• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑھی

شمولیت
فروری 16، 2018
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
43
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں

(شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑہی کی حالات زندگی)

تراجم علمائے حدیث ہند ، ص: ۳۹۹ مقدمہ سیرۃ البخاری بہ عنوان ’’ کچھ مؤلف کتاب کےبارے میں ‘‘ از مولانا عبد الرحمن عبید اﷲ رحمانی ، ص : ۱۸تا۲۰۰ ( مکتبہ قدوسیہ، اردو بازارلاہور۔ نومبر ۲۰۰۰ء)


مولانا احمد اﷲ محدث پرتاب گڑھی دہلوی رحمہ اﷲ


(وفات ۱۹؍ مارچ ۱۹۴۳ء)


جن حضرات نے تمام عمر گلستانِ علم میں بسر کی اور درس و تدریس کے ہنگامے جاری رکھے ، ان کی وسعت پذیر فہرست میں مولانا احمد اﷲ صاحب کا اسم گرامی پوری آب و تاب کے ساتھ درج نظر آتا ہے ۔ مولانا ممدوح کا مولد اور آبائی مسکن موضع مبارک پور ( ضلع پرتاپ گڑھ یوپی) ہے ۔ ان کے والد کا نام نامی مولانا امیر اﷲ تھا جو حضرت شاہ محمد یعقوب دہلوی مہاجر مکی اور مولانا سخاوت علی جون پوری کے فیض یافتہ تھے۔ شاہ محمد یعقوب کی ہجرت کے بعد وہ حج بیت اﷲ کے لئے گئے تو مکہ معظمہ میں شاہ صاحب کے داماد امیر بیگ سے علم حدیث میں استفادہ کیا ۔


مولانا امیر اﷲ کے چار بیٹے تھے ، لیکن علم کی نعمت نہایت فراوانی کے ساتھ ان کے جس بیٹے کے حصے میں آئی وہ ہمارے ممدوح مولانا احمد اﷲ ہیں ، جنھیں پرتاپ گڑھی کی نسبت سے بھی پکارا جاتا ہے اور دہلوی کی نسبت سے بھی۔ پر تاپ گڑھی کی نسبت سے اس لئے کہ ان کا خاندانی تعلق اسی ضلع سے تھا اور دہلوی کی نسبت کا اطلاق ان پر اس بنا پر ہوتا ہے کہ تحصیل علم کے بعد انھوں نے عمر بھر دہلی کے مرکز علم میں مسند درس آراستہ کئے رکھی۔ قرآنِ مجید اور اردو کی ابتدائی تعلیم کے بعد ان کا سلسلۂ حصول ِ علم ذیل کی ترتیب سے چلا۔


٭…… ایک بزرگ میاں پیر محمد صاحب تھے ، ان سے گلستاں وغیرہ فارسی کی کتابیں پڑھیں۔


٭…… سید محمد امین نصیرآبادی سے (جو رائے بریلی سے تعلق رکھتے تھے ) صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں۔ قرآن مجید بھی انھیں سے حفظ کیا۔


٭…… مولانا ہدایت اﷲ خاں جونپوری سے علم فقہ کی شرح وقایہ بھی پڑھی اور ان کے ایک شاگر د سے منطق کی قطبی اور میر قطبی پڑھیں۔


٭…… مولانا زین العابدین جونپوری دکیل سے تفسیر جلالین کا درس لیا ۔


اس کے بعد بھوپال کو روانہ ہوئے ۔ اس وقت نواب صدیق حسن خاں تو انتقال فرما چکے تھے ، لیکن وہ بساط علم بچھی ہوئی تھی جو نواب صاحب نے اپنی زندگی میں پوری ریاست میں بچھا دی تھی۔ وہاں کے زمانہ ٔ قیام میں مندرجہ ذیل حضرات سے حصول فیض کیا۔


٭…… مولانا لطف الرحمن بردوانی سے مطول ، میر زاہد اور ملا حسن وغیرہ کتابیں مکمل کیں۔


