برطانوی اخبار’ گارڈین‘ نے اُس کی شکست پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ وہ ومبلڈن کی گراؤنڈ میں شکست کھا گئی ہے مگر ساؤتھ ایشیا کے تہذیبی میدان میں اُس نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ اُس نے اپنے سماج کی پرانی فرسودہ روایات کو توڑ کر نئی نسل کے لیے آگے بڑھنے کی نئی راہیں ہموار کردی ہیں۔ مختصراً یہ کہ مغرب جو ترقی پذیر معاشروں بالخصوص اسلامی معاشروں کی عورتوں کو گھروں سے نکال کر ہر میدان میں مردوں کے برابر لاکھڑا کرنا چاہتا ہے، ثانیہ مرزا کی صورت میں اُسے ایک دلچسپ تشہیری گڑیا ہاتھ لگی۔
۲۲؍اپریل کو جب شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی جوڑی کراچی ایئرپورٹ پراُتری تو چاہنے والوں کا ایک ہجوم پہلے سے ان کے انتظار میں تھا۔ ایک دن پہلے سے ٹی وی چینلز پر Tickers چل رہے تھے جن میں ان کی آمد کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔ عوام کا ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو میڈیا کی تشہیر کا غیرمعمولی اثر قبول کرتا ہے۔ یہ معاملات پر کوئی زیادہ غوروخوض کا قائل نہیں ہوتا۔ یہ تماش بینی کے مواقع کو حتی الامکان کوشش کے ذریعے انجوائے کرنا پسند کرتا ہے۔ پوری دنیا میں میڈیا کے غیرسنجیدہ عناصر ان کے جذبات کا استحصال کرکے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر جو مناظر دکھائے گئے، اس سے صاف ظاہرہورہا تھا کہ میڈیا زبردستی hype پیدا کررہا ہے۔ ثانیہ مرزا گھبرائی ہوئی بلی کی طرح پریشان نظر آتی تھی اور شعیب ملک کے چہرے سے بھی پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اُنہیں خود معلوم نہیں ہورہا تھا کہ آخر ان کی شادی کو اتنی زیادہ تشہیر کیوں دی جارہی ہے؟ دونوں ایک صوفے پر بیٹھے اداس و پریشان نظر آتے تھے۔ ابھی وہ کراچی ایئرپورٹ پر اسلام آباد جانے والی رابطہ کی پرواز کے منتظر تھے کہ میڈیا پر خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ اسٹارز کی اس جوڑی کو سربراہِ ریاست کا پروٹوکول دیا جائے گا۔ اسلام آباد میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ان کے اعزاز میں عشائیہ دینے کے انتظامات مکمل ہوچکے ہیں۔ خبر دی گئی کہ ایوانِ صدر میں بھی ان کو استقبالیہ دیا جائے گا۔ کمال یہ ہے کہ اس دوران ایک معروف ٹی وی چینل (جیو) لاہور میں آواری ہوٹل کے مناظر پیش کررہا تھا جہاں پر ایک دن کے بعد ان ’شاہی مہمانوں‘ نے قیام کرنا تھا۔ اس ہوٹل کا وہ سیلون دکھایا جارہا تھا جس کی ان کے لیے صفائی اور آرائش ہورہی تھی، بتایا جارہا تھا کہ یہ وہ سیلون ہے جس میں سربراہانِ ریاست قیام کرتے ہیں اور اس کاایک دن کا کرایہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ اس سیلون کے واش روم کو بھی ناظرین کو دکھانا ضروری سمجھا گیا۔ خوبصورت اور مہنگے فرنیچر اور کلاسیکل اشیا کی نمائش کی جارہی تھی۔ سیکورٹی کے انتظامات کو بیحد مبالغہ آمیز انداز میں رپورٹ کیاجارہا تھا۔ ناظرین حیران ضرور ہوئے ہوں گے کہ آخر یہ سب کچھ کیوں کیا جارہا ہے۔ اس کی ضرورت کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے دیگر ٹی وی چینلز بھی میدان میں کود پڑے اور باقی ساری دنیا جہاں کی خبریں چھوڑ کر ستاروں کی اس جوڑی کی خبریں دینے میں مصروف ہوگئے۔ راقم الحروف بھی اہل پاکستان کی طرح حیرت میں ڈوبا یہ منظر دیکھتا رہا۔ بقول غالب
ع خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
۲۴؍ اپریل کو خبر چلی کہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر سے بھی ملے ہیں۔ موصوف نے کمال مہربانی سے شعیب ملک کو بھارت یاترا کا ایک سال کا ویزا عطا کیا۔ باخبر لوگ بھارت کے ویزا کے حصول میں حائل مشکلات سے واقف ہیں۔ اُنہیں بھی بھارتی سفیر کی اس ’دریا دلی‘ پر حیرانگی ضرور ہوئی ہوگی۔ ابھی تو چند روز پہلے بھارت میں شعیب ملک کے خلاف مقدمات اور اس کی ممکنہ گرفتاری کی خبریں چل رہی تھیں اور یکایک فلک نے یہ کیا انقلاب دیکھا کہ پورے سال کا ویزا عطا کیا جارہا ہے۔ کیا یہ سب رواروی میں ہوگیا؟ ایسا ہوتا نہیں ہے…!!