• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صاحب ثروت لوگوں کے مال میں ناداروں اور بے کسوں کا حصہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صاحب ثروت لوگوں کے مال میں ناداروں اور بے کسوں کا حصہ
معاش انسانی زندگی کااہم مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لئے اسلام نے ہمیں بہترین نظامِ معیشت دیا ہے جس کے ذریعے نہ صرف انسانوں کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ وہ ایک خوشحال زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو معاشی دوڑ میں کسی طرح پیچھے رہ جاتے ہیں، ان ناداروں، حاجت مندوں اور معذوروں کی کفالت کے لئے اسلام نے دولت مندوں کے مال میں ایک مقررہ حق اور حصہ رکھ دیا ہے۔
اگر ہم قرآنِ مجید میں اس پہلو سے غور کریں کہ اس نے مال داروں کے مال میں ناداروں کے لئے کیا کچھ رکھا ہے، تو ہمیں درج ذیل قرآنی احکامات ملتے ہیں :
قرآن میں اغنیا کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کاایک حصہ غریب حاجت مندوں پر صرف کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی متقی لوگ بہشت کے باغوں میں اور چشموں کے کناروں پر عیش سے رہیں گے جن کے مال کا ایک حصہ دنیا میں غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ ہوتا تھا :
((إنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ .... وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمُحْرُوْم))(الذاریات: ۱۵تا۱۹)
’’بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور چشموں میں عیش کریں گے… اُن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا حصہ ہوتا تھا۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایاکہ جو دولت مند اپنی دولت کا ایک حصہ حاجت مندوں کی کفالت پر خرچ کرتے ہیں، وہ اعزاز و اِکرام کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے :
((وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ é لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ..... اُوْلٰئِکَ فِیْ جَنٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ)) (المعارج : ۲۴،۲۵، ۳۵)
’’اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی … وہی لوگ جنت کے باغوں میں عزت و اکرام کے ساتھ رہیں گے۔‘‘
فرمایا غریبوں اور نادراوں پر صدقہ و خیرات کرنا علانیہ بھی جائز ہے، لیکن پوشیدہ طور پر خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اس طرح ریاکاری کا شائبہ نہیں رہتا۔
((اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ھِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ)) (البقرۃ:۲۷۱)
’’اگر تم صدقہ و خیرات علانیہ طور پر دو تو یہ بھی درست ہے، لیکن اگر پوشیدہ طور پر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اس سے اللہ تمہارے گناہ دور کردے گا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے۔‘‘
متعلقہ احادیث
حدیث میں ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:
((أفضل الصدقة أن تشبع کبدًا جائعًا)) (شعب الایمان:۳۳۶۷)
’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے کو پیٹ بھر کھلائے۔‘‘
اسلام میں جہاد بہت بڑے اجروثواب کا کام ہے، لیکن جو شخص بیواؤں اور مسکینوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے، اُسے بھی مجاہد کہا گیا ہے اور اس کی اس تگ و تاز کو جہاد سے تعبیر کیاگیا ہے۔ایک حدیث نبویؐ میں ہے کہ
((الساعی علی الأرملة والمسکین کالمجاھد في سبیل اﷲ...کالقائم الذي لا یفتر وکالصائم الذي لا یفطر)) (بخاری:۶۰۰۷ و مسلم:۲۹۸۲)
’’بیواؤں اور مسکینوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا شخص اس مجاہد کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتاہے ۔ ۔ ۔ اور اس شخص کی طرح ہے جو رات بھر اللہ کے حضور کھڑا رہتا ہے اور تھکتا نہیں اور اس روزے دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا یعنی لگاتار روزے رکھتا ہے۔‘‘
حضرت ابو موسیؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ
((أطعمو الجائع وعودوا المریض و وفکوا العاني)) (صحیح بخاری :۵۶۴۹)
’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ ،بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کی رہائی کا بندوبست کرو۔‘‘
اس حدیث میں تین اُمور بیان فرمائے گئے ہیں:بھوکے کو کھاناکھلانا،بیمار کی عیادت کرنا، اور غلاموں کو آزادکرنا۔ بھوکے کو کھاناکھلانے کا حکم دیا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صاحب ثروت لوگوں کے مال میں ناداروں اور بے کسوں کا حصہ رکھ دیا گیا ہے اور یہ حصہ پہنچانے کا اہتمام ضروری ہے۔
غریبوں اور ناداروں کی ضروریات پوری کرتے وقت امیروں کو ریاکار اور نمائش سے روکا گیاہے اور ہدایت کی گئی کہ اس حال میں خرچ کرو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیاخرچ کیا ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ
((حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ)) (صحیح بحاری ،حدیث:۶۶۰)
’’یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں نے کیا خرچ کیاہے۔‘‘
مذکورہ بالاآیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ صاحب ثروت لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مال سے بے کسوں اورغریب حاجت مندوں کا حصہ رکھیں ہی نہیں بلکہ اپنی نگرانی میں ان تک پہنچائیں۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ساجد بھائی آپ نے ماشاء اللہ اچھا مضمون پیش کیا ہے۔ آپ نے جو قرآنی آیات کے ساتھ دو بریکٹ لگائی ہیں ان کی بجائے آپ وہ پھول والی بریکٹ لگا دیتے تو خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ۔ اور اس کے ساتھ جو احادیث دی ہیں ان کے ساتھ بھی دو بریکٹ چھوٹی ہوتیں تو اور اچھا ہوتا۔ تو آپ کا ان کا فونٹ چھوٹا کر دیتے تو یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا۔ اللہ تعالی ہم سب کو قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا!
محمد عمر بھائی! انہیں شائد اس طرح سمجھ نہ آئے، آپ ان کی پوسٹ میں سے ایک آیت مبارکہ اور ایک حدیث پر کو کاپی پیسٹ کرکے، باقاعدہ انہیں لگا کر دکھائیں، تو زیادہ بہتر ہوگا، ان شاء اللہ!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا۔ ہمارے یہاں صدقہ کرنے والوں کی تو کمی نہیں۔ لیکن دائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۔۔ یہ بات شاید ہمارے ذہنوں سے نکل چکی ہے!۔ اللہ تعالیٰ سب کو ریاکاری سے محفوظ فرمائیں۔ آمین
 
Top