• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں کوئی اور چیز پیش کرنے پرغصہ ہونا !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں کوئی اور چیز پیش کرنے پرغصہ ہونا !

حیا کاثمرہ

(مسلم ،رقم ٣٧)

عِمرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: أَلْحَيَاءُ لَا يأتِیْ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَقَالَ بُشَيْرُ بْنُ کَعْبٍ أَنَّهُ مَکْتُوْبٌ فِی الْحِکْمَةِ أَنَّ مِنْهُ وَقَارًا وَمِنْهُ سَکِيْنَةً. فَقَالَ عِمْرَانُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُحَدِّثُنِیْ عَنْ صُحُفِكَ .

''حضرت عمران بن حصین (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا سے صرف بھلائی ہی ملتی ہے۔ یہ سنا تو بشیر بن کعب نے کہا: یہ حکمت میں لکھا ہوا ہے کہ اسی سے وقار ہے اور اسی میں سکون ہے۔ اس پر حضرت عمران نے کہا: میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم مجھے اپنی کتاب کی باتیں بتاتے ہو۔''

اَبُوْ قَتَادَةَ حَدَّثَ قَالَ کُنَّا عِنْدَ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ فِیْ رَهْطٍ مِنَّا وَفِيْنَا بُشَيْرُ بْنُ کَعْبٍ، فَحَدَّثَنَا عِمْرَانُ يَوْمَئِذٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلْحَيَاءُ خَيْرٌ کُلُّهُ أَوْ قَالَ: أَلْحَيَاءُ کُلُّهُ خَيْرٌ، فَقَالَ بُشَيْرُ بْنُ کَعْبٍ: إِنَّا لَنَجِدُ فِیْ بَعْضِ الْکُتُبِ أَوِ الْحِکْمَةِ أَنَّ مِنْهُ سَکِيْنَةً وَوَقَارًا لِلّٰهِ وَمِنْهُ ضَعْفٌ. قَالَ: فَغَضِبَ عِمْرَانُ حَتَّی احْمَرَّتَا عَيْنَاهُ وَقَالَ أَلَا أَرَانِیْ أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُ فِيْهِ. قَالَ: فَأَعَادَ عِمْرَانُ الْحَدِيْثَ. قَالَ: فَأَعَادَ بُشَيْرٌ. فَغَضِبَ عِمْرَانُ. قَالَ: فَمَا زِلْنَا نَقُوْلُ فِيْهِ إِنَّهُ مِنَّا يَا أَبَا نُجَيْدٍ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ.

''ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عمران بن حصین کے پاس اپنے ہی لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے درمیان بشیر بن کعب بھی تھے۔ اس روز عمران نے ہمیں ایک حدیث بتائی۔ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیاخیر ہے سارے کا سارا۔ یا (آپ کے الفاظ تھے:) حیا تمام تر خیرہے۔ یہ روایت سن کر بشیر بن کعب کہنے لگے: ہم اپنی ایک کتاب یا 'الحکمہ' میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ اسی سے سکینت ہے اور اللہ کے لیے وقار اور اسی سے کمزوری بھی ہے۔ عمران کو غصہ آگیا اتنا کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ کہا: کیا نہیں دیکھتے ہو کہ میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنا رہا ہوں اور تم اس سے اختلاف کر رہے ہو۔ چنانچہ عمران نے حدیث دہرائی۔ اسی طرح بشیر نے بھی اپنی بات دہرائی۔عمران کو پھر غصہ آگیا۔ ہم یہی کہتے رہے کہ یہ ہم میں سے ہیں ، ابا نجید، اس بات میں کوئی حرج نہیں۔''

لغوی مباحث

'الحکمة':
حکمت کا لفظی مطلب 'دانائی 'ہے۔ اس روایت میں یہ لفظ جس طرح استعمال ہوا ہے، اس کے دو پہلو ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ اہل کتاب کے ہاں کسی کتاب کو 'الحکمة' سے بھی تعبیر کیا جاتا تھا۔ چنانچہ یہی بات اس مکالمے کا حصہ بن گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کے ہاں رائج دانائی کی باتوں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہو۔ پہلی بات کے شواہد موجود ہوں تو وہ روایت کے الفاظ سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔

'رهط':
اس کے معنی دس سے کم مرد بیان کیے گئے ہیں۔ یہ معنی اس کے عمومی استعمال کو سامنے رکھ کر متعین کیے گئے ہیں۔ اصل میں یہ تھوڑے لوگوں کے لیے ہے۔ تھوڑے کا اطلاق بعض صورتوں میں دس سے زیادہ افراد پر بھی ہو تو اس میں کوئی مضایقہ نہیں۔
معنی
پچھلی دو روایتوں میں حیا کے بارے میں ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ یہ نفس انسانی کی ایک خصوصیت ہے جو اسے ہر اس کام سے بچاتی ہے جو برا ہے۔ ہر معقول انسان اپنی طرف کسی اخلاقی یا مادی گندگی کی نسبت سے شرمندہ ہوتا ہے۔ اسی شرمندگی کے احساس کو حیا کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ ایک بے بہا متاع ہے۔ جس آدمی نے اپنے نفس کی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھایا، اس نے اس سے خیر ہی حاصل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں یہی پہلو پیش نظر ہے۔ شارحین نے یہاں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ یہ بات اتنے تعمیم کے انداز میں کیوں کہی گئی ہے، جبکہ بعض صورتوں میں حیا جھجک اور گریز کا باعث بن جاتی ہے جو آدمی کے لےے نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حیا کے اسی پہلو سے متعلق ہے جس میں وہ برائی، بے حیائی اور گندگی سے بچنے میں مددگار ہے۔ ظاہر ہے، یہ حیا ہر صورت میں خیر ہی کا باعث ہے۔ دوسری چیز کے لیے حیا کا لفظ وسعت میں استعمال ہوتا ہے اور وہ یہاں بالکل پیش نظر نہیں ہے۔
اس روایت میں صحائف کے حوالے سے حیا کی دو خوبیاں اور ایک خرابی بیان کی گئی ہے۔ جب آدمی بری اور قبیح چیزوں سے محفوظ رہتا ہے تو یہ چیز اس کی طبیعت میں ایک بلندی پیدا کر دیتی ہے۔ غالباً یہی چیز ہے جس کے لیے وقار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ سکینت کا لفظ سکون واطمینان کے لیے آتا ہے۔ نیکی کی راہ اگرچہ ایک مشکل راہ ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ چونکہ ہماری فطرت کے عین مطابق ہے، اس لیے ہمیں جوسکون اور اطمینان اس میں حاصل ہوتا ہے، وہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ باقی رہا یہ کہ یہ ایک کمزوری بھی ہے تو یہ ایک صحیح چیز کے غیر محل میں اظہار کا نتیجہ ہے۔ غلطی سے بچنے کی خواہش اگر کمزوری بن جائے اور آدمی عمل اور اقدام ہی کی صلاحیت کھو بیٹھے تو یہ غلطی آدمی کی ہے، نفس شے کی نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اپنی جگہ پر ایک جامع بات ہے۔ مکالمے میں ان باتوں کے حوالے سے حضور کی بات کی جامعیت متاثر ہوتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہوئی کہ بیان کرنے والے نے ان باتوں کے درست ہونے کے باوجود اس موقع پر ان کے بیان کو پسند نہیں کیا۔

متون
بنیادی طور پر یہ روایت تین صورتوں میں نقل ہوئی ہے: ایک صورت میں یہ صرف حیا والے جملے پر مبنی ہے۔ دوسری میں مختصر الفاظ میں مکالمے کے کچھ جملے بھی نقل ہوئے ہیں اور تیسری میں گفتگو کی جگہ، مکالمے میں تکرار اور صورت حال میں پیدا ہونے والی کبیدگی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
حیا والا جملہ اپنی تینوں صورتوں میں امام مسلم نے نقل کر دیا ہے۔ ان تینوں جملوں میں بعض راویوں نے 'إن' کا بھی اضافہ کیا ہے۔ یہ بات کہ یہ چیز قدیم صحائف میں بھی ملتی ہے،ایک تو اس فرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ کہیں صحائف کے لیے 'الحکمة'، کہیں ' کتب ' اور کسی روایت میں صریح طور پر تورات کا نام آیا ہے۔ اسی طرح کسی روایت میں 'انه مکتوب' کسی میں 'انا نجد' اور کسی میں 'انه يقال' کے الفاظ سے حوالہ دیا گیا ہے۔
یہ بیان کہ ان کتب میں کیا بات لکھی ہوئی ہے، راویوں نے اسے کئی طریقوں سے بیان کیا ہے۔ کسی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حیا کا ایک کمزوری کی حیثیت سے ذکر ہے۔ کسی میں اسے وقار اور سکینت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ کسی میں ضعف کے ساتھ عجز کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔ کسی روایت میں وقار کے ساتھ اللہ کا لفظ بھی آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقار کی نسبت بندے کی طرف نہیں ، بلکہ اللہ کی طرف ہے۔ اس روایت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ عام طور پر اس بات کو بیان کرنے والے کا نام بشیر بن کعب ہی بیان کیا گیا ہے، لیکن ایک روایت میں ان صاحب کا نام علاء بن زیاد لکھا ہوا ہے۔
آخری حصہ عمران بن حصین کے غصہ ہونے سے متعلق ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حدیث کے مقابلے میں کوئی اور چیز پیش کرنے پر غصہ کیا تھا۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں حضور کی بات سے مختلف بات کرنا اچھا نہیں لگا تھا۔ بہرحال راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ شرکاے مجلس نے انھیں بار بار یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ بشیر ہمارے ہی آدمی ہیں اور یہ اچھے آدمی ہیں۔ ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا مکالمہ بنی عدی کے لوگوں میں ان کے ہاں ہوا تھا۔ بعض راویوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ گرما گرمی میں روایت بھی دو بار بیان کی گئی اور جواب میں کتب کے حوالے سے سکینت اور وقار والی بات بھی دو بار بیان کی گئی۔

کتابیات
بخاری، رقم٥٧٦٦؛ ابوداؤد، رقم٤٧٩٦؛ احمد، رقم١٩٨٣٠، ١٩٨٤٣، ١٩٩١٩، ١٩٩٢٨، ١٩٩٧١، ١٩٩٨٦، ١٩٩٩٠، ٢٠٠٢٢، ٢٠٠١٣؛ المعجم الصغیر، رقم٢٣١؛ المعجم الکبیر، رقم٢٣٨، ٣٨٧، ٤٨٣، ٤٩٣، ٥٠١-٥٠٦، ٥٥٣، ٥٦٥؛ الطیالیسی، رقم٨٥٣، ٨٥٤؛مکارم الاخلاق، رقم٧٦، ٧٩، ٨٥، ٨٨، ٩٩۔
ـــــــــــــــــــــــــ
 
Top