعقیدہ کایہ نتیجہ ہے کہ عوام کابڑاطبقہ توحیدخالص سے منحرف ہوکرپیرپرستی ،رسول پرستی اورمظاہرپرستی میں ملوث ہے ۔مصیبت دورکرنے کے لیے مرادوں کوپوری کرنے کے لیے ان سے دعانہیں کی جاتی ہیں ان کے نام کی نذریں ،نیازیں اورچادریں چڑھائی جاتیں ہیں ،روزی ،نوکری،اولاد،مقدمہ بازی اوروہ سب طلب کرنے کے لیے ان کے سامنے آہ وزاری اورفریادکی جاتی ہے جواللہ رب العزت کے سواکسی اورکے قبضہ قدرت میں نہیں ہے ۔کون نہیں جانتاکہ یہ سب خداکی شان ربوبیت کے ساتھ بھیانک قسم کامذاق اوردل لگی ہے اورکھلم کھلاشرک ہے ۔(مومن کے عقائداز شیخ ابوبکرجابرالجزائری : ص115)
مولاناحکیم محمدصادق رقمطرازہیں ۔
’’خدانے صاف فرمادیاہے کہ جن کوبھی تم اللہ کے سوا(حاجتوں ،مشکلوں میں پکارتے ہو۔وہ تمہاری مددنہیں کرسکتے۔ اب آپ ایمانداری سے بتائیں کہ خدانے جوکہاہے سچ کہاہے یا(معاذاللہ )جھوٹ؟سچ ہی فرمایاہے ۔اوراللہ سےبڑھ کرکوئی سچی بات کرنے والانہیں ہے پس جب اللہ نے سچ فرمادیاکہ جن کوتم سواخداکے پکارتے ہو،وہ تمہاری مددنہیں کرسکتے توپھرجوخداکی اس سچی بات کوردکرکےکہتاہے:
’’خواجہ میری بگڑی بنادوتم نے لاکھوں کی بنائی ہے ‘‘وہ کتناجھوٹااورمشرک ہے پھرآپ اسے جھوٹے اورمشرک کے کہنے پرعمل کرکے اپنی عاقبت بربادنہ کریں ۔‘‘(قرآنی شمعیں از مولاناحکیم محمدصادق : ص 169،170)
شرک کی اقسام:
توحیدکامطالعہ اس وقت تک مکمل نہیں سمجھاجاسکتاجب تک اس کی ضدیعنی شرک کامحتاط تجزیہ نہ کرلیاجائے ۔پچھلے باب میں شرک کاکچھ ذکرہوچکاہے اوراس کی مثالیں بھی دی گئی ہیں کہ کس طرح شرک توحیدکومٹادیتاہے ۔تاہم اس باب میں شرک کاعلیحدہ موضوع کے طورپرمطالعہ کیاجائے گاجس کی سنگین اہمیت کی اللہ نے قرآن میں تصدیق فرمائی ہے :
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ﴾(سورة النساء 4: 48)
’’بے شک اللہ نہیں معاف کرتا یہ (گناہ )کہ شرک کیاجائے اس کے ساتھ اورمعاف کردیتاہے شرک کے علاوہ (باقی گناہ)جس کے لیے چاہے۔‘‘
چونکہ شرک کاگناہ انسان کی تخلیق کے مقصدہی کی نفی کرتاہے اس لیے اللہ کے نزدیک یہ سنگین ترین گناہ ہے جس کواللہ معاف نہیں کرے گا۔
شرک کے لغوی معنی شراکت داری ،حصہ داری کرنایامل کرکام کرنا۔(The Hans Wehr Dictionary of Modern Written Arabicصفحہ 468)لیکن اسلام میں اس کے معانی ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کوبطورحصہ داریاساتھی شامل کرناخواہ کسی بھی طریقے سے ہو۔شرک کامندرجہ ذیل تجزیہ ان تین درجوں کے مطابق ہے جوتوحیدکے مطالعے میں قائم کئے گئے ہیں ۔لہذاہم پہلے ان طریقوں کودیکھیں گے جن سے شرک ربوبیت (حاکمیت اعلیٰ)کے دائرے میں واقع ہوتاہے ‘پھرالاسماء والصفات میں اوراس کے بعدعبادت میں ۔
ربوبیت میں شرک :
اس درجے کے شرک سےمرادیاتویہ عقیدہ رکھناہے کہ (نعوذباللہ )مخلوق پرحاکمیت اعلیٰ میں اللہ تعالی کےساتھ دوسرے بھی برابرکے یاتقریباً برابرکے شرک ہیں ‘یاپھریہ عقیدہ کہ مخلوق پرکسی کی حاکمیت ہے ہی نہیں۔زیادہ ترمذہبی نظام پہلی قسم کے ربوبیت کے شرک کے زمرے میں آتے ہیں ‘جب کہ فلسفی اوران کے خودساختہ فلسفیانہ نظریات دوسری قسم کے شرک کے دائرے میں آتے ہیں ۔
1. شراکت کی وجہ سے شرک:
اس ذیلی درجے کاتعلق ایسے عقیدوں سے ہے جن میں مخلوق پرایک بڑے اللہ یاحاکم مطلق ہستی کوتوتسلیم کیاجاتاہے لیکن اس کے ساتھ اس کی بادشاہی میں دوسرے کم درجے کے خداؤں،ارواح،فانی مخلوق ،خلائی اشیاء اورزمینی اشیاء کوبھی شامل سمجھاجاتاہے ۔فلسفیوں اورادیان کے عالموں نے ایسے عقیدوں کے نظاموں کودوطبقوں میں تقسم کیاہے ۔پہلا ایک خداکوماننے والا طبقہ اوردوسرا ایک سے زیادہ خداؤں کوماننے والے لوگوں کاطبقہ ۔اسلام کے مطابق یہ سب نظام ایک سے زیادہ خداؤں کوماننے والے ہی ہیں ‘اوران میں سے بہت سے وحی کئے گئے مذہبی نظام کے انحطاط کے مختلف درجوں کے مظہرہیں جن سب کی ابتداتوحیدپرقائم تھی۔
ہندومذہب میں حاکم مطلق ہستی برہماہے جس کے متعلق ان کاخیال ہے کہ وہ ہرچیز اورہرایک کے اندررہتاہے ‘رگ وجان میں جذب ہوتاہے ،ناقابل تغیرہے ‘ہمیشہ رہنے والا ہے ‘غیر مرئی ہے ‘قائم بالغیرہے اورمطلق العنان ہے ۔ہرچیز اس میں سے پیداہوتی ہے اوراسی میں ختم ہوتی ہے ۔جسم والا دیوتابرہماکائنات کاخالق ہے جودنیا کوقائم رکھنے والےدیوتاوشنواورتباہ کرنے والے دیوتاشوسے مل کرتثلیث بنائے ہوئے ہے ۔(W.L Reese .Dictionary of philosophy and Religion(New Jersey:Humanities press.1980)pp.66-67 and 586-587.see also john Hinnells,Dictionary of Religions (England :Penguin Books,1984)pp:67-68)اس طرح ہندومذہب میں ربوبیت میں شرک کااظہاراللہ کے پیداکرنے والی ‘تباہ کرنے والی اورقائم رکھنے والی قوتوں کوتین مختلف دیوتاؤں میں بانٹ دینے سے ہے ۔
عیسائی اعتقادکے مطابق ایک اللہ اپنے آپ کوتین شخصیتون میں ظاہرکرتاہے ‘باپ ‘بیٹا(حضرت عیسیٰ علیہ السلام)اورمتبرک روح۔ تاہم ان تینوں کواکائی سمجھاجاتاہے ‘یعنی ایک ہی جوہرکاحصہ ۔(ڈکشنری آف ریلیجنز: ص 337)
پیغمبرعیسی ٰ علیہ السلام کے درجے کوبلندکرکے خدائی کادرجہ دیاگیاہے ‘وہ خداکے دائیں ہاتھ بیٹھے دنیاکوانصاف مہیا کرتےہیں۔متبرک روح‘جوعبرانی بائبل میں وہ ذریعہ ہے جس سےاللہ تخلقی قوت استعمال کرتاہے ‘عیسائی فکرمیں خدائی کاحصہ ہوجاتی ہے ۔پال نےمتبرک روح کوعیسیٰ علیہ السلام کی ہی متبادل ذات بنادیاہے جوعیسائیوں کی مددگاراوررہبرہے‘جوپینٹی کوسٹ کے دن پہلی دفعہ ظہورمیں آئی تھی ۔(ایضا) نتیجے کے طورپرربوبیت میں شرک عیسائیوں کے اس عقیدے میں واقع ہوتاہے کہ حضرت عیسی ٰ علیہ السلام اورمتبرک روح خداکی بادشاہی کے ہرپہلومیں حصہ دارہیں اوران کے اس عقیدے میں بھی کہ متبرک روح عیسائیوں کی مددگااوررہبرہے ۔
آتش پرستوں (پارسیوں )نےاپنے خدا‘آہورامزدا‘کوہراچھائی کاخالق اوراکیلا ہرقسم کی عبادت کے لائق تصور کیا ہوا ہے۔ آہورامزداکی سات تخلیقات میں سے آگ کواس کابیٹایانمائندہ سمجھاجاتاہے ۔وہ بھی ربوبیت میں شرک کے مرتکب ہں کیونکہ برائی ‘تشدد اورموت کاخالق ایک دوسرے خدا’’اینگرامینیو‘‘کومانتےہیں جس کووہ اندھیرے کی علامت سے پیش کرتے ہیں۔ (ایضا)اس طرح خداکی مخلوق پربادشاہی اورحاکمیت اعلیٰ (اس کی ربوبیت)میں ایک بری روح کوحصہ داربنایا گیاہے حس کوبلندکرکے مخالف خداکادرجہ دیاگیاہے ‘اس میں انسان کی اس خواہش کادخل ہے کہ خداکے ساتھ برائی کی تخلقیق کومنسوب نہ کیاجائے۔
مغربی افریقہ خصوصانائجیریااوراس کے گردونواح میں رہنے والے ایک کروڑسے زیادہ لوگ’’یوروبا‘‘مذہب کے پیروکارہیں جس میں ایک بڑاخدا’’اولورئیس ‘‘(آسمان کاخدا)یا’’اولوڈومئیر‘‘ہے۔جدید یورومذہب کی پہچان بے شمار’’اریشا‘‘خداؤں کی عبادت ہے جس کی وجہ سے یوروباایک سے زیادہ خداؤں کی پرستش کابے لچک مذہب معلوم ہوتا ہے۔(ایضا: 358)نتیجے کے طورپریوروبالوگ ربوبیت میں شرک کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے خداکے تمام کام چھوٹے خداؤں اورروحوں کےسپردکئے ہوئے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے رہنے والے زرلوباشندے ایک خدا’’انکلنکولو‘‘پراعتقادرکھنے ہیں ‘جس کامطلب ہے سب سے پرانا‘سب سے پہلااورسب سے زیادہ لائق تعظیم ۔اس خداکے مخصوص بڑے القاب ہیں ’’آسمانوں کابادشاہ‘‘اور’’سب سے پہلے ظاہرہونے والا‘‘۔ان کے بڑے خداکومردکاروپ دیاگیاہے ۔بادل کی گرج اوربجلی زولومذہب ماننے والوں کے نزدیک خداکے کام ہیں جب کہ بیماری اورزندگی کی دوسری تکالیف ان بزرگوں کی وجہ سے ہیں جووفات پاچکے ہیں ‘IdloziیاAbaphansi یعنی وہ جوزمین کے نیچے ہیں ۔مردہ بزرگ زندہ لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں ‘ان کے لیے خوراک مانگتے ہیں ‘مذہبی رسومات اورقربانی سے خوش ہوتےہیں ‘لاپرواہی کی سزادیتے ہیں اورپشین گوئیاں کرنے والوں(Inyanga) (ایضا: 363)کوقابومیں کرلیتے ہیں۔ لہٰذا زولومذہب کاربوبیت میں شرک نہ صرف انسانی دنیاکی تخلیق کے تصورمیں پایاجاتاہے بلکہ اس میں بھی کہ انسانی زندگی میں خیروشرمردہ بزرگوں کی روحوں کاکام ہے۔
بعض مسلمانوں کابھی ربوبیت میں شرک کرناان کے اس عقیدے سے ظاہرہوتاہے کہ ولیوں اورنیک لوگوں کی روحیں ان کے فوت ہوجانے کے بعدبھی اس دنیاکے کاروبارپراثراندازہوسکتی ہیں ۔اس عقیدے کے مطابق ان کی روحیں لوگوں کی ضروریات پوری کرسکتی ہیں ‘حادثات سے بچاسکتی ہیں ا ورجوکوئی بھی ‘انہیں مددکے لیے بلاتاہے اس کی مددکرسکتی ہیں ۔اس طرح قبروں کی پرستش کرنے والے لوگ انسانی روحوں کوزندگی کے معاملات پراثراندازہونےکے خدائی درجہ دے دیتے ہیں جودرحققت فقط اللہ ہی کرسکتاہے۔
بہت سے مسلمان صوفیوں میں ’’رجال الغیب‘‘کاعقیدہ عام ہے‘جس کے لحاظ سے ان کے سردارکے عہدے کو ’’قطب‘‘ کہاجاتاہے اوراس عہدے سے دنیاکےمعاملات پرحکمرانی ہوتی ہے ۔(شارٹرانسائیکلوپیڈیاآف اسلام :ص 55)
(ب)اللہ کےوجودسے انکارکاشرک:
شرک کےاس ذیلی درجے میں وہ تمام فلسفیانہ نظریات اورتصورات شامل ہیں جوصراحتاً یااشارتاً اللہ کے وجودکے منکرہیں ۔یعنی ان میں سے کچھ توخداکے وجودکے منکرہیں (دہریت)جب کہ کچھ خداکے وجودکادعویٰ توکرتے ہیں مگراس کاتصوراس طرح کیاجاتاہے جوحقیقتاَخداکے وجودکاانکارہی ہوتاہے۔
کچھ پرانے مذہبی’’نظام‘‘ایسے بھی ہیں جن میں خداکاوجودنہیں ہے ‘ان میں سب سے پہلاگوتم بدھ سے منسوب نظام ہے ۔بدھ مت‘ہندومذہب میں ذات پات کےخلاف ایک اصلاحی تحریک تھی جس کی بنیادجین مت کی طرح چھٹی صدی قبل ازمسیح کے دوران رکھی گئی تھی ۔تیسری صدی قبل مسیح میں یہ سرکاری مذہب بن گیااوربالآخرہندومذہب کاہی حصہ بن گیااورگوتم بدھ کواوتار(انسانی شکل میں خدا)ماناجانے لگا۔یہ مذہب ہندوستان سے توغائب ہوگیامگرچین اوردوسر ے مشرقی ملکوں میں غالب آگیا۔’’ہنائن بدھ مت‘‘(400تا250قبل مسیح)بدھ مت کی دوشاخوں میں سے قدیم ارزیادہ سخت‘جوگوتم بدھ کی وفات کے بعدابھرا‘نے صاف ظاہرکردیاکہ خداکاکوئی وجودنہیں‘لہذانجات کاذمہ دارانسان خودہی ہے ۔(ڈکشنری آف فلاسفی اینڈریلیجین : ص 72)چنانچہ بدھ مت کی یہ قدیم تشریح ربوبیت میں شرک کی ایک مثال قراردی جاسکتی ہے جس میں اللہ کے وجودکاصاف طورسے انکارہے۔
اسی طرح جین مت کی تعلیمات میں جنہیں وردھمن نے ترتیب دیاخداکاکوئی وجودنہیں ،البتہ مردہ لوگوں کی روحیں آزادہوکراس قسم کادرجہ حاصل کرلیتی ہیں جس سے وہ موت سے آزادہوکرہرجگہ موجودرہتی ہیں ۔اوریہ مذہبی گروہ ان کودیوتامانتے ہیں ‘ان کے لیے مندربناتے ہیں اوران کے بتوں کی پوجاکرتے ہیں ۔(ایضا: 362)
ایک اورپرانی مثال فرعون کی ہےجوحضرت موسی ٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھا۔اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ اس نے خداکے وجودکاانکارکیااورموسیٰ علیہ السلام اورمصرکےلوگوں کے سامنے دعویٰ کیاکہ وہ (فرعون)ہی اکیلاتمام مخلوق کاحاکم اعلیٰ ہے ۔اللہ نے فرمایا کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہاتھا:
’’اگرتم نے میرے علاوہ کسی اورکوخدامنتخب کرلیاتومیں تم کویقیناً قیدکردوں گا‘‘(سورة الشوریٰ 26: 29)اوراس نے مصر کے لوگوں سےکہاتھا:’’میں ہی تمہاراحاکم اعلیٰ ہوں ‘بہت عظیم ۔‘‘(سورة النزعت 79: 24)
