• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شگون وبدشگونی

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
شگون وبدشگونی

(یہ مضمون سعدیہ قمر کے مقالہ برائے ایم اے علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، سے لیا گیا ہے۔)
بدشگونی کی اصطلاحی تعریف (علم الزجروالطیرۃ !)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اہل عرب کی بدشگونی کے حوالہ سے رقمطرازہیں کہ
’’واصل التطیر إنهم کانوا فی الجاهلية یعتمدون علی الطیر فاذا خرج أحدهم لامرفان رای الطیرطاریمنة تیمن به واستمروان راه طاریسرة تشاء به ورجع وربما کان احدهم الطیر لیتطیر فیعتمدها فجاءالشرع بالنهي عن ذلك‘‘(فتح الباري از علامه ابن حجر عسقلاني:10/ 213)
’’تطیر(بدشگونی)یہ ہے کہ دورجاہلیت میں لوگ پرندوں پراعتمادکرتے اورجب ان میں سے کوئی شخص سفرکے لیے روانہ ہونے لگتاتودیکھتاکہ اگرپرندہ اس کے دائیں جانب اڑاہے تووہ اسے اپنے لیے اچھاسمجھتے ہوئے اپناسفرجاری رکھتااوراگروہ پرندے کوبائیں جانب اڑتے دیکھتاتواس سے براشگون لیتااورسفرموقوف کرکے واپس لوٹ جاتااورکبھی کبھاروہ اس مقصدکے لیے خودپرندے اڑاکراپنی قسمت آزماتے کہ یہ دائیں پروازکرتاہے یابائیں پھرشریعت نے اس عمل کوباطل قراردے دیا۔‘‘
احادیث میں اسی کو’زجرالطیر‘کہاگیاہے یعنی پرندے کواس مقصدکے لیے اڑاناکہ اگروہ دائیں جانب اڑے تواسے اپنے آئندہ کام میں اچھاسمجھاجائے اوراگربائیں جانب اڑے تواسے اپنے لیے براسمجھاجائے حالانکہ یہ محض وہم اوروسوسہ ہے جس کا تقدیر سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر تقدیر میں اس سفر(یاکام)میں بھلائی اورنفع مقدرہے تووہ مل کررہے گااوراگرخدانخواستہ مصیبت یانقصان مقدرہے توپھر(سوائے دعاکے)اسے کوئی چیزٹال نہیں سکتی۔
صاحب مفتاح (طاش زائدہ کبریٰ)علم الطیرۃ (بدشگونی)کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطرازہیں کہ
’’یہ فال کی ضدہے یعنی فال میں کسی کام کے کرنے کاشگون لیاجاتاہے جبکہ اس میں کسی کام کے نہ کرنے کاشگون لیاجاتاہے ۔یہ شگون اس طرح لیاجاتاہے کہ کوئی شخص کسی ایسی بات کودیکھتایاسنتاہے جواسے ناپسندمعلوم ہوتی ہے حالانکہ طبعی طورپروہ ناپسندیدہ نہیں ہوتی اورجوچیزیں طبعی طورپرناپسندیدہ ہوتی ہیں مثلالوہے کے کوٹنے کی آوازیاگدھے کی آواز(وغیرہ)انہں ناپسندکرنابدشگونی نہیں کہلاتا۔‘‘(مفتاح السعادۃ لإبن قیم الجوزی: 2/ 338)
دو رحاضرمیں بدشگونی کی مختلف صورتیں:
وہ تمام صورتیں جودورجاہلیت میں توہم پرستی کی بنیادپرلوگوں میں پائی جاتی تھیں اوراسلام نے انہیں باطل قراردے کران کی بیخ کنی فرمادی تھی وہ آہستہ آہستہ پھرمسلمانوں میں لوٹ آئی ہیں اگرچہ اس کی بعض شکلیں قدرے مختلف ہیں لیکن اصلیت کے اعتبارسے بدشگونی کی جدیدوقدیم صورتوں میں قدرے اشتراک ،بہرحال موجودہے ۔اس کی بہت سی مثالیں ذکرکی جاسکتی ہیں مگرازراہ اختصارچندمثالیں ذکرکی جاتی ہیں :
کوا:
اکثرلوگ گھرکی منڈیر(دیوار)پرکوّے کوبولنے سے کسی مہمان کاشگون لیتے ہیں ۔
جھاڑو:
بعض لوگ سمجھتےہیں کہ جھاڑومارنے سے مضروب آدمی کاجسم سوکھ جاتاہے ۔
مرغااذان :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ شام کے وقت اگرکوئی مرغااذان دے تواسے ذبح کرلوکیونکہ اس سے بدشگون لیاجاتاہے ۔
ہتھیلی پرخارش:
بعض لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہاتھ کی ہتھیلی میں خارش ہونے سے مال ودولت ملتاہے ۔اورتلوے میں خارش ہونے یاجوتے پرجوتاچڑھنے سے سفردرپیش ہوتاہے۔
جانور:
بعض لوگ صبح کے وقت کسی خاص چیز،جگہ یاخاص جانورکانام لینامنحوس اوربراسمجھتےہیں ۔
آنکھ پھڑکنا:
بعض لوگ سمجھتےہیں کہ مردکی بائیں اورعورت کی دائیں آنکھ پھڑکنے سے کوئی مصیبت ،دکھ یاتکلیف پیش آئے گی اوراگراس کے برعکس مردوزن کی دوسری آنکھ پھڑکے تویہ کسی خوشی کی علامت ہے ۔
سال مہینے:
بعض لوگ مخصوص سالوں ،مہینوں اورمخصوص دنوں کومنحوص سمجھتےہوئے بدشگونی لیتے ہیں ۔
عدد:
بعض لوگ کسی خاص عددسے برااوراس کے برعکس کسی اورخاص عددسے اچھاشگون لیتے ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ،صورتیں اورحالتیں ہیں جن سے مہذب وغیرمہذب ،جاہل وعالم ،دیہاتی وشہری مختلف قسم کے لوگ مختلف قسم کاشگون لیتے ہیں حالانکہ اچھائی اوربرائی ،خوشی اورغمی ،آسانی اورتنگی وغیرہ صرف اللہ تعالی کےہاتھ میں ہے کوئی چیزبذات خودان خواص کی حامل نہیں ہوتی لہذاکسی چیز کوتقدیرکےمعاملات میں دخیل سمجھناجہالت ہی نہیں بلکہ بسااوقات یہ کفروشرک کی صورت بھی اختیارکرلیتاہے اورکسی مسلمان کویہ زیب نہیں دیتاکہ وہ تقدیرپرایمان لانے کے باوجودایسی توہمانہ باتوں کاشکارہوگا۔
جمیل احمدزینولکھتے ہیں :
’’کسی کومنحوس گردانناجائزنہیں ۔تیراچہرہ رزق کاخاتمہ ہے میں اس چیزسے اچھاشگون نہیں لیتاایسے کلمات کوچھوڑدیناواجب ہے کیونکہ کسی چیزکااس طرح دعوی کرناوہ غیب کوپہنچانے کے دعوی کے مترادف ہے اوریہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کےلیے ہے ۔‘‘(ہلاکت خیزغلطیاں اوران کی اصلاح از جمیل احمدزینو:ص 99)
قرآنی دلائل:
