• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام اور ان کا منہج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحابہ کرام اور ان کا منہج

۱۔ صحابی کون ہوتا ہے؟ صحابی کی جمع اصحاب اور صحابہ آتی ہے۔صحابی اسے کہتے ہیں جو رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں آپ کو حالت ایمان میں ملا ہو اور بحیثیت مسلم اس کا انتقال ہوا۔بینا ونابینا اور مرد وخواتین سبھی اس میں برابر ہیں۔جو مرتد ہوگئے اور کفر کی حالت میں مرے وہ ان میں شامل نہیں۔جیسے ابن خطل، ربیعہ بن امیہ اور مقیس بن صبابہ وغیرہ۔لیکن جو مرتد ہوا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد مسلمان ہوا وہ بھی صحابی نہیں کیونکہ اس کے ارتداد نے اس کی صحابیت کو ختم کردیا ۔ جیسے قرہ بن ہبیرہ اور اشعث بن قیس۔ رہے وہ جو مرتد ہوئے اور حیات رسول میں ہی واپس پلٹ آئے تو ان کے صحابی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ جیسے عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ۔اسی طرح وہ لوگ بھی صحابی نہیں ہوسکتے جو آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں مسلمان تو تھے مگر آپ ﷺ کو مل نہ سکے۔ جیسے ابوعبد اللہ الصنابحی۔ مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں اس چارپائی پر دیکھا جس پر آپ ﷺ کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی۔

٭…ضروری نہیں کہ ہر صحابی حدیث روایت کرے۔ روایت کا اعزازاگر خلفاء اربعہ کو ملا ہے تو بلالؓ، صہیبؓ، سلمانؓ اور ابوذرؓ بھی پیچھے نہیں رہے اور صحابیات بھی روایت میں برابر کی شریک ہیں۔ دین کے معاملے میں کم علمی یا لاعلمی ان کی صحابیت یا ثقاہت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔یہ نسل رسول اللہ ﷺ سے براہ راست فیض یاب ہوئی۔ ان کی روایت ناقابل تردید اور عدل پر مبنی ہے۔ان کے کھرے ایمان اور مخلصانہ جذبے کے مدمقابل کوئی نسل نہیں۔ ترویج حدیث میں اس نسل نے جس قربانی اور جانفشانی سے حصہ ڈالا تاقیامت اس کا سہرا انہی کے سر ہے۔حساس بھی تھے اور بہت محتاط بھی۔حدیث دان تھے مگر ان کا ورع اور تقوی انہیں روایت حدیث میں چوکنا کرتا پھران کی خواہش یہی ہوتی کہ کاش اس حدیث کو کوئی دوسرا بیان کردے۔ان کے بارے میں گھڑی روایات یا گھڑنے کا رجحان اگرکسی کا ہو توظاہر ہے وہ خود جھوٹا ہے نہ کہ اصحاب رسول۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روایت حدیث میں ان کا مقام:
الصَّحَابَۃُ کُلُّہُم عَدُوْلٌ:
اس نسل کے بارے میں اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ: تمام صحابہ عادل ہیں۔عادل سے مرادیہ ہے کہ موافق وناموافق حالات میں وہ اپنی طرف سے کوئی جھوٹ گھڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب نہیں کرسکتے۔باقی وہ اپنے مشاجرات(باہمی اختلافات) میں مجتہد ہیں جس طرح ایک مجتہد مصیب بھی ہوسکتا ہے اور مخطی بھی۔یہی مقام ان کا ہے بلکہ جس طرح ایک مخطئ مجتہد کی عقیدت باقی رہتی ہے اس سے کہیں بڑھ کر ان کی محبت وعقیدت ہونی چاہئے۔

٭…ایسی احادیث جو صغار صحابہ سے مروی ہوں پھر بھی ان کی روایت کردہ حدیث کی صحت وثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔وجہ ان کا عادل اورثقہ ہونا ہے۔ان کی تعداد کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے : آپ ﷺ جب فوت ہوئے تو اس وقت ساٹھ ہزار صحابہ تھے۔ تیس ہزار مدینہ میں اور تیس ہزار بادیہ نشین قبائل تھے۔امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے : جب آپ ﷺ کا انتقال ہوا تو ایک لاکھ سے زائد صحابہ تھے۔یہ تعداد امام شافعی رحمہ اللہ کی شماریات کے مخالف نہیں کیونکہ انہوں نے مکہ میں موجود صحابہ کی تعداد شمار نہیں کی۔ ان کی تعداد چالیس ہزار تھی اس طرح دونوں ائمہ صحابہ کی تعداد پر متفق ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…یہ سوال کہ اکابر صحابہ کی روایات کم کیوں ہیں؟ کیونکہ اکابر صحابہ کی بڑی تعداد رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعدجہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے پھیل گئی اورمدینہ سے باہر رہتے ہوئے جلد فوت بھی ہوگئی جس کی وجہ سے روایت حدیث ان سے کم ہوئی۔آخری تین خلفاء سے بکثرت روایت اس لئے ہوئی کہ وہ خلیفہ بنے انہوں نے فیصلے کئے اور لوگوں نے مرکز خلافت آآکر ان سے مسائل دریافت کئے۔تمام اکابر واصاغر صحابہ نے اپنے محفوظ علم کو آگے پہنچانا فرض جانا۔ انہوں نے شرعی مسائل صرف حدیث رسول روایت کرکے بتائے اور حسب ِعلم فتوے دئے۔ اکابر صحابہ میں سیدنا ابوبکر، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمن بن عوف، ابوعبیدہ بن جراح، سعید بن زید، ابی بن کعب، سعد بن عبادہ ، عبادہ بن صامت، اسید بن حضیر اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم ہیں گو ان سے کم روایات ہیں مگر ہیں شریعہ اسلامیہ کا قیمتی اثاثہ۔

۲۔ صحابہ کے درجات:
صحابہ کرام کے مناقب خود رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائے۔ مزید ان کا علم، حفظ وفہم اور استنباط مسائل کا ملکہ مختلف درجات کا تھا۔ بعض صحابہ اور صحابیات اپنے دینی فہم وذکاء میں کہیں آگے تھے جس کی گواہی رسول محترم نے بھی دی۔انہوں نے آپ ﷺ کی دعائیں اور بلائیں لیں۔یہ سب نکھار اپنے عروج پرایک بار پھراس وقت آیا جب رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد دین کی ذمہ داری صحابۂ رسول پر آپڑی۔ خلفاء اربعہ اپنی صلاحیتوں کے باوصف انہی صحابہ کی یادداشت اور فہم پر اعتماد کرتے جنہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اس دعا کا حق دار بننے کے لئے وقف کردیاتھا:
نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاہَا ثُمَّ أَدَّاہَا کَمَا سَمِعَہَا۔اللہ اسے تروتازہ رکھے جو میری بات غور سے سنتا اور پھر اسے یاد کرکے اسے دوسرے تک ویسے ہی پہنچاتا ہے جیسے اس نے سنا تھا۔

٭…صحابہ میں افضل ترین ابوبکر پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ پھر باقی ماندہ عشرہ مبشرہ، پھر اہل بدر، پھر اہل احد، اورپھر اصحاب بیعت رضوان ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… آپ ﷺ کی وفات کے بعدنت نئے مسائل اور بے شمار سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔صحابہ رسول ان کے حل اور جواب کے لئے علمی تبادلہ کرتے۔قرآن وسنت ہی ان کے پاس اصل مصادر تھے ۔قرآن پاک تو سینے وسفینے میں محفوظ تھا جس سے استفادہ کی صورت ممکن تھی۔ مگر آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات اس اعتبار سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے کہ اب آپ دنیا میں نہیں تھے کہ مسائل پیدا ہوں تو آپ ﷺ سے پوچھ لیا جائے۔اس لئے قدرتی طور پران کی حفاظت کا بوجھ صحابہ رسول اور علماء حدیث پر آگیا۔ یوں انہوں نے بیک وقت دو فریضے انجام دیے۔ ایک سنت رسول کی پاسبانی کا اور دوسرا اپنی یادداشت میں اسے محفوظ کرنے کا۔ چنانچہ خلفاء راشدین اوردیگر صحابہ نے بڑے پیمانے پر عمل بالحدیث شروع کردیا۔مثلاً:

٭… یہ سوال بھی ہوا کہ آپ ﷺ کو کہاں دفن کیا جائے؟ چنانچہ حدیث رسول نے ہی ان عظیم محبان سنت کی راہنمائی فرمائی کہ جس کا علم ہوتے ہی آپ ﷺ کو حجرہ عائشہؓ میں جہاں آپ ﷺکی وفات ہوئی دفنایا گیا۔

٭… رسول اللہﷺ کی میراث اور اس کی تقسیم کا معاملہ بھی اسی سے متعلق ہے۔سیدہ فاطمہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ترکہ نبی میں سے وراثت کی طالب ہوئیں تو جناب ابوبکرؓ نے یہ حدیث سنائی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: لاَ نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ۔ ہم انبیاء کے ترکے کا کوئی وارث نہیں بلکہ وہ صدقہ کے طور پر فی سبیل اللہ تقسیم ہوتا ہے۔جسے انہوں نے قبول کرلیا۔یہ حجت نہ ہوتی تو دخترِ رسول کو خلیفۂ رسول ضرور حصہ دیتے جب کہ قرآن مجید میں بیٹی کا حصہ مقرر ہے مگر اس حدیث کی بناء پر وہ محروم ہوگئیں۔اور یہ حدیث ہی تھی جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے عہد خلافت میں باز رکھ سکی کہ باغ فدک واقعی مسلمانوں کی میراث ہے اورمیرے بچے نواسۂ رسول ہونے کے باوجود اسے اب بھی نہیں لے سکتے۔

٭… خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ۔۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعداس سوال پر کہ لشکر اسامہ کو روانہ کیا جائے یا فی الحال روک دیا جائے؟ پر اس لشکر کی روانگی کا فیصلہ یہ کہتے ہوئے برقرار رکھا: مَا کَانَ لِیْ أَنْ أُحِلَّ لِوَائً عَقَدَہُ النَّبِیُّ ﷺ۔ مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ جس جھنڈے کو رسول اللہ ﷺ نے باندھا اسے میں کھول دوں۔(مسند احمد: ۱/۱۷۳ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… طواف قدوم میں پہلے تین چکرذرا اکڑ کرہلکی دوڑ سے طے کئے جاتے ہیں جسے رمل کہتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا اب کفار تو مکہ میں رہے نہیں اور نہ ہی مدینہ منورہ کی وہ بیماری رہی جس کی بدولت اہل مکہ مسلمانوں کو بیمار ہونے کا طعنہ دیا کرتے۔ اس لئے اب رمل کی ضرورت نہیں مگر پھریہ کہہ کر اسے بھی برقرار رکھا کہ(۔۔۔لاَ نَدَعُ شَیئاً کُنَّا نَفْعَلْہٗ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ) ہم اسے ترک نہیں کرسکتے جسے ہم خود زمانۂ رسول میں کیا کرتے تھے۔(مسند احمد ۱/۲۹۳)

٭…آپ ﷺ کی وفات کے بعدخلافت کے امور چلانے میں وہ نہ صرف حدیث کی حفاظت پر مجبور تھے بلکہ اس کے مطابق خلیفۂ وقت کے فرائض میں احکام شرعیہ کا نفاذ، حدود شرعی کا اجراء، عدالتی فیصلے اور مسائل بتانے کے تھے۔ اس لئے انہیں نئے نئے حالات پیش آنے پرجب اپنی معلومات سے کامیابی نہ ہوتی تو قرآنی آیات کے بعد اعلان عام کردیا جاتا کہ اس مسئلہ کے بارے میں کسی کے پاس کوئی حدیث ہو تو لے آئے۔مثلاً:

٭…آپ ﷺکے بعد خلیفہ کون ہو؟سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے اجتماع عام میں عین اس وقت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ پہنچے جب انصار سیدنا سعدؓ بن عبادہ کو اپنا امیر مقرر کرنا چاہتے تھے ۔ سیدنا عمرؓ اور ابوعبیدہ ؓبن الجراح اس انتخاب کے خلاف تھے۔ بالآخر شور اٹھا اور مِنَّا أَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیْرٌ کی صدا بلند ہوئی۔ اس نزاع کا خاتمہ ایک حدیث نے کردیا ۔ سیدنا ابوبکرؓصدیق نے بطورخاص سیدناسعدؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا: سعدؓ! تمہیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ تم نبی کریم ا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور تم نے خود اپنے کانوں سے یہ بات آپ ا سے سنی تھی : قُرَیْشٌ وُلاَۃُ ہٰذَا الأَمْرِ قریش ہی اس خلافت کے ذمہ دار ہیں۔ سعد ؓنے فوراً کہا: صَدَقْتَ ۔ آپ نے بالکل سچ کہا اور یوں حدیث قبول کرلی گئی۔[فتح الباری باب مناقب المہاجرین] یہ حدیث ہی تھی جس نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ رسول تسلیم کروایا۔یہ حدیث ہی تھی جس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر کروائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے موافقت کی۔پھر بھی ان پر فرض تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی ہرحکم کی اطاعت کریں۔بغیر اجازت ِنبوی کوئی کام نہ کریںاور نہ ہی اللہ ورسول سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔بلکہ کسی شے کو درست کرنے کے لئے بھی وہ سنت رسول کی طرف رجوع کریں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں بعض مخفی باتیں کھول کر بتادیا کرتے۔تو سیدنا عمرؓ انہیں تسلیم کرتے۔ جیسے حدیبیہ کے موقع پر ان کی نصیحت، یا جس روز رسول اکرم ﷺ نے وفات پائی اس موقع پر ان کی نصیحت، یا مانعین زکوۃ پر ان کا سیدنا ابوبکرؓ سے مناظرہ وبحث اور بالآخر سیدنا عمرؓ کا صدیقی مشورہ تسلیم کرلینا۔کسی خاتون نے بھی اگر سیدنا عمر ؓ فاروق کو دلیل پیش کی اسے بھی فراخ دلی سے قبول کرتے۔

اس لئے جو الہام وکشف کا مدعی ہے وہ سیدنا عمر ؓ سے افضل نہیں ہوسکتا۔جب وہ پابند تھے کہ سنت رسول ﷺ کی اتباع کریں تو دوسرے کیوں نہیں؟ انہیں سنت رسول کو اپنی قلبی واردات کے تابع نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ بعد کے لوگ سیدنا عمرؓ کی خاک پا کے برابربھی نہیں۔ اب یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ محدثین کے علم کا مصدر مردہ کامردہ سے ہے۔مگر ہمارا مصدر اس حی وقیوم سے حاصل شدہ ہے جسے کبھی موت نہیں آتی۔ اس کا جواب صرف یہی ہے کہ محدثین ثقات نے جور سول معصوم سے روایت کیا ہے وہ برحق ہے اگر یہ نقل معصوم نہ ہوتی توپھر لوگ یا تومشرک ہوتے یاپھر یہود ونصاری سے ہوتے۔ باقی قلبی واردات کی کیا دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے کہ وہ شیطان کی طرف سے نہیں۔کیونکہ وحی یا رحمن کی طرف سے ہوتی ہے یا شیطان کی طرف سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… حدیث رسول کا بیشتر ذخیرہ بغیر تدوین کے بذریعہ حفظ وعمل باقی رہا۔ عصرِ خلفائے راشدین اس سے نہ صرف محظوظ ہوا بلکہ اہل دین کو باور بھی کرا گیا کہ خلافت جیسے بھاری امور بھی حدیث رسول کے بغیر نمٹانا چنداں آسان نہیں۔ باوجویکہ بے شمار صحابہ اور ان کی اولاد واحفاد اس کے محافظ تھے مگر پھر بھی نئے ابھرتے مسائل اپنے جواب کے لئے حدیث رسول کے محتاج رہے۔ عہد رسول کے قریب کی یہ امین وصاحب ورع ہستیاں اس سوچ سے کہیں دور تھیں کہ کوئی بات اپنے رسول کی طرف سے خود گھڑ لیں۔یہ صحابہ قدوہ (Role Model)بنے اور سنت کے امین و پاسبان بھی۔ دین کا صحیح علم منتقل کرنے کی سعادت اسی نسل کے حصے میں آئی۔

