• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام کا خوف آخرت

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعمال صالحہ کو بہترین طریقے سے بجا لانے کے باوجود اس خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ مبادا کوئی کمی رہ گئی ہو یا معلوم نہیں وہ عمل مقبول ہو گا یا نہیں۔ اِدھر ہم جیسوں کا حال ملاحظہ ہو کہ عمل سے بالکل کورے بلکہ گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں لیکن یوں گمان کرتے ہیں کہ جنت میں اپنا داخلہ تو پکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خلیفہ بلافصل امیر المؤمنین ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو۔ وہ آخرت کے بارے میں اتنے فکر مند رہتے تھے کہ فرمایا کرتے کاش میں کسی مومن کے جسم کا بال ہوتا (کہ حساب کتاب سے بچ جاتا)۔ کبھی فرماتے کاش میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ ڈالا جاتا اور لوگ اس کا پھل کھا جاتے۔ کاش میں گھاس ہی ہوتا جسے جانور چر لیتے۔
کچھ ایسی ہی کیفیت امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تھی۔ ایک مرتبہ سورۃ الطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے ان عذاب ربک لواقع ’’بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے‘‘ تو اتنا روئے کہ شدت گریہ سے بیمار پڑ گئے اور لوگ عیادت کے لیے آتے رہے۔ فرمایا کرتے میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں اس طرح نجات پا جاؤں کہ نہ اجر ملے اور نہ سزا،(بس برابر برابر پر ہی بات ختم ہو جائے)
امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی بھیگ جاتی اور کہا کرتے اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان اس حال میں کھڑا ہوں کہ مجھے کچھ علم نہ ہو کس طرف جانے کا حکم ہو گا تو میں اپنا ٹھکانہ جاننے سے پہلے دھول مٹی ہو جانا پسند کروں گا۔
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دنیا کے فتنے سے خوفزدہ رہتے تھے۔ فرمایا کرتے لمبی امیدیں لگانے اور نفس کے پیچھے چلنے سے بچو۔ لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور نفس کے پیچھے چلنا حق سے روک دیتا ہے۔ سن لو، یہ دنیا منہ موڑ کر جا رہی ہے اور آخرت چل پڑی ہے اور آ رہی ہے، ان دونوں کے کچھ بیٹے ہیں، پس تم آخرت کے بیٹے بنو، دنیا کے بیٹے مت بننا۔ آج عمل کا وقت ہے کوئی حساب نہیں اور کل حساب ہو گا اور کوئی عمل نہیں۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے’’مجھے قیامت کے دن سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ مجھے یہ نہ کہہ دیا جائے اے ابو درداء! یہ تو بتا کہ تو نے جو علم سیکھا تھا اس پر عمل کتنا کیا‘‘؟ اور کہتے اگر تم لوگ جان لو کہ موت کے بعد تمہارا کن چیزوں سے واسطہ پڑنے والا ہے تو نہ مزے سے کھا پی سکو نہ گھروں کے سائے میں داخل ہو بلکہ اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے اور اپنے آپ پر روتے ہوئے بیابانوں کو نکل کھڑے ہو، ہائے کاش میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا اور جانور اسے کھا لیتے۔
ابن ابی ملیکہؒ بیان کرتے ہیں’’ میں نے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی، وہ سب اپنے اوپر نفاق کے فتنے سے خوفزدہ رہتے تھے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبریل اور میکائیل جیسا ہے‘‘۔ حسن بصریؒ کا قول ہے نفاق سے وہ ڈرے گا جو مومن ہے اور اس سے اطمینان میں وہی ہو گا جو خود منافق ہے۔
(امام ابن القیمؒ کی کتاب الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی سے ماخوذ)​
 
Top