﴿وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَونَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّن الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ 0 فَإِذَا جَاءتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَى وَمَن مَّعَهُ أَلا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللّهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ﴾(سورة الأعراف 7: 130-132)
’’اورہم نے فرعون والوں کومبتلاکیاقحط سالی میں اورپھلوں کی کم پیداواری میں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں ۔پس ان پرجب خوشحالی آجاتی توکہتے کہ یہ توہمارے لیے ہوناہی چاہیے اوراگران کوکوئی بدحالی پیش آتی توموسیٰ اوران کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے ۔یادرکھوکہ ان کی نحوست اللہ تعالی کے پاس ہے لیکن ان کے اکثرلوگ نہیں جانتے ۔‘‘
مذکورہ آیت میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ آل فرعون کواگربھلائی اچھائی اوردنیاوی فوائدحاصل ہوتے تووہ کہتے کہ یہ ہماری محنت کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں اوراگراس کے برعکس دنیاوی نقصانات کاسامناہوتاتوفوراکہہ دیتے کہ یہ سب اس شخص (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام)کی وجہ سے ہواہے ۔گویاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو(نعوذباللہ )منحوس خیال کرتے تھے اورآپ کی موجودگی سے بدشگونی لیتے جبکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس طرح تمام اچھائیاں اس کی طرف سے حاصل ہوتی ہیں اسی طرح نقصان بھی اسی کے حکم سے ہوتاہے یعنی وخیروشرکےتمام اسباب اللہ تعالی ہی کے پاس ہیں ۔
ارشادباری تعالی ہے :
﴿ وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَآئِرَهُ فِي عُنُقِهِ ﴾(سورة بني إسرائيل 17: 13)
’’ہم نے ہرشخص کاپروانہ خیروشراس کی گردن میں لٹکادیاہے۔‘‘
ارشادباری تعالی ہے :
﴿ قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ 0 وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ0 قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ 0 قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ أَئِن ذُكِّرْتُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ﴾(سورة يسين 36: 16- 19)
’’ان (رسولوں)نےکہاکہ ہماراپرودگارجانتاہے کہ بے شک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں اورہمارے ذمہ توصرف واضح طورپرپہنچادیناہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم توتم کومنحوس سمجھتے ہیں اگرتم بازنہ آئے توہم پتھروں سے تمہاراکام تمام کردیں گے اورتم کوہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی ۔ان رسولوں نے کہاکہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے ۔کیااسی کونحوست سمجھتے ہوکہ تم کونصیحت کی جائے بلکہ تم حدسے نکل جانے والے لوگ ہو۔‘‘
جس طرح قوم فرعون نے اپنی بدحالی ،قحط سالی اوردیگرنقصانات کاذمہ دارحضرت موسیٰ علیہ السلام کوقراردیااوران کی موجودگی سےبراشگون لیااسی طرح دیگربہت سے رسولوں اورنبیوں کی قوموں نے بھی اپنے پیغمبروں سے براشگون لیاجیساکہ مندرجہ بالا آیات سے واضح ہے اوراسی طرح قوم ثمودنے حضرت صالح علیہ السلام کےبارے میں کہا۔
﴿ قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ ﴾(سورة النمل 27: 47)
’’وہ کہنے لگے ہم توتیری اورتیرے ساتھیوں کی بدشگونی لے رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا تمہاری بدشگونی اللہ کے ہاں ہے بلکہ تم فتنے میں پڑے ہوئے لوگ ہو۔‘‘
اسی طرح حضورنبی اکرم ﷺ کے دورمیں منافقین کی بھی یہی روش تھی کہ
﴿ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَذِهِ مِنْ عِندِ اللّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلًّ مِّنْ عِندِ الله﴾(سورة النساء 4: 78)
’’اوراگرانہیں کوئی بھلائی ملتی توکہتے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اوراگرکوئی برائی پہنچتی ہے توکہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے ۔انہیں کہہ دوکہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہواکہ انبیاء ورسل جیسی برگزیدہ ہستیوں کوکفارومنافقین ہمیشہ (معاذاللہ)منحوس خیال کرتے ہیں ان کے وجودپاس سے بدشگون لیتے اوراس زعم باطل میں اپنے نبیوں کوقتل کرنے کے درپے بھی ہوئے۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انبیاء ورسل اپنی قوموں کوبت پرستی ،کفروشرک اورتمام اخلاقی برائیوں سے منع کیاکرتے تھے جبکہ ان کی قومیں اپنی عادات سے تائب ہونے کے لیے تیارنہ تھیں ۔
پھردریں اثناء اگروہ کسی آسمانی یازمینی آفت وحادثہ کاشکارہوتے تواسے اپنے شرکیہ اعمال کانتیجہ قراردینے کی بجائے ان نیک ہستیوں (انبیاء)کواس کاذمہ دارٹھہراتے کہ تمہاری اس بت پرستی کے خلاف دعوت وتبلیغ کی وجہ سے ہمارے بت اوردیوتاناراض ہوگئے ہیں اورہمیں شرکاسامناکرناپڑرہاہے جبکہ اللہ تعالی نےہمیشہ یہی بات بیان کی کہ خیروشرکاتعلق تقدیرسے ہے اورجولوگ انبیاء کی دعوت پرلبیک کہتےہیں بھلائی وکامیابی انہی کامقدرہے جبکہ اس کے برعکس کفروشرک کے مرتکب دنیاوآخرت میں نقصان ہی اٹھائیں گے۔
