• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہنشاہ کا لقب اختیار کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شہنشاہ کا لقب اختیار کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب

سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلیٰ مَنْ زَعَمَ أَنَّہُ مَلِکُ الْأَمْلَاکِ ، لَا مَلِکٌ إِلاَّ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) 1 وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : (( أَخْنَی الْأَسْمَائِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَاللّٰہِ؛ رَجُلٌ تَسَمّٰی: مَلِکَ الْأَمْلَاکِ۔)) 2 وَفِيْ رِوَایَۃٍ أُخْرٰی: (( أَخْنَعُ الْأَسْمَائِ عِنْدَاللّٰہِ رَجُلٌ تَسَمّٰی بِمَلِکِ الْأَمْلَاکِ۔ )) 3
'' اللہ عزوجل کا غضب و غصہ اس آدمی پر بہت سخت ہوجاتا ہے کہ جو خود کو بادشاہوں کا بادشاہ (شہنشاہ) سمجھے، جب کہ بادشاہ تو صرف اللہ عزوجل ہے۔'' ایک دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا: ''قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ناموں سے زیادہ بے ہودہ نام اس شخص کا ہوگا جو ''شہنشاہ '' کہلاتا ہو۔ '' ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک تمام ناموں سے زیادہ دھوکے اور بے وفائی والا نام '' شہنشاہ '' ہے۔ ''
اوپر حدیث مبارک میں مذکور دونوں لفظ '' أَخْنَعْ اور أَخْنَی '' ذلت و رسوائی اور بدقماشی کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
قاضی عیاضؔ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا معنی ہے کہ: ذلت و رسوائی میں (کل قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے) یہ لفظ '' شہنشاہ '' سب سے زیادہ ہوگا۔ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب یہ لفظ ''شہنشاہ '' تمام ناموں میں سب سے زیادہ بندے کو ذلت سے دوچار کرنے والا ہوگا تو جس نے اپنا یہ نام رکھا ہوگا وہ اس سے بھی زیادہ رسوا ہوگا۔
'' شہنشاہ '' 4