۳۔مُکْثِر صحابہ:
یہ وہ صحابہ ہیں جن کی اکثریت نے احادیث رسول کو قلم بند کیا اورر وایت بھی۔ ورنہ حجۃ الوداع کے موقع پر احادیث سننے والوں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔کتب رجال میں چار ہزارسے زائد ان صحابہ وصحابیات کے نام ملتے ہیں جنہوں نے آپ ﷺ سے احادیث حفظ وروایت کیں۔ ان روایات میں آپ ﷺ کی مکی حیات، سفر ہجرت، مدنی زندگی، آپ کے اقوال و افعال، آرام و مصروفیت، قیام وقعود،عبادت وسیرت، سرایا اور غزوات، مزاح و بکاء، اکل وشرب، خطوط ومواثیق، فیصلے اور آپ ﷺ کی صفات وغیرہ کے علاوہ احکام شریعت بھی شامل ہیں۔

مسند بقی بن مخلد میں سات صحابہ کی روایات ایک ہزار سے متجاوز ملتی ہیں انہیں مکثر کہا جاتا ہے۔ جن کے نام ان اشعار میں ضبط کر دئے گئے ہیں۔
سَبْعٌ مِنَ الصَّحْبِ فَوْقَ الْاَلْفِ قَدْ نَقَلُوا مِنَ الْحَدِیْثِ عَنِ الْمُخْتَارِ خَیْرِ مُضَرَ
أَبُــوہُــرَیْرَۃَ، سَعْـــدٌ، جَابِرٌ، أَنَـــسٌ صِدِّیْقَۃُ وَابْنُ عَبَّاسٍ کَذَا ابْنُ عُمَرَ

سات صحابہ ایسے ہیں جنہوں نے ایک ہزار سے زائد روایات حدیث اس رسول سے کیں جو مضر کے بہترین انسانوں میں سے چنے ہوئے انسان تھے۔ وہ ابوہریرہ ہیں اور سعد، جابر، انس، عائشہ، ابن عباس اور اسی طرح ابن عمر ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:
یمن کے قبیلہ دوس کے یہ نوجوان مدینہ آنے سے قبل یمن میں ہی مسلمان ہوچکے تھے۔۔یمن میں خوشحال تھے۔ اپنی والدہ اور ایک غلام کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور سن چھ ہجری کے آخیر میں فتح خیبر کے موقع پر آپ ﷺ کو آملے۔ غلام راستے میں ہی فرار ہوگیا اور تیزی سے مدینہ آکر نبی ﷺ کو آملا اور آپ ﷺ کو سب کچھ بتا بھی دیا۔ابوہریرہؓ کے آجانے پر آپ ﷺ نے غلام کے بارے میں دریافت کیا۔ عرض کی: وہ تو بھاگ گیا۔ آپ ﷺ نے اس غلام کو بلوایا اور فرمایا : اسے لے لو۔ اس کے شوق اسلام کو سراہتے ہوئے ابو ہریرہ ؓ نے اسی وقت اسے آزاد کردیا۔