احادیث سے دلائل :
درج ذیل احادیث سے واضح طورپرمعلو ہوتاہے کہ بدشگونی شرک ہے :
1. عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « الطِّيَرَةُ شِرْكٌ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ ». ثَلاَثًا « وَمَا مِنَّا إِلاَّ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ » (سنن أبو داؤد ، كتاب الطب ، باب في الطيرة:3910)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےمروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’بدشگونی شرک ہے ،بدشگونی شرک ہے اورہم میں سے ہرشخص کے دل میں براشگون پیداہوسکتاہے لیکن اللہ تعالی پرتوکل کیاجائے تواللہ تعالی اسے دورفرمادیتے ہیں ۔‘‘
2. عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ عَدْوَى ، وَلاَ طِيَرَةَ ، وَلاَ هَامَةَ ، وَلاَ صَفَرَ » (صحيح بخارى ، كتاب الطب ، باب المجذام:5707)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا چھوت لگنا،بدشگونی لینا،الوکامنحوس ہونااورصفر(دوسرا اسلامی مہینہ)کامنحوس ہونایہ سب لغو خیالات ہیں ۔‘‘
3. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ ، أَوْ تُطِيَّرَ لَهُ أَوْ تَكَهَّنَ ، أَوْ تُكِهِّنَ لَهُ أَوْ سَحَرَ ، أَوْ سُحِرَ لَهُ وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَةً أَوْ قَالَ : مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً ، وَمَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ(المعجم الكبير للطبراني:17/ 355)
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا کہ
’’جس شخص نے فال نکالی یافال نکلوائی یاکہانت کاکام کیایااپنے لیے کروایایاجادوکیایاکسی سے جادوکروایا اس کاہم سے کوئی تعلق نہیں اورجوشخص کسی ’عامل ‘کے پاس گیااوراس کی باتوں پریقین کیاتواس نے اس چیز کے ساتھ کفرکیاجومحمدﷺ پرنازل کی گئی ہے۔‘‘
4. حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ قَبِيصَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ «الْعِيَافَةُ وَالطِّيَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ »(سنن أبوداؤد ، کتاب الطب، باب فی الخط وزجر الطیر:3907)
’’حضرت قبصہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کایہ ارشادگرامی سناکہ علم رمل اورپرندوں کواڑاکریاکسی اورچیز سے بدشگونی لینا’جبت‘ہے ‘‘۔(جبت میں کفروشرک،بت پرستی اورجادووغیرہ تمام مفہوم پائے جاتے ہیں ۔گویاآپ ﷺ نےاس کی مذمت فرمائی ہے۔)
5. عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رضى الله عنهما - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ »(صحیح البخاری ، کتاب الطب، باب الطیر:5753)
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے فرمایا:امراض میں چھوت چھات کی اوربدشگونی کی کوئی اصل نہیں ۔‘‘
6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ عَدْوَى ، وَلاَ طِيَرَةَ ، وَيُعْجِبُنِى الْفَأْلُ » . قَالُوا وَمَا الْفَأْلُ قَالَ « كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ »(صحیح البخاری ، کتاب الطب، باب الطیر:5776)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نےفرمایا چھوت لگناکوئی چیزنہیں اوربدشگونی (کی کوئی حقیقت)نہیں ہے البتہ نیک فال مجھے پسندہے ۔صحابہ نےعرض کیانیک فال کیاہے؟حضورﷺ نے فرمایا کہ اچھی بات منہ سے نکالنایاکسی سے اچھی بات سن لینا۔‘‘
7. عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ وَلاَ غُولَ »(صحیح المسلم ، کتاب السلام، باب لا عدوى ولا طيرة:2222)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا کہ متعدی بیماری اوربدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں اورجن بھوت بھی (اللہ کی مرضی کے بغیر)کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔(کوئی بیماری متعدی ہوتی ہے یانہیں ،اس کاجواب اگلے باب میں ملاحظہ فرمائیں)
8. عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يَقُولُ « لاَ هَامَةَ وَلاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ وَإِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِى شَىْءٍ فَفِى الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ »(سنن أبوداؤد ، کتاب الطب، باب في الطيرة:3921)
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ الو،متعدی بیماری اوربدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں اوراگرکسی چیز سے براشگون لیاجاتاتووہ گھوڑا،گھراورعورت ہوتی‘‘۔
9. عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِىِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُمُورًا كُنَّا نَصْنَعُهَا فِى الْجَاهِلِيَّةِ كُنَّا نَأْتِى الْكُهَّانَ. قَالَ « فَلاَ تَأْتُوا الْكُهَّانَ ». قَالَ قُلْتُ كُنَّا نَتَطَيَّرُ. قَالَ « ذَاكَ شَىْءٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِى نَفْسِهِ فَلاَ يَصُدَّنَّكُمْ »(صحیح المسلم، کتاب السلام، باب تحریم الكهانة وأتيان الكهان:537)
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیاکہ (اس کے بار ے میں آپ کاکیاخیال ہے کہ )دورجاہلیت میں ہم کاہنوں کے پاس جایاکرتے تھے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کے پاس نہ جایا کرو۔میں نے کہا کہ ہم بدشگونی بھی کیاکرتے تھے ؟آپﷺ نے فرمایا کہ یہ محض خیال ہے جودل میں پیداہوجاتاہے اوراس خیال کی بنیادپرکسی چیز سے پیچھے نہ ہٹاکرو‘‘۔
10. عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ مِنْ حَاجَةٍ فَقَدْ أَشْرَكَ ». قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ قَالَ « أَنْ يَقُولَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ لاَ خَيْرَ إِلاَّ خَيْرُكَ وَلاَ طَيْرَ إِلاَّ طَيْرُكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ »(مسند أحمد:2/ 220 )
’’حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص کوبراخیال (بدشگونی)اس کے کام سے روک دے اس نے شرک کیا۔لوگوں نےکہاکہ پھراس کاکفارہ کیاہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں یہ دعاپڑھاکرو:
اللہم لاطیر إلاطیرك ولاخیر إلاخیرك ولا إله غیرك‘‘
’’یااللہ !تیرے شگون کےسواکوئی شگون نہیں ،تیری بھلائی کےسواکوئی بھلائی نہیں اورتیرے سواکوئی معبودنہیں‘‘۔
اس سے معلوم ہواکہ اگردل میں کوئی براشگون پیداہوتومذکورہ دعاپڑھ لینی چاہیے ۔علاوہ ازیں ایسی صورت میں درج ذیل دعابھی پڑھی جاسکتی ہے۔
11. ’’اللَّهُمَّ لاَ يَأْتِى بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِكَ‘‘(سنن أبوداؤد ، کتاب الطب، باب في الطيرة:3919)
’’یااللہ !تیرے سواکوئی بھلائی نہیں لاتااورتیرے سواکوئی برائی دورنہیں کرسکتااورتیری مددکے بغیرہمیں نہ بھلائی کی طاقت ہے نہ برائی سے بچنے کی ہمت ہے‘‘۔
بدشگونی کےخلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعلمائے عظام کے چندواقعات :
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ (تابعی)فرماتےہیں کہ
’’میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھاتھاکہ اچانک ایک پرندہ چیختاہواگزراتولوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگاخیرخیر(یعنی اس پرندے سے اچھائی کاشگون لیا)توحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ماعند هذا لاخیر ولاشر یعنی اس پرندے کاخیروشرسے دورکابھی واسطہ نہیں‘‘۔(تفسير قرطبي :7/ 235 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک واقعہ ذکرکیاہے کہ جب انہوں نے خوارج کےخلاف لڑائی کاپروگرام بنایا توایک نجومی آکرکہنےلگا:
’’اے امیرالمومنین !چاند’عقرب‘میں ہے لہذاآپ کے لیے اس وقت اپنے ساتھیوں کولیکرلڑائی کے لیے نکلنامناسب نہیں‘‘۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ’’میں تواللہ پربھروسہ اورتوکل کرتے ہوئے سفرکروں گاتاکہ تیری تکذیب ہو‘‘۔
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی کے لیے کوچ فرمایا اوراس لڑائی میں اکثروبیشترخارجی مارے گئے اورآپ کوفتح نصیب ہوئی ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کواس کامیابی پربڑی خوشی ہوئی کیونکہ اس لڑائی کے بارے میں حضورﷺ کی ایک پیشگوئی بھی موجودتھی‘‘۔(مجموعة الفتاوى :18/ 109)
ابن عبدالحکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ مدینہ سے سفرکے لیے نکلے جبکہ چاند’عقرب‘میں تھاتومیں نے اس سے براشگون لیتے ہوئے ان کے اس سفرپراس وقت روانگی کوناپسندکرتے ہوئے کہاکہ آج رات چاندکیسی خوبصورتی سے چمک رہاہے ۔عمربن عبدالعزیزنے چاندکی طرف دیکھااور(میرامقصدبھانپ کر)فرمانے لگے کہ اس سے تمہاری مرادیہ ہے کہ چاندعقرب میں ہے اورمجھے اس وقت سفرکے لیے نہیں نکلنا چاہیے !لیکن سنو!
’’انا لانخرج بشمس ولابقمر ولکنا نخرج باللہ الواحدالقہار‘‘
’’ہم شمس وقمرپربھروسہ اوراعتمادکرکے سفرنہیں کرتے بلکہ ہم تواللہ وحدہ لاشریک وذوالجلال والاکرام پرتوکل کرکے نکلتے ہیں‘‘۔(ابجد العلوم :2/ 368)
کسی چیزکامنحوس ہونا! (کوئی چیزمنحوس نہیں ہوتی!)
اس مسئلہ میں اختلاف پایاجاتاہے کہ کوئی چیزبذات خودمنحوس ہوتی ہے یانہیں۔بعض لوگ گھر،بیوی اورسواری کےمنحوس ہونے کے قائل ہیں جبکہ بعض اس کے قائل نہیں اوراس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ چیزوں کےمنحوس ہونے یانہ ہونے کے حوالہ سے دونوں طرح کی روایتیں مذکورہیں مثلاً بعض روایات میں اس طرح ہےکہ
1. « إِنَّمَا الشُّؤْمُ فِى ثَلاَثَةٍ فِى الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ »(صحیح البخاری ، کتاب الجهاد، باب ما يذكر من شؤم الفرس:5093)
’’یعنی تین چیزوں میں نحوست پائی جاتی ہے گھوڑے ،عورت اورگھرمیں‘‘
جبکہ بعض روایات میں اس کے برعکس اس طرح ہےکہ
2.« إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِى شَىْءٍ فَفِى الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ »(صحیح البخاری ، کتاب النكاح، باب ما يتقي من شؤم المرأة:5095)
’’اگرکسی چیزمیں نحوست ہوتی تووہ گھریاعورت یاگھوڑاہے‘‘
