- شمولیت
- مارچ 17، 2015
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 36
صبح و شام دس مرتبہ درود شریف پڑھنے کی فضیلت میں وارد حدیث کی تحقیق
( ﻣﻦ ﺻﻠﻰ ﻋﻠﻲَّ ﺣﻴﻦ ﻳﺼﺒﺢ ﻋﺸﺮًﺍ ، ﻭﺣﻴﻦ ﻳﻤﺴﻲ ﻋﺸﺮًﺍ ، ﺃﺩﺭﻛﺘﻪ ﺷﻔﺎﻋﺘﻲ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔ )
جو شخص مجھ پر درود بھیجے دس مرتبہ صبح کے وقت
اور دس مرتبہ شام کے وقت
تو اس کو میری شفاعت قیامت کے دن پا لے گی (یعنی میری شفاعت کا وہ حقدار ہو جائے گا )
_____مکمل حدیث_____
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ ﺍﻟﻄﺮﺍﺋﻔﻲ ﺍﻟﺮﻗﻲ ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﻴﻤﻮﻥ ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﻗﻲ ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻘﻴﺔ ﺑﻦ ﺍﻟﻮﻟﻴﺪ ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﻗﺎﻝ : ﺳﻤﻌﺖ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ، ﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺍﻟﺪﺭﺩﺍﺀ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻥ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ : ( ﻣﻦ ﺻﻠﻰ ﻋﻠﻲَّ ﺣﻴﻦ ﻳﺼﺒﺢ ﻋﺸﺮًﺍ ، ﻭﺣﻴﻦ ﻳﻤﺴﻲ ﻋﺸﺮًﺍ ، ﺃﺩﺭﻛﺘﻪ ﺷﻔﺎﻋﺘﻲ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔ)
رواه الطبراني
مجھے طبرانی کا حوالہ تو نہیں مل سکا لیکن حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "جلاء الأفهام" (ص/63) میں نقل کیا ہے طبرانی کے سند سے ۔۔۔
_____تخریج الحدیث_____
أﺧﺮﺟﻪ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﺻﻢ ﻓﻲ )) ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ (( ( 61 ) ، ﻭﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﻓﻲ )) ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ (( ، ﻛﻤﺎ ﻓﻲ )) ﺟﻼﺀ ﺍﻷﻓﻬﺎﻡ (( ﻻﺑﻦ ﺍﻟﻘﻴﻢ ( ﺹ 127 ، 418 ) ، ﻭ )) ﺩﺍﻋﻲ ﺍﻟﻔﻼﺡ ﻓﻲ ﺃﺫﻛﺎﺭ ﺍﻟﻤﺴﺎﺀ ﻭﺍﻟﺼﺒﺎﺡ (( ﻟﻠﺴﻴﻮﻃﻲ ﺭﻗﻢ ( 86 ) ، ﻣﻦ ﻃﺮﻕ ﻋﻦ ﺑﻘﻴﺔ ﺑﻦ ﺍﻟﻮﻟﻴﺪ ﻋﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﻗﺎﻝ : ﺳﻤﻌﺖ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺍﻟﺪﺭﺩﺍﺀ ... ﻓﺬﻛﺮﻩ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎً۔۔۔
_____حکم الحدیث_____
اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "السلسلة الضعيفة " (5788) میں ضعیف کہا ہے
اور حافظ العراقي نے "تخریج الإحياء" (441/1) میں اس حدیث کو ضعیف اور "المغني" (314/1) میں اس کی سند کو منقطع کہا ہے
اور السخاوی نے "القول البدیع" (179) میں ضعیف کہا ہے
اور شیخ مقبل الوداعی نے "الشفاعة" (ص/270) میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔۔۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو پہلے "صحیح الجامع"(5357) میں حسن کہا
لیکن پھر رجوع کیا
اور بعد میں "السلسلة الضعيفة" (5788) میں ضعیف کہا
_____سند کی خرابی_____
-1 ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ نے ﺃبو ﺍﻟﺪﺭﺩﺍﺀ سے نہیں سنا ہے۔ دیکھیں" : ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺘﺤﺼﻴﻞ " ( ﺹ 171/ ) .
-2 ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﺍﻷﻟﻬﺎﻧﻲ : ان کے سلسلے میں کسی کی نہ تو توثیق ہے اور نہ ہی جرح ۔ دیکھیں " ﺍﻟﺘﺎﺭﻳﺦ ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ " ﻟﻠﺒﺨﺎﺭﻱ ( 1/323 ) ، " ﺍﻟﺠﺮﺡ ﻭﺍﻟﺘﻌﺪﻳﻞ " ﻻﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ( 2/127 ) .
-3 ﺑﻘﻴﺔ ﺑﻦ ﺍﻟﻮﻟﻴﺪ ﻣﺪﻟﺲ راوی ہیں
اور مدلس کی عنعن روایت ضعیف ہوتی ہے ۔۔۔
_____خلاصہ کلام_____
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث وارد ہیں جن کی موجودگی سے اس جیسی ضعیف حدیثوں کی ضرورت نہیں رہتی ،
آدمی جب چاہے تب درود بھیجے لیکن اس کو کسی ایسے وقت میں خاص نہ کرے جس وقت میں درود پڑھنے کی صراحت حدیث میں نہیں ہے
اس لیے کہ کسی وقت یا کیفیت سے خاص کرنا بدعت کے زمرے میں آتا ہے
اور اگر آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس صحیح حدیث پر عمل کرے :
اور اذان کا جواب دینے کے بعد یہ دعا پڑھے جو نیچے حدیث میں ہے
ﻋَﻦْ ﺟَﺎﺑِﺮِ ﺑْﻦِ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃَﻥَّ ﺭَﺳُﻮﻝَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺎﻝَ : ( ﻣَﻦْ ﻗَﺎﻝَ ﺣِﻴﻦَ ﻳَﺴْﻤَﻊُ ﺍﻟﻨِّﺪَﺍﺀَ : ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺭَﺏَّ ﻫَﺬِﻩِ ﺍﻟﺪَّﻋْﻮَﺓِ ﺍﻟﺘَّﺎﻣَّﺔِ ، ﻭَﺍﻟﺼَّﻠَﺎﺓِ ﺍﻟْﻘَﺎﺋِﻤَﺔِ ، ﺁﺕِ ﻣُﺤَﻤَّﺪًﺍ ﺍﻟْﻮَﺳِﻴﻠَﺔَ ﻭَﺍﻟْﻔَﻀِﻴﻠَﺔَ ، ﻭَﺍﺑْﻌَﺜْﻪُ ﻣَﻘَﺎﻣًﺎ ﻣَﺤْﻤُﻮﺩًﺍ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻭَﻋَﺪْﺗَﻪُ : ﺣَﻠَّﺖْ ﻟَﻪُ ﺷَﻔَﺎﻋَﺘِﻲ ﻳَﻮْﻡَ ﺍﻟْﻘِﻴَﺎﻣَﺔِ ) ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ( 614 )
اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین۔۔۔!
-----:>>>فضیل احمد ظفر
Last edited by a moderator: