صحیح اور فاسد:
صحیح: لغت میں بیمار (سقیم)کے متضاد کو صحیح کہتے ہیں ۔
اصطلاح میں صحیح اسے کہتے ہیں جس سے عبادت کا درست ہونا اور معاملات کا فافذ ہونا متعلق ہو۔
مثال کے طور پر (شرعی)نماز اس وقت واقع(صحیح)ہوتی ہے جب اس میں شرائط مکمل طور پر پائی جائیں، ارکان مکمل طور پر ادا کیے جائیں اور موانع ختم ہوجائیں، اگرچہ یہ سب کچھ فاعل کےخیال میں ہی ہو، اسی طرح تجارت بھی ایسے شخص کی صحیح (واقع)ہوتی ہے جو مباح چیز پر اختیار رکھتا ہواور اسے سپرد کرنے پر قدرت رکھتا ہو اور وہ چیز حقیقت میں اس کی ملکیت ہو، تو اگر بائع (بیچنے والا)ایسی چیز کو بیچے جس کے بارے میں اس کا گمان یہ ہو کہ یہ چیز کسی اور کی ملکیت میں ہے لیکن پھر اس پر یہ بات ظاہر ہوجائے کہ واقعی وہ چیز اسی (بائع)کی تھی تو بیع (تجارت) صحیح ہوگی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملات حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اور عبادات فاعل کے اعتقاد پر۔
فاسد : لغت میں فاسدایسی چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی خرابی ہو۔
اصطلاح میں ایسی چیز کو فاسد کہتے ہیں کہ جس کے ساتھ عبادت کی ادائیگی اور معاملات کا نفاذنہ ہو۔ عبادات کی مثال جیسا کہ نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھ لینا، اور معاملات کی مثال جیسا کہ ایسی چیز کو بیچنا جو بندہ کی ملکیت ہی نہ ہو۔
سب کے نزدیک باطل فاسد کا ہم معنی (مترادف)ہے، سوائے ابوحنیفہ کے کہ وہ ان دونوں کے درمیان فرق کرتے ہیں، ان کے نزدیک فاسد وہ ہےجو اصل میں تو جائز ہو لیکن کسی وصف کی وجہ سے ممنوع ہوجائے جیسا کہ ایک مد گندم کی بیع ایک مد گندم اور ایک درہم کے بدلے کرنا۔ ایک مد گندم کی تجارت ایک مد کے بدلے تو جائز ہے (مگر یہ فاسد اس وقت ہوا جب دوسری طرف سے مُد کے ساتھ ایک درہم بھی لیا گیا ) پس اگردرہم کو ختم کردیا جائے تو اصل مشروعیت کو دیکھتے ہوئے سودا درست (صحیح ) ہوگا۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر