عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
(پہلی قسط)
حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
____________________________
تمہید
اسلام کی آفاقیت اور اس کی عالمگیری نیز اس کی شان و شوکت دشمنانِ اسلام کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے... اسلام دشمن طاقتیں اول دن سے ہی اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہیں، خوارج و نواصب کا فتنہ ہو یا روافض و شیعوں کا، خلقِ قرآن کا فتنہ ہو یا اعتزال کا... مرجئہ، جہمیہ، قدریہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ جیسے فرق ضالہ کے فتنے ہوں یا علماء سوء کا فتنہ، انکارِ حدیث کا فتنہ ہو یا انکارِ ختم نبوت کا... یہ اور اس طرح کے بہت سارے فتنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سر ابھارتے رہے ہیں لیکن ان تمام فتنوں میں جو فتنہ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا اسے ہم "روافض، شیعہ، اثنا عشریہ" کے مختلف ناموں سے جانتے ہیں... زیر نظر تحریر میں ہم ان شاء اللہ اسی فتنے اور فتنہ پروروں کی ریشہ دوانیوں کا مختصر تذکرہ کرنے کی کوشش کریں گے...
آغاز کلام
شیعیت کے نام سے مشہور اس فتنے کی جڑیں بڑی مضبوط، گہری اور بہت لمبی ہیں، اس فتنے کا روح رواں "عبد اللہ بن سبا" نامی یہودی ہے، وجود میں آنے کے بعد یہ فتنہ روز بروز ترقی کرتا رہا، زیرِ زمین اور پس پردہ اس کی سرگرمیاں جاری رہیں اور آج تک جاری ہیں... اس فرقہ کو جب بھی موقع ملا تو اس نے مسلمانوں کو اور ان کی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کا کام بخوبی انجام دیا، اس فرقہ کو بعض اوقات اقتدار بھی ملا تو اس نے ان مواقع سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا، کبھی بیت اللہ پر حملہ کیا، کبھی حجر اسود کو اٹھا کر لے گئے، مسلمانوں کا قتل عام کیا، علماء کو سر عام ذلیل و رسوا کر کے انہیں ظلم کی چکّی میں پیستے ہوئے شہید کر دیا...وغیرہ وغیرہ........
اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے "شیعوں" کے رویے کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: "روافض یہود و نصارٰی، تاتاری اور مشرکین وغیرہ جیسے دشمنان اسلام کا ساتھ دیتے ہیں اور اللہ کے اُن مخلص بندوں سے بغض و عداوت رکھتے ہیں جو اعلی درجے کے دیندار اور متقین کے سردار تھے، جو دین کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی حفاظت کرنے والے تھے... تاتاریوں کے اسلامی ممالک پر حملہ کرنے اور راہ پانے میں سب سے زیادہ دخل ان روافض اور شیعوں ہی کا تھا... اب علقمی اور طوسی وغیرہ کی دشمن نوازی اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشیں زبان زد خاص و عام ہو چکی ہیں... شام میں جو روافض تھے انہوں نے بھی کھلم کھلا طور پر کافروں کا ساتھ دیا تھا اور اس وقت عیسائیوں کی انہوں نے پوری مدد کی تھی یہاں تک کہ مسلمانوں کے بچوں اور ان کی مملوکات کو ان لوگوں نے ان عیسائیوں کے ہاتھوں غلاموں کی طرح بیچ دیا تھا بلکہ ان کے کچھ لوگوں نے تو صلیبی جھنڈا بھی بلند کیا تھا اور گزشتہ دور میں عیسائیوں کے بیت المقدس پر قبضہ میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا"... (منہاج السنة ج 4 ص 110)
(مستفاد از کتاب "خمینی اور شیعیت کیا ہے؟ مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ ص 4-3)
____________________________
بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی
محترم قارئین! جیسا کہ پہلے ہی یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ شیعیت کا بانی" عبد اللہ بن سبا "نامی یہودی ہے، اس شخص نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا، لیکن در حقیقت یہ مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہی خلاف لا کھڑا کیا اور بعد میں اس کا جو کردار سامنے آیا اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس نے بری نیت سے ہی یہودیت ترک کر کے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کا اصل مقصد مسلمانوں میں شامل ہو کر اور اپنے ناز و ادا اور کرتبوں سے ان میں مقبولیت حاصل کر کے اندر سے اسلام کی تخریب و تحریف اور اہل اسلام کے درمیان اختلاف و شقاق پیدا کر کے فتنہ و فساد برپا کرنا تھا... آغاز مرحلے میں مدینہ منورہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران اس نے اپنی ذہانت سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہاں اور پورے حجاز کے علاقے میں دینی شعور کے حامل افراد موجود ہیں اور یہاں دین کے ایسے محافظ بستے ہیں جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اس لئے پہلے وہ بصرہ اور پھر شام چلا گیا، یہاں بھی اس کو اپنے منصوبے کے مطابق کام کرنے کا موقع نہیں ملا، اس کے بعد وہ مصر پہنچا جہاں اسے کچھ ایسے افراد مل گئے جن کو وہ اپنا آلہء کار اور اپنی مفسدانہ مہم و سرگرمیوں میں حصہ دار و مددگار بنا سکے... مورخین کا بیان ہے کہ اس نے لوگوں میں سب سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا کہ "مجھے اُن مسلمانوں پر تعجب ہے جو عیسی علیہ السلام کے تعلق سے تو اس دنیا میں دوبارہ آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیسی علیہ السلام سمیت تمام انبیاء و رسل سے افضل و بہتر ہیں، آپ یقیناً اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے"....... حقیقت میں یہ بات بالکل اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی اور اسلام کے بنیادی عقائد سے اس کا ٹکراؤ تھا لیکن اس کے باوجود بھی کچھ جاہل اور کم تربیت یافتہ افراد اس کے اس کفریہ عقیدے کا شکار ہوگئے اور انہوں نے اس کی بات کو قبول کر لیا..........
(جاری ہے)