انیسویں اوربیسویں صدی میں یورپ کے بہت سے فلسفیوں نے خداکے وجودسے انکارکاپرچارکیااوراس کو’خداکی موت کافلسفہ ‘کہاگیا(نعوذباللہ)۔جرمن فلسفی فلپ مینلینڈر(1841تا1876ء)نے اپنی سب سے اہم کتاب’’نجات کافلسفہ‘‘ (1876ء)میں کہاہے کہ اس دنیاکاآغازخداکی موت سے ہوتاہے کیونکہ خدائی یکتائی کاوہ اصول ہے جودنیاکی کثرت وجودمیں ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاہے اورخوشی کاوہ اصول ہے جودنیاپرچھائی ہوئی مصیبتوں کے قانون کی وجہ سے حاصل نہیں ہوسکتی۔(ڈکشنری آف فلاسفی اینڈریلیجین : ص327)پروشیامیں فریڈرک نٹشے(1844۔1900ء)نے بھی ’خداکی موت‘کےخیال کی تائیدکی اورکہاکہ خداانسان کے بے چین ضمیرکی تشکیل سے زیادہ کچھ بھی نہیں اوریہ کہ انسان توسپرمین تک پہنچنے کاذریعہ ہے ۔(ایضا: 391)ژال پال سارتربیسویں صدی کافرانسیسی فلسفی تھا‘اس نے بھی ’خداکی موت‘کے خیال کودہرایااورکہاکہ خداکاوجودہوہی نہیں سکتاکیونکہ منطق میں انتہاپرجاکراس کی تردیدہوجاتی ہے ۔خداکاتصوراس کے کہنے کےمطابق وہ ذہنی تصویرہے جوانسان کوخوداپنی ہستی کے لیے بناناپڑتی ہے۔(ایضا: 508)
ڈارون (متوفی 1882ء)نےکہاکہ انسان محض بندرکی ترقی یافتہ قسم ہے ۔اس قول کوانیسویں صدی کے فلسفیوں اورسائنس دانوں نے اپنے نظریوں میں وسیع پیمانے پراستعمال کیا‘کیونکہ اس سے انہیں خدکے نہ ہونے کے خیال کو’’سائنسی‘‘بنیادمل گئی ۔ان کے مطابق مذہب کابے جان چیزوں میں روح کی موجودگی کوماننے (مظاہرہ پرستی)سے لے کرخداکی وحدانیت تک ارتقاخودانسان کے ایک آزادفردواحد سے لے کرایک قومی ریاست تک فرضی سماجی ارتقا اوراس کے بندرسے انسان بننے کے جسمانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہواہے۔
وہ تخلیق کائنات کےمتعلق سوالوں سے یہ کہہ کربچناچاہتے ہیں کہ ایسی کوئی چیز ہےہی نہیں اوراللہ کی یہ صفت کہ وہ بغیرآغازاوربغیرانتہاکے ہے مادے کودے دیتےہیں ‘حالانکہ مادے کواللہ نے پیداکیاہے ۔موجودہ زمانے میں اس خیال کوماننےوالے لوگوں میں کارل مارکس کے پیرو‘کیمونسٹ اورسائنٹیفک سوشلسٹ ہیں جن کادعویٰ ہے کہ جوبھی چیزموجودہے اس کامبدامتحرک مادہ ہے ۔وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ خداکاوجودانسان کے تخیل کی اختراع ہے جسے حکمرانوں کے طبقے نے اپنی آبائی حکمرانی کے جواز کے لیے قائم کررکھاہے اوراس کامقصدمغلوب لوگوں کی توجہ ان حقیقتوں سے ہٹائے رکھناہے جن میں وہ رہ رہے ہیں ۔
بعض مسلمانوں میں اس قسم کے شرک کی مثال ابن عربی کی طرح کے ان بہت سے صوفی لوگوں میں ملتی ہےجووحدت وجودکادعوی ٰ کرتے ہیں کہ صرف اللہ ہی کاوجودہے (سب کچھ اللہ ہے اوراللہ ہی سب کچھ ہے)۔وہ اللہ کے علیحدہ وجودکوتسلیم کرنےسے انکارکرتے ہیں اوراس طرح وہ درحقیقت اللہ کے وجودکے منکرہیں ۔اس خیال کااظہارسترہویں صدی عیسوی کےایک ولندیزی یہودی فلسفی باروچ سپنوزانے بھی کیاتھا۔اس نے دعویٰ کیاکہ خدااس کائنات کی ہرچیز بشمول انسان‘کامجموعہ ہے ۔
الاسماء والصفات میں شرک:
اس درجے کے شرک میں دوطریقے شامل ہیں ‘عام مشرکانہ عمل جس میں اللہ کومخلوق کےاوصاف دیے جاتے ہیں اوروہ عمل بھی جس میں مخلوق کواللہ کے نام اوراوصاف سے منسوب کیاجاتاہے ۔
1. اللہ کوانسان جیساسمجھنے کاشرک:
الاسماء والصفات کے اس طریقے کے شرک میں اللہ تعالی کوانسان یاجانوروں کی شکل اوراوصاف دیے جاتے ہیں ۔چونکہ انسان جانوروں سےبرترہے اس لیے اکثروبیشتربت پرست لوگ خداکومخلوق میں ظاہرکرنے کے لیے انسانی شکل ہی استعمال کرتےہیں ۔لہٰذاخالق کائنات کی مصوری ‘یت تراشی اورکندہ کاری میں عموماً ان لوگوں سے ملتی جلتی اشکاال بنائی جاتی ہیں جوان کی پوجاکرتےہیں ۔مثال کے طورپرہندواوربدھ مت والے بے شمارایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جن کی شکلیں ایشیائی مردوں سے مشابہ ہوتی ہیں اوروہ ان کوخداکامخلوق میں مظہرتصورکرتے ہیں ۔موجودہ زمانے کے عیسائیوں کااعتقادہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں خودخداہی تھا‘یعنی خالق اپنی مخلوق بن گیاتھا۔یہ بھی اس قسم کے شرک کی ایک اورواضح مثال ہے ۔مائیکل اینجلو(متوفی 1525ء)جیسے بہت سےنام نہادعظیم عیسائی مصوررہوئے ہیں جنہوں نے ویٹیکن کے سسٹائن گرجاکی چھت پرخداکی ایسی تصویریں بنائیں جن میں اسے ایک ننگے یورپی مردکی شکل میں پیش کیاگیاہے جس کی لمبی سفیدداڑھی ہے اورسرکے لمبے سفیدبال ہیں ۔عیسائی دنیامیں ایسی تصویروں کی بہت قدرومنزلت ہوتی ہے ۔
(ب)مخلوق کومعبودبنانے کاشرک:
الاسماء والصفات میں اس قسم کے شرک کاتعلق ان معاملات سے ہے جن میں اللہ کے تخلیق کردہ انسانوں یاچیزوں کواللہ کے نام یااوصاف دیئے جاتےہیں یاوہ اس کادعویٰ کرتے ہیں ۔مثال کے طورپرپرانے زمانے کے عرب ان بتوں کی پوجاکرتے تھے جن کے نام اللہ تعالی کے ناموں سے لیے گئے تھے ۔ان کے تین بڑے بت تھے:’’اللات‘‘کانام اللہ کے نام’’الاالہ ‘‘سے لیاگیاتھا’’العزی‘‘کانام ’العزیز‘سے لیاگیاتھااور’المنات‘کانام ’المنان‘سے لیاگیاتھا۔حضرت محمدکے زمانے میں عرب کے ایک علاقے یمامہ میں ایک جھوٹانبی تھاجس نے اپنانام رحمن رکھاہواتھا جوصرف اللہ کے لیے ہے ۔
شیعہ فرقوں میں سے ایک فرقہ نصیریہ ملک شام میں موجودہے جس کایہ اعتقادہےکہ پیغمبرخداحضرت محمدکے چچازادبھائی اوردامادحضرت علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب اللہ کےظہور(مجسم خدا)تھے اورانہوں نے ان کوبہت سی اللہ کی صفات دے رکھی ہیں۔ ان ہی لوگوں میں اسماعیلی یاآغاخانی بھی ہیں جواپنے لیڈرآغاخان کوخداکاانسانی شکل میں ظہور(مجسم خدا)سمجھتے ہیں ۔اس قسم کے لوگوں میں لبنان کے دروزفرقے کے لوگ بھی شامل ہیں جن کایہ اعتقادہے کہ فاطمی خلیفہ الحاکم بن امراللہ انسانوں میں اللہ کاآخری ظہورتھا۔
