• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ
از قلم: محمد زبیر شیخ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے​
مسلک اہل حدیث اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود اسلام۔ اسلام اور اہل حدیث دونوں ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ برصغیر میں جو پہلا مسلمان آیا، وہ اہل حدیث ہی تھا۔ پہلی صدی ہجری کے وسط اور آخر میں ہندوستان کے جنوبی ساحلی شہروں میں مسلمان تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا اور کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آئے۔ جن کی قبریں مکران، سندھ اور مالا بار کے ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں آنے والے مسلمان تاجر مسلکاً اہل حدیث تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ساحلی شہروں میں حنفیت کو کبھی فروغ نہیں ملا۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم رحمہ اللہ بھی اہل حدیث ہی تھے کیونکہ وہ فقہ کے فروغ سے صدیوں پہلے ہندوستان آئے۔ یہ اہل حدیثوں کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پھانسی کے پھندوں کو چوم کر اور عبور دریائے شور وکالا پانی کی سزائیں بھگت کر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ اس کا سنگ بنیاد سید احمد شہید رحمہ اللہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ اور ان کے دیگر جانباز ساتھیوں نے بالا کوٹ میں 1831؁ء میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے رکھا۔ اور آخر کار ہمارے اسلاف کی کوششیں رنگ لائیں اور اللہ کے فضل و کرم سے 14اگست 1947؁ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ یہ ملک جس میں ہم رہ رہے ہیں، یہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، لیکن افسوس 69 برس گزر جانے کے بعد بھی اس ملک کے اندر اسلام کا نفاذ نہ ہوسکا۔ ہمیں بد قسمتی سے کوئی بھی ایسا حکمران نصیب نہ ہوا جو اس ملک پاکستان کے اندر اسلام کا نفاذ کرسکتا۔ اس ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے بہت کوششیں ہوئیں۔ کوشش کرنے والوں میں ایک سیالکوٹ کا نوجوان تھا جس نے اہل حدیثوں کو منظم کیا اور وقت کے حکمرانوں کو للکارا۔ میری مراد علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ ہیں۔ آپ 31مئی 1945؁ء میں عدم آباد میں جہان رنگ وبو میں تشریف لائے۔ آپ کا حافظہ نہایت قوی اور ذہانت بلا کی تھی۔ آپ نے نو (9) سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور وہاں سے درس نظامی کیا۔ صَرف، نحو، منطق، اصول حدیث اور اصول فقہ کی بنیادی کتابیں حفظ کیں۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا ابو البرکات احمد مدراسی رحمہ اللہ، محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اور مولانا شریف اللہ خان رحمہ اللہ ہیں۔ آپ جب تک گوجرانوالہ میں پڑھتے رہے، آپ کے والد حاجی ظہور الٰہی نے آپ کے کھانے کا انتظام اپنی گرہ سے کیا۔ پھر آپ مزید تکمیل کے لیے مدینہ یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں چار سال تک جید اساتذہ کرام سے تکمیل علم کی منزلیں طے کیں۔ بحمد اللہ پوری یونیورسٹی میں آپ کی ذہانت اور قابلیت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ نے ایک سال میں اللہ کے فضل اور اپنی محنت سے عربی بول چال اور عربی زبان وبیان پر قدرت حاصل کرلی۔ آپ نے فراغت سے پہلے اپنے اساتذہ کے کہنے پر قادیانیت پر لیکچر دیے، جنہیں آپ کے وطن آنے سے پہلے پہلے مدینہ کے ایک مکتبہ نے کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کردیا۔ پھر آپ نے پاکستان آکر عظیم الشان علمی اور دینی کارنامے سرانجام دیے۔ آپ بیک وقت صحافی، سیاستدان، عالم دین، مصنف، مؤلف، ادیب، خطیب، مدرس، مترجم، مبلغ اور کاروباری انسان تھے۔ دیانت وامانت، خلوص وللہیت ان کے ماتھے کا جھومر تھا۔ فاضل عربی، فاضل فارسی، فاضل اردو اور فاضل پنجابی یعنی السنہ شرقیہ کے عظیم سکالر تھے۔ چھ مضامین میں ایم اے کر چکے تھے۔ مختلف یونیورسٹیوں اور ایجوکیشن بورڈوں کی دس ڈگریاں آپ کے پاس تھیں۔ آپ واقعی علامہ کہلانے کے حق دار تھے۔ علامہ صاحب نے سیاسیات میں قدم رکھنے کے بعد اپنی خدا داد صلاحیتوں، جرأت وبے باکی کی وجہ سے جلد ملکی سیاست میں اپنا نام پیدا کرلیا۔
علامہ صاحب نے بھٹو کی آمریت سے خوب ٹکر لی اور پوری بہادری سے اس کے خلاف ڈٹے رہے۔ برصغیر میں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کے بعد علامہ صاحب کے علاوہ اور کوئی بھی جرأت مند اور بے باک نہیں دیکھا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حمایت بھی کی اور مخالفت بھی۔ حمایت اس لیے کی کہ شاید یہ شخص اس ملک کے اندر اسلام نافذ کردے اور مخالفت اس لیے کی کہ وہ نہ تو اس ملک پاکستان میں اسلام نافذ کرسکا اور نہ ہی فحاشی وعریانی کو بند کرسکا۔
علامہ صاحب نے جنرل ضیاء الحق کی مخالفت بھی اتنی جرأت اور بے باکی سے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ علامہ صاحب کا موقف تھا کہ :
اسلام پر چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو​
علامہ صاحب نے جمعیت اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے ملک کی سیاست اور جمہوریت کی بحالی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے تن مردہ کو زندہ کرنے میں دن رات ایک کیے رکھا۔ ذاتی کاروبار میں خاصی محنت اور ہمت کی۔ غیر ملکی دورے بھی جاری رکھے اور کتابوں کی تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی قائم رکھا۔ بقول مولانا حسرتؔ موہانی:
مشق سخن جاری ہے اور چکی کی مشقت بھی
عجب طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی​
علامہ صاحب کی قیادت میں ہمارا قافلہ احرار اور کاروان ملت بڑی تیزی اور خوش اسلوبی کے ساتھ رواں دواں تھا۔ سانحہ قلعہ لچھمن سنگھ سے 2روز قبل 20 مارچ 1987؁ء کو چنیوٹ میں خاتم النبیین کانفرنس تھی۔ اس میں علامہ صاحب اور حبیب الرحمن یزدانی صاحب بھی شریک ہوئے۔ اس روز یہ دونوں خوبصورت اور جاذب لگ رہے تھے۔ دونوں کا خطاب آفریں سحر انگیز تھا۔ خصوصاً علامہ صاحب جب سب سے آخر میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی ذہین، جرأت مند اور بہادر جرنیل اپنی فوج کی کمان کررہا ہو۔ جونہی علامہ مرحوم نے تقریر شروع کی، آسمان سے بوندا باندی شروع ہوگئی۔ جو دھیرے دھیرے موسلا دھار بارش کی شکل اختیار کرگئی۔ لوگ بارش سے گھبرا گئے۔ تو ایسے میں علامہ صاحب نے سر سے ٹوپی اتاری، آستینیں چڑھا لیں اور فرمایا: ''تم بارش سے بھاگتے ہو، مجھے تو وہ دیوانے چاہییں جو گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے سینوں کے بٹن کھول دیں۔''
یہ سننا تھا کہ جو کوئی جہاں کھڑا یا بیٹھا تھا، وہ وہیں جم گیا۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ بارش کے قطرات کی رفتار تیز ہے یا علامہ صاحب کے الفاظ کی۔ علامہ صاحب کے خطاب نے سامعین کو مسحور کر دیا تھا۔
