• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام کے بارے میں بعض غلط رجحانات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحابہ کرام کے بارے میں بعض غلط رجحانات

روافض ونواصب دونوں ایک دوسرے کے خلاف انتہاؤں پر ہیں جنہوں نے اپنا مسلک ہی شاید یہی سمجھا ہے کہ صحابہ کرام میں کسی کی برتری اور کسی کی کمتری ثابت کرنا ہی دین کی خدمت ہے۔ اس لئے اہل سنت اس معاملے میں نہ الجھتے ہیں اور نہ ہی اسے جائز سمجھتے ہیں۔ ان کا ایک متفقہ نظریہ واصول ہے کہ جس نسل کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمادی یہی ان کی سب سے بڑی منقبت ہے۔ رہی ان کی خطائیں تو یہ بھی ان کا اجتہاد ہے جس میں وہ کچھ مصیب ہیں اور کچھ غیر مصیب مگر پھر بھی وہ خطا قابل ثواب ہے۔اس لئے ان کے مشاجرات میں پڑے بغیر نہ وہ جذباتی ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو جذباتی کرنا پسند کرتے ہیں۔رہے وہ صحابہ جنہوں نے حیات نبوی میں کسی بڑی غلطی کا ارتکاب کیا تو یا تو ان کی توبہ قبول کرلی گئی جیسے حاطب بن ابی بلتعہ اور کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی رضی اللہ عنہم یا پھر انہیں سزا دے کر معاف کردیا گیا اور جن پر تَرَضِّی بھی ائمہ اسلام نے کی۔مثلاً:
ائمہ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص میں شادی شدہ ہونے کی تمام شرائط پائی جائیں اور وہ ایسی عورت سے بدکاری کرے جس میں شادی شدہ ہونے کی تمام شرائط موجود ہیں یعنی وہ عورت آزاد، بالغ، عاقل اور باقاعدہ نکاح کے بعد شوہر دیدہ اور مسلمان ہو تو یہ دونوں بدکاری کے مجرم اور محصن ہیں لہٰذا دونوں کو سنگ سار کیا جانا فرض ہے یہاں تک کہ وہ مر جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوہُمُا اَلْبَتَّۃَ نَکاَلاً مِنَ اللّٰہِ ۔ یعنی بڑی عمر کا مرد اور بڑی عمر کی عورت اگر زنا کریں تو بہرحال لازم ہے کہ عذاب الٰہی کے طور پر ان کو سنگ سار کیا جائے۔ متفق علیہ ۔

آپ ﷺ نے فرمایا:
لاَ یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدٰی ثَلاَثٍ: الثَّیِّبُ الزَّانِی، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ ،الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَۃِ۔
کسی مسلمان کا خون حلال نہیں بجز ان تین صورتوں کے: کوئی شادی شدہ شخص بدکاری کرے یا جان کے بدلے جان اس کی لی جائے یا اپنے دین اسلام کو چھوڑ کر ملت سے الگ ہوجائے۔ متفق علیہ

یہ حدیث ام المومنین عائشہ صدیقہ ، صحابی ابوہریرہ، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے روایت شدہ ہے۔آپ ﷺ کی یہ حدیث بھی پیش نظر رہے:
إنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَلَی مَنْ زَنَی إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ إِذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ، أَوْ کَانَ الْحَمْلُ أَوْ الاِعْتِرَافُ۔ متفق علیہ ۔ سنگ ساری کی سزا اس شخص کے لئے کتاب اللہ کی رو سے فرض الٰہی ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کی ہو۔ اس میں خواہ مرد ہو یا عورت۔ بشرطیکہ گواہوں سے یہ جرم ثابت ہوجائے یا حمل ہو گیا ہو یا مجرم خود اپنے اس جرم کا اعتراف کرلے۔

جناب رسالت مآب ﷺنے ماعز اسلمی ؓکو اور غامدیہؓ خاتون کو سنگ ساری کی سزا دی اور خلفائے راشدین نے بالاتفاق اس سزا کو جاری فرمایا اور کسی فرد واحد کو اس سے انکار نہ تھا۔ لہٰذا یہ رجم (سنگ ساری کی سزا) حدیث صحیح، آپ ﷺ کے حکم اور خلفاء راشدین کے عمل سے ثابت ہے اور بقول اصحاب ِرسول، کتاب اللہ سے ثابت ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ سنگ ساری والی حدیث قرآن مجیدکی ایک آیت تھی جو قرآن سے منسوخ ہوگئی لیکن اس کا حکم باقی رکھا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حد رجم پر یہ واضح اجماعی نکتہ نظر ہے اور تعامل بھی۔ چالیس سے زائد صحابہ کرام کی روایت ملتی ہیں جو حد رجم کو عین دینی اور قرآنی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ شیعہ مکتب فکر بھی اس حد میں کوئی اختلاف نہیں رکھتا۔مگرفراہی مکتب فکر حدیث، رجم کی سزا، اور رجم کی سزا پانے والوں کے بارے میں بہت ہی بدظنی کا شکار ہے ۔ اوررجم کی سزا پانے والے صحابی رسول کو بدخصلت، غنڈہ، کٹر منافق اور صحابیہ سیدہ غامدیہ رضی اللہ عنہا کوزیر زمیں پیشہ کرنے والی تک نعوذ باللہ لکھ ڈالا۔ تعجب ہے کہ متنوع احادیث کو جوڑ کرصاحب تدبر نے محض ان الفاظ کا انتخاب کیا جن میں مذمت کا پہلو نکلتا ہے ۔ آخریہ قابل نفرین افسانہ کیسے بن گیا اورقرآن کی تفسیرکیونکر ٹھہرا۔ ذرا صحیح مسلم کے الفاظ حدیث دیکھئے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ، أَنَّ مَاعِزَبْنَ مَالِکٍ ا الْاَسْلَمِیَّ أَتَی رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! إِنِّیْ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَزَنَیْتُ وَإِنِّیْ أَرِیْدُ أَنْ تُطَہِّرَنِیْ۔ فَرَدَّہُ۔ فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ اَتَاہُ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ إِنِّیْ قَدْ زَنَیْتُ۔ فَرَدَّہُ الثَّانِیَۃَ۔ فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ إِلٰی قَوْمِہِ فَقَالَ: أَتَعْلَمُوْنَ بِعَقْلِہِ بَأْساً تُنْکِرُونَ مِنْہُ شَیْئًا؟ فَقَالُوا : مَا نَعْلَمُہُ إِلاَّ وَفِیَّ الْعَقْلِ، مِنْ صَالِحِیْنَا فِیْمَا نَرَی۔ فَأَتَاہُ الثَّالِثَۃَ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ أیَضاً فَسَأَلَ عَنْہُ فَأَخْبَرُوہُ: أَنَّہ ُلاَ بَأْسَ بِہِ وَلاَ بِعَقْلِہِ۔ فَلَمَّا کَانَ الرَّابِعَۃُ حُفِرَ لَہُ حُفْرَۃً ثُمَّ أَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ۔ سیدنا بریدہؓ بیان کرتے ہیں: ماعز اسلمیؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اللہ کے رسول! میں نے اپنی ذات پر ظلم کیا ہے اور بدکاری کر بیٹھا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک وصاف کردیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس بھیج دیا۔ دوسرے روز پھر وہ آحاضر ہوئے اور وہی بات دوبارہ عرض کی۔ آپ ﷺنے پھر انہیں واپس کردیا۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کے رشتہ داروں کی طرف اپنا ایک قاصد بھیج کر معلوم کر ایا کہ ماعز اسلمی کی عقل وفہم میں یا اس کی کسی عمل یاحرکت میں کوئی ناپسندیدگی تو نہیں پاتے؟ انہوں نے کہا: جہاں تک ہم جانتے ہیں وہ تو صحیح العقل ہیں اور ہمارے نیک انسانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔پھر ماعزتیسری بار آئے۔ایک بار پھر آپ ﷺ نے ان کے رشتہ داروں سے وہی کچھ معلوم کرایا کہ ماعز رضی اللہ عنہ تم میں کیسے ہیں؟ سب کا وہی کہنا تھا جوانہوں نے پہلے کہا تھا۔چوتھی بار پھر وہ آئے ۔ اس مرتبہ آپ ﷺ نے ایک گڑھا کھدوایا اور رجم کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ رجم کئے گئے۔

ماعز اسلمیؓ کی اس خدا ترسی کا بدلہ آج کے متجددین نے انہیں یہی دیا کہ انہیں اوباش لکھ دیا۔ایسی نارواگفتگو، اخلاق قرآنی اور اخلاق نبوی سے عاری ہے جو اس درد وخوف کو محسوس نہیں کررہی جوماعز رضی اللہ عنہ کو خود بخود عدالت نبوی میں لے آیا اور جسے علم بھی ہے کہ اس کی سزا سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔مگر ماعزکی نظر آخرت پر تھی جسے دنیا دار دانش وروں نے دنیا کی نظر سے دیکھا۔ ماعزؓنے چاہاکہ دنیاکی رسوائی توبرداشت کی جاسکتی ہے مگر آخرت کے میدان محشر کی نہیں۔ ذرا فرق دیکھئے نبوی گفتگو میں اور تدبر قرآن کے فاضل مصنف کی گفتگو میں:
صاحب تدبر کا انتخاب:
۱۔ لَہُ نَبِیْبٌ کَنَبِیْبِ التَّیْسِ۔۔۔وہ بکرے کی طرح آواز نکالتاہے۔یعنی شدت شہوت کی وجہ سے بدکاری کا ارادہ کرتا ہے۔
۲۔ مَا اسْتَغْفَرَ لَہُ وَلاَسَبَّہُ، ابوداؤد میں ہے: وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ یعنی ماعزکی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
۳۔ دو آدمیوں نے کہا: رُجِمَ رَجْمَ الْکَلْبِ۔ کہ اسے کتے کی طرح سنگ سار کیا گیا ہے۔