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۹۸۸۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: أبغض الأسماء إلی اللّٰہ، رقم: ۶۲۰۵۔
3 أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: أبعض الأسماء إلی اللّٰہ، رقم: ۶۲۰۶۔
4 تفصیلی تشریح کے لیے: (۱) امام مناوی کی فیض القدیر، جلد نمبر: ۱، صفحہ: ۵۱۳۔ (۲) امام قرطبی رحمہ اللہ کی '' الجامع لاحکام القرآن '' جلد نمبر: ۱۸، ص: ۱۹۱۔ (۳) فتح الباری، جلد نمبر: ۱۰، ص: ۵۹۱۔ (۴) ابن کثیر رحمہ اللہ کی '' تفسیر القرآن العظیم '' جلد نمبر: ۳، ص: ۲۴۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ جو اپنے آپ کو سارے بادشاہوں کا بادشاہ (شہنشاہ) کہلارہا ہوتا ہے۔ اس کی ابتداء دیکھو ایک حقیر نطفےکے قطرے سے ہوتی ہے اور اس کا انجام (مرنے کے بعد) ایک گندے مردار کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ آدمی اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک اپنے پیٹ میں پاخانہ بھرا رہتا ہے۔ مگر اس حقیقت کے باوجود بادشاہوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ حالاں کہ اللہ عزوجل سب سے بڑا بادشاہ ہے اور یہ گندہ انسان اس رب اقدس کا بھی بادشاہ بنا پھرتا ہے۔
علاوہ ازیں انسان دیگر ایسے ایسے نام بھی رکھتا ہے کہ جن سے اس کی تعظیم چھلکی پڑتی ہے، یعنی وہ تعظیم کہ جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے۔ اور اُس ربّ کریم نے اس تعظیم کے لیے کوئی دلیل بھی نازل نہیں فرمائی۔ اللہ عزوجل کے سوا کوئی بادشاہ نہیں اور وہی بادشاہوں کا بادشاہ '' شہنشاہ '' ہے۔ وہی اللہ ربّ العالمین عظمت و طاقت، بادشاہی اور کبریائی والا ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی ہے:
{قُلِ الّٰلہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o}[آل عمران:۲۶]
'' کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ ''
اللہ عزوجل ہی سب سے بلند و بالا، سب سے بڑا، سب سے زیادہ عظمت والا اور عالی مرتبہ و مقام والا ہے۔ ہر ہر چیز (چاہے جان دار ہو یا بے جان، انسان، جن ہوں یا فرشتے) اس کے غلبہ و بادشاہی اور اس کی عظمت کے نیچے اور تابع ہے۔ ایک اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی خالق و مالک اور پروردگار ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ عظمتوں والا ہے کہ جس سے بڑا کوئی عظمت والا نہیں۔ وہ ایسا بلند مرتبہ ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بلند مرتبے والا نہیں۔ وہ ایسا بڑا ہے کہ اس سے بڑا کوئی نہیں۔ ان خرافات سے وہ بہت زیادہ بلند، بہت مقدس اور بالکل ہی پاک ہے کہ جو سرکش قسم کے مشرک بکا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{کَلاَّ اِِنَّا خَلَقْنَا ہُمْ مِمَّا یَعْلَمُوْنَ o} [المعارج:۳۹]
''ہر گز نہیں' بلاشبہ ہم نے اُن کو اس چیز سے پیدا کیا جس کے متعلق وہ خوب جانتے ہیں۔''
اس پر اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں یہ سرکشی اور بے خوفی؟ کسی کو ایسا تکبر جچتا ہی نہیں۔
اس لیے کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کوئی نام رکھے اور نہ اللہ عزوجل کے سوا کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسا کوئی دعویٰ کرے۔ وہ ایک ربّ العالمین ہی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ '' شہنشاہ '' ہو۔ وہ اکیلا ہی تمام حاکموں کا حاکم ہو۔ وہی اللہ ربّ العزت اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ تمام بادشاہوں پر بھی حکم چلائے۔ درحقیقت ایک اللہ کے سوا کوئی بھی حقیقی بادشاہ نہیں ہے۔ اگرچہ کوئی اپنے آپ کو بادشاہ کیوں نہ کہلاتا پھرے۔ اگر کسی کو بادشاہ کہا جائے تو یہ مجازاً ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی بادشاہی غیر مطلق مقید ہے۔ بلکہ ہر بادشاہ کی بادشاہی اور سلطنت نقص اور عیب سے عبارت ہوتی ہے کہ جس کا انجام زوال اور تباہی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بنا پر اللہ تعالیٰ ہر بادشاہ پر ناراض نہیں ہوتا۔ کیونکہ بعض بادشاہ اللہ کے مؤمن بندے اور عدل و انصاف کرنے والے، اسلام کو بطورِ قانون و شریعت اپنانے والے تھے۔ جیسے کہ سیّدنا سلیمان بن داؤد علیہما السلام ۔ بلکہ اللہ عزوجل کی ناراضگی کا سبب کسی ایسے بادشاہ کا اللہ عزوجل کی ربوبیت و اُلوہیت میں جھگڑا کرنا ہے۔ چنانچہ ایسا بادشاہ اس بات کا حقدار ہوجاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیی اس پر شدید ناراض ہو کر اس کی نہایت درجہ کی اہانت کرے۔ اور اس کو غایت درجہ کی ذلت سے دوچار کرے۔ اور قیامت والے دن اس کی ایسی جرأت اور اس نام کے اختیار کرنے میں اس کا حیاء سے کام نہ لینے کی بنا پر اسے ساری مخلوق کے قدموں تلے روندوا ڈالے کہ جو نام ایک اللہ ربّ العالمین کے سوا کسی کے لیے جائز ہی نہیں ہے۔
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں ہر ہر چیز اور ہر ہر فعل و قول اور عمل میں ادب سکھانے کی بھی تعلیم ہے۔ اس لیے کہ '' شہنشاہ '' والے نام سے ڈانٹ پلانے میں اس سے مطلق طور پر منع کرنا مقصود ہے۔ چاہے کسی نے شہنشاہ والا نام یہ جان کر رکھا ہو کہ وہ دنیا جہان کے بادشاہوں کا بادشاہ ہے یا دنیا کے بعض ملکوں کے بادشاہوں کا بادشاہ۔ چاہے وہ دنیا کے قانون میں اس کا حقدار تھا یا نہیں۔ اور یہ بات بھی مخفی نہیں ہے کہ جس آدمی نے اس نام کا ارادہ کیا ہو وہ اس سچا تھا یا جھوٹا، دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اس موضوع پر علامہ محمود الورّاق کی نظم کے چند اشعار بہت زبردست ہیں۔