یعنی مؤخرالذکر(دوسری )قسم کی روایات میں ہرطرح کی نحوست کی نفی مذکورہے جبکہ مقدم الذکر(پہلی)قسم کی روایات میں ان تین چیزوں میں نحوست کااثبات پایاجاتاہے اوراسی وجہ سے اہل علم میں یہ اختلاف پیداہواکہ ان میں نحوست ہے یانہیں ۔اگرایک ہی قسم کی روایات ہوتیں توپھراس قسم کااختلاف پیدانہ ہوتا۔بہرصورت اس اختلاف کےحل کی راجح صورت درج ذیل ہے :
راجج صورت
راقم کی تحقیق کےمطابق جن روایات میں مذکورہ تین چیزوں کےنحوست کے وجودکااثبات ہے (یعنی اسما الشؤم اورالطیرۃ فی ثلاث والی روایات)وہ ان الفاظ کے ساتھ شاذاورمرجوح ہیں جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ الہ قمطرازہیں کہ
’’وقد رواہ مالك وسفیان وسائرالرواة بحذف إنما لکن هذا الحصر مردود وأما الترمذی فجعل رواية ابن ابی عمرهذہ مرجوحة‘‘(فتح الباري لإبن حجر العسقلاني:6/ 61)
’’امام مالک رحمہ اللہ ،سفیان رحمہ اللہ اوردیگرتمام راویوں نے انما(یعنی کلمہ حصر)کےبغیراسے روایت کیاہے اوریہ حصرمردودہے اورامام ترمذی رحمہ اللہ نےابن عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت (یعنی انماالشؤم فی ثلاث)کومرجوع قراردیاہے‘‘۔
شیخ البانی رحمہ اللہ ’’الطیرة فی المرأة والفرس والدار‘‘والی روایت کے ضمن میں رقمطرازہیں کہ
’’وجملة القول أن الحدیث اختلف الرواة فی لفظه فمنهم من رواه کما فی الترجمة ومنهم من زادعليه فی أوله مایدل علی أنه لاطیرة أو الشؤم (وهمابمعنی واحد کما قال العلماء) وعليه الأکثرون فروایتهم هي الراجحة لان معهم زیادة علم فیجب قبولها وقد تاید ذلك بحدیث عائشة الذی فيه أن أهل الجاهلية هم الذین کانوا یقولون ذلك وقد قال الزرکشی فی الجابة (ص 128)قال بعض الأئمة ورواية عائشة فی هذه اشبه بالصواب ان شاء الله تعالي (یعنی من حدیث ابي هريرة) لموافقته نهية عن الطیرة نها عاما وترغيبه في تركها بقوله: يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب وهم الذين لا يكتبون ‘‘(السلسلة الصحيحة :2/ 728 )
’’خلاصہ کلام یہ ہےکہ راویوں نےاس روایت کے الفاظ میں اختلاف کیاہے ۔بعض نے تواس طرح روایت کیاجیسے مذکورہے جبکہ بعض نے اس کے شروع میں یہ لفظ بھی روایت کئے ہیں ’’لاطیرة اوالشؤم ‘‘(یعنی کوئی چیزمنحوس نہیں)اوراکثراہل علم اسی موقف پرہیں(کہ کوئی چیزنحس نہیں)لہذاانہی راویوں کی روایت راجح ہے کیونکہ انہوں نے زیادہ چیزروایت کی ہے جس کوقبول کرناواجب ہے ۔اس کی تائیدحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ دورجاہلیت میں لوگ ان چیزوں کومنحوس سمجھاکرتے تھے(اورآنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کےباطل نظریات کوردکرتےہوئے فرمایا کہ کوئی چیزمنحوس نہیں اوراگرکوئی چیزمنحوس ہوتی تووہ یہ تین ہوتیں)امام زرکشی رحمہ اللہ اپنی الاجابہ میں رقمطرازہیں کہ
بعض اہل علم نے کہاہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت زیادہ صحیح ہے ۔ان شاء اللہ (یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کےمقابلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت اصح ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے )کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی موافقت آنحضرت ﷺ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ ﷺ نے بدشگونی کی مطلق طورپرنفی فرمائی ہے اوربدشگونی سے اجتناب کی ترغیب دلاتےہوئے فرمایا کہ میری امت سے سترہزارافرادبغیرحساب وکتاب کے جنت میں جائیں گے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوبدشگونی نہیں لیتے۔‘‘
علاوہ ازیں شیخ البانی نے ’’الطیرة فی المرأة والفرس والدار‘‘والی روایت کی سندپرصحت کاحکم لگانے کےباوجوداسے شاذقراردیاہے۔(السلسلة الصحيحة :2/ 726)
نیزشیخ البانی رحمہ اللہ ’’أن یك من الشؤم شئی حق‘‘والی روایت کےتحت فرماتےہیں کہ
’’والحدیث یعطی بمفهومه ان لاشؤم فی شئی‘‘(السلسلة الصحيحة :1/ 182)
’’اس حدیث کاواضح طورپریہ یہی مفہوم ہے کہ کسی چیزمیں بھی نحوست نہیں۔‘‘
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی تائیدمیں مزیدایک صحیح حدیث ....یعنی
’’لاشؤم وقد یکون الیمن فی ثلاثة فی المرأة والفرس والدار‘‘(سنن ابن ماجة :1/ 614)
’’نحوست کسی چیز میں نہیں اورتین چیزوں میں برکت ہے یعنی گھر،عورت اورگھوڑے میں‘‘
درج کرنے کے بعدلکھاہےکہ
2. ’’والحدیث صریح فی نفی الشؤم فهو شاهد قوی للاحادیث التی جائت بلفظ إن کان الشؤم فی شئی ‘‘ونحوه خلافا للفظ الآخر’’الشؤم فی ثلاث‘فهو بهذا اللفظ شاذ مرجوح‘‘(السلسلة الصحيحة :4/ 565)
’’یہ حدیث واضح طورپرنحوست کی نفی کردیتی ہے اوریہ ان احادیث کے لیے قوی شاہدہے جن میں یہ مذکورہے کہ ’’اگرنحوست کسی چیز میں ہوسکتی تووہ عورت ،گھراورگھوڑاہوتے ‘‘۔اسی طرح یہ حدیث ان احادیث کے خلاف ہے جن میں یہ مذکورہے کہ ’’تین چیزوں میں نحوست ہے یعنی عورت،گھراورگھوڑے میں‘‘۔نیزنحوست کے اثبات والی یہ روایت (یعنی جس میں ہے کہ تین چیزوں میں نحوست ہے )ان الفاظ کے ساتھ شاذاورمرجوح ہے‘‘۔
معلوم ہواکہ اصول حدیث کی روسے نحوست کےاثبات والی روایات مرجوح اورشاذہیں جبکہ نحوست کی نفی والی روایات راجح ومحفوظ ہیں لہذااس صورت میں یہ ثابت ہواکہ کسی چیز میں بھی نحوست نہیں ہے!