ان کا جواب:
۱۔یہاں سیدنا ماعزکا نام صراحۃً ہے ہی نہیں۔ بلکہ لفظ أَحَدُہُمْ آیا ہے۔ جس سے مراد ہے : کوئی ایک۔[صیحیح مسلم] بلکہ اس کے برعکس وَقَالُوا: إِنَّہُ وَفِیَّ الْعَقْلِ۔ ماعز کے قبیلے والوں کا بیان ہے کہ وہ بہت اچھی عقل رکھتے ہیں۔[صحیح مسلم]
۲۔ استغفار اس لئے نہیں کیا کہ یہی حد ان کے گناہ کا کفارہ ہوگئی۔ کیونکہ اسی نے اب انہیں پاک کردیا تھا۔نیز عدم استغفار ابتداء میں اس لئے بھی نہیں کیا کہ کہیں دوسرا زانی اس دھوکے میں نہ رہے چلیں رسول اللہ میری بخشش کے لئے دعا تو کردیں گے۔صحابہ کہتے ہیں: ذَکَرَ خَیْرًا وَصَلّٰی عَلَیْہِ یعنی ان کو آپ ﷺ نے بڑے اچھے کلمات سے یاد کیا اور ان کی نماز جنازہ پڑھی۔[صحیح بخاری]
۳۔ إنَّہُ لَیَنْغَمِسُ الآنَ فِیْ أَنْہَارِ الْجَنَّۃِ۔ کہ ماعز اب جنت کی نہروں میں غوطے کھا رہے ہیں۔ اسی طرح لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ أُمَّۃٍ لَوَسِعَتْہُمْ۔ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک قوم پر تقسیم کی جائے تو ان پر وسیع ہوجائے۔[صحیح مسلم]

اس بحث کے بعد ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ جسے اللہ کا رسول انہار جنت میں غوطے کھانے اور توبہ کی وسعت اور قبولیت سے سرفراز کررہا ہو پھر بھی اسے اوباش کہا جائے تو اس سے بڑھ کر اوباش پن اور کیا ہوسکتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭۔دوسرا جرم زنا سیدہ غامدیہؓ سے ہوا۔مقام رب کے خوف نے انہیں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ ذرا ان کا درد محسوس کیجئے اور سوچئے کہ دنیا کے بکھیڑوں میں گناہ کو فراموش کرنے کی بجائے کیا واقعی اس گنا ہ کی ٹیس ایسی ہوتی ہے کہ اسے سال بھر بھلایا نہ جاسکے۔یہ معصومہؓ کیا کرتی ہے۔ ذرا اس کی بے چین کیفیت کو دیکھئے۔
قَالَ: فَجَائَتِ الْغَامِدِیَّۃُ فَقَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّیْ قَدْ زَنَیْتُ فَطَہِّرْنِیْ، وَإِنَّہُ رَدَّہَا، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ: لِمَ تَرُدَّنِیْ؟ لَعَلَّکَ أَنْ تَرُدَّنِی کَمَا رَدَدْتَّ مَاعِزاً۔فَوَاللّٰہِ إِنِّیْ لَحُبْلٰی۔ قَالَ: إِمَّا لاَ، فَاذْہَبِیْ حَتّٰی تَلِدِیْ۔ فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْہُ بِالصَّبِیِّ فِیْ خِرْقَۃٍ، قَالَتْ: ہٰذَا قَدْ وَلَدْتُّہُ۔ قَالَ: اذْہَبِیْ فَأَرْضِعِیْہِ حَتّٰی تُفْطِمِیْہِ، فَلَمَّا فَطَمَتْہُ أَتَتْہُ بِالصَّبِیِّ فِیْ یَدِہِ کِسْرَۃُ خُبْزٍ، فَقَالَتْ: ہٰذَا، یَا نَبِیَّ اللّٰہِ قَدْ فَطَمْتُہُ، وَقَدْ أَکَلَ الطَّعَامَ، فَدَفَعَ الصَّبِیَّ إِلٰی رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَحُفِرَ لَہَا إِلٰی صَدْرِہَا، وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوہَا۔ فَیُقْبِلُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ بِحَجَرٍ، فَرَمَی رَأْسَہَا، فَتَنْضَحُ الدَّمُ عَلَی وَجْہِ خَالِدٍ، فَسَبَّہَا، فَسَمِعَ نَبِیُّ اللّٰہِﷺ سَبَّہُ إِیَّاہَا۔ فَقَالَ: مَہْلاً! یَا خَالِدُ! فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً، لَوْ تَابَہَا صَاحِبُ مُکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ۔ ثُمَّ أُمِرَ بِہَا فَصَلّٰی عَلَیْہَا فَدُفِنَتْ۔[کتاب الحدود: ۱۶۹۶]بریدۃ ؓ کہتے ہیں کہ پھر غامدیہ آئیں۔ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول! میں بدکاری کر بیٹھی ہوں مجھے پاک کیجئے۔ آپ ا نے انہیں واپس لوٹا دیا۔ دوسرے روز پھر آگئیں کہنے لگیں: اللہ کے رسول! آپ مجھے کیوں واپس بھیج دیتے ہیں۔ آپ مجھے شاید اسی طرح واپس لوٹا رہے ہیں جیسے ماعز کو لوٹایا، بخدا میں تو حاملہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تو نہیں ۔ جاؤبچہ جن دو پھر۔ چنانچہ بچہ جننے کے بعد اسے کپڑے میں لپیٹے آحاضر ہوئیں۔کہنے لگیں: یہ وہ بچہ ہے جسے میں نے جن دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی جاؤ ، بچے کو دودھ پلاؤ یہاں تک کہ روٹی کھانے کے قابل ہو جائے۔چنانچہ بچے کا جب دودھ چھوٹا تو اس کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا دے کر پھر حاضر ہوئی اور عرض کی اللہ کے رسول! میں نے دودھ چھڑا دیا ہے اوراب کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو کسی مسلمان کے سپرد کیا۔ اور ایک گڑھا کھودنے کا حکم دیا جو اس کے سینے تک گہرا تھا۔ لوگوں کو آپ نے فرمایا: اسے رجم کرو۔ چنانچہ انہوں نے اسے رجم کیا۔خالد بن ولید بھی ایک پتھر لائے اور ان کے سر پہ مارا جس سے ان کا خون پھوٹ کر خالد کے چہرہ پر آیا۔خالد نے انہیں برا بھلا کہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ گالی سنی تو فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر محصول لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی قبول ہوجائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اور یوں وہ دفن کی گئیں۔

دوسری روایت میں ہے:
سیدنا عمر ؓ نے عرض کی۔ آپ اس خاتون کا جنازہ پڑھائیں گے اللہ کے رسول! جس نے زنا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ستر اہل مدینہ پر بھی تقسیم کردی جائے تو بھی ان سے زیادہ وسیع ہوگی۔ عمر: کیا ایسی توبہ سے بھی افضل توبہ ہوسکتی ہے کہ اس نے اپنی جان کانذرانہ رب کے حضور پیش کردیا؟[اس بدلے میں کہ اللہ مجھے معاف کردے][ صحیح مسلم: ۱۶۰۶]

سبحان اللہ! کیا تقوی اور مقام بزرگی ہے جومحض اپنی بخشش کے لئے جان کا نذرانہ دے کر اس محترم خاتون نے حاصل کیا ہے۔جو بادیہ نشین ہوکرقلم در دست لینے سے نہیں ملتا۔

٭٭٭٭٭​

لوگ جہنم میں تین دروازوں سے داخل ہوتے ہیں:

۱۔ شک وشبہ کا دروازہ جس نے اللہ کے دین میں شک کو ہی بسایا۔
۲۔ شہوت کا دروازہ جس نے خواہشات نفس کو ہمیشہ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا کا باغی بنایا۔
۳۔ غیض وغضب کا دروازہ جس نے اللہ کی مخلوق پر ظلم وزیادتی کا خوگر بنایا۔

٭٭٭٭٭
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث عرض

انکار حدیث کا ایک بڑا سہارا یہ موضوع حدیث بھی ہے جس نے بڑے بڑے خیرخواہوں کے پائے ثبات کو بھی لغزش دے دی۔ ابن عبدالبر نے [جامع بیان العلم،۲؍۳۳] میں اس حدیث کو روایت کیا ہے:
إذَا جَائَ کُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ فَمَا وَافَقَ فَخُذُوْہُ وَمَا خَالَفَ فَاتْرُکُوْہُ۔
جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو اسے قرآن پر پیش کیا کرو۔ جو اس کے مطابق ہو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔
ائمۂ حدیث کے نزدیک یہ حدیث موضوع ہے۔ جسے زنادقہ نے گھڑا ہے۔ کیونکہ یہ حدیث روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے گئی گذری ہے۔ نیز ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ ﷺ کوئی ارشاد فرمائیں اور وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ باقی بات یہیں آ ختم ہوتی ہے کہ ہر اُس حدیث کو قرآن کریم پر ضرور پیش کیا جائے جو مقاصد دین کے خلاف ہو یا کسی شخصی رائے و عقل کا پیغام دیتی ہو۔ اس لئے کہ ایسی احادیث میں دین سے بغاوت اور مختلف نظریات و عقائد کی دعوت چھلکتی ہے۔ مگرحیرت کی بات ہے کہ الأصول لِلْبَزْدَوِی میں کسی بھی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ قاعدہ بتایا گیا ہے:
قاَلَ النَّبِیُّ ﷺ تَکْثُرُ لَکُمُ الْاَحَادِیْثُ مِنْ بَعْدِیْ فَإِذَا رُوِیَ لَکُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوْہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، فَمَا وَافَقَ کِتَابَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاقْبَلُوہُ وَمَا خَالَفَہُ فَرَدُّوْہُ۔ اصول للبزدوی۔ تمہارے سامنے میرے بعد بکثرت احادیث روایت کی جائیں گی تو انہیں کتاب اللہ پر پیش کرنا جو اس کے موافق ہو اسے لے لینا او رجو مخالف ہو اسے ترک کردینا۔

مگر عجیب سی بات ہے کہ علامہ عبد العزیز اپنی شرح میں لکھتے ہیں:
محدثین نے اس حدیث پر جرح کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث یزید بن ربیعہ نے ابوا الأشعث سے اور انہوں نے ثوبان سے روایت کی ہے اور یزید مجہول ہیں۔ان کا سماع ابوالاشعث عن أبی الأسماء الرحبی عن ثوبان ثابت ہی نہیں پھر یہ حدیث منقطع بھی ہے اس سے احتجاج صحیح نہیں ہوگا۔ بلکہ یحییٰ بن معین سے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اس حدیث کو زنادقہ نے گھڑا ہے۔ یحییٰ ؒ خود اس امت کے علم حدیث میں ایک َعلم شمار ہوتے ہیں اور راویوں کا تزکیہ دیتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ کہتے ہیں یہ حدیث مخالف کتاب اللہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : مَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا جو تمہیں رسول دے وہ لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔ لہٰذا اس حدیث سے احتجاج ساقط ہوگا جیسا کہ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔علامہ صاحب مزید لکھتے ہیں: ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ: امام ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے جو خود اس فن میں کامل مہارت رکھتے تھے۔اور اسی میدان کے امام تھے۔ ان کی کتاب میں اس حدیث کا آجانا ہی جواب کے لئے کافی ہے ۔ ان کے بعد کسی کے طعن کی طرف توجہ دینے کی قطعاً ضرورت نہیں۔[کشف الأسرار: ۷۳۰]

اس عظیم دعوے کے بعد پھر انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ ان مدعی موصوف کے بعد تقریباً اصول فقہ کے تمام مصنفین اور شارحین حضرات اس حدیث کو صحیح بخاری کی طرف ہی منسوب کرتے رہے۔ کسی نے بھی یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اس حدیث کی تحقیق توکرلیتا۔ مثلاً: أصول الشاشی : ۸۳، مطبوعہ دہلی ، ۱۳۱۰، میں مُحَشِّی نے حاشیہ نمبر ۳میں اس حدیث کے لئے اپنا مصدر کَشْفُ الأَسْرَارِ ہی لکھا ہے۔ شارح اصول شاشی نے فُصُولُ الْحَوَاشِیْ ص ۲۸۸مطبوعہ دہلی ۱۳۳۳میں وہی عبارت ہی نقل کی ہے جوکَشْفُ الأَسْرَارِ میں لکھی ہے۔ التوضیح والتلویح ص: ۹؍ج۲میں بھی یہی بات اسی طرح لکھی ہے۔ اس سے ہمارے فقہاء ومحشی حضرات کے ذوق حدیث کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حدیث کی تصحیح میں اور اس کے انتخاب میں ان کی درایت اور معیار کیسا ہوتا ہے؟ سوچئے! کہاں امام بخاری ؒ جیسا محتاط محدث وفقیہ اور کہاں یہ تحقیق انیق؟

٭٭٭٭٭​

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حدیث عرض

انکار حدیث کا ایک بڑا سہارا یہ موضوع حدیث بھی ہے جس نے بڑے بڑے خیرخواہوں کے پائے ثبات کو بھی لغزش دے دی۔ ابن عبدالبر نے [جامع بیان العلم،۲؍۳۳] میں اس حدیث کو روایت کیا ہے:
إذَا جَائَ کُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ فَمَا وَافَقَ فَخُذُوْہُ وَمَا خَالَفَ فَاتْرُکُوْہُ۔
جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو اسے قرآن پر پیش کیا کرو۔ جو اس کے مطابق ہو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔
ائمۂ حدیث کے نزدیک یہ حدیث موضوع ہے۔ جسے زنادقہ نے گھڑا ہے۔ کیونکہ یہ حدیث روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے گئی گذری ہے۔ نیز ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ ﷺ کوئی ارشاد فرمائیں اور وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ باقی بات یہیں آ ختم ہوتی ہے کہ ہر اُس حدیث کو قرآن کریم پر ضرور پیش کیا جائے جو مقاصد دین کے خلاف ہو یا کسی شخصی رائے و عقل کا پیغام دیتی ہو۔ اس لئے کہ ایسی احادیث میں دین سے بغاوت اور مختلف نظریات و عقائد کی دعوت چھلکتی ہے۔ مگرحیرت کی بات ہے کہ الأصول لِلْبَزْدَوِی میں کسی بھی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ قاعدہ بتایا گیا ہے:
قاَلَ النَّبِیُّ ﷺ تَکْثُرُ لَکُمُ الْاَحَادِیْثُ مِنْ بَعْدِیْ فَإِذَا رُوِیَ لَکُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوْہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، فَمَا وَافَقَ کِتَابَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاقْبَلُوہُ وَمَا خَالَفَہُ فَرَدُّوْہُ۔ اصول للبزدوی۔ تمہارے سامنے میرے بعد بکثرت احادیث روایت کی جائیں گی تو انہیں کتاب اللہ پر پیش کرنا جو اس کے موافق ہو اسے لے لینا او رجو مخالف ہو اسے ترک کردینا۔

مگر عجیب سی بات ہے کہ علامہ عبد العزیز اپنی شرح میں لکھتے ہیں:
محدثین نے اس حدیث پر جرح کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث یزید بن ربیعہ نے ابوا الأشعث سے اور انہوں نے ثوبان سے روایت کی ہے اور یزید مجہول ہیں۔ان کا سماع ابوالاشعث عن أبی الأسماء الرحبی عن ثوبان ثابت ہی نہیں پھر یہ حدیث منقطع بھی ہے اس سے احتجاج صحیح نہیں ہوگا۔ بلکہ یحییٰ بن معین سے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اس حدیث کو زنادقہ نے گھڑا ہے۔ یحییٰ ؒ خود اس امت کے علم حدیث میں ایک َعلم شمار ہوتے ہیں اور راویوں کا تزکیہ دیتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ کہتے ہیں یہ حدیث مخالف کتاب اللہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : مَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا جو تمہیں رسول دے وہ لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔ لہٰذا اس حدیث سے احتجاج ساقط ہوگا جیسا کہ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔علامہ صاحب مزید لکھتے ہیں: ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ: امام ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے جو خود اس فن میں کامل مہارت رکھتے تھے۔اور اسی میدان کے امام تھے۔ ان کی کتاب میں اس حدیث کا آجانا ہی جواب کے لئے کافی ہے ۔ ان کے بعد کسی کے طعن کی طرف توجہ دینے کی قطعاً ضرورت نہیں۔[کشف الأسرار: ۷۳۰]

اس عظیم دعوے کے بعد پھر انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ ان مدعی موصوف کے بعد تقریباً اصول فقہ کے تمام مصنفین اور شارحین حضرات اس حدیث کو صحیح بخاری کی طرف ہی منسوب کرتے رہے۔ کسی نے بھی یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اس حدیث کی تحقیق توکرلیتا۔ مثلاً: أصول الشاشی : ۸۳، مطبوعہ دہلی ، ۱۳۱۰، میں مُحَشِّی نے حاشیہ نمبر ۳میں اس حدیث کے لئے اپنا مصدر کَشْفُ الأَسْرَارِ ہی لکھا ہے۔ شارح اصول شاشی نے فُصُولُ الْحَوَاشِیْ ص ۲۸۸مطبوعہ دہلی ۱۳۳۳میں وہی عبارت ہی نقل کی ہے جوکَشْفُ الأَسْرَارِ میں لکھی ہے۔ التوضیح والتلویح ص: ۹؍ج۲میں بھی یہی بات اسی طرح لکھی ہے۔ اس سے ہمارے فقہاء ومحشی حضرات کے ذوق حدیث کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حدیث کی تصحیح میں اور اس کے انتخاب میں ان کی درایت اور معیار کیسا ہوتا ہے؟ سوچئے! کہاں امام بخاری ؒ جیسا محتاط محدث وفقیہ اور کہاں یہ تحقیق انیق؟

٭٭٭٭٭​

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
جزاک اللہ خیرا یا اخی۔
یہ نظریہ اپنے کمال کے ساتھ درحقیقت اباضیہ کا ہے اور علماء امت نے اس پر سختی سے رد کیا ہے۔
عند الاحناف مطلقا روایت کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ممکن تطبیق کی جاتی ہے۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں جیسے کتاب اللہ سے فرضیت اور خبر واحد سے وجوب ثابت کرنا۔
البتہ جب یہ تطبیق بھی ممکن نہ ہو تب رد کر دیا جاتا ہے۔ جیسے مثالب صحابہ میں آپ کو بہت سی ایسی روایات ملیں گی جن کے روات صحیح نہیں تو حسن کے درجے کو پہنچے ہوئے ہوں گے لیکن اس کے باوجود قرآن کریم کے صحابہ کے بارے میں فیصلے کی وجہ سے ان کو رد کر دیا جاتا ہے۔
علت اس رد کی یہ ہے کہ قرآن کریم نص متواتر ہے۔ اور اس قدر متواتر ہے کہ اس میں زیر زبر کا بھی فرق نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ محدثین حدیث متواتر کے خلاف آنے والی خبر متواتر کو ترک کر دیتے ہیں بلکہ ذرا اور گہرائی میں جائیں تو محدثین کرام اپنے سے زیادہ ثقہ کے خلاف روایت کرنے پر بھی روایت کو ترک کر دیتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے قرآن کریم کی نص متواتر کے خلاف کوئی روایت ہو اور اسے قبول کر لیا جائے؟
ایک جانب امت کا غیر محصورہ طبقہ ایک حکم روایت کر رہا ہو اور دوسری جانب ایک راوی دوسرا حکم پہلے کے برخلاف۔ تو کیا قبول ہوگا؟
فافہم

باقی اس حدیث کے بارے میں تھوڑی سی تحقیق یہ ہے:۔
یہ مضمون مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔

أخبرنا به أبو عبد الله الحافظ وأبو سعيد بن أبي عمرو في كتاب السير قالا: أخبرنا أبو العباس قال أخبرنا الربيع، قال أخبرنا الشافعي قال: قال أبو يوسف: حدثنا خالد بن أبي كريمة، عن أبي جعفر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه دعا اليهود فسألهم فحدثوه حتى كذبوا على عيسى عليه السلام، فصعد النبي صلى الله عليه وسلم المنبر فخطب الناس فقال: «إن الحديث سيفشو عني فما أتاكم عني يوافق القرآن فهو عني وما أتاكم عني يخالف القرآن فليس عني»
معرفۃ السنن و الآثار 1۔117 ط دار قتیبۃ

اس روایت کی سند میری تحقیق کے مطابق جید ہے۔ البتہ یہ روایت مرسل ہے۔ (مرسل کی حجیت میں اختلاف مشہور ہے)

حدثنا عثمان بن أحمد بن السماك , نا حنبل بن إسحاق , نا جبارة بن المغلس , نا أبو بكر بن عياش , عن عاصم بن أبي النجود , عن زر بن حبيش , عن علي بن أبي طالب , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنها تكون بعدي رواة يروون عني الحديث , فاعرضوا حديثهم على القرآن فما وافق القرآن فخذوا به , وما لم يوافق القرآن فلا تأخذوا به». هذا وهم والصواب عن عاصم , عن زيد , عن علي بن الحسين , مرسلا عن النبي صلى الله عليه وسلم
سنن الدارقطنی


اس کی سند بھی تقریبا حسن کے درجہ کی ہے البتہ جبارہ بن مغلس کے بارے میں سخت اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ احفظنا، احلی، اوثق، صدوق، صالح، ثقۃ ان شاء اللہ ہے تو دیگر کے نزدیک کذاب، مضطرب الحدیث، متروک، کان یضعف کے درجے میں ہے۔

حدثنا علي بن سعيد الرازي، ثنا الزبير بن محمد بن الزبير الرهاوي، ثنا قتادة بن الفضيل، عن أبي حاضر، عن الوضين، عن سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «سئلت اليهود عن موسى فأكثروا وزادوا، ونقصوا حتى كفروا، وسئلت النصارى، عن عيسى فأكثروا فيه وزادوا، ونقصوا حتى كفروا، وإنه سيفشوا، عني أحاديث فما أتاكم من حديثي فاقرءوا كتاب الله، واعتبروه فما وافق كتاب الله فأنا قلته، وما لم يوافق كتاب الله فلم أقله»
المعجم الکبیر للطبرانی

حدثنا أحمد بن محمد بن يحيى بن حمزة، ثنا إسحاق بن إبراهيم أبو النضر، ثنا يزيد بن ربيعة، ثنا أبو الأشعث، عن ثوبان، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ألا إن رحى الإسلام دائرة» ، قال: فكيف نصنع يا رسول الله قال: «اعرضوا حديثي على الكتاب، فما وافقه فهو مني، وأنا قلته»
ایضا

أخبرني جعفر بن محمد الفريابي حدثنا محمد بن محمد بن عبد الله إملاء حدثنا محمد بن أحمد بن أحيد الحلواني بها أخبرنا أبو يعقوب إسحاق بن الهياج حدثنا محمد بن عبيد النحاس حدثنا صالح بن موسى عن عبد العزيز بن رفيع عن أبي صالح عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (أنه سيأتيكم عني أحاديث مختلفة فما جاءكم موافقا لكتاب الله وسنتي فهو مني وما جاءكم مخالفا لكتاب الله وسنتي فليس مني)
ذم الکلام، الکامل لابن عدی

ان کی اسناد میں کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے۔ لیکن یہ تمام روایات مل کر ایک خاص معنی پر دلالت کر رہی ہیں اور وہ واضح ہے۔

حدیث ابن عمر میں ابو حاضر عن الوضین مجہول الحال ہے لیکن یہ حدیث متابع ہے امام شافعیؒ کی روایت کے۔

واللہ اعلم۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
عند الاحناف مطلقا روایت کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ممکن تطبیق کی جاتی ہے۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں جیسے کتاب اللہ سے فرضیت اور خبر واحد سے وجوب ثابت کرنا۔۔

یہ بھی خوب لطیفہ پیش کیا۔
خبر واحد کو قطعی الثبوت نہ ماننے کا نظریہ کیا احناف کا نہیں؟ اور کیا یہ درست نہیں کہ احادیث کا اکثر ذخیرہ اخبار آحاد پر مشتمل ہے؟
اور کیا کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے آپ کے نزدیک درست ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ روایت کو رد کرنے کا ہی انداز نہیں؟
بطور مثال یاد کیجئے کہ ابھی حال ہی میں آپ نے حلالہ کے مسئلے پر ایک صحیح حدیث کو فقط اس وجہ سے نہیں مانا کہ وہ آپ کے بقول قرآن کے خلاف ہے۔ حالانکہ وہ آپ کے فہم قرآن کے خلاف ہی تھی۔
پھر خیر سے اصول کرخی میں فقہاء کے قول کے خلاف آیات و احادیث کی تاویل یا نسخ کا اصول پڑھ لیجئے۔
متاخرین احناف تقلید جامد میں اس قدر مبتلا ہیں کہ بزبان خود اقرار بھی ہے کہ فلاں مسئلہ میں حق اور انصاف یہ ہے کہ امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے، پھر بھی امام صاحب کی تقلید کی بنا پر اپنے مسئلے پرا ڑے رہتے ہیں۔

ہاں، آپ کی بات کو درست کیا جا سکتا ہے کہ :
عند الاحناف مطلقا روایت کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ممکن جائز و ناجائز تاویل کی جاتی ہےتاکہ روایت کو اپنے مطابق موڑ توڑ لیا جائے۔
حالیہ دنوں میں اس کی مثال احناف کی جانب سے صحیح بخاری کی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا والی آٹھ رکعات تراویح کے ضمن میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ کہ موڑ توڑ کر اس روایت کو تہجد پر فٹ کر تے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ام المومنین کی فقاہت اور جلالت شان پر کیا کیا حرف نہ آئے گا۔

ان کی اسناد میں کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے۔ لیکن یہ تمام روایات مل کر ایک خاص معنی پر دلالت کر رہی ہیں اور وہ واضح ہے۔
جی ہاں، اسناد میں علت بھی ہو تو "خاص معنی" پر دلالت احناف کو ضرور نظر آ جاتی ہے بشرطیکہ وہ خاص معنی ان کے موافق ہو۔
اور دوسری جانب صحیح صریح حدیث ہو مگر خبر واحد ہو تو بھی قطعی الثبوت نہیں قرار پاتی۔

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ بھی خوب لطیفہ پیش کیا۔
خبر واحد کو قطعی الثبوت نہ ماننے کا نظریہ کیا احناف کا نہیں؟ اور کیا یہ درست نہیں کہ احادیث کا اکثر ذخیرہ اخبار آحاد پر مشتمل ہے؟
اور کیا کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے آپ کے نزدیک درست ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ روایت کو رد کرنے کا ہی انداز نہیں؟
بطور مثال یاد کیجئے کہ ابھی حال ہی میں آپ نے حلالہ کے مسئلے پر ایک صحیح حدیث کو فقط اس وجہ سے نہیں مانا کہ وہ آپ کے بقول قرآن کے خلاف ہے۔ حالانکہ وہ آپ کے فہم قرآن کے خلاف ہی تھی۔
پھر خیر سے اصول کرخی میں فقہاء کے قول کے خلاف آیات و احادیث کی تاویل یا نسخ کا اصول پڑھ لیجئے۔
متاخرین احناف تقلید جامد میں اس قدر مبتلا ہیں کہ بزبان خود اقرار بھی ہے کہ فلاں مسئلہ میں حق اور انصاف یہ ہے کہ امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے، پھر بھی امام صاحب کی تقلید کی بنا پر اپنے مسئلے پرا ڑے رہتے ہیں۔

ہاں، آپ کی بات کو درست کیا جا سکتا ہے کہ :
عند الاحناف مطلقا روایت کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ممکن جائز و ناجائز تاویل کی جاتی ہےتاکہ روایت کو اپنے مطابق موڑ توڑ لیا جائے۔
حالیہ دنوں میں اس کی مثال احناف کی جانب سے صحیح بخاری کی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا والی آٹھ رکعات تراویح کے ضمن میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ کہ موڑ توڑ کر اس روایت کو تہجد پر فٹ کر تے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ام المومنین کی فقاہت اور جلالت شان پر کیا کیا حرف نہ آئے گا۔


جی ہاں، اسناد میں علت بھی ہو تو "خاص معنی" پر دلالت احناف کو ضرور نظر آ جاتی ہے بشرطیکہ وہ خاص معنی ان کے موافق ہو۔
اور دوسری جانب صحیح صریح حدیث ہو مگر خبر واحد ہو تو بھی قطعی الثبوت نہیں قرار پاتی۔

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔۔
اگر نعیم بھائی نے اسے علمی ریٹنگ نہ دی ہوتی تو میں اس کا جواب نہ دیتا۔ حیرت ہے۔ اس میں علمی کیا چیز ہے؟ خیر پسند اپنی اپنی۔

خبر واحد کو قطعی الثبوت نہ ماننے کا نظریہ کیا احناف کا نہیں؟ اور کیا یہ درست نہیں کہ احادیث کا اکثر ذخیرہ اخبار آحاد پر مشتمل ہے؟
اور کیا کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے آپ کے نزدیک درست ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ روایت کو رد کرنے کا ہی انداز نہیں؟
خبر واحد کے قطعی الثبوت نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے رواۃ اگرچہ ثقہ ہیں اور یہ درست ہے لیکن پھر بھی اس میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ کسی راوی سے غلطی ہو گئی ہو۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ ظنی الثبوت ہو گئی ہے اس لیے اس پر عمل نہیں ہوگا۔ بلکہ جب یہ متواتر و مشہور کے مقابلے میں آئے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔
کیا ان دو باتوں کو:

  1. راوی سے غلطی ہونا ممکن ہے۔
  2. خبر واحد اگر متواتر کے مقابلے میں آجائے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔
محدثین نہیں مانتے؟

حيث قال أهل الحديث: هذا حديث صحيح، فمرادهم فيما ظهر لنا عملا بظاهر الإسناد، لا أنه مقطوع بصحته في نفس الأمر، لجواز الخطأ والنسيان على الثقة، هذا هو الصحيح الذي عليه أكثر أهل العلم
شرح الفیۃ للعراقی

صرف الفاظ کا فرق ہٹا دیں تو احناف اور علامہ عراقی دونوں نے ایک ہی بات کہی ہے۔
اور متواتر کے مقابلے میں اس کا رد ہونا تو ظاہر ہے۔