٭…ان کا نام عبد الرحمن بن صخر تھا۔ایک بلی کا بچہ ان کے پاس ہوا کرتا جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے انہیں ابوہریرہ کا لقب دیا جو اتنا مشہور ہوا کہ ان کے نام پر غالب آگیا۔صحابہ میں ایسے بے شمار افراد ہیں جو اصل نام سے نہیں بلکہ کنیت یا القاب سے معروف ہیں۔ جیسے سیدنا ابوبکر، ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہم۔

٭…ابن الجوزیؒ نے مسند بقی بن مخلد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس میں سیدنا ابوہریرہ ؓکی پانچ ہزار تین سو چوہتر روایات تھیں۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آٹھ سو تابعین نے روایت حدیث کی۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ انہیں تقریباً ساڑھے تین سال رہنے کا موقع ملا۔ وہ وقت کے قدردان تھے اور ہمہ وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہتے،دیکھتے ، سنتے اور اسے یاد کرتے۔بازار کا رخ کرنے کی بجائے بھوک و پیاس برداشت کرلیتے مگر رسول اکرم ﷺ کے ساتھ گذرے لمحوں کو عزیز از جان رکھتے۔اس ساڑھے تین سال کے عرصہ کو اگر دنوں میں تقسیم کریں تو روزانہ تقریباً دو احادیث، انہوں نے حفظ کیں۔پھر ان روایات میں تکرار ہے ۔ بغیر تکرار کے یہ روایات بارہ سو چھتیس سے بھی کم ہیں۔یہی احادیث ان نو کتب حدیث(صحیحین، سنن اربعہ اور موطأ امام مالک، مسند احمد اور سنن الدارمی) میں دیگر بے شمار صحابہ کرام بھی روایت کرتے ہیں۔نتیجتاً وہ صرف آٹھ احادیث میں منفرد نظرآتے ہیں جو یہ ہیں:

۱۔سنن ترمذی کی یہ حدیث: ( بَیْنَمَا رَجُلٌ رَاکِبٌ بَقَرَۃً ) حدیث : ۳۶۱۰
۲۔ قَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ{یومئذ تحدث أخبارہا} سنن ترمذی: ۲۳۵۳
۳۔( أَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُفْلِسُ؟) صحیح مسلم: ۴۶۷۸
۴۔ (أَوَّلُ مَنْ یُدْعٰی یَومَ الْقِیَامَۃِ) مسند أحمد: ۸۵۵۸
۵۔ (أَظَلَّکُم ْشَہْرَکُمْ) مسند أحمد: ۱۰۳۶۵
۶۔ (أَعْذَرَ اللّٰہُ إِلٰی امْرِئٍ۔۔)صحیح بخاری: ۵۹۴۰
۷۔( أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ۔۔)صحیح مسلم: ۷۴۴
۸۔ (بَیْنَا أَیُّوْبُ یَغْتَسِلُ) صحیح بخاری: ۲۷۰

٭… ان کے شاگرد ہمام ابن منبہ کا صحیفہ ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ کے تحقیق سے شائع ہوچکا ہے جس کی حقیقت صرف یہ ہے کہ خواہ اس کی چند احادیث ہی سہی مگر تحریری اور زبانی روایت میں پختگی اور سنجیدگی کی تائید ضرور ملتی ہے۔ اس لئے کہ یہ صحیفہ امام احمد یا امام مسلم کے ہاتھ نہیں تھا بلکہ انہیں صرف زبانی روایات پہنچیں۔ چنانچہ صحیفہ ہمام کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ راز کھلا کہ زبانی روایت میں بھی محدثین بہت محتاط تھے اوراس صحیفہ کی مرویات دوسری کتب مثلاً مسند احمد و صحیح مسلم کی مرویات سے لفظ بہ لفظ مماثلت رکھتی ہیں۔امام محمد بن ادریس الشافعی ؒ فرماتے ہیں:
أَبُوہُرَیْرَۃَ أَحْفَظُ مَنْ رَوَی الْحَدِیثَ فِی عَصْرِہِ، وَلَقَدْ کَانَ مِنْ دَوَاعِی إِکْثَارِہِ تَفَرُّغُہُ لِلْعِلْمِ وَالرِّوَایَۃِ وَالْفُتْیَا بَعْدَ الرَّسُولِ حَتّٰی رَغِبَ عَنِ الإِمَارَۃِ لَمَّا طَلَبَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ مَرَّۃً ثَانِیۃً۔ وَلَقَدْ قَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ: إِنْ کُنْتَ لَأَلْزَمُنَا لِرَسُولِ اللّٰہِ وَأَعْرَفَنَا بِحَدِیْثِہِ۔ہَذَا فَضْلاً عَنْ دُعَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ لَہُ عِنْدَ مَا شَکَا لَہُ نِسْیَانُہُ فَقَال لَہُ: أُبْسُطْ رِدَائَکَ، قَال: بَسَطْتُّہُ، فَغَرَفَ بِیَدَیْہِ ثُمَّ قَال: ضُمَّہُ، فَضَمَمْتُہُ فَمَانَسِیْتُ بَعْدَہُ۔ روایت حدیث میں ابوہریرہؓ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ حافظ تھے۔کثرت روایت کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے وفات ِرسول کے بعد اپنے آپ کو علم، روایت اور فتوی کے لئے فارغ کرلیا تھا۔جب خلیفۂ راشد سیدنا عمرؓ نے انہیں دوسری بار گورنر شپ پیش فرمائی توابوہریرہ ؓنے اسی وجہ سے معذرت کرلی۔ ابن عمرؓ نے ایک بار انہیں فرمایا: بلاشبہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا کرتے اور ہم سے زیاد حدیث رسول کی معرفت رکھتے ہیں۔اس پر مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے اس وقت دعا فرمائی جب انہوں نے نسیان کی شکایت آپ ﷺ سے کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی چادر بچھاؤ۔ میں نے اسے بچھایا تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس میں ایک چلو انڈیلا۔ پھر فرمایا: اسے اپنے سینے کے ساتھ لگالو۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں:میں نے اسے لگایا اور اس کے بعد پھر میں کبھی نہ بھولا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…سنن نسائی میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں، ابوہریرہ ؓاور ایک صحابی۔۔ رسولِ اکرم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم سب دعا کرو۔ میں نے اور میرے دوسرے ساتھی نے دعا کی اور رسول اکرم ﷺ نے آمین کہی۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دعا کی اور کہا:
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکُ مَا سَأَلَکَ صَاحِبَایَ وَأَسْأَلُکَ عِلْماً لاَ یُنْسَی، اے اللہ! میں تجھ سے وہ سوال کرتا ہوں جو میرے ان دونوں ساتھیوں نے کیا۔ اور تجھ سے یہ سوال بھی کرتا ہوں کہ مجھے ایسا علم عطا کرجو میں کبھی نہ بھولوں۔ نبی ﷺ نے آمین کہی۔ ہم نے عرض کی: اور ہم اللہ کے رسول؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سَبَقَکُمَا بِہَا الْغُلَامُ الدَّوْسِیُّ۔ اس دعا میں تم سے یہ دوسی نوجوان سبقت لے گیا ہے۔

