• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے

۲۲؍دسمبر ۲۰۱۵ء ؁ کا دن جماعت اہل حدیث کے لیے بے حد المناک ثابت ہوا۔ پے در پے مولانا محمد اسحاق بھٹی اور مولانا عبد اللہ مدنی کی وفات نے جماعت کو جھنجھو ڑ کر رکھ دیا اور ۱۹۹۹ء ؁ کے عام الحزن والخسران کی یاد تازہ کردی۔ جماعت اہل حدیث کی آبرو اور اس کا سہارا، اس کے منفرد مؤرخ، صاحب طرز ادیب مولانا محمد اسحاق بھٹی کی وفات حسرت آیات کی خبر جس نے بھی سنی ساکت رہ گیا۔ خبر متوقع تھی لیکن اس کی صداقت پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا کیونکہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پل بھر میں اتنے بے سہارا ہو جائیں گے۔ إن العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول إلا ما یرضي ربنا وإنا بفراقک لمحزونون۔
ذرہ ذرہ دہر کا زندانیء تقدیر ہے
پردۂ مجبوری وبے چارگی تدبیر ہے​
قحط الرجال کے اس دور میں کبار علماء کی مسلسل رحلت کی خبریں قرب قیامت کا اشارہ دے رہی ہیں۔ یہ علم کی رحلت نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے اسلاف کی کاوشوں کو اپنے قلم سے صفحۂ قرطاس پر نقل کرکے ہمارے سامنے پیش کرنے والے ہی نہ رہیں گے تو پھر اہم اپنی تاریخ سے واقف کیسے ہوں گے، اور اپنی تاریخ سے بے خبری اور ناواقفیت قوموں کا حوصلہ پست کرنے اور انہیں قصۂ پارینہ بنانے کے لیے کافی ہے۔
طول عمری اکثر لوگوں کے لیے باعث مشقت وحرج ہوتی ہے، مگر کچھ نفوس قدسیہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی حیات طیبہ دوسروں کے حق میں سراپا خیر ہوتی ہے۔ ساٹھ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان کے قوی مضمحل ہوجاتے ہیں اور اعضاء جواب دینے لگتے ہیں،مگر جس شخص کا نوے اکیانوے برس کی عمر تک حرکت وعمل سے برابر رشتہ استوار ہو، بلکہ عام لوگوں کی بنسبت اس کے کارنامے بھی زیادہ ہوں، خصوصاً اس صورت میں جب کہ اس کا کوئی معاون ومددگار نہ ہو، تو یہ معجزہ اور کرامت نہیں تو اور کیا ہے۔
جی چاہتا ہے کہ بس بھٹی صاحب کی تعریف میں قلم رطب اللسان رہے۔ ان کی ذات کی بے شمار صفات حسنہ پر سیکڑوں صفحات سیاہ کے سیاہ کیے جائیں اور ایسی عظیم شخصیت کی پاک زندگی کے ایک ایک گوشے ظاہر کیے جائیں تاکہ قحط الرجال کے اس دور میں ہم جیسے نوآموزوں کے حوصلوں کو مہمیز ملے اور جماعت کے تعلق سے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
تاریخ اہل حدیث کا شیدائی ہونے کے ناطے جب میں نے بھٹی صاحب کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو عجیب چاشنی ملی۔ اس سے قبل جماعت کے تعلق سے واضح موقف نہ ہونے کے سبب احساس کمتری گھر کرنے لگی تھی، لیکن جوں جوں ورق پلٹتا گیا، روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ نگاہوں کو خیرہ کردیا اور جماعت کے تابناک ماضی سے آنکھیں چرانا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہ گئی۔ اور ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہمیں ایسا مؤرخ ملا جو محض مؤرخ ہی نہیں بلکہ صاحب طرز ادیب بھی تھا۔ تاریخ وادب کے حسین سنگم سے جماعت کی سوانح کے جو چشمے پھوٹے ہیں وہ سب کے نصیب میں نہیں ہوتے۔ لیکن اس کے رخصت ہوجانے کے بعد اب اس جیسا کوئی چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے نہیں ملتا۔
آئے عشاق گئے وعد�ۂ فردا لے کر
اب نہیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر​
مختصرا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ کی شخصیت سیرت وسوانح نگاری کے باب میں جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی، اور اس راہ میں آپ نے تن تنہا جوخدمات انجام دیں اس کا تصور ایک پوری انجمن اور ایک تنظیم سے بھی ممکن نہیں۔