الحلاج جیسے صوفیوں کے ان دعووں کی بھی کہ وہ خداکے ساتھ مل کرایک ہوگئے ہیں اورخالق کاظہوربن کراس کی مخلوق کے درمیان رہتے ہیں ‘الاسماء والصفات کے اس پہلو کے شرک میں شامل کیاجاسکتاہے ۔آجکل کے زمانے میں روحانیت کے ماہراورروحانی عمل کے معمول جیسے شرلے میکلین ‘جے ۔زیڈ۔ٹائیٹ وغیرہ اکثراپنے لیے اورعام لوگوں کے لیے بھی خدائی کادعویٰ کرتے ہیں ۔آئسٹائن کانظریہ اضافیت (E=mc2‘توانائی =کمیتروشنی کی رفتار2)جوسب سکولوں میں پڑھایاجاتاہے درحقیقت الاسماء والصفات میں شرک کااظہارہے ۔اس نظریے کے مطابق توانائی نہ توپیداکی جاسکتی ہے اورنہ تباہ کی جاسکتی ہے ‘یہ صرف مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے اورمادہ اس میں ۔تاہم توانائی اورمادہ دونوں ہی تخلیق کردہ چیزیں ہیں اوریہ دونوں تباہ ہوجائیں گی جیساکہ اللہ نے واضح طورپرفرمایاہے :
﴿اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ﴾(سورة الزمر39: 62)
’’اللہ ہی خالق ہے ہرچیز کا۔اوروہی ہرچیزپرنگران ہے۔‘‘
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ﴾(سورة الرحمن 55: 26)
’’ہرچیزجوزمین پرہے فناہوجانے والی ہے۔‘‘
اس نظریے میں یہ بھی شامل ہے کہ مادہ اورتوانائی ہمیشہ باقی رہنے والی چیزیں ہیں ‘ان کانہ کوئی آغازہے نہ انجام‘چونکہ مفروضہ یہ ہے کہ یہ کسی سے پیدانہیں ہوتیں اورایک دوسرے میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔جبکہ یہ وصف فقط اللہ ہی کاہے کہ صرف وہی اکیلابغیرآغازاوربغیرانتہاکےہے ۔ڈارون کانظریہ ارتقاء بھی یہ واضح کرنے کی ایک کوشش ہے کہ زندگی اوراس کی مختلف صورتوں کابے جان مادے سے ارتقاء خداکی مداخلت کے بغیرہوتاہے ۔ڈارون کے ماننے والے بیسویں صدی کے سائنس دانوں میں سے ایک بہت مشہورسائنس دان سرالڈس ہکسلےنےاس خیال کااظہاراس طرح کیاہے :
’’ڈارون کے نظریے نے خداکے خالق حیات ہونےکے تصورکوقوی بحث کے دائرےسے خارج کردیاہے ۔‘‘(Quoted in Francis Hitchings The Neck of the Giraffe. P 254 )
عبادت میں شرک:
شرک کے اس درجے میں عبادت کے اعمال کامخاطب اللہ کے علاوہ کوئی اورہوتاہے اوراس عبادت کاصلہ بھی خالق کے بجائے مخلوق سے مانگاجاتاہے ۔پہلے درجوں کی طرح شرک فی العبادت کے بھی دوبڑے پہلوہیں۔
(الف)الشرک الاکبر(بڑاشرک):
اس قسم کاشرک اس وقت ہوتاہے جب عبادت کاکوئی بھی عمل اللہ کے علاوہ کسی اورکے لیے کیاجائے ۔یہ بت پرستی کی سب سے واضح صورت ہے جس سے لوگوں کودوررکھنے کےلیے اللہ نے پیغمبروں کوخاص طورپربھیجا۔اس خیال کی حمایت میں اللہ کاقرآن میں یہ فرمان ہے :
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾(سورة النحل 16: 36)
’’او ر یقیناً بھیجاہم نے ہرامت میں ایک رسول (یہ حکم دے کر)کہ عبادت کرواللہ کی اوراجتناب کروطاغوت (جھوٹے خداؤں)سے۔‘‘
طاغوت اصل میں ہراس چیز کوکہتے ہیں جس کی عبادت اللہ کے ساتھ یااللہ کے بجائے کی جائے ۔مثال کے طورپرمحبت بھی ایک قسم کی عبادت ہے جوخالص حالت میں صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے ۔اسلام میں اللہ کی محبت کامطلب ہے اللہ کی مکمل تابعداری ۔یہ وہ محبت نہیں ہے جوانسان فطری طورپرمخلوق یعنی ماں باپ ‘بچے ‘خوراک وغیرہ سےکرتاہے ۔اس قسم کی محبت اللہ سے کرنے کامطلب اللہ کادرجہ گھٹاکراس کی مخلوق کےبرابرکرناہے ‘جوالاسماء والصفات میں شرک ہے۔وہ محبت جوکہ عبادت ہے مکمل طورپراپنی مرضی کواللہ کے حوالے کرناہے ۔لہذااللہ نے اپنے نبی  سے فرمایا تھا کہ وہ ایمان والوں سے کہہ دیں ۔
﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ﴾(سورة آل عمران 3: 31)
’’کہہ دو!اگرتم محبت رکھتے ہواللہ سے تواتباع کرومیری،محبت کرے گاتم سے اللہ ۔‘‘
اللہ کے پیغمبرﷺ نے بھی اپنے صحابہ کرام سے فرمایا تھا:
’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک سچاایمان والا نہیں ہوسکتاجب تک میں اس کے لیے اس کے بچے‘اس کے باپ‘اورتمام دنیاکے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘
نبی اکرم ﷺ سے محبت کی بنیادبھی آپ کے بشری خصائل نہیں ہیں بلکہ آپ ﷺکاوہ پیغام ہے جس کامنبع اللہ تعالی ہے ۔لٰہذا اللہ تعالی کی محبت کی طرح نبی اکرم  کی محبت بھی آپ کے دیئے ہوئے احکام کی مکمل تابعداری ہے۔
اللہ نے اپنی آخری وحی کی گئی کتا ب میں فرمایا ہے :
﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه﴾(سورة النساء 4: 80)
’’جس نے اطاعت کی رسول اللہ  کی سودرحقیقت اطاعت کی اس نے اللہ کی ۔‘‘
﴿ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ﴾(سورة آل عمران 3: 32)
’’کہہ دو!اطاعت کرواللہ کی اوررسول کی ۔‘‘
اگرکوئی شخص کسی اورچیز یاانسان کی محبت کواللہ اوراپنے درمیان جگہ دیتاہے توگویااس نے اس چیز کی پرستش کی ۔اس بناپردولت اس کاخدابن سکتی ہے یاانسان کی خواہشات بھی اس کاخدابن سکتی ہیں ۔بنی اکرم ﷺ نےفرمایا:
’’درہم کی عبادت کرنے والا ہمیشہ مفلسی میں رہے گا۔‘‘(روایت کیاالبخاری نے (صحیح بخاری ،انگریزی ۔:8/ 296نمبر443)
اوراللہ تعالی نے قرآن میں فرمایاہے :
﴿ أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ﴾(سورة الفرقان 25: 43)
’’کیاتم نے دیکھااس کوجس نے بنارکھاہے اپنامعبوداپنی خواہشات نفس کو؟۔‘‘
عبادت میں شرک کے گناہ کی سنگینی پربہت زوردیاگیا ہے کیونکہ اس سے تخلیق انسانیت کے مقصدکی ہی نفی ہوجاتی ہے ‘جیساکہ اللہ کے فرمان سے واضح ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾(سورة الذریت 51: 52)
