• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام اور آل بیت کے درمیان مشفقانہ تعلقات

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
صحابہ کرام اور آل بیت کے درمیان مشفقانہ تعلقات

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، حی السلامہ –جدہ

حضرت محمد ﷺ پر جو شریعت اللہ نے اتاری ہے اس شریعت پر چلنے والوں کی بہترین مثال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں ۔ قرآن وحدیث کی تعلمات کو احسن طریقے سے اپنی زندگی میں نافذ کرنے والی یہی ہستیاں ہیں اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے اہل ایمان (صحابہ) کو سب سے بہترین لوگ قرار دیا ہے ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
سُئِلَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أحَدِهِمْ يَمِينَهُ، ويَمِينُهُ شَهَادَتَهُ(صحيح البخاري:6658)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون لوگ اچھے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا زمانہ، پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے۔ اس کے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہو گی جس کی گواہی قسم سے پہلے زبان پر آ جایا کرے گی اور قسم گواہی سے پہلے۔
جہاں ایک طرف رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو سب سے بہترین انسان قرار دیا ہے وہیں اللہ تعالی نے ان کی بشری لغزشوں کو معاف کرکے، ان کی نیکیاں قبول کرکے ان سے رضامندی کا اظہار کیاہے اور ان کو جنت کی بشارت دی ہے چنانچہ فرمان الہی ہے :
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة:100)
ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔
ان دو دلیلوں سے یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ صحابہ کرام جن میں آل بیت بھی داخل ہیں وہ اس امت کے بہترین لوگ اور بے مثال مومن ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ بے سند اورغیرمستند جھوٹی باتوں یا مشاجرات صحابہ کو بنیاد بناکر بعض لوگوں نے پاک ہستیوں (صحابہ ) کو نشانہ بنایا ، ان کو برا بھلا کہا حتی کہ اہل بیت کے نام پر امت میں غلط فہمی پھیلائی گئی ۔ ان غلط فہمیوں میں سے ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام ، اہل بیت سے محبت نہیں کرتے تھے بلکہ بغض رکھتے تھے ۔میں اسی ایک غلط فہمی کا ازالہ کروں گا کہ تمام صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے سے یا یہ کہیں صحابہ کرام اہل بیت سے مل کر رہتے، ان سے محبت کرتے اور ان کے آپس کے تعلقات نہایت ہی مشفقانہ تھے ۔ یہ بات کوئی عام آدمی کہے یا بغیر دلیل کے کہےتو یقین نہیں ہوگا مگر جب یہی بات اور گواہی رب العالمین دے تو ایمان والوں کوسوفیصد یقین ہوگا اور شک کا کہیں امکان نہیں رہے گامگر جن کے دل میں کفر ونفاق پلتا ہوان کےلئے سودلیلیں بھی کم ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے :
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا(الفتح:29)
ترجمہ:محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔
ایک دوسرے مقام پراللہ تعالی خصوصیت کے ساتھ آپسی الفت ومحبت اور اخوت وبھائی چارگی کی مثال دیتے ہوئے فرماتاہے:
وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (آل عمران:103)
ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔
اللہ جن کے اعلی کردار وایمان("أولئك كتب في قلوبهم الإيمان" یعنی یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے) کی گواہی دے رہاہےاورجنہیں معافی کا پروانہ دے کر بخشش و جنت کی بشارت دے رہا ہے، پھر آپسی تعلقات رحم دلانہ اور مشفقانہ ہونے کی گواہی دے رہاہے کہ صحابہ انصار ومہاجرین اور اہل بیت یہ سب آپس میں ایک دوسرے سے حد درجہ محبت کرتے اور رحم دلی کا معاملہ کرتے ہیں بلکہ اللہ نے یہاں تک بتادیا کہ ان سب صحابہ کے دلوں میں ہم نے ایک دوسرے کے لئے الفت ومحبت ڈال دی اور وہ سب بھائی بھائی ہوگئے۔بھلا بتائیے جس دل میں اللہ محبت ڈال دے اس میں بغض کیسے رہے گا اور جس کو اللہ محبت کرنے والا بنادے وہ بغض کرنے والا کیسے ہوسکتا ہے؟
اس لئے میرے مسلمان بھائیو!اللہ کی گواہی کے بعداگر کوئی کسی صحابی کے بارے میں زبان کھولتا ہے کہ فلاں صحابی کو اہل بیت سے محبت نہیں، فلاں صحابی اہل بیت سے بغض رکھتے تھےتو یہ عام جھوٹ نہیں اللہ تعالی پر بہتان ہے جو صحابہ کی آپس میں رحم دلی اور مشفقانہ تعلقات کی گواہی دیتا ہے ۔ العیاذ باللہ
اوریاد رکھو،کسی بھی صحابی کو برابھلا کہنا، ان کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا ،ان سے بغض رکھنااور اللہ پر بہتان لگانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ، ایسے لوگ مسلمان نہیں منافق ہیں ۔ہمیں ایسے منافقوں کی پہچان کرنی ہےاور ان کےنفاق سے پردہ اٹھانا ہے تاکہ سیدھے سادھے لوگ ان کے مکروفریب کا شکار ہوکر جانے انجانے میں کہیں صحابہ سے محبت کی بجائے عداوت نہ کرنے لگے ۔
دلائل کے ساتھ اب کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ اس موضوع پر ذہن پوری طرح صاف رہے اور آل بیت سمیت تمام صحابہ سے ہم سچی محبت کریں ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ، والعَبَّاسَ، أتَيَا أبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا، أرْضَهُ مِن فَدَكٍ، وسَهْمَهُ مِن خَيْبَرَ، فَقالَ أبو بَكْرٍ:سَمِعْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، يقولُ:لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إنَّما يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ في هذا المَالِ واللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أحَبُّ إلَيَّ أنْ أصِلَ مِن قَرَابَتِي(صحيح البخاري:4035)
ترجمہ: فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عباس رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زمین جو فدک میں تھی اور جو خیبر میں آپ کو حصہ ملا تھا، اس میں سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا۔اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس جائیداد میں سے خرچ ضرور ملتا رہے گا۔اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے ساتھ عمدہ معاملہ کرنا مجھے خود اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن معاملت سے زیادہ عزیز ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں ابوبکرؓکی اہل بیت سے حددرجہ محبت واضح ہوتی ہے ساتھ ہی یہ غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے کہ آپ نے فدک سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حصہ اس لئے نہیں دیا کہ ان کےسامنے رسول اللہ ﷺ کا فرمان تھا کہ نبی جو کچھ چھوڑجائیں اسے تقسیم نہیں کیاجائے گا، یہ صدقہ ہے جو عام فقراء ومساکین کا حق ہے۔ اس بات سے ابوبکررضی اللہ عنہ کی ایمانداری اوررسول اللہ سے محبت کا ثبوت ملتا ہے ۔اور جو بات رسول اللہ سے محبت کی علامت ہو وہ آل بیت سے بھی محبت کی علامت ہوگی ، نہ کی بغض کی ۔
یہ مسئلہ شیعہ کی کتاب سے بھی ثابت ہوتا ہےچنانچہ شیعہ امامیہ کے بڑے محدث محمد بن یعقوب الکلینی اپنی حدیث کی کتاب الکافی میں ذکرتے ہیں، ابوعبداللہ جعفرالصادق (جوشیعہ اثناعشریہ کے چھٹے امام ہیں اور بریلوی جن کے نام سے ستائیس رجب کو کونڈے بھرکرشرکیہ وسیلہ لگاتے ہیں) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے بیان فرمایا:
وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر(الكافي 1/34)
ترجمہ: اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم اور دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لے لیا تو اس نے بڑاحصہ لے لیا۔
الکافی جو شیعہ کی چار معتبر کتابوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں علمائے شیعہ کا اعتقاد ہے کہ الکافی کی تمام احادیث صحیح ہیں ۔ اس لحاظ سے شیعہ کتاب سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کی چھوڑی ہوئی وراثت تقسیم نہیں ہوتی ہے پھر فدک کے معاملے میں اہل تشیع کا واویلا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بغض وعداوت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
محبت آہل بیت سے متعلق خلیفہ اول کا یہ فرمان بھی پڑھیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:قالَ أبو بَكْرٍ: ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في أهْلِ بَيْتِهِ(صحيح البخاري:3751)
ترجمہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آپ کے اہل بیت میں رکھو۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب مرض الموت میں مبتلا ہوئیں تو ابوبکرؓنے اپنی اہلیہ اسماء بنت عمیس کو ان کی تیمارداری کے لئے بھیجا ، وفات تک وہیں رہیں اور تجہیزوتکفین میں بھی شریک ہوئیں ۔اگرابوبکرؓکو فاطمہؓ سے عداوت ہوتی توتیمارداری کے لئے ان کے پاس اپنی اہلیہ نہ بھجتے یا سیدہ فاطمہ کو آپ سے نفرت ہوتی تو آپ کی اہلیہ وفات تک وہاں نہ رہتیں بلکہ لوٹادی جاتیں۔ مزید آگے سنیئے ۔ جب ابوبکر ؓکی وفات ہوگئی تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیوہ اسماء بنت عمیس سے شادی کرلی ۔ ان حقائق سے آل صدیق اور آہل بیت کی محبت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آل بیت سے محبت پر تاریخی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے آتے ہی آہل بیت کے خصوصی وظائف کا اہتمام کیا ۔فارس کی فتح میں جب کسری کی کئی پوتیاںمسلمانوں کے ہاتھ آئیں تو ان میں سے ایک حضرت عمر نے حسین بن علی ؓکو دیا جس نے حسین ؓنے شادی کرلی ، انہیں کے بطن سے زین العابدین ابوبکرعلی بن حسین پیدا ہوئے ۔ کربلا میں مردوں میں صرف زین العابدین ہی بچ گئے تھے کیونکہ بیماری کی وجہ سے واقعہ کربلا میں شریک نہیں تھے ۔ آپ شیعہ اثناعشریہ کے چوتھے امام ہیں۔ گویا شیعہ اثناعشریہ کے چوتھے امام کی والدہ حضرت عمرؓکی طرف سےہبہ کی گئیں تھیں بلکہ زین العابدینؒ کی کنیت بھی خلیفہ اول کے نام پر ہے۔ حضرت علی ؓنے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے کیا تھا ۔اسی طرح حضرت عمر ؓکی یہ دعا اہل بیت سے محبت کی علامت ہے۔
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أنَّ عُمَرَ بنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عنْه، كانَ إذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بالعَبَّاسِ بنِ عبدِ المُطَّلِبِ، فَقالَ: اللَّهُمَّ إنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إلَيْكَ بنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وإنَّا نَتَوَسَّلُ إلَيْكَ بعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قالَ: فيُسْقَوْنَ(صحيح البخاري:3710)
ترجمہ: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطا کرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی۔
آہل بیت سے صحابہ کی محبت اورشہادت حسین ؓ پرافسوس سےمتعلق حضرت عمرؓکے بیٹے عبداللہ ؓکا یہ واقعہ بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔
ابونعیم نے بیان کیا کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں موجود تھا ان سے ایک شخص نے (حالت احرام میں) مچھر کے مارنے کے متعلق پوچھا (کہ اس کا کیا کفارہ ہو گا) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے ہو؟ اس نے بتایا کہ عراق کا، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو، (مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے) حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کو (بےتکلف قتل کر ڈالا) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:هُما رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا(صحيح البخاري:5994)
ترجمہ: یہ دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب بلوائیوں نے گھیر رکھا تھا اور آپ محصور ہوگئے تھے تب آپ کی حفاظت کے لئے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ تلوار کے ساتھ موجود تھے جو آپ کی حفاظت اور دفاع کرنا چاہتے تھے مگر حضرت عثمان ؓکی اہل بیت سے محبت کا جذبہ دیکھئے کہ خود تکلیف میں ہوتے ہوئے اہل بیت کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ، حسن ؓکو اللہ کا واسطہ دے کر گھر بھیج دیا تاکہ حسنؓ کو تکلیف نہ پہنچے اور ان کی وجہ سے ان کے والد کو تکلیف محسوس نہ ہو۔ ان تاریخی حقائق سے نظریں چرا کرمنافقین جھوٹی باتیں جن کی صحت کا پتہ نہیں ان پر اعتبار کرکے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کے بارے میں طعن وتشنیع کرتے ہیں ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کا خلفائے راشدین کے بارے میں کیا ایمان واعتقاد ہے آپ سے جانیں اور دوسروں تک بھی یہ بات پہنچائیں ۔
عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ، قَالَ: قُلتُ لأبِي: أيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ؟ قَالَ: أبو بَكْرٍ، قُلتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ، وخَشِيتُ أنْ يَقُولَ: عُثْمَانُ، قُلتُ: ثُمَّ أنْتَ؟ قَالَ: ما أنَا إلَّا رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ(صحيح البخاري:3671)
ترجمہ: محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔
یہ کوئی عام حوالہ نہیں ہے صحیح بخاری کی حدیث ہے ، اس حدیث سے اہل بیت کی صحابہ سے بطور خاص خلفائے ثلاثہ سے محبت کاعلم ہوتا ہے کیونکہ کوئی کسی کی فضیلت اسی وقت بیان کرتا ہے جب اس سے محبت وعقیدت ہوتی ہے ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اہل بیت کے فضائل پر مشتمل متعدد احادیث بیان کرتی ہیں بطورخاص اہل بیت سے متعلق صحیح مسلم کی مشہورحدیث (حدیث نمبر:2424) جس میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر میں حسن، حسین، فاطمہ اور علی رضوان اللہ علیھم اجمعین کو ڈھک لیا اور اہل بیت سے متعلق آیت تطہیر کی تلاوت کی ۔
اس کے بعد حضرت علی کے گھرانہ میں اولاد کے اسمائے گرامی پر نظر ڈالتے ہیں کیونکہ انسان نام بھی عقیدت و محبت کی بنیاد پر ہی رکھتا ہے ۔
حضرت علی نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں ، علامہ ابن کثیر نےالبدایہ والنہایہ میں نو بیویوں کا ذکر کیا ہے ، ان سے اٹھائیس (28) اولاد کا پتہ چلتا ہے۔ ان میں اولاد میں تین نام تینوں خلفاء کے نام پر تھے ابوبکر، عمر اور عثمان ۔یہ تینوں میدان کربلا میں شہید ہوئے ۔ سیدنا حسن ؓکی اولاد میں ابوبکروعمر تھے جو کربلامیں شہید ہوئے اور سیدنا حسین کی اولاد میں بھی ایک نام عمر کا ملتا ہے۔
رشتے داریوں کی بات کی جائے جن سے اہل بیت کی نسبت ہے یعنی کہ محمد ﷺ تو آپ نے دو خلیفہ حضرت ابوبکر کی بیٹی سیدہ عائشہ اور حضرت عمر کی بیٹی سیدہ حفصہ سے نکاح کیا اور دو خلیفہ حضرت عثمان کا اپنی بیٹی رقیہ اور ام کلثوم اور حضرت علی کا اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ سے نکاح کرایا۔ اس طرح خلیفہ اول ودوم آپﷺ کے سسر اور خلیفہ سوم وچہارم آپ کےد اماد ٹھہرے ۔ اندازہ لگائیے کہ بیت رسول کا آل صدیق، آل عمر ، آ ل عثمان اورآل علی سےکتنا گہرا رشتہ ہے؟
شیعہ اثناعشریہ کے چوتھے امام زین العابدین کی بات اوپر گزرچکی ہے ، چھٹے امام جعفر صادق جن کی طرف شیعہ کی فقہ جعفریہ منسوب ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ جعفر صادق کے نانا(محمد بن ابوبکراور عبدالرحمن بن ابوبکر) کی سگی بہن تھیں، اس اعتبار سے آل بیت اور آل صدیق میں خونی رشتہ بھی تھا ۔ جعفرصادق کا مشہور مقولہ ہے: ولدني أبو بكر مرتين یعنی مجھے ابوبکر نے دومرتبہ جنم دیا ۔ بعض روایت میں ابوبکر کے ساتھ الصدیق کا بھی اضافہ ہے ۔ (حوالہ شیعہ کتاب ، بحار الأنوار ازعلامہ مجلسی: 29/651)
دومرتبہ جنم دینے سے مراد والدہ ام فروہ ، ابوبکرؓکے پوتے کی بیٹی تھی اور نانی اسماء بنت عبدالرحمن ، ابوبکرؓکی پوتی تھی۔
میں نے بطور حجت محض چندرشتہ داریوں کو ذکر کیا ہے ، حقیقت تو یہ ہےکہ صحابہ آپسی محبت اور اسلامی اخوت کی بنیاد پر سب شیروشکر ہوکر رہتے ۔ آپس میں رشتہ داریاں کرتے اور ان میں ایک دوسرے خلاف قطعا بغض وحسد نہیں تھا، اگر بتقاضائے بشریت کچھ آپسی اختلافات کہیں ملتےبھی ہیں تو یہ اسلامی اخوت ومحبت پر کوئی اثر نہیں ڈالتے ۔
اہل بیت اور صحابہ کرام کے درمیان ناموں کی مماثلت اور رشتہ داریاں جاننے کے لئے سید بن احمد بن ابراہیم کی عربی کتاب " الاسماء والمصاھرات بین اھل البیت والصحابہ " دیکھیں ۔ اس کا اردو ترجمہ کتاب وسنت ڈاٹ کام اور اسلام ہاؤس پر" آل بیت اور صحابہ کرام کے تعلقات اسماء اور قرابت داری کی روشنی میں "کے نام سے موجود ہے ۔ سورہ شوری آیت نمبرپچیس میں اللہ کے رسول نے مومنوں سے اپنے رشتہ داروں کے سلسلے میں جس مودت کا مطالبہ کیا ہے ،اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں ہمیں اس طرح کی مودت آل بیت سے کرنے کی توفیق دے اور اس معاملے میں ناصبیوں اور رافضیوں کو سیدھےراستےکی ہدایت دے۔ آمین
 
Top