آخر وہ دن آگیا کہ جس دن اہل حدیث یتیم ہوگئے۔ ان کی متاع ِ دین ودنیا لُٹ گئی۔ حاسدوں کا حسد، خبیثوں کی خباثت، سازشیوں کی سازش اور شیطانوں کی شیطنت اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئی۔ علامہ صاحب اور ان کے دیگر ساتھی شہید ہوگئے۔ اس حادثہ جانکاہ کی تفصیلات یہ ہیں:
23مارچ 1987؁ء بروز پیر کو پورے پاکستان میں یوم پاکستان کی وجہ سے قومی تعطیل تھی۔ سارا دن مینارِ پاکستان کے آس پاس خوب گہما گہمی رہی۔ پھر جوں جوں رات ہوتی گئی، ویسے ویسے یہ ہنگامے ماند پڑتے گئے۔ مینارِ پاکستان کے ارد گرد واقع تمام سبزہ زاروں پر رات نے اپنے سیاہ پَر پھیلا دیے۔صرف انسٹھ (59) میٹر بلند مینارِ پاکستان کا کلس جگمگا رہا تھا۔ اس عظیم مینار کے قریب ہی قلعہ لچھمن سنگھ کے مین بازار کے فوارہ چوک میں ایک جلسہ ہورہا تھا۔ اس جلسے کو سننے کے لیے لوگ دور دور سے آرہے تھے۔ کیونکہ یہاں مرکزی تقریر خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کی تھی۔ رات کو نمازِ عشاء کے بعد ساڑھے نو بجے جلسے کا آغاز ہوا۔ علامہ صاحب کی طبیعت مسلسل تقاریر کی وجہ سے خاصی ناساز تھی۔ وہ اس وقت تشریف لائے جب علامہ حبیب الرحمن یزدانی تقریر کررہے تھے۔ اس وقت گھڑی کی سوئیاں رات کے دس بج کر چالیس منٹ ہونے کا اعلان کررہی تھیں۔ علامہ صاحب نے رات کے گیارہ بج کر پانچ منٹ پر خطاب شروع کیا۔ اس وقت یزدانی صاحب گھر جانا چاہتے تھے کہ علامہ صاحب نے الہامی فقرہ ارشاد فرمایا کہ ''یزدانی صاحب! تشریف رکھیں۔ اکٹھے ہی جائیں گے۔'' چنانچہ یزدانی صاحب بھی بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ کیا معلوم تھا کہ زندگی بھر کی رفاقت موت میں جدائی گوارا نہیں کرے گی۔ علامہ صاحب کے خطاب کا مرکزی ومحوری نکتہ ملت اسلامیہ کا اتحاد تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اپنے باہمی نفاق اور بے اتحادی وبے اعتمادی کو ختم کرکے ہی اپنے مذہب اور ملک وقوم کی صحیح خدمت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے دس کروڑ مسلمان مرنے کا عزم کرلیں تو رب کعبہ کی قسم! ساری کائنات ان کو ختم نہیں کرسکتی۔
علامہ صاحب کو جب تقریر کرتے ہوئے نصف گھنٹہ گزر گیا تو مجمع میں سے ایک گلدان پھولوں سمیت جو پیتل کا بنا ہوا تھا اور قریباً ڈیڑھ فٹ کے ریڈیس میں تھا۔ لوگوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا اسٹیج تک پہنچا۔ رانا محمد فاروق نے، جو سٹیج پر علامہ صاحب کے نزدیک ہی بیٹھا تھا، نیچے قالین پر رکھ دیا۔ اس کے پانچ منٹ کے بعد یعنی گیارہ بج کر پینتیس منٹ پر علامہ صاحب نے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا یہ شعر پڑھا:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مؤمن ہے تو بے تیغ بھی ۔۔۔۔۔۔​
ابھی انہوں نے ''لڑ'' کا لفظ زبان سے نکالنا تھاکہ فضاء ایک زبردست اور خوف ناک دھماکے سے لرز اُٹھی۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ یکدم کئی جسم فضاء میں اُچھلے۔ ان میں علامہ صاحب کی کرسی بھی اچھلی اور اچھل کر دور فوارے کی باؤنڈری لائن کے نزدیک جا گری۔ جس سے علامہ صاحب شدید زخمی ہوگئے۔ اس طاقتور اور مہلک بم کے پھٹنے سے آٹھ (8) افراد شہید اور نوے (90) سے زیادہ زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والوں کے نام درج ذیل ہیں:
سلیم فاروقی، محمد عالم، عبد السلام، نوید، مولانا محمد خان نجیب، مولانا عبد الخالق قدوسی، شیخ احسان الحق اور مولانا حبیب الرحمن یزدانی۔ رحمہم اللہ ۔
علامہ صاحب اس دھماکے کے نتیجہ میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ان کا نصف سے زائد جسم زخموں سے چور تھا۔ بم چونکہ ان کی بائیں ٹانگ کے قریب پھٹا تھا۔ اس لیے ان کے جسم کے بائیں حصے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ گھٹنے سے ٹخنے تک کی ہڈی دو جگہ سے بالکل ٹوٹ گئی۔ ان کے جسم کا 33فیصد حصہ بم نے اُڑا دیا تھا۔ علامہ صاحب شدید زخمی ہوکر میو ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ لوگ عیادت کے لیے آجارہے تھے۔ 23مارچ کو ان کی حالت نازک تھی۔ 24مارچ کو رات ڈاکٹروں نے آپ کی ٹانگ جو شدید زخمی تھی، علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن علامہ صاحب نے منع کردیا۔ 26مارچ کو ان کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی۔ 27مارچ کا دن بھی خیریت سے گزر گیا۔ لیکن 28 مارچ کو آپ کی طبیعت خطرناک حد تک بگڑ گئی۔
سعودی عرب اور عراق کی حکومتوں نے انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی، لیکن علامہ صاحب نے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انہیں اسی روز رات کو سعودی عرب روانہ کردیا گیا۔ 29مارچ کو سعودی عرب پہنچتے ہی علامہ صاحب کو ریاض کے جدید ترین ملٹری ہسپتال میں داخل کردیا گیا۔ ان کو بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جانے لگیں۔ 30 اور 31 مارچ کی درمیانی شب کو علامہ صاحب کے سارے جسم میں زہریلا مواد پھیل گیا۔ اس زہریلے مواد کو روکنے کے لیے ہر قسم کی ادویات استعمال کی گئیں لیکن موت کے طاقتور ہاتھوں نے ان سب کو ناکام بنا دیا۔ یوں اس طرح عالم اسلام کا بلند پایہ محقق، مفکر، ممتاز عالم دین اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
علامہ صاحب جنت البقیع میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، مفسرین کے درمیان دفن ہوئے۔
وہ چاند طیبہ میں جا کے ڈوبا
جو چاند میرے وطن سے نکلا​
علامہ صاحب نے بہت سی کتابیں لکھیں، جو کئی دفعہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر اہل علم سے دادو تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ چند ایک کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
اردو تصانیف: القادیانیہ، سفر حجاز، حج وعمرہ، مرزائیت اور اسلام۔
عربی تصانیف: الشیعۃ والسنۃ، الشیعۃ واہل البیت، الشیعۃ والقرآن، الشیعۃ والتشیع، بین الشیعۃ واہل السنۃ، البابیۃ عرض ونقد، البہائیۃ، التصوف المنشا والمصادر، الاسماعیلیۃ، البریلویۃ۔
تراجم: کتاب التوحید (اردو ترجمہ)، کتاب الوسیلہ(اردو ترجمہ)۔

مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے:
1) تحریک اہل حدیث از قاضی محمد اسلم سیفؔ فیروز پوری
2) علامہ احسان الٰہی ظہیر، ایک عہد ایک تحریک از قاضی محمد اسلم سیفؔ فیروز پوری
3) علامہ احسان اور ان کے رفقاء کی درد ناک شہادت از سید محمد اسماعیل
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ماشاءاللہ ، خوب تاثراتی تحریر ۔ جزاکم اللہ خیرا ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ
از قلم: محمد زبیر شیخ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے​
مسلک اہل حدیث اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود اسلام۔ اسلام اور اہل حدیث دونوں ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ برصغیر میں جو پہلا مسلمان آیا، وہ اہل حدیث ہی تھا۔ پہلی صدی ہجری کے وسط اور آخر میں ہندوستان کے جنوبی ساحلی شہروں میں مسلمان تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا اور کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آئے۔ جن کی قبریں مکران، سندھ اور مالا بار کے ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں آنے والے مسلمان تاجر مسلکاً اہل حدیث تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ساحلی شہروں میں حنفیت کو کبھی فروغ نہیں ملا۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم رحمہ اللہ بھی اہل حدیث ہی تھے کیونکہ وہ فقہ کے فروغ سے صدیوں پہلے ہندوستان آئے۔ یہ اہل حدیثوں کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پھانسی کے پھندوں کو چوم کر اور عبور دریائے شور وکالا پانی کی سزائیں بھگت کر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ اس کا سنگ بنیاد سید احمد شہید رحمہ اللہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ اور ان کے دیگر جانباز ساتھیوں نے بالا کوٹ میں 1831؁ء میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے رکھا۔ اور آخر کار ہمارے اسلاف کی کوششیں رنگ لائیں اور اللہ کے فضل و کرم سے 14اگست 1947؁ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ یہ ملک جس میں ہم رہ رہے ہیں، یہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، لیکن افسوس 69 برس گزر جانے کے بعد بھی اس ملک کے اندر اسلام کا نفاذ نہ ہوسکا۔ ہمیں بد قسمتی سے کوئی بھی ایسا حکمران نصیب نہ ہوا جو اس ملک پاکستان کے اندر اسلام کا نفاذ کرسکتا۔ اس ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے بہت کوششیں ہوئیں۔ کوشش کرنے والوں میں ایک سیالکوٹ کا نوجوان تھا جس نے اہل حدیثوں کو منظم کیا اور وقت کے حکمرانوں کو للکارا۔ میری مراد علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ ہیں۔ آپ 31مئی 1945؁ء میں عدم آباد میں جہان رنگ وبو میں تشریف لائے۔ آپ کا حافظہ نہایت قوی اور ذہانت بلا کی تھی۔ آپ نے نو (9) سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور وہاں سے درس نظامی کیا۔ صَرف، نحو، منطق، اصول حدیث اور اصول فقہ کی بنیادی کتابیں حفظ کیں۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا ابو البرکات احمد مدراسی رحمہ اللہ، محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اور مولانا شریف اللہ خان رحمہ اللہ ہیں۔ آپ جب تک گوجرانوالہ میں پڑھتے رہے، آپ کے والد حاجی ظہور الٰہی نے آپ کے کھانے کا انتظام اپنی گرہ سے کیا۔ پھر آپ مزید تکمیل کے لیے مدینہ یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں چار سال تک جید اساتذہ کرام سے تکمیل علم کی منزلیں طے کیں۔ بحمد اللہ پوری یونیورسٹی میں آپ کی ذہانت اور قابلیت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ نے ایک سال میں اللہ کے فضل اور اپنی محنت سے عربی بول چال اور عربی زبان وبیان پر قدرت حاصل کرلی۔ آپ نے فراغت سے پہلے اپنے اساتذہ کے کہنے پر قادیانیت پر لیکچر دیے، جنہیں آپ کے وطن آنے سے پہلے پہلے مدینہ کے ایک مکتبہ نے کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کردیا۔ پھر آپ نے پاکستان آکر عظیم الشان علمی اور دینی کارنامے سرانجام دیے۔ آپ بیک وقت صحافی، سیاستدان، عالم دین، مصنف، مؤلف، ادیب، خطیب، مدرس، مترجم، مبلغ اور کاروباری انسان تھے۔ دیانت وامانت، خلوص وللہیت ان کے ماتھے کا جھومر تھا۔ فاضل عربی، فاضل فارسی، فاضل اردو اور فاضل پنجابی یعنی السنہ شرقیہ کے عظیم سکالر تھے۔ چھ مضامین میں ایم اے کر چکے تھے۔ مختلف یونیورسٹیوں اور ایجوکیشن بورڈوں کی دس ڈگریاں آپ کے پاس تھیں۔ آپ واقعی علامہ کہلانے کے حق دار تھے۔ علامہ صاحب نے سیاسیات میں قدم رکھنے کے بعد اپنی خدا داد صلاحیتوں، جرأت وبے باکی کی وجہ سے جلد ملکی سیاست میں اپنا نام پیدا کرلیا۔
علامہ صاحب نے بھٹو کی آمریت سے خوب ٹکر لی اور پوری بہادری سے اس کے خلاف ڈٹے رہے۔ برصغیر میں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کے بعد علامہ صاحب کے علاوہ اور کوئی بھی جرأت مند اور بے باک نہیں دیکھا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حمایت بھی کی اور مخالفت بھی۔ حمایت اس لیے کی کہ شاید یہ شخص اس ملک کے اندر اسلام نافذ کردے اور مخالفت اس لیے کی کہ وہ نہ تو اس ملک پاکستان میں اسلام نافذ کرسکا اور نہ ہی فحاشی وعریانی کو بند کرسکا۔
علامہ صاحب نے جنرل ضیاء الحق کی مخالفت بھی اتنی جرأت اور بے باکی سے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ علامہ صاحب کا موقف تھا کہ :
اسلام پر چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو​
علامہ صاحب نے جمعیت اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے ملک کی سیاست اور جمہوریت کی بحالی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے تن مردہ کو زندہ کرنے میں دن رات ایک کیے رکھا۔ ذاتی کاروبار میں خاصی محنت اور ہمت کی۔ غیر ملکی دورے بھی جاری رکھے اور کتابوں کی تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی قائم رکھا۔ بقول مولانا حسرتؔ موہانی:
مشق سخن جاری ہے اور چکی کی مشقت بھی
عجب طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی​
علامہ صاحب کی قیادت میں ہمارا قافلہ احرار اور کاروان ملت بڑی تیزی اور خوش اسلوبی کے ساتھ رواں دواں تھا۔ سانحہ قلعہ لچھمن سنگھ سے 2روز قبل 20 مارچ 1987؁ء کو چنیوٹ میں خاتم النبیین کانفرنس تھی۔ اس میں علامہ صاحب اور حبیب الرحمن یزدانی صاحب بھی شریک ہوئے۔ اس روز یہ دونوں خوبصورت اور جاذب لگ رہے تھے۔ دونوں کا خطاب آفریں سحر انگیز تھا۔ خصوصاً علامہ صاحب جب سب سے آخر میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی ذہین، جرأت مند اور بہادر جرنیل اپنی فوج کی کمان کررہا ہو۔ جونہی علامہ مرحوم نے تقریر شروع کی، آسمان سے بوندا باندی شروع ہوگئی۔ جو دھیرے دھیرے موسلا دھار بارش کی شکل اختیار کرگئی۔ لوگ بارش سے گھبرا گئے۔ تو ایسے میں علامہ صاحب نے سر سے ٹوپی اتاری، آستینیں چڑھا لیں اور فرمایا: ''تم بارش سے بھاگتے ہو، مجھے تو وہ دیوانے چاہییں جو گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے سینوں کے بٹن کھول دیں۔''
یہ سننا تھا کہ جو کوئی جہاں کھڑا یا بیٹھا تھا، وہ وہیں جم گیا۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ بارش کے قطرات کی رفتار تیز ہے یا علامہ صاحب کے الفاظ کی۔ علامہ صاحب کے خطاب نے سامعین کو مسحور کر دیا تھا۔
آخر وہ دن آگیا کہ جس دن اہل حدیث یتیم ہوگئے۔ ان کی متاع ِ دین ودنیا لُٹ گئی۔ حاسدوں کا حسد، خبیثوں کی خباثت، سازشیوں کی سازش اور شیطانوں کی شیطنت اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئی۔ علامہ صاحب اور ان کے دیگر ساتھی شہید ہوگئے۔ اس حادثہ جانکاہ کی تفصیلات یہ ہیں:
23مارچ 1987؁ء بروز پیر کو پورے پاکستان میں یوم پاکستان کی وجہ سے قومی تعطیل تھی۔ سارا دن مینارِ پاکستان کے آس پاس خوب گہما گہمی رہی۔ پھر جوں جوں رات ہوتی گئی، ویسے ویسے یہ ہنگامے ماند پڑتے گئے۔ مینارِ پاکستان کے ارد گرد واقع تمام سبزہ زاروں پر رات نے اپنے سیاہ پَر پھیلا دیے۔صرف انسٹھ (59) میٹر بلند مینارِ پاکستان کا کلس جگمگا رہا تھا۔ اس عظیم مینار کے قریب ہی قلعہ لچھمن سنگھ کے مین بازار کے فوارہ چوک میں ایک جلسہ ہورہا تھا۔ اس جلسے کو سننے کے لیے لوگ دور دور سے آرہے تھے۔ کیونکہ یہاں مرکزی تقریر خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کی تھی۔ رات کو نمازِ عشاء کے بعد ساڑھے نو بجے جلسے کا آغاز ہوا۔ علامہ صاحب کی طبیعت مسلسل تقاریر کی وجہ سے خاصی ناساز تھی۔ وہ اس وقت تشریف لائے جب علامہ حبیب الرحمن یزدانی تقریر کررہے تھے۔ اس وقت گھڑی کی سوئیاں رات کے دس بج کر چالیس منٹ ہونے کا اعلان کررہی تھیں۔ علامہ صاحب نے رات کے گیارہ بج کر پانچ منٹ پر خطاب شروع کیا۔ اس وقت یزدانی صاحب گھر جانا چاہتے تھے کہ علامہ صاحب نے الہامی فقرہ ارشاد فرمایا کہ ''یزدانی صاحب! تشریف رکھیں۔ اکٹھے ہی جائیں گے۔'' چنانچہ یزدانی صاحب بھی بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ کیا معلوم تھا کہ زندگی بھر کی رفاقت موت میں جدائی گوارا نہیں کرے گی۔ علامہ صاحب کے خطاب کا مرکزی ومحوری نکتہ ملت اسلامیہ کا اتحاد تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اپنے باہمی نفاق اور بے اتحادی وبے اعتمادی کو ختم کرکے ہی اپنے مذہب اور ملک وقوم کی صحیح خدمت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے دس کروڑ مسلمان مرنے کا عزم کرلیں تو رب کعبہ کی قسم! ساری کائنات ان کو ختم نہیں کرسکتی۔
علامہ صاحب کو جب تقریر کرتے ہوئے نصف گھنٹہ گزر گیا تو مجمع میں سے ایک گلدان پھولوں سمیت جو پیتل کا بنا ہوا تھا اور قریباً ڈیڑھ فٹ کے ریڈیس میں تھا۔ لوگوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا اسٹیج تک پہنچا۔ رانا محمد فاروق نے، جو سٹیج پر علامہ صاحب کے نزدیک ہی بیٹھا تھا، نیچے قالین پر رکھ دیا۔ اس کے پانچ منٹ کے بعد یعنی گیارہ بج کر پینتیس منٹ پر علامہ صاحب نے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا یہ شعر پڑھا:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مؤمن ہے تو بے تیغ بھی ۔۔۔۔۔۔​
ابھی انہوں نے ''لڑ'' کا لفظ زبان سے نکالنا تھاکہ فضاء ایک زبردست اور خوف ناک دھماکے سے لرز اُٹھی۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ یکدم کئی جسم فضاء میں اُچھلے۔ ان میں علامہ صاحب کی کرسی بھی اچھلی اور اچھل کر دور فوارے کی باؤنڈری لائن کے نزدیک جا گری۔ جس سے علامہ صاحب شدید زخمی ہوگئے۔ اس طاقتور اور مہلک بم کے پھٹنے سے آٹھ (8) افراد شہید اور نوے (90) سے زیادہ زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والوں کے نام درج ذیل ہیں:
سلیم فاروقی، محمد عالم، عبد السلام، نوید، مولانا محمد خان نجیب، مولانا عبد الخالق قدوسی، شیخ احسان الحق اور مولانا حبیب الرحمن یزدانی۔ رحمہم اللہ ۔