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پراعتراض
مسنداحمدمیں ابوحسان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دوآدمی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اورکہنے لگے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ عورت،گھراورگھوڑے میں نحوست ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی توغصے کااظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ اس ذات کی قسم جس نے ابوالقاسم پرقرآن نازل کیاآپﷺتوایسانہیں کہاکرتے تھے البتہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ دورجاہلیت میں لوگ یہ کہاکرتے تھے کہ عورت،گھراورگھوڑے میں نحوست ہے۔(اورآپ ﷺ نے ان جاہلوں کے اس اعتقادکی نفی فرمائی ہے)پھرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿ مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ﴾(فتح البارى لإبن حجر العسقلاني :6/ 561)
’’تمہیں جوبھی مصیبت پہنچتی ہے یازمین پرجوآفت آتی ہے ہم اسے پیداکرنے سے پہلے ہی تقدیرمیں لکھ چکے ہیں اوریہ کام اللہ تعالی پرآسان ہے ‘‘۔
بعض لوگ اس روایت سے یہ مسئلہ اخذکرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قرآن مجیدکی آیت سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کوردکردیاکہ ان کی روایت قرآن سے متعارض تھی حالانکہ اصل مسئلہ کچھ اس طرح ہے کہ یاتوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کوصحیح طرح ین یاسمجھ نہ سکے تھے یاپھرحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننے والوں نے صحیح طرح سنااورسمجھانہیں اوریہ دونوں احتمال قوی ہیں ۔پہلے احتمال کی تائیدمسندطیالسی کی اس روایت سےہوتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہاگیا کہ اللہ کےرسول ﷺ کے حوالہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ
’’عورت ،گھراورگھوڑے میں نحوست ہے ‘‘توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کوصحیح طرح محفوظ نہیں کرپائے اس لیے کہ جب وہ داخل ہوئے تھے تواللہ کے رسول ﷺ یہ فرمارہے تھے کہ
’’اللہ تعالی یہودکوتباہ وبربادکرے جویہ کہتے ہیں کہ عورت ،گھراورگھوڑے میں نحوست ہے ‘‘
توابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث کاآخری حصہ (ان الشؤم فی الداروالفرس والمرأة /عورت،گھراورگھوڑے میں نحوست ہے‘‘)سن لیاجبکہ وہ پہلا حصہ (قاتل الله اليهود وةيقولون ،اللہ تعالی یہودکوتباہ وبربادکرے جویہ کہتے ہیں )نہ سن سکے۔‘‘(السلسلة الصحيحة :2/ 725)
دوسرے احتمال کی تائیداس روایت سے ہوتی ہے کہ ’’خودحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیاکہ کیاآپ ﷺ نے بذات خوداللہ کے رسول ﷺ سے سناہے کہ گھر،گھوڑے اورعورت میں نحوست ہے ؟توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگرمیں ہاں کہوں تومیں اللہ کے رسول ﷺ کے ذمہ وہ چیز لگابیٹھوں جواللہ کے رسول نے نہیں فرمائی۔البتہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے یہ سناہے کہ سچاشگون نیک فال(اچھاکلمہ)ہے اورنظربدحق ہے۔‘‘(مسند أحمد :2/ 289)
اس لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کوخلاف قرآن کہہ کرردنہیں کیاگیابلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اعتراض کی خودیہ وضاحت فرمادی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صحیح طرح مکمل حدیث سن نہیں سکے وگرنہ مکمل حدیث قرآن کےخلاف ہرگزنہیں۔اوریہ بات ہی محال ہے کہ کوئی حدیث جوواقعی اللہ کے رسول سے ثابت ہو،وہ قرآن کےمخالف ثابت ہوجائے کیونکہ قرآن کی طرح حدیث بھی وحی ہے اوروحی کاوحی سے تضاد،ٹکراؤنہیں ہوسکتا!
﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا ﴾
فال کیاہے؟
فال کی (اصطلاحی)تعریف
’’وهو علم یعرف به بعض الحوادث الأتية من جنس الکلام المسموع من الغیر او یفتح المصحف أوکتب المشائخ کدیوان الحافظ والمثنوی ونحوهما‘‘(مفتاح السعادۃ :2/ 337)
’’یعنی فال ایساعلم ہے جس کے ذریعے مستقبل کےبعض واقعات کومعلوم کرنے کی کوش کی جاتی ہے اورکسی شخص سے اچانک کوئی بات سننے یاقرآن مجیدکھولنے یاقرآن کےعلاوہ دیگرکتابیں مثلادیوان حافظ اورمثنوی وغیرہ کھولنے پراس کادارومدارہوتاہے‘‘۔
دورجاہلیت میں لوگ اپنے سفر،کاروبار،شادی اوردیگرمعاملات میں عموماً تیروں کے ذریعے فال نکالتے اوران تیروں پرہاں ،کرلووغیرہ کے الفاظ ہوتےیااس کے برعکس نہیں ،نہ کرووغیرہ جیسے الفاظ ہوتے اوربعض تیربالکل خالی ہوتے۔اگرایسا تیرنکلتا جس پرمطلوبہ کام کرنے کامشورہ ہوتاتووہ لوگ اس کے مطابق مطلوبہ کام کرتے،اگرنہ کرنےکاتیرنکلتاتواس کام کوچھوڑدیاجاتا اوراگرسادہ تیرنکلتا تودوبارہ قسمت آزمائی کے لیے فال نکالی جاتی۔
فال کی دوقسمیں:
فقہاء وعلماء نے فال کی دوقسمیں بیان کی ہیں جیسا کہ امام قرافی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ
’’فال کی دوقسمیں ہیں ،ایک مباح وجائز ہے (یعنی جس میں اچھے کلمات کی بنیادپرحسن ظن قائم کیاجاتاہے )اوروہ حدیث کہ نبی کریم ﷺ اچھی فال کوپسندکیاکرتے تھے،اسے اسی مباح قسم پرمحمول کیاجائے گا اوردوسری قسم حرام ہے۔
جیساکہ امام طرطوشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ قرآن سے یاعلم رمل سے یاقرعہ وغیرہ سے فال لینایہ سب حرام ہے کیونکہ یہ استسقام میں شامل ہے اوراستسقام یہ ہےکہ الہ عرب کےپاس فالنامے کےتیرہوتے۔ایک پرافعل اوردوسرے پرلاتفعل اورتیسرے پرغفل (یعنی کچھ نہ)ہوتا۔اگروہ پہلا تیرنکلتاتووہ مطلوبہ کام کرتے ،دوسری قسم کانکلتا تووہ مطلوبہ کام نہ کرتے اورتیسری قسم کاتیرنکلتا تودوبارہ پھرتیرسے فال نکالتے ۔یہ غیب معلوم کرنے کی ایک قسم ہےاوراسے استسقام اس لیے کہا گیاہےکہ اس سے اچھی قسم (یعنی ہاں والے تیر)کوتلاش کیاجاتی اوربری قسم (یعنی نہ کرووالے تیر)کی وجہ سے مطلوبہ کام نہ کیاجاتایہ وہی استسقام بالازلام ہے جس کی حرمت قرآن مجیدمیں موجودہے لہذاایسی فال نکالنے کاعمل حرام ہے۔‘‘(الفروق للقرافي :240-141 )
جائزفال کونسی ہے؟
فال کی ایک قسم جائزومباح ہے اوروہ یہ ہے کہ کسی اچھے کلمہ کوسن کراچھاگمان کرنامثلا ً بیمارشخص کسی سے تندرست یاسالم اورصحیح وغیرہ کالفظ سن کریہ گمان کرے کہ وہ عنقریب صحت مندہوجائے گایاکوئی لشکرلفظ غنیمت سن کریہ فال لے کہ انہیں اس معرکہ میں کامیابی حاصل ہوگی یاکوئی طالب علم امتحان سے پہلے لفظ نجات (نجاح یانجح وغیرہ)سن کریہ حسن ظن قائم کرے کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوجائے گأ تواس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جس طرح خوشبوسے انسانی ذہن فرحت وتازگی محسوس کرتاہے اسی طرح اچھے کلمات سے بھی انسان طبعی طورپرخوشی محسوس کرتاہے ۔اس لیے اچھے کلمات سے فال لینا یعنی اچھا گمان قائم کرنابالکل مستحب ہے بلکہ اس لحاظ سے اسے سنت بھی کہاجاسکتاہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی اچھے کلمات سے فال لینا(یعنی حسن ظن قائم کرنا)پسندکیاہے اورآپ ﷺ نے فال کی تعریف ہی یہ کی کہ اس سے مراداچھاکلمہ (الکلمة الطیبة یا الکلمة الصالحة)ہے اوردرج ذیل احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے :
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - قَالَ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « لاَ طِيَرَةَ ، وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ » . قَالَ وَمَا الْفَأْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ « الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ » (صحيح البخاري، كتاب الطب، باب الفال :5755)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’بدشگونی کی کوئی اصل نہیں اوراس سلسلہ میں بہترین چیز ’فال‘ہے ۔لوگوں نے پوچھایارسول اللہ ﷺ !فال کیاہے؟آپ ﷺ نے فرمایا :فال وہ عمدہ بات (نیک اوراچھی بات)ہے جوتم میں سے کوئی (اچانک)سنتاہے‘‘۔
عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ ، وَيُعْجِبُنِى الْفَأْلُ الصَّالِحُ ، الْكَلِمَةُ الْحَسَنَةُ » (صحيح البخاري :5657)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’چھوت لگ جانے کی کوئی اصل نہیں(یعنی کوئی بیماری متعدی نہیں)اورنہ بدشگونی کی کوئی اصل ہے اورمجھے اچھی فال پسندہے یعنی کوئی کلمہ خیر‘‘۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- «كَانَ لاَ يَتَطَيَّرُ مِنْ شَىْءٍ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ عَامِلاً سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ فَإِذَا أَعْجَبَهُ اسْمُهُ فَرِحَ بِهِ وَرُئِىَ بِشْرُ ذَلِكَ فِى وَجْهِهِ وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهُ رُئِىَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِى وَجْهِهِ وَإِذَا دَخَلَ قَرْيَةً سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا فَإِنْ أَعْجَبَهُ اسْمُهَا فَرِحَ بِهَا وَرُئِىَ بِشْرُ ذَلِكَ فِى وَجْهِهِ وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهَا رُئِىَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِى وَجْهِهِ » (سنن أبو داؤد ، كتاب الطب ، باب في الطيرة )
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم ﷺ کسی چیز سے براشگون نہیں لیاکرتے تھے اورجب آپﷺکسی شخص کوذمہ داربناکرکہیں روانہ فرمانہ چاہتے تواس کانام دریافت کرتے۔اگراس کانام آپ کو پسند آتا تو آپ ﷺ کو پسندآتاتوآپ خوش ہوتے اورخوشی سے آپ کاچہرہ مسکرااٹھتالیکن اگرآپ اس نام کوناپسندکرتے توناپسندیدگی کے آثاربھی آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہرہوجاتے۔اسی طرح جب آپ ﷺ کسی بستی میں داخل ہوتے تواس بستی کانام دریافت فرماتے ،اگروہ نام آپ کوپسندآتاتوآپ کے چہرہ مبارک پرخوشی کے آثاردکھائی دیتے اوراگروہ نام پسندنہ آتاتوآپ کے چہرہ مبارک پرکراہت کے آثارنمایاں ہوتے۔‘‘
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَتَفَاءَلُ وَلاَ يَتَطَيَّرُ وَيُعْجِبُهُ الاِسْمُ الْحَسَنُ (مسند أحمد :1/ 304)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ حضورﷺ فال لیاکرتے تھے اوربدشگون نہیں لیتے تھے۔ آپﷺ کواچھانام پسندتھا‘‘۔
