• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شعیہ راوی

شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
اسلام وعلیکم ـ میرا سوال یہ ہے کے کیا شعیہ یا رافضی یا ناصبی یا قدری راویوں کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں اگر ہے تو کن اصولوں و ضوابط پر ـ اور کن محدثین نے اس اصول کو صحیح کہا ـ اور کن محدثین نے اس اصول کو غلط کہا ہے ـ اور راجح قول کیا ہے ـ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اسلام وعلیکم ـ میرا سوال یہ ہے کے کیا شعیہ یا رافضی یا ناصبی یا قدری راویوں کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں اگر ہے تو کن اصولوں و ضوابط پر ـ اور کن محدثین نے اس اصول کو صحیح کہا ـ اور کن محدثین نے اس اصول کو غلط کہا ہے ـ اور راجح قول کیا ہے ـ
راوی مبتدع (بدعتی، اس میں یہ تمام شامل ہوجاتے ہیں) کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو کفر تک پہنچ گیا ہو اور دوسرا جو کفر تک نہ پہنچا ہو۔
اول کی روایات اگر وہ کسی قطعی متواتر عقیدے کا انکار نہیں کرتا تو قبول کی جائیں گی۔
اور ثانی کی اگر ایسی روایت نہ ہو جو اس کی کسی بدعت کی تائید میں ہو تو قبول کی جائے گی ورنہ نہیں۔

حافظ ابن حجرؒ ۔ نزہۃ النظر
ثم البدعة: وهي السبب التاسع من أسباب الطعن في الراوي: وهي إما أن تكون بمكفر:
1- كأن يعتقد ما يستلزم الكفر. 2- أو بمفسق.
فالأول: لا يقبل صاحبها الجمهور.
وقيل: يقبل مطلقا.
وقيل: إن كان لا يعتقد حل الكذب لنصرة مقالته قبل.
والتحقيق أنه لا يرد كل مكفر ببدعة؛ لأن كل طائفة تدعي أن مخالفيها مبتدعة، وقد تبالغ فتكفر مخالفها، فلو أخذ ذلك على الإطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف.
فالمعتمد أن الذي ترد روايته من أنكر أمرا متواترا من الشرع معلوما من الدين بالضرورة، وكذا من اعتقد عكسه، فأما من لم يكن بهذه الصفة وانضم إلى ذلك ضبطه لما يرويه، مع ورعه وتقواه، فلا مانع من قبوله.
والثاني: وهو من لا تقتضي بدعته التكفير أصلا، وقد اختلف، أيضا، في قبوله ورده:
فقيل: يرد مطلقا. وهو بعيد، وأكثر ما علل به أن في الرواية عنه ترويجا لأمره وتنويها بذكره، وعلى هذا فينبغي أن لا يروى عن مبتدع شيء يشاركه فيه غير مبتدع.
وقيل: يقبل مطلقا، إلا إن اعتقد حل الكذب، كما تقدم.
وقيل: يقبل من لم يكن داعية إلى بدعته؛ لأن تزيين بدعته قد يحمله على تحريف الروايات وتسويتها على ما يقتضيه مذهبه، وهذا في الأصح.


بعض نے یہ قید بھی لگائی ہے کہ اس کا مسلک ایسا نہ ہو جس میں جھوٹی روایت کرنا حلال ہو۔ واللہ اعلم
 
Top