علامہ صاحب اس دھماکے کے نتیجہ میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ان کا نصف سے زائد جسم زخموں سے چور تھا۔ بم چونکہ ان کی بائیں ٹانگ کے قریب پھٹا تھا۔ اس لیے ان کے جسم کے بائیں حصے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ گھٹنے سے ٹخنے تک کی ہڈی دو جگہ سے بالکل ٹوٹ گئی۔ ان کے جسم کا 33فیصد حصہ بم نے اُڑا دیا تھا۔ علامہ صاحب شدید زخمی ہوکر میو ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ لوگ عیادت کے لیے آجارہے تھے۔ 23مارچ کو ان کی حالت نازک تھی۔ 24مارچ کو رات ڈاکٹروں نے آپ کی ٹانگ جو شدید زخمی تھی، علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن علامہ صاحب نے منع کردیا۔ 26مارچ کو ان کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی۔ 27مارچ کا دن بھی خیریت سے گزر گیا۔ لیکن 28 مارچ کو آپ کی طبیعت خطرناک حد تک بگڑ گئی۔
سعودی عرب اور عراق کی حکومتوں نے انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی، لیکن علامہ صاحب نے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انہیں اسی روز رات کو سعودی عرب روانہ کردیا گیا۔ 29مارچ کو سعودی عرب پہنچتے ہی علامہ صاحب کو ریاض کے جدید ترین ملٹری ہسپتال میں داخل کردیا گیا۔ ان کو بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جانے لگیں۔ 30 اور 31 مارچ کی درمیانی شب کو علامہ صاحب کے سارے جسم میں زہریلا مواد پھیل گیا۔ اس زہریلے مواد کو روکنے کے لیے ہر قسم کی ادویات استعمال کی گئیں لیکن موت کے طاقتور ہاتھوں نے ان سب کو ناکام بنا دیا۔ یوں اس طرح عالم اسلام کا بلند پایہ محقق، مفکر، ممتاز عالم دین اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
علامہ صاحب جنت البقیع میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، مفسرین کے درمیان دفن ہوئے۔
وہ چاند طیبہ میں جا کے ڈوبا
جو چاند میرے وطن سے نکلا​
علامہ صاحب نے بہت سی کتابیں لکھیں، جو کئی دفعہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر اہل علم سے دادو تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ چند ایک کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
اردو تصانیف: القادیانیہ، سفر حجاز، حج وعمرہ، مرزائیت اور اسلام۔
عربی تصانیف: الشیعۃ والسنۃ، الشیعۃ واہل البیت، الشیعۃ والقرآن، الشیعۃ والتشیع، بین الشیعۃ واہل السنۃ، البابیۃ عرض ونقد، البہائیۃ، التصوف المنشا والمصادر، الاسماعیلیۃ، البریلویۃ۔
تراجم: کتاب التوحید (اردو ترجمہ)، کتاب الوسیلہ(اردو ترجمہ)۔

مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے:
1) تحریک اہل حدیث از قاضی محمد اسلم سیفؔ فیروز پوری
2) علامہ احسان الٰہی ظہیر، ایک عہد ایک تحریک از قاضی محمد اسلم سیفؔ فیروز پوری
3) علامہ احسان اور ان کے رفقاء کی درد ناک شہادت از سید محمد اسماعیل
علامہ صاحب کو کس نے شہید کروایا تھا؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
علامہ صاحب کو کس نے شہید کروایا تھا؟
اس سوال کا واضح جواب ، ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ، البتہ ابوبکر قدوسی صاحب کی علامہ شہید پر جو تازہ کتاب آئی ہے ، اس کے آخر میں انہوں نے کافی واضح اشارے دیے ہیں ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اس سوال کا واضح جواب ، ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ، البتہ ابوبکر قدوسی صاحب کی علامہ شہید پر جو تازہ کتاب آئی ہے ، اس کے آخر میں انہوں نے کافی واضح اشارے دیے ہیں ۔
اس واضح اشاروں میں کس کی جانب اشارہ کیا ہے۔
 
Top