ان روایات سے معلوم ہواکہ اچھے کلمات سن کراچھاگمان کرناہی ’فال‘ہےکیونکہ فال کی یہی تعریف حضور ﷺ سےمنقو ل ہے (اوریہی وجہ ہےکہ آپ اچھے ناموں کوپسندفرماتے اوراچھے نام رکھنے کی ترغیب دلاتے اوراگرکسی کانام براہوتاتوآپ اسے تبدیل فرمادیتے)جبکہ مشرک لوگ فال سے فالنامہ مرادلیتے اوراچھے اوربرے دونوں طرح کامعاملات کی پیشگی معلومات کے لیے تیروں کی قرعہ اندازی پراعتمادکرتے۔اگران کی فال ناپسندیدہ چیز برآمدہوتی تووہ بدظنی کاشکارہوجاتے اوراس بدظنی کے پیچھے کوئی معقول وجہ بھی نہ ہوتی۔اس لیے اسلام نےاس چیز کوناپسندکرتےہوئے اس سےمنع فرمادیاہے جیساکہ آئندہ تفصیل سےمعلوم ہوگا۔
فال کی دوسری اورجھوٹی قسم...یعنی فالنامہ !:
فال کی دوسری قسم جونہ صرف ناجائز بلکہ کفروشرک تک پہنجانے والی ہے وہ یہ ہےکہ انسان کسی کام سے پہلے محضت توہم پرستی سے اس کے اچھے یابرے نتائج معلوم کرنے کی کوشش کرے۔اس لیے اسے فالنامہ بھی کہاجاسکتاہے۔یادرہے کہ مختلف ظاہری اسباب وعوامل اورسابقہ تجربات کے ذریعے کسی کام کے پیشگی اثرات ونتائج معلوم کرنافالنامہ میں داخل نہیں بلکہ یہ ظاہری اسباب پرموقوف ہے اس لیے تجربات سے فائدہ اٹھاناقطعی طورپردرست اوربصیرت ودانائی کی علامت ہے مثلا کوئی شخص خاص قسم کاکاروبار کرناچاہتاہے تووہ اس سلسلہ میں ایسے لوگوں سے رابطہ کرتاہے جوپہلے سے یہ کاروبارکررہے ہیں یاکسی وقت کرتے رہے ہیں تاکہ اس کاروبار کے تمام اچھے ،برے ،منافع اورنقصانات پرمشتمل پہلوواضح ہوجائیں تویہ اقدام بلاشبہ جائز ہےلیکن’فٹ پاتھ‘پربیٹھے سارے جہان کی خاک پھانکنے والے ،دوکوڑی کے محتاج جاہل واحمق اورکندہ ناتراش عامل کے پاس بیٹھ کرکسی کاغذ پرآنکھیں بندکرکے انگلی پھیرنا اورہاں یاناں میں اپنے مقصدکاحل تلاش کرنااورغیب جاننے کی کوشش کرناحماقت وبے وقوفی نہیں تواورکیاہے؟اس عمل (فالنامہ)کاتعلق عقیدے سے ہے کہ انسان اپنی اچھی یابری نامعلوم تقدیرکی بجائے ان نجومیوں ،کاہنوں اورعاملوں کی فالوں پریقین کرلیتاہے اورناپسندیدہ فال نکلنے پراپنی قسمت کاماتم کرتاہے اورناامیدہوکربیٹھ جاتاہے حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔فالنامے کی ہاں یاناں یافال کے کسی فیصلے کی کوئی اٹل حقیقت نہیں بلکہ ہرشخص کی تقدیرہی اٹل ہے اوردعاکے علاوہ کوئی چیز اس تقدیرمیں تبدیلی پیدانہیں کرسکتی خواہ کوئی فال جیساخیالی عمل ہویاکوئی واقعی زبردست قوت،اللہ کےنزدیک یہ سب ہیچ ہیں۔
اگرغورکیاجائے توتقدیرکوایمانیات میں داخل کرنے کی وجہ ہی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہرمسلمان میں عقیدے کی پختگی پیداہواسی لےی اللہ تعالی نے فرمایا کہ
﴿ مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴾(سورة الحديد :22)
’’زمین پراورتمہاری جانوں پرجوکوئی مصیبت واقع ہوتی ہے وہ پہلے ہی تقدیرمیں لکھی جاچکی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیداکریں اوریقیناً یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے‘‘۔
دوسری بات یہ ہے کہ ناپسندیدہ فال نکلنے پرانسان ناامیدہوجاتاہے جبکہ اللہ تعالی کی رحمت سے ناامیدہونامسلمان کاکام نہیں بلکہ یہ کافرکاشیوہ ہے ۔ارشادباری تعالی ہے:
﴿ وَلاَ تَيْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴾(سورة يوسف 12 : 87)
’’ اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ یقینا اللہ کی رحمت سے ناامید وہی لوگ ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔‘‘
دورحاضر میں بھی فال نکالنے والوں کاپیشہ جاہل عوام میں خاصامقبول ہے ۔شہروں میں جگہ جگہ مختلف نجومیوں،دست شناسوں ،کاہنوں اورعاملوں کے بڑے بڑے بورڈآویزاں ہوتےہیں جن پرناممکن کوممکن بنانے کے بلندبانگ دعوے درج ہوتے ہیں۔مثلاً ’’محبوب آپ کے قدموں میں‘‘،....’’جوچاہوسوپوچھو‘‘.....’’ہرتمناپوری ہوگی‘‘......’’کالے علم کی کاٹ پلٹ کے ماہر‘‘.......’’ماہربنگالی عامل‘‘.....’’جادواورتعویذ گنڈے کے ماہر‘‘.....وغیرہ وغیرہ ۔
اسی طرح ان لوگوں کے پاس تربیت یافتہ طوطے بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعے مختلف لفافے اٹھواکرکھولے جاتے ہیں اورجاہلوں کوان کی قسمت کاحال بتایاجاتاہے ۔اسی طرح ان میں سے بعض نے چاک اورسلیٹ بھی رکھی ہوتی ہے جس پرمختلف خانوں میں حروف تہجی یاحروف ابجدلکھے ہوتے ہیں اورگاہک سے آنکھیں بندکرواکراس کی انگلی ان پرگھماکرکسی ایک حرف پراچانک رکوادی جاتی ہے اورپھران حروف کے اپنی طرف سے لکھے ہوئے خودساختہ نتائج میں سے کوئی نتیجہ سناکرچلتاکیاجاتاہے۔
اسی طرح اس موضوع کی بہت سی کتابیں بھی مارکیٹ کی زینت بنی ہوئی ہیں ان پرایسے ہی چھوٹے اورخودساختہ فالنامے درج ہوتےہیں کہ سائل ایک ہی مرتبہ ایسی کتاب خریدکررکھ لے پھرساری زندگی اس میں موجودجعلی فالناموں سے مشورہ کرکے عمل واقدام کرتارہے حالانکہ ان کی کوئی حقیقت نہیں اورنہ ہی ان سے غیبی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ عمر بھائی! بہت ہی اچھا اور مفید مضمون ہے، جس میں تمام دلائل کو اکٹھا کر کے ایک راجح رائے اختیار کی گئی ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھیں!
لیکن یہ ضرور وضاحت کر دیا کریں کہ مضمون لکھنے والا کون ہے؟؟؟
 
Top