٭…سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ سے بھی احادیث بیان کی ہیں۔ الحسن بن عمرو بن امیۃ کہتے ہیں: ایک حدیث کے بارے میں ابوہریرہ ؓسے میری گفتگو ہوئی تو وہ مجھے پکڑ کر اپنے گھرلے گئے اور حدیث رسول ﷺ کی کتب دکھا کر فرمانے لگے: ہَذَا ہُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدِیْ۔یہ احادیث میرے پاس لکھی ہوئی ہیں۔ابن عبد البرؒ لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں وہ احادیث نہیں لکھا کرتے تھے مگر بعد میں انہوں نے احادیث لکھیں۔(فتح الباری ۱؍۲۷۴، حدیث ۱۱۳) ۔سیدنا ابوہریرہ ؓ ستاون ہجری کو اٹھتر سال کی عمر میں مقام عقیق فوت ہوئے۔رضی اللہ عنہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما:
صحابی ٔرسول ہیں، صحابی کے بیٹے ہیں، صحابیہ اور ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہاکے بھائی ہیں۔ سنت رسول کے عالم، اس پر سختی سے عامل اورعمل کروانے والے بھی ہیں۔اپنے والد محترم کا آرڈینینس برائے پابندی حج تمتع یہ کہتے ہوئے ماننے سے انکار کردیا : مَنْ أَبِیْ؟ أَأَمْرُ أَبِیْ یُتَّبَعْ أَمْ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ؟ تَمَتَّعْنَا فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ کیا میرے والد کا حکم مانا جائے گا یا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد؟ہم نے زمانہ رسالت میں حج تمتع کیا تھا۔(مسند احمد)۔

٭… سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد خلافت کا اگر کوئی مستحق تھا تو بالاتفاقِ صحابہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منتخب کمیٹی میں نہ ان کا نام رکھااور نہ ہی منتخب کرنے کی اجازت دی۔ بلکہ سبھی کو پابند کردیا کہ تم صرف انہی چھ افراد میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے مکلف ہو۔

٭…سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ کوچ کرنے سے روکنے میں یہ پیش پیش تھے۔ یہ بھی سمجھایا کہ کوفیوں نے آپ کے والد محترم کے ساتھ بے وفائی کی ہے اس لئے ان کے دعوتی خطوط پر یا مسلم بن عقیل کے خط پر اعتماد نہ کیجئے بلکہ بھائی کی طرح صلح وصفائی سے کام لیجئے۔ اگر جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اکیلے تشریف لے جائیے اہل خانہ کو یہیں چھوڑ جائیے۔ بہر حال پھر وہی کچھ ہوا جس کا سیدناابن عمرؓ خدشہ رکھتے تھے۔

٭…سیاست کی بجائے اصلاح احوال میں حصہ لیتے رہے۔ سیاست کی نفی انہوں نے اپنے اس بیان میں حرم کعبہ کو لوگوں کے سامنے مخاطب کرکے یوں کی:
حرم کعبہ میں جانتا ہوں کہ تو زمین کی پشت پر سب سے محترم گھر ہے مگر ایک مومن کا مقام تجھ سے کہیں بڑھ کر ہے۔

قیام اللیل زندگی بھر نہ چھوڑا ۔ آپ ﷺ ہی نے اس نیکی پر ابھارا تھا۔ ان کی شخصیت پر اس کے گہرے اثرات تھے۔رسول اکرم ﷺ کے علاوہ کبار صحابہ اورامہات المومنین میں سے سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہماسے احادیث روایت کیں۔

٭…امام ابن الجوزی ؒ نے مسند بقی بن مخلد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کی مرویات کی تعداد دو ہزار چھ سو تیس ہے۔(الباعث الحثیث: ۵۱۰) ۔ امام نافع، مجاہد، طاووس، سعید بن المسیب ، امام زہری، حسن بصری رحمہم اللہ ان سے روایت کرتے ہیں جو سوال واستفتاء کی صورت میں ہیں۔محدثین ان سے چلی جس سند کو سلسلۃ الذہب کہتے ہیں وہ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ہے۔ سن تہتر ہجری کو بعمر چوراسی برس انتقال فرمایا اور مدینہ میں ہی دفن ہوئے۔
 
Top