• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ محمد عزیر شمس : تحقیق و تدوین کی عبقری شخصیت

شمولیت
فروری 14، 2018
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
صادق جمیل تیمی

عجب قیامت کا حادثہ ہےکہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے،افق پہ مہر مبین ہے
تری جدائی سے مرنے والے،وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقیں نہیں ہے
یوں تو ماہ و سال،دن و رات خالق کائنات کی مرضی کے مطابق رواں ہیں لیکن گزشتہ سالوں کے لاک ڈاؤن کے خوں چکاں دورانیہ سے لے کر آج تک بڑے بڑے علما وفضلا نہایت تیزی سے ہم سے رخصت ہو رہے ہیں،کبھی ہمیں یقین تک نہیں ہوتا لیکن چوں کہ نظام کائنات یہی ہے۔ہر ایک کو موت کا جام پینا ہے، اس سے کسی کو مفر نہیں ”کل نفس ذائقۃ الموت،،لیکن جب دنیا سے علوم و معارف،بحث و تحقیق سے جڑی شخصیات رخصت ہوجاتی ہیں تو کافی غم والم کے دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ان بڑی شخصیات میں سے عالم اسلام کے عظیم محقق،بے مثال مولف،کامیاب مترجم،ماہر مخطوطات ا بن تیمیہ و ابن القیم الجوزیہ،متبحر عالم دین و عظیم اسکالر شیخ محمد عزیر شمس تھے۔آپ کی شخصیت کوئی محتاج تعارف نہیں۔بحث و تحقیق کی دنیا کے سارے افراد آپ سے واقف و آشنا تھے۔آپ نہ صرف ایک مایہ ناز عالم دین و باوقار فاضل تھے بلکہ علوم و فنون کے کئی شعبوں کے انسا ئیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتے تھے۔ آپ کو ترجمہ و تالیف،تحقیق و ریسرچ میں ید طولی حاصل تھا،خصوصاً مخطوطات کی تحقیق و تدوین اور قرائت میں پوری دنیا میں آپ کا نام تھا۔مخطوطات کی شناخت اور صاحب تحریر تک اس کی نسبت نہایت ہی مشقت بھرا کام اور بڑی امانت ہے۔اس کے لیے کثرت مطالعہ،مخطوطات کی شناخت، قراء ت،،اصول و ضوابط،تجربات درکار ہیں ورنہ اس سب کے بغیر یک قدم بھی آگے بڑھانا مشکل ہے۔شیخ عزیر شمس پوری مستعدی و دلچسپی کے ساتھ یہ کام کر رہے تھے اور مخطوطات سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آ پ نے اس کے لیے امریکہ،فرانس اور برطانیہ سمیت دنیا کی مختلف لائبریریوں کی خاک چھانی،ان سے استفادہ کیا اور اپنی تحقیقات سے کئی نادر و نایاب کتابیں شائع کیں اور علمی دنیا کو علمی و دینی سرمایے سے آگاہ کیا۔
آپ کا تعلق سرزمین بہار کے مردم خیز ضلع مدھوبنی سے تھا۔یوں تو آپ کی ولادت 1956ء میں مرشدآباد مغربی بنگال میں ہوئی لیکن آپ کا آبائی و خاندانی وطن مدھوبنی ہے۔آپ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔آپ کے دادا مولانا رضاء اللہ مدھوبنی و دربھنگہ کے معروف عالم دین اور اثر و رسوخ کے مالک تھے۔والد گرامی مولانا شمس الحق سلفی بھی اپنے عہد کے بڑے عالم تھے۔سلفیت کا مرکزی ادارہ جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الجامعہ کے عہدے پر فائز رہے۔آپ کے نانا محترم مولانا عبد الرحیم بیر بھومی اعلی پائے کے محدث تھے۔انہوں نے سید نذیر حسین محدث دہلوی سے کسب فیض کیا تھا۔یعنی آپ پدر و مادر دونوں اعتبار سے علم و فضل والے خاندان سے تھے۔آپ نے جامعہ فیض عام مؤ،احمدیہ سلفیہ دربھنگہ،جامعہ سلفیہ بنارس جیسے ادارے میں تعلیم حاصل کی اور جامعہ اسلامیہ منور ہ سے لغت میں (گریجویشن) کی ڈگری حاصل کی اور ماجستر (ایم اے) ام القری مکہ مکرمہ سے کی۔یہی سے چار سال پی ایچ ڈی میں رہے اور”الشعر العربی فی الہند: دراسۃ نقديۃ،،پر رسالہ تیار کیا لیکن مناقشہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈگری نہ مل سکی۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ساتویں صدی ہجری کے مجدد تھے۔انہوں نے متکلمین،مناطقہ و فلاسفہ اور گمراہ کن فرقوں کے افکار و نظریات کا رد قرآن و سنت کی روشنی میں کیا۔اپنے عہد کے فرق ضالہ پر بھرپور رد کیا۔مدارس کے نصاب میں شامل آپ کی کتاب ”العقیدۃ الواسطيۃ،،کو آپ نے عصر سے لے کر مغرب تک میں لکھ دیا۔
شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ نے امام ابن تیمیہ کے کئی رسائل کو اپنی تحقیق سے پہلی مرتبہ چھاپ کر شا‏ئع کیا جو اس سے قبل کہیں شائع نہیں ہوئے تھے ، اسی طرح آپ نے امام ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کے آثارکی بھی تحقیق کی اور دنیا اس سے روشناس ہوئی اور استفادہ کیا ۔
آپ زندگی میں کبھی شکست نہیں کھائے اور نہ ہی گردش زمانہ،کشیدگی ِ حالات اور لوگوں کی تلخ نوائیاں و تنقیدیں آپ کو کبھی پیچھے ہٹا سکیں بلکہ آپ ہمیشہ آگے کی منزل دیکھی اور بڑھتے چلے گئے،کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔آپ کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے بحث و تحقیق کے ذریعے ایک دنیا کو مستفیض کیا لیکن جب آپ نے ڈاکٹریٹ کی پوری بحث تیار کر لی اور اسے اپنے مشرف کے سامنے پیش کیا تو چند علمی مباحثے اور نوک جھوک کی بنا پر آپ کامناقشہ نہیں ہو سکا ۔لیکن اس تگ و تاز میں اپنی توانائی ضائع نہ کی اور نہ اپنے علمی سفر میں ذرہ برابر آنچ آنے دیا بلکہ پورے طمطراق کے ساتھ علمی مشاغل میں مصرو ف ہو گئے،بحث و تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔گویا:
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہ یار سلامت ہزار میخانے
شیخ عزیر نے اپنی مستعار حیات میں علمی دنیا کو جو اپنے کارہائے نمایا ں عطا کیے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کے ہجوم،بازاروں کی بھیڑ،لایعنی مجلسوں و محفلوں سے کنارہ کش رہے۔انٹر نیٹ کے اس برق رفتار دور میں جب انسان اپنی شبانہ روز اسی میں صرف کرتے ہیں،آپ انٹرنیٹ سے جڑے بہت سے سماجی رابطوں کے وسائل سے واقف بھی نہ تھے۔آپ ہمیشہ مولانا ابو الکلام آزاد کے نظریات،آئیڈیالوجی،اصلاحی طور طریقے کا ذکر خیر کرتے تھے اور نقاد شخصیات و طبقات کو نظر انداز کرنے اور صرف اپنے کام ہی پر فوکس کرنے کو بے حد پسند کرتے تھے ۔آپ یہی کہا کرتے تھے کہ یہی آئیڈیالوجی نے مولانا کو ایک کامیاب ادیب،انشا پرداز،خطیب جہوری،مفسر و مفکر اور اعلی سیاست داں بنا دیااور یہی چیز خود آپ کو ایک عظیم و فقید المثال محقق و مدقق بنا دیا۔بیشتر ملاقاتیوں کے سامنے عطا ء اللہ حنیف بھوجیانی کی صلاحیت،علمی بصیرت،سلف سے محبت اور جذبہ خدمت اسلام کے واقعات کا ذکر کرتے اور طلبہ کو ان کی تحریروں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی تلقین کرتے تھے۔
پوری دنیا میں آپ کی شناخت یوں تو ایک محقق اور ماہر تراث ابن تیمیہ و ابن القیم الجوزیہ کی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تحقیقات ہی آپ کا سرمایہ حیات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ دیگر علوم و فنون میں بھی دستر س رکھتے تھے۔بیک وقت آپ حدیث،اصول حدیث،تفسیر،اصول تفسیر،فقہ،اصول فقہ،عربی زبان،اردو زبان،فارسی و انگریزی زبان،علم رجال،تاریخ،منطق و فلسفہ،علم عروض پر مہارت تامہ رکھتے تھے۔جب کبھی ان میں سے کسی فن پر گفتگو کرنے لگتے تو ایسا احساس ہوتا کہ آپ اسی فن کے متخصص اور بحر زخار ہیں۔علوم اسلامیہ کے متداول علوم کی انجمن تھے۔زبان میں بلا کی تاثیر تھی۔جب آپ کسی علمی محفل میں لکچر دیتے تو آپ کے درک و علمیت اور حفظ پر لوگ عش عش کرتے تھے۔20 ہزار روات کی سوانح سمیت تاریخ پیدائش و وفات اور تعداد ِروایات ہمیشہ نوک زبان پر رکھنا یہ آپ کی ذہانت و فطانت کی بین دلیل تھی۔اردو زبان پر بھی آپ کی خاصی مہارت تھی بلکہ علم عروض کو آپ نے ایک رات میں سیکھا تھا اور پورے یاد تھے۔اردو میں وہ ادبا جن کا تعلق تحقیقات سے تھا،ان کا مطالعہ کا مشورہ دیتے تھے۔قاضی عبد الودود،امتیاز علی عرشی،حافظ محمود شیرانی،رشید حسن خاں،مالک رام (تحقیق میں)حالی،شبلی،کلیم الدین احمد،شمس الرحمن فاروقی،گوپی چند نارگ(تنقید میں) جیسے ادبا کو پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے اور آپ خود ان کے قدر شناس تھے یعنی آپ عربی زبان کے ساتھ اردو کے بھی رمز شناس تھے۔
آپ کی شخصیت میں ذی علم ہونے کے باجود کوئی تکبر،انا،اکڑ پن نہیں تھا بلکہ ایک سادہ انسان تھے ،حد درجہ تواضع و انکسار سے معمور،دنیاوی تکلفات سے دور،درویشانہ صفت کے حامل،چہرے پر ہمیشہ بشاشت اور تبسم رہتا تھا۔اتنی سادہ زندگی کہ کبھی دیکھ کر احساس نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہی محمد عزیر شمس ہیں ۔یوں تو آپ کے روابط بہت سے طلبۃ العلم سے رہے اور بہت سے لوگوں نے آپ سے استفادہ کیا لیکن جس طرح ثناءاللہ صادق تیمی نے کوشش کی کہ اردو داں طبقہ آپ سے استفادہ کرسکے ، وہ اپنے آپ میں قابل تعریف ہے ۔ ثناءاللہ صادق تیمی شیخ کی سادگی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ شیخ پرانی ہوائی چپل پہن کرہی گھومتے تھے،سفید جبہ ہی کو ترجیح دیتے تھے۔شیخ کی جب اچانک وفات ہوئی تو لوگوں کو اس کی خبر ہوئی۔آپ جس مسجد میں فجر کی نماز کے لیے جاتے تھے تو ایک شخص کی ملاقات ہمیشہ ہوتی تھی۔شیخ کو وہ سمجھتے تھے کہ کوئی مزدور ہوگا جو نماز ادا کرنے کے لیے آتے ہوں گے لیکن جب وفات ہوئی اور لوگوں نے بتایا کہ وہ بہت بڑے عالم تھے تو انہوں نے افسو س کیا اور کہا میں نے سوچا تھا کہ وہ کوئی مزدور ہوں گے۔یہ سادگی تھی شیخ محمد عزیر شمس میں۔یعنی آپ بقيۃ السلف تھے ۔شیخ کے بارے میں ثناء اللہ صادق تیمی صاحب نے ایک جگہ لکھا کہ آپ جب باہر نکلتے تھے تو اس طرح ایک عام و سادہ انسان ہو جاتے تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ آپ نے اپنی علمی،ادبی و فکری شخصیت کو کہیں اتار کر رکھ دیا ہے۔
 
Top