عَجِبْتُ مِنْ مُعْجِبٍ بِصُوْرَتِہِ​
وَکَانَ فِیْ الْأَصْلِ نُطْفَۃ مُذرّہ​
وَہُوَ غَدًا بَعْدَ حُسنِ صُورَتِہِ​
یَصِیرُ فِی اللَّحْدِ جِیْفَۃ قَذرہ​
وَہُوَ عَلَی تِیْہِہِ وَنخوّتِہِ​
مَا بَیْنَ ثَوْبَیہ یَحْمِلُ الْعَذْرَہ​

'' اپنی شکل پر خوشی کا اظہار کرنے والے پر میں حیران ہوتا ہے کہ اصل میں دیکھو یہ ایک حقیر سا نطفہ تھا۔ کل وہ اپنی شکل و صورت کے حسن کے بعد اپنے گندے مردار جسم کے ساتھ قبر میں چلا جائے گا۔ وہ اپنے غرور اور تکبر پر دو کپڑوں (پائجامہ اور کرتہ) کے مابین پائخانہ والی گندگی اُٹھائے پھرتا ہے۔ ''
ایک دوسرا شاعر کہتا ہے:

ہَلْ فِی ابْنِ آدَمَ غَیْرَ الرَّأْسِ مَکْرَمَۃٌ​
وَہُوَ بِخَمْسٍ مِنَ الْأَوْسَاخِ مَضْرُوْبُ​
أَنْفٌ یَسِیْلُ وَأُذُنٌ رِیْحُہَا سَہِکٌ​
وَالْعَیْنُ مُرْمَصَۃٌ وَالثَّغْرُ مَلْہُوْبُ​
یَا ابْنَ التُّرَابِ! وَمَا کُوْلُ التُّرَابِ غَدًا​
قَصْرًا فَإِنَّکَ مَأکُوْلٌ وَّمَشْرُوْبُ​

'' کیا ابن آدم میں سر کے علاوہ بھی کوئی عزت کا مقام ہے۔ اور صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کی مثال پانچ گندگیوں کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔ (۱)... ایک ناک ہے (اس سر میں کہ جسے آدمی غرور سے اونچا کیے رکھتا ہے۔) کہ جو بہتی رہتی ہے۔ (کبھی خشک ہوئی تو کیا ہوا؟) اور کان ہے کہ جس کی بو نہایت بدبودار ہوتی ہے۔ پھر آنکھ ہے کہ جس میں گدیں لگ جاتی ہیں۔ اور منہ ہے کہ جو بھوک سے کھلے دھانے کی طرح بھڑک اُٹھتا ہے۔ اے مٹی کے بیٹے! کل کو عاجزی و بے بسی کے ساتھ مٹی کی غذا بننے والے انسان! بلاشبہ تو مٹی کا ماکول و مشروب بننے والا ہے۔ (اس لیے فخر اور تکبر سے کام نہ لے۔ ) ''

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top