ایک خبر واحد جب حدیث متواتر کے مقابلے پر آئے تو وہ رد ہو جائے اور جب وہ قرآن کی آیت کے مقابلے میں آئے (جو متواتر کی اعلی ترین قسم یعنی لفظا متواتر ہے) تو اسے قبول کر لیا جائے اور اس سے آیت میں تخصیص وغیرہ کر لی جائے آخر یہ کہاں کا قاعدہ ہے؟ (علماء امت کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے لیکن میں اسے نہیں سمجھ سکتا۔)
بلکہ ذرا آگے بڑھیں تو محدثین کے نزدیک جب اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف روایت آ جائے تو وہ تب بھی شاذ کہلا کر رد ہو جائے اور جب اللہ کے کلام کے مقابل آ جائے جسے پوری امت ثقات و ضعاف سمیت روایت کر رہی ہو تب بھی وہ قبول ہو۔ یہ کیسی عجیب بات ہے؟
حدیث متواتر یا اپنے سے ثقہ راوی کے خلاف آنے پر یہ سمجھا جائے کہ اس راوی سے غلطی ہو گئی ہے اور کسی بھی حدیث متواتر سے زیادہ قطعی متواتر قرآن کے خلاف آنے پر اسے راوی کی غلطی نہ سمجھا جائے؟ کیوں؟ آخر وہ کون سی دلیل ہے جو قرآن کی تخصیص کر رہی ہے اور حدیث کی نہیں؟

بطور مثال یاد کیجئے کہ ابھی حال ہی میں آپ نے حلالہ کے مسئلے پر ایک صحیح حدیث کو فقط اس وجہ سے نہیں مانا کہ وہ آپ کے بقول قرآن کے خلاف ہے۔ حالانکہ وہ آپ کے فہم قرآن کے خلاف ہی تھی۔
کیسی عجیب بات کر رہے ہیں؟ جائیں جا کر حلالہ والا تھریڈ دوبارہ پڑھیں۔

باقی باتیں آپ کی یا تو جواب کے قابل نہیں ہیں اور یا میں ان کا جواب پہلے اور جگہوں پر دے چکا ہوں یا دیگر بھائی دے چکے ہیں۔
اس لیے مہربانی فرما کر اگر اب بحث برائے بحث کرنی ہو تو مجھے تکلیف نہیں دیجیے گا۔ اور اگر واقعتا کوئی بات کرنی ہو تو میری اوپر والی پوسٹ آپ کے سامنے ہے۔ آپ کی علمی تنقید پر میں دل سے شکرگزار ہوں گا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
خبر واحد کے قطعی الثبوت نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے رواۃ اگرچہ ثقہ ہیں اور یہ درست ہے لیکن پھر بھی اس میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ کسی راوی سے غلطی ہو گئی ہو۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ ظنی الثبوت ہو گئی ہے اس لیے اس پر عمل نہیں ہوگا۔ بلکہ جب یہ متواتر و مشہور کے مقابلے میں آئے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔
کیا ان دو باتوں کو:

  1. راوی سے غلطی ہونا ممکن ہے۔
  2. خبر واحد اگر متواتر کے مقابلے میں آجائے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔
محدثین نہیں مانتے؟

حيث قال أهل الحديث: هذا حديث صحيح، فمرادهم فيما ظهر لنا عملا بظاهر الإسناد، لا أنه مقطوع بصحته في نفس الأمر، لجواز الخطأ والنسيان على الثقة، هذا هو الصحيح الذي عليه أكثر أهل العلم
شرح الفیۃ للعراقی

صرف الفاظ کا فرق ہٹا دیں تو احناف اور علامہ عراقی دونوں نے ایک ہی بات کہی ہے۔
اور متواتر کے مقابلے میں اس کا رد ہونا تو ظاہر ہے۔

ایک خبر واحد جب حدیث متواتر کے مقابلے پر آئے تو وہ رد ہو جائے اور جب وہ قرآن کی آیت کے مقابلے میں آئے (جو متواتر کی اعلی ترین قسم یعنی لفظا متواتر ہے) تو اسے قبول کر لیا جائے اور اس سے آیت میں تخصیص وغیرہ کر لی جائے آخر یہ کہاں کا قاعدہ ہے؟ (علماء امت کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے لیکن میں اسے نہیں سمجھ سکتا۔)
بلکہ ذرا آگے بڑھیں تو محدثین کے نزدیک جب اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف روایت آ جائے تو وہ تب بھی شاذ کہلا کر رد ہو جائے اور جب اللہ کے کلام کے مقابل آ جائے جسے پوری امت ثقات و ضعاف سمیت روایت کر رہی ہو تب بھی وہ قبول ہو۔ یہ کیسی عجیب بات ہے؟
حدیث متواتر یا اپنے سے ثقہ راوی کے خلاف آنے پر یہ سمجھا جائے کہ اس راوی سے غلطی ہو گئی ہے اور کسی بھی حدیث متواتر سے زیادہ قطعی متواتر قرآن کے خلاف آنے پر اسے راوی کی غلطی نہ سمجھا جائے؟ کیوں؟ آخر وہ کون سی دلیل ہے جو قرآن کی تخصیص کر رہی ہے اور حدیث کی نہیں؟
آپ جانے انجانے میں خلط مبحث بہت کرتے ہیں۔
ایک ہے کہ کوئی کمزور روایت کسی قوی روایت کے بالمقا ل بمعنی معارض آ جائے اور اس میں تطبیق ممکن ہی نہ ہو، وہاں کمزور روایت کو چھوڑ دینے میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔
اور ایک یہ ہے کہ ایک صحیح روایت سے کسی دوسری صحیح یا متواتر روایت یا قرآن کے عموم کی تخصیص کرنا، یہاں معارضہ کی بات ہی نہیں۔ قرآن یا متواتر روایت میں کسی عام حکم کا بیان ہے اور صحیح الاسناد روایت سے اسی حکم میں کسی استثناء کا ذکر ہے۔ ایسی صورت میں روایت کو رد کر دینے کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے؟ کیا فقط اس لئے کہ راوی کے غلطی کرنے کا "امکان" موجود ہے؟

ایسے شاید وضاحت نہ ہو پائے۔ ایک مثال دیکھتے ہیں:


مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

''شافعیہ کےمسلک (کہ حلالہ حرام ہے) پر حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کی ایک روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:

«جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فَتَزَوَّجَهَا أَخٌ لَهُ عَنْ غَيْرِ مُؤَامَرَةٍ مِنْهُ لِيُحِلَّهَا لأَخِيهِ هَلْ تَحِلُّ لِلأَوَّلِ؟ قَالَ : لاَ إِلاَّ نِكَاحَ رَغْبَةٍ كُنَّا نَعُدُّ هَذَا سَفَاحًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله ﷺ»۔
۔
اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ذکر کیا ہے او رصحیح علیٰ شرط الشیخین قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نےبھی اس پر سکوت کیا ہے۔اس استدلال کا کوئی جواب احقر کی نظر سے نہیں گزرا، البتہ اس کا یہ جواب سمجھ میں آتا ہےکہ قرآنِ کریم کی آیت:﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾میں مطلق نکاح کاذکر ہے خواہ شرط تحلیل کے ساتھ ہو یا بغیر شرطِ تحلیل کے، اس پر خبر واحد سے زیادتی نہیں کی جاسکتی۔''

یہاں عثمانی صاحب قرآن کے عموم میں خبر واحد سے جس زیادتی کی نفی فرما رہے ہیں وہی ہمارے نزدیک اصل قابل اعتراض بات ہے۔ ایک صحیح روایت کو قرآن کے خلاف کہہ کر ، یا قرآن کے الفاظ پر زیادتی کہہ کر رد کر دینا، جبکہ وہ روایت حقیقتا نہ تو قرآنی الفاظ پر زیادتی ہے اور نہ قرآن کے معارض ہے۔ بلکہ فقط قرآن کے ایک عمومی حکم کی شرح و تبین میں ایک خاص حکم کے استثناء کو ظاہر کر رہی ہے۔

ملاحظہ کیجئے آیت کا ترجمہ یہ ہے:
"پھر اگر اسے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں رجوع کر لیں"
یہاں مطلقہ کا دوسرے خاوند سے نکاح شرط تحلیل کے ساتھ یا بغیر کا کوئی تذکرہ ہی نہیں، گویا یہ آیت ایک عمومی حکم کو بیان کر رہی ہے ۔ اب یہ حدیث دیکھئے جو دراصل اس آیت کی نہایت عمدہ تفسیر ہے اور حرام کو حلال سے ممتاز کر دیتی ہے:

''ایک شخص حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کےپاس آیا اور اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اُس کے بھائی نے اپنے بھائی سے مشورہ کیےبغیر اس کی بیوی(اپنی بھابھی)سے اس نیت سے شادی کرلی تاکہ وہ اپنے بھائی کےلئے اپنی (مطلقہ ثلاثہ) بیوی سے(دوبارہ)نکاح کرنے کو جائز کردے۔ (یعنی بنیۃ التحلیل عارضی نکاح کی بابت پوچھا، جس کو احناف جائز کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور کیااس طرح وہ زوج اوّل کے لئے حلال ہوجائے گی؟) حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ نکاح نہیں ہے، نکاح تو وہ ہے جو (بغیر شرطِ تحلیل اور بغیر نیتِ تحلیل کے) اپنی رغبت سے کیا جائے (گویا یہ زنا ہے) ہم رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا سمجھتے تھے۔''

اب قرآن کے عموم کو مان لینا اور اس عموم کی تفسیر یا تخصیص جو بالکل صحیح سند سے بیان ہوئی ہے، اسے فقط یہ کہہ کر رد کر دینا کہ "خبر واحد سے زیادتی نہیں کی جا سکتی"۔اور ایک صحیح روایت کے بالکل بالعکس فتویٰ دینا کہ ایسے مطلقہ جوڑے کو ملانے کی خاطر حلالہ کرنا توکار ثواب ہے، بتلائیے اگر یہ حدیث کو رد کر دینا نہیں تو پھر دنیا میں انکار حدیث کا تو وجود ہی ختم ہو گیا۔

امید ہے کہ درج بالا مثال پر دیانتداری سے جواب دیں گے اور مسلکی عصبیت کا مظاہرہ نہیں فرمائیں گے۔

اب آئینے کا دوسرا رخ بھی دیکھئے۔ احناف اور اہلحدیث کے مابین مشہور اختلافی مسئلہ ہے کہ گاؤں میں نماز جمعہ فرض ہے یا نہیں۔
قرآن کی آیت عام ہے:

یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃ مِنْ یوم الجمعۃ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ
یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جاوے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو

غور کیجئے کہ جیسے حلالہ والی آیت میں شرط تحلیل کا ذکر نہیں، اس آیت میں بھی گاؤں یا شہر کا کوئی تذکرہ نہیں۔

لیکن احناف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر سے اس آیت کے عموم میں تخصیص کو جائز و درست قرار دیتے ہیں:
لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الافی مصر جامع

یعنی،جمعہ ، تشریق ،عید الفطر اور عید الاضحی نہیں ہیں، سوائے شہر کے۔

ایک طرف تو قرآن کے الفاظ پر زیادتی نہ کرنے کا بہانہ بناتے ہوئے صحیح حدیث کے انکار کا وہ عالم اور دوسری جانب قرآن کے الفاظ میں من چاہا مفہوم داخل کرنے کے لئے اپنے ہی بنائے گئے اصول کا یہ ظالمانہ خون۔۔!