’’اورانہیں پیداکیاہے میں نے جن وانس کومگرمحض اس غرض سے کہ میری عبادت کریں ۔‘‘
بڑاشرک اس کائنات کے حاکم اعلیٰ کے خلاف سب سے بڑٖی بغاوت ہے ‘لہذایہ انتہائی درجے کاگناہ ہے ۔یہ اتنابڑاگناہ ہے کہ انسان کی تمام کی ہوئی نیکیوں کومٹادیتاہے اوراس کے مرتکب کے لیے جہنم کی دائمی لعنت لازم ہوجاتی ہے ۔اس وجہ سے جھوٹامذہب بنیادی طورپرشرک کی اسی قسم پرہی قائم ہوتاہے ۔انسانوں کےبنائے ہوئے تمام مذہبی نظام کسی نہ کسی طرح اپنے پیروکاروں کومخلوق کی عبادت کرنےکی دعوت دیتے ہیں ۔عیسائیوں سےکہاجاتاہے کہ وہ ایک انسان کی عبادت کریں جوکہ خداکے پیغمبرعیسی علیہ السلام تھے اورجن کےمتعلق وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ مجسم خداتھے ۔کیتھولک عیسائی حضرت مریم علیہماالسلام کی ’خداکی ماں‘سمجھ کرعبادت کرتے ہیں اورفرشتوں کی ’جیسےمیکائیل علیہ السلام کی بطورسینٹ مائیکل(Wiliam Halsey (ed).Colliers Encyclopedia '(USA Crowell Collier Educational Foundation.1970)vol 16 p 110) جین کی 8مئی اور29ستمبر کومائیکلمس ڈے مناکرتعظیم کی جاتی ہے ۔علاوہ ازیں انسانی سینٹوں سے بھی دعائیں مانگتےہیں خواہ وہ اصلی ہوں یاجعلی۔
مسلمانوں میں جن کی عبادت کے اعمال اس درجے کے شرک کے زمرے میں آتے ہیں وہ لوگ ہیں جونبی اکرم  سےیاصوفی سلسلوں کے ولیوں سے یہ سمجھ کردعائیں کرتےہیں کہ وہ ان کی دعاؤں کاصلہ دے سکتے ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن میں صاف طورپرکہہ دیاہے :
﴿قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾(سورة الأنعام 6: 40)
’’کہو(ان سے)ذراغورکرکے بتاؤ!اگرآجائے تم پرعذاب اللہ کایاآئے تم پرقیامت توکیااللہ کے سوا(کسی اورکو)پکاروگے تم؟اگرہوتم سچے۔‘‘
(ب)الشرک الاصغر(چھوٹاشرک)
حضرت محمودابن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’میں تمہارے لیے جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتاہوں الشرک الاصغر(چھوٹاشرک)۔‘صحابہ کرام  نے پوچھا:’اے اللہ کے رسول ﷺ یہ شرک اصغرکیاہے؟‘آپ ﷺ نے جواب دیا:’الریاء(دکھاواکرنا)کیونکہ یقیناقیامت کے دن جب لوگ انعام حاصل کررہے ہوں گا ‘اللہ تعالی فرمائے گا:’جاؤان کے پاس جن کے لیے تم مادی دنیاکی زندگی میں ریاء سے کام لیتے تھے اوردیکھوکیاتم کوان سے کوئی انعام ملتاہے‘۔‘‘(روایت کیااس کواحمدنے ‘الطبرانی اورالبیہقی نے الزاہدمیں ۔دیکھیے تیسیرالعزیز الحمید:ص 118)
حضرت محمودابن لبیدرضی اللہ عنہ نےیہ بھی کہا:
’’پیغمبر خدا ﷺباہرآئے اوراعلان فرمایا :’اےلوگو!خفیہ شرک سے باخبررہنا۔‘لوگوں نے پوچھا:’اے اللہ کے رسول ﷺ یہ خفیہ شرک کیاہوتاہے ؟‘اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا:’جب آدمی نمازکےلیے کھڑاہو‘اوراپنی نماز کواس لیے خوبصورت طریقے سے اداکرے کہ لوگ اس کودیکھ رہے ہیں ‘یہ خفیہ شرک ہے‘۔‘‘
الریاء

لوگوں کودکھأنے اورتعریف کرانے کے لیےجوبھی عبادت کی جاتی ہے ’ریا‘کہلاتی ہے ۔یہ ایساگناہ ہے جس سے نیکی کےکاموں کاثواب بربادہوجاتاہے اوراس کے کرنےوالے کوسخت سزاملتی ہے۔یہ اس لیے بھی خاص طورپرخطرناک ہے کہ انسانی فطرت کےمطابق ہرانسان اپنے ہم نفسوں سے اپنی تعریف کی خواہش رکھتاہے ‘جس سے اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذالوگوں کومتاثرکرنےیااپنی تعریف کرانےکے لیے مذہبی اعمال اداکرناایسی برائی ہے جس سے ہرشخص کوزیادہ سےزیادہ محتاط ہوناچاہیے ۔یہ خطرہ ان اہل ایمان کےلیے بھی اہم ہوتاہے جواپنی زندگی کے تمام نیک کام صرف اللہ ہی کی رضاکے لیے کرناچاہتے ہیں ۔حقیقت میں باعلم سچے مومنوں کاشرک اکبرکے مرتکب ہونے کاامکان کم ہوتاہے ‘کیونکہ اس کے خطرات بہت نمایاں ہوتےہیں ۔لیکن سچے اہل ایمان کےلیے بھی اورلوگوں کی طرح ‘ریاکامرتکب ہونے کابہت امکان ہے کیونکہ یہ بالکل ڈھکی چھپی چیزہے۔اس میں صرف اپنی نیت تبدیل کرنےکی بات ہے ۔اس کے مرتکب ہونے میں ترغیبی قوتیں بھی بہت مضبوط ہوتی ہیں کیونکہ یہ انسان کی اندرونی خصلت سے آتی ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیاہے:
’’شرک اس کالی چیونٹی سے بھی زیادہ پوشیدہ ہےجوکالے پتھریااندھیری رات میں چل رہی ہو۔‘‘(روایت کیااس کوابن ابی حاتم نے اوربیان ہے ’’تیسیرالعزیز الحمید‘‘میں صفحہ 587)
اس لیے اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس بات کویقینی بنایاجائےکہ انسان صحیح نیت سے نیک کام شروع کرے اورکام کے دوران بھی اس کی نیت صحیح رہے ۔اس کویقینی بنانے کے لیے اسلام میں کوئی بھی ضروری کام کرنے سے پہلے اللہ کانام لیاجاتاہے ۔اللہ کے پیغمبرﷺ نے سلسلے واردعائیں بتائیں ہیں جوفطری عادات سے قبل اوربعدپڑھی جاتی ہیں ‘مثلاکھانے پینے‘سونے‘مباشرت کرنے اوریہاں تک کہ پاخانے جانے کے لیے بھی ‘تاکہ یہ عادتاً روزمرہ کےکام بھی عبادت بن جائیں اورمسلمانوں میں اللہ کاشدیدادراک پیداہوجائے۔یہی وہ اللہ کاادراک ہے جوتقویٰ کہلاتاہے اورجوآخرکاراس کی ضمانت ہےکہ نیتیں پاک صاف رہیں۔
اللہ کے پیغمبرﷺ نے ناگزیرشرک کےکاموں سے بچنے کے لیے کچھ دعائیں بتائی ہیں جوکسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ علیہ السلام سے روایت ہے :
’’ایک دن اللہ کے نبی ﷺ نے خطبہ دیااورفرمایا:’اے لوگو!شرک سے ڈروکیونکہ یہ چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ چھپاہواہوتاہے ۔‘جن کواللہ نے اجازت دی انہوں نے پوچھا:’اے اللہ کے نبی ﷺ ہم اس سے کس طرح بچ سکتےہیں جب یہ چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ چھپاہواہے ؟‘آپ ﷺنے فرمایا :’یہ پڑھاکرو:
اللهم إنا نعوذبك أن نشرك شيئا نعلمه ونستغفرك لما لا نعلمه
’’اے اللہ ہم کواپنی پناہ میں رکھ اس سے کہ ہم سے دانستہ شرک ہوجائے ‘اورہم کومعاف فرمادے اس سے جس کاہم کوپتہ نہیں ۔‘‘
آگے آنے والے ابواب میں ان نہایت اہم معاملات کازیادہ تفصیل سے جائزہ لیاجائے گاجن میں شرک اپنے تینوں پہلوؤں میں اکثرواقع ہوتاہے ۔
ارشادباری تعالی ہے:
﴿ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ0 بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾(سورة الزمر 39: 65)
’’اوراے پیغمبربلاشبہ تیری طرف اوران پیغمبروں کی طرف جوتجھ سے پہلے گزرے ہیں یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اگرتونے شرک کیاتوتیرے سارے عمل ضائع ہوجائیں گے اورپھرتم ضرورخسارے میں آجاؤگے بلکہ اللہ ہی کی خالص عبادت کرواوراس کے شکرگزاربندوں میں رہو۔‘‘
مولاناحکیم محمدصادق صاحب اپنی تصنیف انوارالتوحیدمیں لکھتے ہیں ۔
’’سوچنے اورغورکرنے کامقام ہے کہ جب شرکیہ ذہنیت ،تصور،عقیدے اورقول وفعل کی آگ خداکے پیغمبروں تک کے اعمال کے لہلہاتے کھیتوں کوجلاکرراکھ سیاہ کرسکتی ہےتوپھرکس قدرضرور ی ہے کہ ہم شرک کی حقیقت ،چاہت ،اصلیت اس کی بیشمارقسموں اورشرکیہ قولوں ،معنوں کوجانیں بوجھیں تاکہ اس آتش سے بچ سکیں ۔ساراقرآن مجیدتوحیدکے اثبات اورشرک روسے بھراپڑاہے ۔تقریبا اسّی فیصدآیات ایسی ہیں جن کے ہرلفظ سے وحدت کاچشمہ ابل رہاہے اوراس کے زلال چاک سے دوئی کے روگ مٹے جاتے ہیں ۔تنزیل قدسی کااولین مقصدالوہیت کے ہرقسم کےتقابل کومٹانااورتوحیدخداوندی کواجاگرکرناہے ۔خالق لایزال کی ذات وصفات میں مخلوق بے ثبات کی کسی قسم کی شرکت کی تخیل تصور،نظریہ اورتکلم کوتوڑنااورتمام عملی صورتوں کوناپیدکرناہے ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ وہ مسلمان جنہیں اسلام نے توحیدکے انواروتجلیات سے نوازاتھاان کے مقصدات اورایمانیات کی دنیامیں شرک کااندھیراچھاگیاہے ۔شرکہ چالوں ،رسموں رواحوں اوراعتقادوں کی دلدل میں پھنس گئے ہیں دنیاجہاں میں توحیدکاپیغام پہنچاناجن کافرض اولین تھاآہ وہ خوددوئی کاشکارہوکررہ گئے زبان سے توحید کااقراراوردماغ میں مت خانہ ہے ،منہ سےلاالہ الا اللہ کہنااورزندگی شرک کی راہ پرگامزن ہے ۔(انور التوحید از مولانا حکیم محمد صادق: ص 33۔34)
تعلق باللہ :
بہ بات بالکل واضح ہے کہ جب انسان کاتعلق اللہ تعالی سےکمزورپڑجاتاہے تووہ عارضی سہارے لیناشروع کردیتاہے ۔وہ وسوسوں ،توہمات ،شگون وبدشگون کاشکارہوجاتاہے ۔توہم پرستی اوراس جیسی تمام برائیوں کے خاتمے کے لیے اللہ تعالی کے ساتھ تعلق مضبوط ہوناچاہیے ۔
ڈاکٹرخالدعلوی لکھتےہیں :
’’یہ بات کی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ انسانی اعمال کے انضباط کاانحصارفکری یکجہتی وپاکیزگی پرہے ۔فکری یکجہتی وپاکیزگی کے کےلیے کسی ایسی ہستی کے ساتھ تعلق ضروری ہے جوانسان کے مادی اورحسی ماحول سے بالاترہو،اسی لیے رسول اللہﷺ نے تربیت کے لیے ’اللہ تعالی کے ساتھ انسان کے شعوری تعلق بنیادبنایا ہے ۔قرآن وسنت کی نصوص سے واضح ہوتاہے کہ جہاں توحید معبودت اورتوحیدربوبیت کے ادراک سے عبودیت کاشعورپختہ ہوتاہے وہاں محبت الہی بندہ کی حیات دینی کامقصودقرارپاتی ہے ۔اس امرکااہتمام کیاگیاکہ تعلق باللہ ذات کے شعورولاشعورکاحصہ بن جائے ۔‘‘
حضورﷺ نے بچے کے کان میں اذان کہنے کاطریقہ اختیارفرمایا ۔(سنن الترمذی، کتاب الإصلاح، باب الأذن فی أذان المولود:4/ 97)
تاکہ اللہ تعالی کی توحیدکاوہ احساس تازہ ہوجائے جوعیدلست ؟میں پیداہواتھا۔تعلق باللہ ہی وہ واحداساس ہے جوانسان کوراست روی کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔(انسان کامل از ڈاکٹر خالد علوی: ص 296)
ارشادباری تعالی ہے :
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ﴾(سورة البقرة2: 165)
’’اورلوگوں میں ایسے بھی ہیں جواللہ کے ہمسرٹھہراتے ہیں جن سے وہ اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے محبت کرنی چاہیے لیکن جواللہ پرایمان رکھتے ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں ۔
لاالہ الا اللہ کامعنی اوراسکی سات شرطیں :
لوگ اگرلاالہ الا اللہ کامعنی جان لیں کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں ’’لاالہ ‘‘سے تمام باطل معبودوں کی نفی ہوگئی اور ’’الا اللہ ‘‘سے معبودبرحق اللہ جل جلالہ کااثبات ہوگیا۔
1.علم :
وہ علم جوجہالت کی نفی کردے لہذاجوشخص لاالہ الا اللہ کامعنی نہ جانتاہووہ اس کے مفہوم سے ناواقف رہے گااورلاالہ الا اللہ کامعنی ہے کہ ہراس چیزسے برأت جواللہ کے ماسواپوجی جائے اورصرف اللہ واحدہی کے لیے بندگی خالص ہوجائے۔
2. یقین:
جوشک کودورکردےکیونکہ ایسے لوگ بھی ہیں جولاالہ الا اللہ کہنے کے باوجوداس کے معنی ومفہوم کے بارے میں شک رکھتے ہیں ۔
3. اخلاص :
ایسااخلاص جوشرک کی نفی کردے اس لیے کہ جس کے اعمال صرف اللہ کے لیے خالص نہ ہوں وہ اس شرک کے مرتکب ہیں جواخلاص کے منافی ہے جیساکہ اللہ تعالی کاارشادہے :
﴿قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ﴾
’’کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیاگیا کہ میں اللہ کی بندکی کروں اس کےلیے دین کوخالص کرتے ہوئے ۔‘‘
4.صدق:
جونفاق کے منافی ہواس لیے کہ منافقین بھی لاالہ الا اللہ کہتے ہیں لیکن ان کاقول ان کے دل کاصحیح ترجمان نہیں ہوتااس طرح ان کے ظاہروباطن کے تضادکی وجہ سے ان کالاالہ الا اللہ کہناجھوٹ ہے جیساکہ اللہ نے ان کی بابت فرمایا ہے:
﴿يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِم﴾
’’اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جوان کے دلوں میں نہیں ہوتی ۔
5.قبول :
جو رد و انکارکے منافی ہواس لیے کہ ایسے لوگ بھی ہین جولاالہ الا اللہ کہتے ہیں اوراس کامعنی بھی سمجھتے ہیں لیکن جولوگ ان کوکلمہ کی طرف بلاتے ہیں ان کاانکارکرتے ہیں محض بڑائی یاحسدیادوسری وجوہات سے ۔
6. انقیاد:
جوترک عمل کے منافی ہو۔لاالہ الا اللہ پرمکمل اطاعت واتقیاداسی وقت ہوگاجب فریضہ الہی پرعمل کیاجائے گااوراس کی حرام کی ہوئی باتوں کوترک کردیاجائے اوراس پرپوری طرح پابندرہاجائے ۔
اس لیے کہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے قلب وجوارح کے ساتھ اللہ کافرمانبردارہواورتوحیدواطاعت کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکاہوجیساکہ ارشادہے :
﴿وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى﴾
’’جواپنی ذات کے ساتھ اللہ کی طرف سیرہوجائے اوروہ مخلص بھی ہوجائے توبیشک اس نے مضبوط رسی پکڑلی ۔‘‘
7.محبت:
وہ محبت جوکلمہ کے ردکرنے کے منافی ہے اورلاالہ الا اللہ کہنے والے کوہروقت قبول محبت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے جیساکہ اخلاص کی حقیقت سے معلوم ہوا یعنی جوشخص اللہ سے مجبت کرے گالازما وہ اس کے دین سے بھی محبت کرے گا۔جس کوالہ کی محبت نہ ہواسے دین کی محبت بھی حاصل نہ ہوگی ۔
لوگ اگریہ معنی سمجھ لیں اورجان لینں کہ اپنے ولیوں ،سرداروں اورصالحین کی قبروں پرجوذبیحہ یانذریاان کی قبروں کی مٹی سے برکت کے حصول یاان کی قبروں کاطواف یاان سے حاجات پوری کرنے کی درخواست وغیرہ جیسے اموردراصل ان صالحین کوالہ بناناہے اورالوہیت اللہ کے سواکسی کے لیے مناسب نہیں توان کومعلوم ہوجاتاکہ یہ سب امورشرک اکبرہیں ۔(الإنتخاب من الؤلؤ والمرجان از ڈاکٹر حمید اللہ: ص57)
کے ۔ایم۔ اعظم لکھتے ہیں :
’’اسلام کاامتیازی نشان اس کاتوحید پرخصوصی زورہے بیشک توحیدہی باری تعالی کاوہ ازلی اورفطری دین اسلام ہے جوکہ اسلام کاہررسول دنیامیں لے کرآیاہے۔توحیدہی وہ بنیادی تصورہے جس سے تھوڑاساانحراف بھی ہرقسم کی معاشرتی برائیوں کوجنم دیتاہے ۔(پاکستانی اسلامی اساس اور جدید تقاضے از کے ۔ایم اعظم : ص 132)
توکل کا معنی ومفہوم:
توکل باب تفعل سے مصدرہے۔
بقول امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ اس کااستعمال دوطرح ہوتاہے ۔
الف) لام کےفاصلے کے ساتھ مثلا توکلت لفلان)میں فلاں کی ذمہ داری لیتاہوں)یہ دوسرے کی ذمہ داری خودلینےکٰے لیے استعما ل ہوتاہے ۔
ب) علی کے صلے کےساتھ ،مثلا توقلت علیہ(میں نےاس پربھروسہ کیا)اس صورت میں اس کامفہوم کسی معاملے میں دوسرے پربھروساکرناہوتاہے ۔قرآن کریم میں یہ لفظ اس معنی میں کثرت سے استعمال ہواہے۔
مثلا ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ﴾
’’اورتوکل کرنے والوں کوخداہی پربھروساکرناچاہیے ۔‘‘
اسی مادے سےتواکل (بوزن تفاعل)ہےجس کامفہوم ہے لوگوں کواپنےکام کی ذمہ داری ایک دوسرے پرعایدکرنااسی سےلفظ وکیل (فصیل بمعنی مفعول)ہے جس کےمعنی ہں وہ شخص جوکسی معاملے میں ذمہ دارمتصورہو۔(مفردات القرآن از امام راغب اصفہانی : ص993-994)
شیخ عبداللہ بن احمدالحویل لکھتےہیں :
لغت کی روسے اس کےمعنی ہیں کوئی شےکسی کےسپردکردینااوراعتمادبھروسہ کرناشرعی اعتبارسےاس کامفہوم ہے ’’اعتمادالقلب علی اللہ وحدہ ‘‘یعنی صرف اللہ تعالی ہی پردلی بھروسہ رکھنا۔
توکل علی اللہ :
اگراللہ تعالی پرکامل بھروسہ ہوتوتوہمات ووسوسےنہیں آگھیرتے ۔آج ملت اگرتوہمات کاشکارہے تواس کامطلب یہی ہے کہ مسلمان اللہ تعالی پرمکمل بھروسہ نہیں کرتے اورمختلف سہارے ڈھونڈناشروع کردیتے ہیں اورخوف وخطرات کاشکارہوکررہ جاتے ہیں ۔
پروفیسرمحمدمنظورعلی شیخ لکھتےہیں :
’’انسان اپنی شرعی کمزوریوں کےباعث زندگی کے معاملات ومسائل خودبحسن وخوبی نمٹانے میں قاصررہتاہے اورہرلمحہ محسوس کرتاہےکہ اسےایک عظیم ،مقتدر،ذی رحمت اورشفیق مربی کاسہارادرکارہے ۔جس پروہ بھروسہ کرسکے اورامیدلگاسکے یہ ذات اللہ تعالی کےسواکوئی نہیں ہوسکتی چنانچہ اس پرتوکل کرنے سے انسان کویہ فائدے پہنچتےہیں ۔ایمان کاتقاضایہ ہے کہ سب سہارے چھوڑکرصرف ذات الہی کاسہاراپکڑاجائے اورہرکام کےلیے اسی پربھروسہ کیاجائے کیونکہ مومن صرف اللہ پرہی بھروسہ کرتےہیں زندگی کےسارے معاملات میں تکلیف وعسرت میں اورمسرت وفراعت میں فقط اسی کادامن تھامے رکھتے ہیں اس کےسواکسی پرتکیہ نہیں کرتے ۔‘‘( کتاب فلاح از پروفیسر محمد منظور علی شیخ : ص235)
پروفیسرڈاکٹرطاہرالقادری لکھتے ہیں :
’’عمومایہ خیال کیاجاتاہے کہ توکل ترک اسباب ومسائل کانام ہے حالانکہ خداتعالی کوایساتوکل قطعاً منظورنہیں ہے جس میں اسباب سےکلیۃ قطع نظرکرلیاجائے ۔اسلام کی تعلیم یہ ہےکہ توکل اسباب اختیارکرنے کے باوجودان پراعتمادکرنے اورفقط اللہ کی ذات پربھروسہ کرنےکانام ہے اسلام ہمیں یہ تلقین کرتاہےکہ ہم اسباب اوروسائل سےضروراستفادہ کریں انہیں ضروریات زندگی سمجھ کرضرورکام میں لائیں مگرہماراآخری بھروسہ اوراعتماداسباب ووسائل پرنہ ہوبلکہ اصل مسبب الاسباب اوررب کائنات کی ذات پرہو۔‘‘(اجزائے ایمان از پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری : ص94)
ارشادخداوندی ہے :
﴿رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا﴾(سورة المزمل73: 9)
’’وہی مشرق اورمغرب کارب ہے اوراس کےسواکوئی معبودنہیں اسی کواپناکارسازبناؤ۔‘‘