٭ …… شیخ حسین یمنی سے حدیث میں استفادہ کیا یعنی صحیح بخاری ، صحیح مسلم، ترمذی اور نسائی کے لئے ان کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کئے۔


٭…… مولانا سلامت اﷲ جے راج پوری بھی اس وقت بھوپال میں قیام فرما تھے ۔ ان سے کتب حدیث میں سے صحیح بخاری اور ابن ماجہ پڑھیں اور اصول حدیث کی شرح نخبۃ الفکر پڑھی۔


٭…… بھوپال میں ان دنوں ایک عالم دین مولانا احمد سندھی فروکش تھے جو مفتی عبد القیوم بن مولانا عبد الحئی بڈھانوی کے شاگر د تھے ۔ ان سے مولانا احمد اﷲ نے صحیح بخاری کا ثلث اوّل اور صحیح مسلم کے ابتدا کے کچھ حصے پڑھے۔


٭…… قاضی ایوب بھوپالی بھی مفتی عبد القیوم بڈھانوی کے شاگرد تھے ، ان سے مولانا احمد اﷲ کو سنن نسائی اور جامع ترمذی کے کچھ حصے پڑھنے کا موقع ملا۔


٭……بھوپال سے الٰہ آباد گئے، وہاں مولانا منیر الدین خاں سے جن کتابوں کے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، وہ ہیں میر زاہد ، ملا جلال اور مطول کے چند اوراق۔


مندرجہ بالا اساتذہ سے فیض یاب ہونے کے بعد وہ دہلی تشریف لے گئے ۔ وہاں


٭…… مولانا محمد اسحق منطقی رام پوری سے قاضی مبارک پڑھی۔


٭…… ڈپٹی نذیر احمد سے عربی ادبیات کی چار کتابیں پڑھیں۔ سبعہ معلقہ ، متنبی،مقامات حریری اور حماسہ ۔


٭…… مولانا تلطف حسین بہاری (شاگرد حضرت میاں صاحب) سے کتب فرائض پڑھیں۔


٭…… مولانا عبد الرشید رام پوری( پروفیسر طبیہ کالج) سے حمد اﷲ ، ہدایہ اخیر ین ، میر زاہد اور رسالہ غلام یحیٰ پڑھے۔


٭…… مولانا نظام الدین مدرس مدرسہ حسین بخش سے جو کتابیں پڑھیں وہ ہیں شمس بازغہ، صدراء، مسلم الثبوت، تصریح، شرح عقائد اور خیالی۔


٭…… اب مو لانا احمد اﷲ صاحب، حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے حلقۂ درس میں شرکت فرماتے ہیں۔ یہ میاں صاحب کا آخری دور ہے۔ وہاں وہ حضرت کے صحیحین اور بعض دیگر کتب صحاح کے درس میں شامل ہوئے اور ان سے سند و اجازۂ حدیث کا شرف حاصل کیا ۔


٭…… دہلی میں مولانا محمد بشیرسہسوانی سے میر زاہد، امور عامہ اور شرح اشارات پڑھنے کا موقع ملا۔


٭…… سند و اجازۂ حدیث کا شرف مولانا شمس الحق ڈیانوی سے بھی حاصل ہوا۔


٭…… قیام بھوپال کے زمانے میں وہ قاضی محمد مچھلی شہری سے سند مسلسل بالاوّلیہ کے حصول کی سعادت سے بہرہ یاب ہوئے ۔


٭…… ۱۳۴۵ھ(۱۹۲۷ء) میں مولانا احمد اﷲ نے حج بیت اﷲ کا عزم کیا۔ وہاں شیخ محمد بن عبداللطیف بن ابراہیم بن حسن نجدی محدث سے کتب حدیث کی سند و اجازہ سے سعادت اندوز ہوئے۔ اس طرح انھوں نے اپنے عہد کے بیس اصحاب ِ فضل سے حصولِ فیض کیا اور مرتبۂ کمال کو پہنچے۔ بعض کتابیں مختلف اساتذہ سے کئی کئی مرتبہ پڑھیں۔ اس کے بعد وہ دہلی آئے اور پھر دہلی کو اپنا مستقل وطن بنا لیا۔


مولانا احمد اﷲ صاحب نے مولانا محمد بشیر سہسوانی سے بہت استفادہ کیا۔ مولانا محمد بشیر نے دہلی کی حوض والی مسجد میں بصورت درس متواتر ایک مہینہ فرضیت خلف الامام کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ تقریر انھوں نے ’’ البرہان العجائب فی فرضیۃ ام الکتاب‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کی۔


تکمیل تعلیم کے بعد مولانا احمد اﷲ دہلوی نے تمام زندگی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ پورے بیس سال دہلی کے مدرسہ حاجی علی جان میں شائقین علم کو تفسیر و حدیث اور دیگر علوم کی تعلیم دیتے رہے۔ ۱۹۲۱ء میں شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے دہلی میں دارالحدیث رحمانیہ کی تا سیس کی تو اس کی مسند درس پر متمکن ہوئے اور کئی سال وہاں یہ خدمت سر انجام دی۔ سالہا سال مدرسہ زبیدیہ میں ان کا سلسلہ تدریس جاری رہا ۔


ایک مرتبہ ’’ تبلیغ السنہ‘‘ کے نام سے مولانا احمد اﷲ دہلوی نے ایک ماہانہ رسالہ بھی جاری فرمایا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ مدرسہ علی جان میں فریضہ ٔ تدریس کی انجام دہی پر مامور تھے۔ لیکن یہ رسالہ جلد ہی بند ہوگیا تھا، کیونکہ ان کا اصل کام بصورتِ درس خدمت حدیث تھا۔ اور یہ رسالہ اس میں رکاوٹ کا باعث تھا، لہذا قدرتی طور پر اس کے اجرا کے امکانات ختم اور بندش کے اسباب ظہور میں آگئے۔ اصل بات یہ ہے کہ لکل فن رجال کے اصول کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہی تفسیرو حدیث اورفقہ و اصول کی تدریس کے لئے تھا۔


آخر میں ان کی خدمات دہلی کے مدرسہ زبیدیہ نے حاصل کر لی تھیں۔ پہلے مدارس کی طرح مدرسہ زبیدیہ میں بھی ان سے بے شمار علماء و طلباء فیض یاب ہوئے۔


اہل حدیث علما میں تو ان کو بے حد اعزاز کا مستحق گردانا ہی جا تا تھا ، احناف اصحابِ علم بھی انھیں نہایت تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مولانا کے شاگرد حاجی محمد رفیق زبیدی نے ( جو میرے ہم وطن بھی تھے اور گہرے دوست بھی) مجھے بتایا کہ دہلی کے معروف دیو بندی نقطہ ٔ فکر کے عالم مفتی کفایت اﷲ صاحب بعض فقہی مسائل کے سلسلے میں مولانا کی خدمت میں آیا کرتے تھے اور نہایت ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر ان کے سامنے بیٹھتے تھے۔ خود مولانا بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔


مولانا کے شاگردوں کو حیطہ ٔ شمار میں لانا ممکن نہیں۔ لا تعداد حضرات نے ان سے تفسیر و حدیث اور دیگر علوم متداولہ کی کتابیں پڑھیں اور آگے پڑھائیں ۔ ان کے شاگردوں کے شاگرد بھی استاذ الاساتذہ ہوئے ۔


اس عالی قدر استاذ کے شاگردوں میں حضرت مولانا عبد الجبار شکراوی ، مولانا عبد السلام بستوی ، مولانا محمد یونس دہلوی، شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری اور مولانا نذیر احمد املوی رحمانی ، مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانی شامل ہیں اور یہ وہ حضرات ہیں جنھیں علم و عمل اور تصنیف و تدریس میں یگانہ ٔ روزگار سمجھا جا تا ہے ۔ رحمہ اﷲ علیہم


حضرت مولانا احمد اﷲ دہلوی نے ۱۹؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو دہلی میں وفات پائی ۔ ۱؂


(ماخوذ کتاب گلستان حدیث از مولانا محمد اسحق بھٹی حفظہ اﷲ تعالیٰ )
 
Top