اب ایسی صریح ناانصافیوں پر اگر ہم یہ کہیں کہ علمائے احناف کا مقصد فقط اپنی من مرضی کی چیز کا ثبوت "پیدا" کرنا ہوتا ہے، اور یہ مقصد کبھی تو بے بنیاد اصول بنا کر حاصل کیا جاتا ہے اور کبھی انہی اصولوں کو توڑ کر۔ تو کیا یہ کہنا عین انصاف نہ ہوگا؟
۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ جانے انجانے میں خلط مبحث بہت کرتے ہیں۔
ایک ہے کہ کوئی کمزور روایت کسی قوی روایت کے بالمقا ل بمعنی معارض آ جائے اور اس میں تطبیق ممکن ہی نہ ہو، وہاں کمزور روایت کو چھوڑ دینے میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔
اور ایک یہ ہے کہ ایک صحیح روایت سے کسی دوسری صحیح یا متواتر روایت یا قرآن کے عموم کی تخصیص کرنا، یہاں معارضہ کی بات ہی نہیں۔ قرآن یا متواتر روایت میں کسی عام حکم کا بیان ہے اور صحیح الاسناد روایت سے اسی حکم میں کسی استثناء کا ذکر ہے۔ ایسی صورت میں روایت کو رد کر دینے کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے؟ کیا فقط اس لئے کہ راوی کے غلطی کرنے کا "امکان" موجود ہے؟
محترم بھائی۔
تخصیص یا زیادتی کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک چیز میں آئے ہوئے اطلاق یا عموم کو ختم کر کے اس میں قید پیدا کرنا۔
اب آپ بتائیں۔ اطلاق آئے تواترا اور قید آئے خبر واحد سے یا اطلاق آئے سب کے لیے عموما تواتر سے اور ایک شخص کا استثنا ہو جائے خبر واحد سے یعنی اس کے بارے میں صرف ایک شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں تواتر سے آنے والی خبر ثابت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت تواتر سے ایک حکم ثابت کر رہی ہے جس میں مثال کے طور پر زید، عمرو، بکر سب کے بارے میں حکم شامل ہے اور ایک شخص خالد یہ روایت کر رہا ہے کہ یہ حکم زید کے بارے میں نہیں ہے۔ یعنی وہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں حکم کے مخالف روایت کر رہا ہے تو اس کی روایت اس پوری متواتر جماعت کے مخالف کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
بخاری کی روایت ہے:۔
لم يكذب إبراهيم إلا ثلاثا
لفظی ترجمہ یہ ہے: ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا مگر تین بار۔"
اس کذب کا اطلاق ابراہیمؑ پر کرنے کے بجائے اس میں تاویلات کیوں کی جاتی ہیں کہ جھوٹ نہیں ہوگا جھوٹ کی طرح ہوگا یا حالت طفولیت میں ہوگا اور ان کی اہلیہ ان کی اسلامی بہن ہوں گی وغیرہ؟

ابن عقیل نے کہا ہے:۔
دلالة العقل تصرف ظاهر إطلاق الكذب على إبراهيم وذلك أن العقل قطع بأن الرسول ينبغي أن يكون موثوقا به ليعلم صدق ما جاء به عن الله ولا ثقة مع تجويز الكذب عليه
فتح الباری

"عقل کی دلالت ابراہیم پر کذب کے اطلاق ظاہری کو روکتی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے کہ عقل قطعی طور پر کہتی ہے کہ رسول کے لیے ضروری ہے اس پر اعتماد کیا جائے تاکہ وہ جو کچھ اللہ کی طرف سے لائے اس کی سچائی کا علم ہو جائے۔ اور کذب کا امکان ہوتے ہوئے کسی قسم کا اعتماد نہیں ہو سکتا۔"

اب آئیں ذرا آپ کے اصول کی طرف۔ "ابراہیمؑ کا استثنا صحیح سند سے ہو رہا ہے لہذا یہ رسولوں کے عام حکم سے مستثنی ہوں گے۔ پس ثابت ہوا کہ ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے۔"
اس میں سب باتیں آپ کے اصول کی پائی جاتی ہیں۔ سند بھی صحیح ہے، عام حکم کے مخالف بھی نہیں کیوں کہ ایک شخص کا استثنا ہو رہا ہے۔ کیا آپ یہ جھوٹ ان کے لیے ثابت کریں گے؟
اور مزے کی بات یہ کہ یہاں صرف عقل کے ذریعے حدیث میں تاویل کی جارہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
اور اگر ابن عقیل کی ہی تاویل کے مطابق یہ کہیں کہ یہ جھوٹ تو تھے لیکن حالت خوف میں ہونے کی وجہ سے جائز تھے تو پھر شیعوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان کے اماموں کا تقیہ ناجائز ہے؟

میرے محترم بھائی!
یہ ایک دقیق مقام ہے۔ میں اس پر آپ کو اور بھی کئی مثالیں دے سکتا ہوں لیکن میں آپ کو منوا نہیں سکتا۔ جس کا ذہن جس طرف جائے وہ اس کا مکلف ہے۔
بس اتنا یاد رکھیے کہ صرف سند ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ مسلم نے مقدمہ میں لکھا ہے:۔
حدثنا داود بن عمرو الضبي، حدثنا نافع بن عمر، عن ابن أبي مليكة، قال: كتبت إلى ابن عباس أسأله أن يكتب لي كتابا، ويخفي عني، فقال: «ولد ناصح أنا أختار له الأمور اختيارا، وأخفي عنه»، قال: فدعا بقضاء علي، فجعل يكتب منه أشياء، ويمر به الشيء، فيقول: «والله ما قضى بهذا علي إلا أن يكون ضل»
"علی رض کے فیصلے منگوائے اور ان سے چیزیں لکھنے لگے۔ اور کسی چیز پر سے گزر جاتے تھے اور کہتے تھے: قسم بخدا علی اس کا فیصلہ تب ہی کر سکتے ہیں جب وہ گمراہ ہوں۔"
یہاں دیکھیں۔ ابن عباس رض نے سند کی کوئی بحث نہیں کی۔ بس صرف عقل سے رد کر دیا۔ ظاہر ہے فیصلے کی ساری کتاب ایک ہی شخص نے لکھی ہوگی۔ اس کی بعض چیزیں قبول کر لیں اور بعض قبول نہیں کیں لیکن سند کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی۔
اس لیے صرف سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔


ایسے شاید وضاحت نہ ہو پائے۔ ایک مثال دیکھتے ہیں:

مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

''شافعیہ کےمسلک (کہ حلالہ حرام ہے) پر حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کی ایک روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:

«جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فَتَزَوَّجَهَا أَخٌ لَهُ عَنْ غَيْرِ مُؤَامَرَةٍ مِنْهُ لِيُحِلَّهَا لأَخِيهِ هَلْ تَحِلُّ لِلأَوَّلِ؟ قَالَ : لاَ إِلاَّ نِكَاحَ رَغْبَةٍ كُنَّا نَعُدُّ هَذَا سَفَاحًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله ﷺ»۔
۔
اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ذکر کیا ہے او رصحیح علیٰ شرط الشیخین قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نےبھی اس پر سکوت کیا ہے۔اس استدلال کا کوئی جواب احقر کی نظر سے نہیں گزرا، البتہ اس کا یہ جواب سمجھ میں آتا ہےکہ قرآنِ کریم کی آیت:﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾میں مطلق نکاح کاذکر ہے خواہ شرط تحلیل کے ساتھ ہو یا بغیر شرطِ تحلیل کے، اس پر خبر واحد سے زیادتی نہیں کی جاسکتی۔''

یہاں عثمانی صاحب قرآن کے عموم میں خبر واحد سے جس زیادتی کی نفی فرما رہے ہیں وہی ہمارے نزدیک اصل قابل اعتراض بات ہے۔ ایک صحیح روایت کو قرآن کے خلاف کہہ کر ، یا قرآن کے الفاظ پر زیادتی کہہ کر رد کر دینا، جبکہ وہ روایت حقیقتا نہ تو قرآنی الفاظ پر زیادتی ہے اور نہ قرآن کے معارض ہے۔ بلکہ فقط قرآن کے ایک عمومی حکم کی شرح و تبین میں ایک خاص حکم کے استثناء کو ظاہر کر رہی ہے۔

ملاحظہ کیجئے آیت کا ترجمہ یہ ہے:
"پھر اگر اسے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں رجوع کر لیں"
یہاں مطلقہ کا دوسرے خاوند سے نکاح شرط تحلیل کے ساتھ یا بغیر کا کوئی تذکرہ ہی نہیں، گویا یہ آیت ایک عمومی حکم کو بیان کر رہی ہے ۔ اب یہ حدیث دیکھئے جو دراصل اس آیت کی نہایت عمدہ تفسیر ہے اور حرام کو حلال سے ممتاز کر دیتی ہے:

''ایک شخص حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کےپاس آیا اور اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اُس کے بھائی نے اپنے بھائی سے مشورہ کیےبغیر اس کی بیوی(اپنی بھابھی)سے اس نیت سے شادی کرلی تاکہ وہ اپنے بھائی کےلئے اپنی (مطلقہ ثلاثہ) بیوی سے(دوبارہ)نکاح کرنے کو جائز کردے۔ (یعنی بنیۃ التحلیل عارضی نکاح کی بابت پوچھا، جس کو احناف جائز کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور کیااس طرح وہ زوج اوّل کے لئے حلال ہوجائے گی؟) حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ نکاح نہیں ہے، نکاح تو وہ ہے جو (بغیر شرطِ تحلیل اور بغیر نیتِ تحلیل کے) اپنی رغبت سے کیا جائے (گویا یہ زنا ہے) ہم رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا سمجھتے تھے۔''