اللہ تعالی پرکامل توکل رکھنےوالوں اوراللہ ہی کوکارسازجاننے والوں کابلنددرجہ ہے۔توکل کرنے والے کودنیامیں بھی بہترین ثمرومرتبہ فرمایا جاتاہے۔حدیث میں ہے:
’’اگرتم اللہ پرایساتوکل کروجیساکہ توکل کرنے کاحق ہے توتمہیں ان پرندوں کی طرح جوصبح کوخالی شکم گھرسےنکلتے ہیں اورشام کوپرشکم ہوکرلوٹتے ہیں ‘رزق دیاجائےاورتمہاری دعاؤں سےپہاڑبھی اپنی جگہ سےٹل جائے۔‘‘
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہم یہ بات پہلے ہی عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ عقیدہ کے لیے بنیاد کا مضبوط ہونا لازمی ہے اور ظاہر ہے بنیاد کے لیے اگر کوئی یقینی اور معتبر ذریعہ ہوسکتا ہے تو کسی بھی شخص کا ذہن سوائے قرآن مجیدکے کہیں اور منتقل نہیں ہو سکتا اور جہاں تک بات ہے توحید کی اور اس کے متعلق بیان کردہ دلائل کی تو بھی اسی(قرآن)کی طرف رجوع کرنا بالکل فطری ہےیہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے علمی و عقلی دلائل کے ذریعہ عقیدۂ توحید کو بیان کرنے میں کوئی چیز بھی مبہم نہیں رکھی اور اگر کہیں منکرینِ توحید کے وسوسے نقل کیے گئے ہیں تو ان کا بھی پوری طرح ازالہ کردیا گیا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالٰی نے ایک اہم حقیقت کے متعلق بتایا ہے اگر محض انہی آیات پر غور و فکر کر لیا جائے تو توحید سے متعلق ”عطائی“ ، ”محدود“ اور ” حادث“ کا وہ تصور، جو ”طبقۂ خاص“ میں پایا جاتا ہے ،کا علمی رد ہو جاتا ہے۔

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ
کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔
قرآن، سورۃ الشورٰی ، آیت نمبر 11
لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾
جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہو۔
قرآن، سورۃالانعام ، آیت نمبر 163
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔
قرآن، سورۃ الاخلاص ، آیت نمبر 04

مندرجہ بالا آیات میں توحید کے متعلق نہایت اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اگر سمجھ میں آ جائیں تو توحید سے متعلق تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اگر یہی نکات نگاہوں سے اوجھل رہیں تو پھر کتابوں کے دفتر کے دفتر بھی توحید کو سمجھنے میں کار آمد ثابت نہیں ہو سکتے۔

چناچہ ان آیات سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:-

· اللہ تعالٰی اپنی ذات میں اکیلا ، یکتااور تنہا ہےاور کوئی بھی اسکی ذات میں کسی طرح شریک نہیں۔
· اللہ تعالٰی اپنی صفات میں بھی تنہا، یکتا اور اکیلا ہے اور کوئی بھی اسکی کسی صفت میں کسی طرح بھی شریک نہیں اور نہ ہی اسکی کوئی صفت کسی مخلوق کی صفت کے مشابہ ہے۔

اب جب حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات و صفات میں اس کا کوئی کسی طرح مثل نہیں اور نہ ہی کوئی شریک ہے تو بھلا کوئی مخلوق کیونکر عطائی طریقے سے اللہ تعالٰی کی صفات یا صفت میں شریک ہو سکتی ہے؟

ہماری نظر میں دراصل بنیادی غلطی اس مسئلے میں یہ ہوئی ہے کہ مخلوق کی صفات کو اللہ تعالٰی کی صفات کے مشابہ سمجھ لیا گیا ہے لہذا جب لوگوں نے اس مشابہت کو دیکھا تو اس کا حل یہ نظریہ قائم کر کے نکالاکہ اللہ تعالٰی کی صفات لامحدود،ذاتی اور قدیم ہیں جبکہ مخلوق کی صفات محدود،عطائی اورحادث ہیں۔ وہ اس نکتے کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ذاتی طور پر سنتا، دیکھتا اور زندہ ہے جبکہ مخلوق عطائی طور پر دیکھتی ، سنتی اور زندہ ہے۔ حالانکہ ہم ابھی مندرجہ بالا آیات اور اسکی تشریح میں یہ بات واضح کر آئے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی کسی بھی صفت میں کوئی کسی طرح بھی اسکا شریک نہیں ہو سکتااور نہ ہی اسکی صفت کی مثال کسی میں پائی جاسکتی ہے۔

مثال کے طور پر، ہم بھی دیکھتے اورسنتے ہیں اور اللہ تعالٰی بھی دیکھتا اورسنتا ہے۔ ہم بھی زندہ ہیں اور اللہ تعالٰی بھی زندہ ہے ۔تو کیا اس بناء پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اللہ تعالٰی ذاتی طور پر دیکھتا ، سنتا اور زندہ ہے اور ہم عطائی طور پر دیکھتے ، سنتے اور زندہ ہیں ؟ جب اللہ تعالٰی کی صفات بے مثل ہیں اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں تو عطائی طور پر کوئی مخلوق کیسے ان صفات سے متصف ہو سکتی ہے ؟ جبکہ اسکی کوئی دلیل بھی قرآن مجید میں موجو دنہیں ہے۔

لہذا صحیح تعبیر یہی ہو گی کہ ہم اُس طرح نہیں دیکھتےاور سنتے جس طرح اللہ تعالٰی دیکھتا اور سنتا ہے۔ ہم اُس طرح زندہ نہیں ہیں جس طرح اللہ تعالٰی زندہ ہے۔ اللہ تعالٰی بھی قادر ہے اور مخلوق میں بھی قدرت پائی جاتی ہے۔ لیکن جن معنوں میں اللہ تعالٰی قادر ہے ان معنوں میں ہم قادر نہیں ہیں۔

جب مخلوق کی صفات (سننا ، دیکھنا، قادر ہونا، زندہ ہونا وغیرہ) اللہ تعالٰی کی صفات (سننا ، دیکھنا، قادر ہونا، زندہ ہونا وغیرہ) سے یکسر مختلف اور جُداہیں اور اسکے مشابہ نہیں اور نہ ہی مخلوق اللہ تعالٰی کی کسی صفت یا صفات میں شریک ہیں تو مخلوق کے لیےمحدود ،عطائی ،حادث کی شرط لگانا لغو و باطل ہے۔

ان تصریحات کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جب مخلوق کی صفات اللہ تعالٰی کی صفات کے مثل ہیں ہی نہیں اور نہ ہی اللہ تعالٰی نے اپنی صفات مخلوق کوعطائی صورت میں دی ہیں تو اب ہمارے لیے اس بات کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی مخلوق کو مدد کرنے ، بگڑی بنانے، حاجت روائی اور مشکل کشائی وغیرہ کے لیے پکاریں ؟ جب عطائی اختیار ہی ثابت نہیں تو پھر غیر اللہ کو پکارنے کا کیا مطلب؟
 
Top