خدائے تعالیٰ نے آپ کو بے حد خوش نصیب بنایا تھا۔ علم وعمل سے گہری وابستگی کے ناطے انہیں کبار علماء سے جو تعلق پیدا ہوا تھا وہ ہماری نظروں میں آپ کی سب سے بڑی خوش نصیبی تھی۔ علامہ عصر مولانامحمد ابراہیم میر سیالکوٹی، شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری، سرخیل جماعت مولانا محمد جوناگڑھی، امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد جیسوں کے محض دیدار سے ہی مشرف ہوجانا کیا خوش قسمتی نہیں ہے۔ کیا نعمت الٰہی کا تکملہ نہیں تھا کہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد گوندلوی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا محمد حنیف ندوی جیسے مربی علم وفن کے زیر سایہ اور زیر تربیت آپ کے ماہ وسال گزرے۔ شاید اسی تربیت کا فیضان تھا کہ بھٹی صاحب کے قلم سے ان پاکباز نفوس کے تذکرے پر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل تڑپ اٹھتا ہے۔ اپنی حرماں نصیبی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ مولانا کی ذات پر اسی رشک نے ہمیں مجبور کردیا کہ اگرچہ شرف دیدارممکن نہ ہو، سماعت ہی آپ کی آواز سے مشرف ہوجائے، چنانچہ ایک کرم فرما سے آپ کا نمبر حاصل کیا، بات کے لیے ماحول بنایا، موبائل کو متوسط مقدار میں خوراک فراہم کی اور دھڑکتے دل سے رابطہ کیا۔ ابتداء سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں گا، مگر جب مولانا شروع ہوگئے تو دل مطمئن ہوگیا۔ پہلے اپنا تعارف کرایا، جان کر بے حد خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہندوستانیوں سے بات کرکے انہیں بہت خوشی اور مسرت ملتی ہے۔ والد صاحب کی مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ سے متعلق تازہ کتاب پر مسرت کا اظہار فرمایا اور اس پر اپنی تقدیم کا بھی ذکر کیا۔ اسی اثنا میں بیلنس ختم ہوجانے کے سبب سلسلہ منقطع ہوگیا۔ بڑے آدمی کی بڑائی اس موقع پر دیکھنے کو ملی جب مولانا نے کمال شفقت سے اپنی طرف سے رابطہ فرمایا اور والد ودادا محترم سے سلام عرض کرنے کو کہا، مزید نصیحت فرمائی کہ اپنے موبائل کو غذا فراہم کرکے دوبارہ رابطہ کیجیے۔ دوسری کال کا دورانیہ تقریبا چھ منٹ کا تھا۔ کال ختم ہونے کے بعد بڑی دیر تک اپنی خوش قسمتی پر نازاں اور مولانا کی خاکساری وذرہ نوازی پر متعجب رہا، مگر افسوس کہ اس کے بعد اپنی نا اہلی، کاہلی اور سستی کے سبب آپ سے دوبارہ رابطہ کا شرف حاصل نہ ہوسکا جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا۔
***************
مولانا اور میری حقیر ذات کے درمیان کوئی ادنیٰ سی بھی نسبت نہیں ہے، میں اپنے آپ کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتا کہ آپ کی بلندوبالا شخصیت پر قلم اٹھا کر آپ کے وقار کو مجروح کروں، مگر جذبات واحساسات کے بوجھ تلے یہ چند ٹوٹے ہوئے الفاظ حوالۂ قرطاس کر دیا ہے۔ آپ کی حیات طیبہ کے متعدد گوشوں پر قلم کشائی کے لیے برصغیر کے ارباب علم وفن کی پوری جماعت موجودہے، البتہ اس سلسلے میں میرے جو تحفظات ہیں ان کی روشنی میں کہنا چاہوں گا کہ مولانا کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو پر کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ جماعت کی تاریخ اور اکابرین کی سوانح نگاری کا جو مبروک ومسعود سلسلہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے شروع کیا تھا، وہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہنا چاہیے اور جماعت کے افراد کو اس کی جانب توجہ دینی چاہیے، کیوں کہ اگر اس پہلو سے چشم پوشی کی گئی تو مستقبل میں جو نقصان ہوگا اس کی تلافی ناممکن ہے۔
دوسری بات یہ ہے مولانا نے اپنی سوانح خود اپنی حیات میں مرتب فرما دی تھی، اور اللہ کے فضل وکرم سے آپ کی حیات وخدمات پر متعدد مقالے ومضامین قلم بند ہوچکے ہیں، لیکن اگر خود مولانا کی تحریروں سے آپ کی خود نوشت مرتب کر دی جائے تو یہ بہت مفید کا م ہوگا۔
اسلاف کی سوانح سے متعلق کتب میں داعیان ملت اور مبلغین امت کے لیے سبق آموز واقعات کی شکل میں بے شمار جواہر پارے ہیں جن کا جمع وترتیب اور مستقل اشاعت دعوت کے باب میں ایک عظیم اور حوصلہ افزا خدمت ہوگی۔
علاوہ ازیں جلدہی مولانا کی حیات وخدمات پر برصغیر کے پیمانے کے ایک سیمینار کا انعقاد بھی بے حد اہم ہے، اور رسائل وجرائد کے خصوصی نمبرات اور شمارے بھی وقت کی ضرورت ہیں۔ مولانا نے جماعت کو بہت کچھ دیا ہے اور جماعت آپ کی قرض دار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس قرض کو کس طرح ادا کرپاتے ہیں۔
اندا ز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات​
مولائے کریم آپ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرما اور جماعت کو آپ کا نعم البدل عطا فرما۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔​
 
Last edited:
Top