اب قرآن کے عموم کو مان لینا اور اس عموم کی تفسیر یا تخصیص جو بالکل صحیح سند سے بیان ہوئی ہے، اسے فقط یہ کہہ کر رد کر دینا کہ "خبر واحد سے زیادتی نہیں کی جا سکتی"۔اور ایک صحیح روایت کے بالکل بالعکس فتویٰ دینا کہ ایسے مطلقہ جوڑے کو ملانے کی خاطر حلالہ کرنا توکار ثواب ہے، بتلائیے اگر یہ حدیث کو رد کر دینا نہیں تو پھر دنیا میں انکار حدیث کا تو وجود ہی ختم ہو گیا۔

امید ہے کہ درج بالا مثال پر دیانتداری سے جواب دیں گے اور مسلکی عصبیت کا مظاہرہ نہیں فرمائیں گے۔
محترم! مفتی صاحب کو اس استدلال کا کوئی جواب نہیں ملا۔ حالاں کہ یہ بہت واضح ہے اور میں پہلے بھی جواب دے چکا ہوں اس میں "عد" کا ذکر ہے اور "عد" افعال قلوب میں سے ہے۔ افعال قلوب کے ذریعے حدیث مرفوع کے حکم میں نہیں آتی کیوں کہ افعال قلوب پر تقریر رسول ﷺ موجود نہیں ہوتی۔ لہذا یہ ابن عمر رض کا اجتہاد ہے۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ثابت کیجیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس قسم کے مقامات پر بڑے گناہ کا ذکر زجرا و تشدیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: لا ایمان لمن لا امانۃ لہ۔ "اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت نہیں۔"
آپ کا کیا خیال ہے جو امانت دار نہ ہو وہ کافر ہو جاتا ہے؟ جس طرح یہاں عدم ایمان کا ذکر صرف تشدیدا و زجرا ہے اسی طرح اس روایت میں بھی زنا کا ذکر زجرا و تشدیدا ہے۔
اگر ایک جگہ آپ نصوص سے قرینہ ڈھونڈ کر مراد بدل دیتے ہیں تو دوسری جگہ کیوں نہیں؟


یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃ مِنْ یوم الجمعۃ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ
یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جاوے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو

غور کیجئے کہ جیسے حلالہ والی آیت میں شرط تحلیل کا ذکر نہیں، اس آیت میں بھی گاؤں یا شہر کا کوئی تذکرہ نہیں۔

لیکن احناف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر سے اس آیت کے عموم میں تخصیص کو جائز و درست قرار دیتے ہیں:
لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الافی مصر جامع
یعنی،جمعہ ، تشریق ،عید الفطر اور عید الاضحی نہیں ہیں، سوائے شہر کے۔

"جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جاوے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو"
بحث اس میں ہے کہ جمعہ ہونا کہاں ہے۔ یعنی جمعے کی اذان کہاں دی جائے گی۔ آیت میں ذکر فعل بعد کا ہے کہ جب جمعہ کی شرائط پائی جائیں اور جمعہ کی اذان دے دی جائے تب یہ کرو۔
مجھے بتائیے جمعہ کے لیے جماعت تو تمام فقہاء کے نزدیک شرط ہے۔ اور مزے کی بات اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ پھر کیا یہ اس آیت کے خلاف ہے؟
اور آپ کا اپنا کیا مسلک ہے کہ جمعہ کے لیے کم از کم کتنے لوگ ہونے چاہئیں؟ اس پر کوئی دلیل بھی ہے آپ کے پاس؟
اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ آیت شرائط جمعہ پائے جانے کے بعد کے عمل کے بارے میں ہے۔


آخر میں عرض یہ ہے کہ ان دونوں اعتراضات کا جواب میں نے بات کو سمجھانے کے لیے دیا ہے۔ اگر اس موضوع پر مزید بحث کا ارادہ ہو تو الگ تھریڈ بنا لیجیے گا۔ یہ مزید بحث کا مقام نہیں ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم بھائی۔
تخصیص یا زیادتی کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک چیز میں آئے ہوئے اطلاق یا عموم کو ختم کر کے اس میں قید پیدا کرنا۔
اب آپ بتائیں۔ اطلاق آئے تواترا اور قید آئے خبر واحد سے یا اطلاق آئے سب کے لیے عموما تواتر سے اور ایک شخص کا استثنا ہو جائے خبر واحد سے یعنی اس کے بارے میں صرف ایک شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں تواتر سے آنے والی خبر ثابت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت تواتر سے ایک حکم ثابت کر رہی ہے جس میں مثال کے طور پر زید، عمرو، بکر سب کے بارے میں حکم شامل ہے اور ایک شخص خالد یہ روایت کر رہا ہے کہ یہ حکم زید کے بارے میں نہیں ہے۔ یعنی وہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں حکم کے مخالف روایت کر رہا ہے تو اس کی روایت اس پوری متواتر جماعت کے مخالف کیسے قبول ہو سکتی ہے؟۔

عموم کی تخصیص کو معارض قرار دینا ہی اصل غلط فہمی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمام مردار حرام ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں کہ سمندر کا مردار حلال ہے اور یہ بات صحیح سند سے فقط ایک ہی روایت میں مروی ہو تو اس کی تخصیص بالکل جائز و درست ہوگی کیونکہ اصلا یہ روایت قرآن کے معارض ہوگی ہی نہیں۔ ہاں قرآن کی تبین و تشریح اور حکم کے اجمال کی توضیح قرار دی جا سکتی ہے ۔ ۔
خبر واحد جو ثقہ راویان سے ہم تک پہنچتی ہے وہ دین ہی ہے۔ اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جتنا ہماری استطاعت میں ہے۔ قرآن کے صریح قطعی الدلالۃ حکم رضاعت دو سال کو قیاس سے بدل دینے والوں کے لئے صحیح حدیث کو رد کرنے کا یہ خود ساختہ اصول کچھ اتنا عجیب نہیں لگتا ہوگا۔ ۔

بخاری کی روایت ہے:۔
لم يكذب إبراهيم إلا ثلاثا
لفظی ترجمہ یہ ہے: ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا مگر تین بار۔"
اس کذب کا اطلاق ابراہیمؑ پر کرنے کے بجائے اس میں تاویلات کیوں کی جاتی ہیں کہ جھوٹ نہیں ہوگا جھوٹ کی طرح ہوگا یا حالت طفولیت میں ہوگا اور ان کی اہلیہ ان کی اسلامی بہن ہوں گی وغیرہ؟

۔

اب آئیں ذرا آپ کے اصول کی طرف۔ "ابراہیمؑ کا استثنا صحیح سند سے ہو رہا ہے لہذا یہ رسولوں کے عام حکم سے مستثنی ہوں گے۔ پس ثابت ہوا کہ ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے۔"
اس میں سب باتیں آپ کے اصول کی پائی جاتی ہیں۔ سند بھی صحیح ہے، عام حکم کے مخالف بھی نہیں کیوں کہ ایک شخص کا استثنا ہو رہا ہے۔ کیا آپ یہ جھوٹ ان کے لیے ثابت کریں گے؟
اور مزے کی بات یہ کہ یہاں صرف عقل کے ذریعے حدیث میں تاویل کی جارہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
اور اگر ابن عقیل کی ہی تاویل کے مطابق یہ کہیں کہ یہ جھوٹ تو تھے لیکن حالت خوف میں ہونے کی وجہ سے جائز تھے تو پھر شیعوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان کے اماموں کا تقیہ ناجائز ہے؟
یہ بعینہ وہی اعتراض ہے جو منکرین حدیث پیش کرتے ہیں ۔ الحمدللہ ایک دوسرے فورم پر منکرین حدیث کے اس اعتراض کا شافی جواب دیا تھا، جسے محترم کنعان بھائی نے یہاں محدث فورم پر بھی منتقل کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
http://forum.mohaddis.com/threads/ابوہریرہ-رضی-اللہ-عنہ-نے-بیان-کیا-کہ-ابراہیم-علیہ-السلام-نے-تین-مرتبہ-جھوٹ-بولا-تھا.20170/#post-156931

مختصراً عرض ہے کہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جن تین باتوں کو حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے دو باتیں خود قرآن ہی سے ثابت ہیں۔ لہٰذا یہ استثناء تو ویسے ہی درست نہ ہوا کیونکہ جو اعتراض آپ حدیث پر کر رہے ہیں، وہ حدیث سے پہلے خود قرآن پر جاری ہوتا ہے۔ دوسری بات کذب کے معنی میں جھوٹ کے علاوہ احتمالات موجود ہیں ، جس کی مفصل وضاحت درج بالا مراسلہ میں موجود ہے۔ تیسری بات اسے عموم اور استثناء قرار ہی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قرآن نے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باقاعدہ نام لے کر انہیں سچا قرار دیا ہے۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَۚإِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (19:41)
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔

لہٰذا بدقسمتی سے آپ کی مثال یہاں بالکل فٹ نہیں آتی۔
آخری بات یہ کہ خبر واحد سے قرآن یا حدیث متواتر کی تخصیص وغیرہ کے اصول کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روایت و درایت کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر فوری فیصلہ دے دیا جائے۔ جمع و تطبیق، ناسخ و منسوخ، مختلف مفاہیم ، مختلف شان نزول یا مختلف مخاطبین کی بنیاد پر کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ جہاں گنجائش ہو۔


اب دیکھئے جو اعتراض آپ ہم پر کر رہے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر آپ پر کر دیں کہ آپ کے اصول کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کا من چاہا مفہوم پہلے خود کشید کر لیں اور پھر صحیح حدیث کو اس وجہ سے رد کر دیں کہ وہ آپ کے پسندیدہ مفہوم کے خلاف کسی اور مفہوم کی جانب رہنمائی کر رہی ہے ۔ تو کیا یہ اعتراض درست ہوگا؟ حالانکہ یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ عملاً احناف کی اکثریت اسی روش میں مبتلا بھی ہے۔ حلالہ والا مسئلہ اس کی نہایت عمدہ مثال ہے۔
میرے محترم بھائی!
یہ ایک دقیق مقام ہے۔ میں اس پر آپ کو اور بھی کئی مثالیں دے سکتا ہوں لیکن میں آپ کو منوا نہیں سکتا۔ جس کا ذہن جس طرف جائے وہ اس کا مکلف ہے۔
بس اتنا یاد رکھیے کہ صرف سند ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ مسلم نے مقدمہ میں لکھا ہے:۔
حدثنا داود بن عمرو الضبي، حدثنا نافع بن عمر، عن ابن أبي مليكة، قال: كتبت إلى ابن عباس أسأله أن يكتب لي كتابا، ويخفي عني، فقال: «ولد ناصح أنا أختار له الأمور اختيارا، وأخفي عنه»، قال: فدعا بقضاء علي، فجعل يكتب منه أشياء، ويمر به الشيء، فيقول: «والله ما قضى بهذا علي إلا أن يكون ضل»
"علی رض کے فیصلے منگوائے اور ان سے چیزیں لکھنے لگے۔ اور کسی چیز پر سے گزر جاتے تھے اور کہتے تھے: قسم بخدا علی اس کا فیصلہ تب ہی کر سکتے ہیں جب وہ گمراہ ہوں۔"
یہاں دیکھیں۔ ابن عباس رض نے سند کی کوئی بحث نہیں کی۔ بس صرف عقل سے رد کر دیا۔ ظاہر ہے فیصلے کی ساری کتاب ایک ہی شخص نے لکھی ہوگی۔ اس کی بعض چیزیں قبول کر لیں اور بعض قبول نہیں کیں لیکن سند کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی۔
اس لیے صرف سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔
یہ بات جزوی طور پر بالکل درست ہے کہ سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی،صحیح سند سے ایک روایت کے ثبوت کے بعد بھی محدثین کے ہاں روایت و درایت کے دیگر اصول ہیں، جن پر اس روایت کو پرکھا جا سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر اس کے قبول و رد کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن دوسری طرف اسی صحیح مسلم کے مقدمہ میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ بھی آپ ملاحظہ کریں کہ:
’’الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شائ‘‘
’’اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا کہہ دیتا۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )

کیا آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں؟

باقی آپ کا ابن عباس کی مجمل و محمل بات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ عقل کے زور پر صحیح احادیث کی تردید کی جا سکتی ہے، نہایت خطرناک بات ہے۔ اگر آپ واقعی یہ اصول رکھتے ہیں کہ عقل کی بنیاد پر اخبار آحاد کو رد کیا جا سکتا ہے تو وضاحت کیجئے ہم علیحدہ دھاگا ہی کھول لیتے ہیں پھر۔اور اگر یہ اصول نہیں تو پھر ابن عباس کی بات سے جو مفہوم آپ اخذ کر رہے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتا، ورنہ اس کے آپ بھی اتنے ہی جواب دہ ہوں گے جتنے کہ ہم۔


محترم! مفتی صاحب کو اس استدلال کا کوئی جواب نہیں ملا۔ حالاں کہ یہ بہت واضح ہے اور میں پہلے بھی جواب دے چکا ہوں اس میں "عد" کا ذکر ہے اور "عد" افعال قلوب میں سے ہے۔ افعال قلوب کے ذریعے حدیث مرفوع کے حکم میں نہیں آتی کیوں کہ افعال قلوب پر تقریر رسول ﷺ موجود نہیں ہوتی۔ لہذا یہ ابن عمر رض کا اجتہاد ہے۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ثابت کیجیے۔
پھر وہی خلط مبحث۔ ہم نے آپ سے اس حدیث کا درست محل کب معلوم کیا ہے؟
ارے بھائی اعتراض کو سمجھیں پھر جواب دیں۔
چلیں آپ کو لولی لنگڑی کوئی تاویل سمجھ آ گئی ، لیکن اعتراض ہے تقی عثمانی صاحب پر، کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث کا کوئی جواب نہیں ہے ان کے پاس۔ لیکن چونکہ یہ خبر واحد ہے لہٰذا اس سے قرآن پر زیادتی ممکن نہیں۔
اور تقی عثمانی صاحب نے فقط اس ایک زریں اصول کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کو رد کر دیا۔اب یا تو اصول غلط مانئے اور یا تقی عثمانی صاحب (اور ان جیسے دیگر فقیہان حرم ) کے نکتہ نظر سے ان کا دفاع پیش کیجئے۔ کہ کیا ان کا ایسے حدیث کو رد کرنا درست و جائز تھا؟

اب آپ کی تاویل پر بھی دو لفظ:
پہلی بات یہ کہ جیسے حلالہ والے مراسلے میں انس صاحب نے بدلائل وضاحت کی تھی کہ :
صحابی کا یہ کہنا كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ معاشرتی مسئلہ ہے ۔ صحابی کا اجتہاد یا قلبی فعل نہیں کہ جی سے کچھ گھڑ کر بیان کر دیا ہو۔ اور خصوصا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلالہ کو زنا سمجھتے تھے، اس میں اجتہاد کی گنجائش ہی نہیں۔ اور ان کا تفرد بھی نہیں کیونکہ یقینا ایک سے زائد صحابہ کا یہی عقیدہ رہا ہوگا۔اور صحابی اسی کی بنیاد پر نکاح حلالہ منعقد نہ ہونے کا فتویٰ جاری فرما رہے ہیں۔
تیسری بات یہ اگر واقعی آیت عموم پر ہے اور اس سے استثناء جائز ہی نہیں، تو پھر نکاح متعہ بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ نکاح متعہ کی حرمت بھی خبر واحد ہی سے ثابت ہے۔بلکہ نکاح متعہ تو پھر کسی زمانے میں حلال بھی رہا ہے، نکاح حلالہ تو دور نبوی سے حرام و زنا ہی ہے۔
۔


دوسری بات یہ ہے کہ اس قسم کے مقامات پر بڑے گناہ کا ذکر زجرا و تشدیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: لا ایمان لمن لا امانۃ لہ۔ "اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت نہیں۔"
آپ کا کیا خیال ہے جو امانت دار نہ ہو وہ کافر ہو جاتا ہے؟ جس طرح یہاں عدم ایمان کا ذکر صرف تشدیدا و زجرا ہے اسی طرح اس روایت میں بھی زنا کا ذکر زجرا و تشدیدا ہے۔
اگر ایک جگہ آپ نصوص سے قرینہ ڈھونڈ کر مراد بدل دیتے ہیں تو دوسری جگہ کیوں نہیں؟
یہ بھی احناف کی تاویلات باطلہ میں سے ایک باطل تاویل ہے۔۔جس کا بطلان خود حدیث کے الفاظ سے ثابت ہے۔
پہلے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے تردید کی کہ یہ نکاح نہیں ہوتا۔
پھر فرمایا کہ ہم دور نبوی میں اسے زنا گردانتے تھے۔
آپ نکاح منعقد نہ ہونے کو بطور زجر و تشدید مان لیں یا شریعت کا حکم مان لیں۔ دونوں صورتوں میں نکاح بہرحال منعقد نہیں ہوگا۔ ۔پھر زجرو تشدید کے لئے کوئی قرینہ ہو تو پیش کیجئے، جبکہ حدیث سے صریح سوال کا صریح جواب جو ملتا ہے، اہلحدیث اسی کو مانتے ہیں۔
آپ کی مثال میں امانت دار کے کافر نہ ہونے کے حق میں دیگر دلائل موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ نکاح حلالہ کے منعقد ہو جانے کے حق میں آخر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟

"جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جاوے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو"
بحث اس میں ہے کہ جمعہ ہونا کہاں ہے۔ یعنی جمعے کی اذان کہاں دی جائے گی۔ آیت میں ذکر فعل بعد کا ہے کہ جب جمعہ کی شرائط پائی جائیں اور جمعہ کی اذان دے دی جائے تب یہ کرو۔
مجھے بتائیے جمعہ کے لیے جماعت تو تمام فقہاء کے نزدیک شرط ہے۔ اور مزے کی بات اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ پھر کیا یہ اس آیت کے خلاف ہے؟
اور آپ کا اپنا کیا مسلک ہے کہ جمعہ کے لیے کم از کم کتنے لوگ ہونے چاہئیں؟ اس پر کوئی دلیل بھی ہے آپ کے پاس؟
اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ آیت شرائط جمعہ پائے جانے کے بعد کے عمل کے بارے میں ہے۔
غلط، اصل مسئلہ یہ نہیں کہ جمعہ ہونا کہاں ہے۔ عموم اس آیت میں خطاب کی وجہ سے ہے جو کہ آیت کے شروع میں یا ایھا المؤمنین کہہ کر تمام مومنوں سے کیا جا رہا ہے۔
اذان کا تذکرہ فقط وقت کے تعین کے لئے ہے۔ کہ جب اذان ہو تب خریدو فروخت چھوڑ کر دوڑو۔
ورنہ فرض کی حد تک تمام مؤمنین پر قرآن کی رو سے جمعہ یکساں طور پر فرض ہے
اگرفرضیت جمعہ کو اذان سے نتھی کیا جائے تو جس شخص تک اذان کی آواز نہ پہنچے اس سے جمعہ ہی ساقط ہو جائے گا اور اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں۔
اب قرآن تو کہے کہ تمام مؤمن جمعہ کے لئے جائیں ،
اور آپ فرمائیں کہ دیہات والے جمعہ کو نہ جائیں۔
کس وجہ سے ؟ ایک حدیث (اثر علی) سے تخصیص کر کے۔ جبکہ خود آپ خبر واحد سے تخصیص کے روا دار نہیں۔

اس سب سے اور کچھ ثابت ہوا یا نہیں۔ یہ بات ضرور اظہر من الشمس ہو گئی کہ جہاں آپ کا مفاد ہو وہاں آیت و حدیث میں دور دراز کی کوڑی لا کر بھی جمع و تطبیق کا سامان پیدا کر لیتے ہیں۔جیسے دیہات میں جمعہ کا مسئلہ۔
اور جہاں مفاد بالعکس ہو ، وہاں قرآنی آیت کی سیدھی سیدھی توضیح میں بھی ہزار لیت و لعل کر کے حدیث کو رد کر دیتے ہیں، جیسے نکاح حلالہ۔
 
Top