• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدیق و فاروق اور شراب

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما اور شراب
تحریر : شیخ الحدیث، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
شراب حرام ہے، اس کی حرمت نازل ہونے سے پہلےبعض صحابہ پی بھی لیا کرتے تھے، شراب کی حرمت کے بعد بھی بعض صحابہ سے شراب پینا ثابت ہے، ان پر حد بھی قائم ہوئی، حد قائم ہو نے کے بعد کسی کو ملامت کرنا جائز نہیں۔
شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کبھی شراب نہیں پی، شراب کی حرمت سے پہلے نہ بعد، جاہلیت میں نہ اسلام میں ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
حَرَّمَ أَبُو بَكْرٍ، الْخَمْرَةَ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمْ يَشْرَبْهَا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلَا إِسْلَامٍ
''سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبھی شراب نہیں پی، جاہلیت میں نہ اسلام میں، انہوں نے خود پر اسے حرام قرار دے رکھا تھا۔''

(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم اصبہانی : 7/160، وسندہ حسن)
عالم اہل بیت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
بلغ عمر بن الخطاب أن فلانا باع خمرا، فقال: قاتل الله فلانا، ألم يعلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «قاتل الله اليهود حرمت عليهم الشحوم، فجملوها فباعوها
''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ فلاں شخص شراب بیچتا ہے،تو فرمایا ؛ اللہ اسے برباد کرے ، اسے یہ فرمان رسول ﷺمعلوم نہیں کہ ''اللہ یہود کو برباد کرے ، ان پر چربی حرام کی گئی تو اسے پگھلا کربیچنے لگے۔''
(صحیح البخاری :2223،صحیح مسلم :1582)
سیدنا عمر رضی اللہ نے برسر منبر فرمایا :شراب کی حرمت نازل ہو چکی ہے۔
والخمر ما خامر العقل "
شراب وہ ہے جو عقل میں فتور ڈالے۔''

(صحیح البخاری :5581)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمان کو شراب پینے پر تعزیرا کوڑے لگائے، جب کہ ان پر حد قائم ہو چکی تھی۔
(السنن الکبری للبیہقی : 8/313،312، وسندہ صحیح)
نیز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبید اللہ پر شراب کی حد قائم کی ۔
(مصنف عبد الرزاق :17028، موطاا مام مالک :2/842، سنن نسائی:5780، شرح معانی الآثار للطحاوی :4/222، وسندہ صحیح)
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شرابی پر حد قائم کرنا ثابت ہے۔
(صحیح البخاری :6773)
الغرض شیخین سے یہ تو ثابت ہے کہ انہوں نے شراب پر حد لگائی، اس کی حرمت بیان کی، لیکن یہ ثابت نہیں زندگی کے کسی لمحے میں انہوں نے شراب پی ہو۔بعض شبہات جو اس سلسلے میں پیش کئے جاتے ہیں، ان کا جائزہ پیش خدمت ہے۔
شبہ 1

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إني لأسقي أبا طلحة وأبا دجانة وسهيل بن البيضاء، خليط بسر وتمر، إذ حرمت الخمر، فقذفتها، وأنا ساقيهم وأصغرهم
''میں ابوطلحہ ، ابو دجانہ ، سہیل بن بیضا کو کھجوروں کی شراب پلاتا تھا، شراب کی حرمت نازل ہوئی تو میں اسے پھینک دیا ، میں ان کا ساقی اور عمر میں ان سے چھوٹا تھا۔۔۔
(صحیح البخاری :5600)
تبصرہ :
1یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے، جیسا کہ روایت کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
2ان لوگوں میں سیدنا ابو بکرو عمر رضی اللہ عنہما کا نام نہیں۔
3تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی ان میں شامل تھے(فتح الباری : 10/37)
یہ بے سند اور بے سروپا روایت ہے، علمی دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں، مدعی پر سند کی صحت پیش کرنا لازم ہے۔
4سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنت ساقي القوم تينا وزبيبا أخلطناهما جميعا، وَكان في القوم رجل يقال له: أَبْو بَكْر رجل من كنانة فلما شرب
''میں ساقی تھا، ہم لوگ انجیر اورکشمش کی شراب بناتے ، قوم میں ایک شخص بنوکنانہ سے ابوبکر نام کا تھا، جب اس نے شراب پی لی تو۔۔۔''
(مسند البزار :7532)
تبصرہ :

سند سخت ضعیف ہے۔
1مطر بن میمون متروک ہے۔(تقریب التہذیب لابن حجر :6703)
2یہاں ابوبکر نامی بنوکنانہ کے کسی فرد کا ذکر ہے،نہ کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ۔
شبہ 2

زمخشری نے لکھا ہے:
حتى شربهاعمر
''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شراب پی لی۔''
(ربیع الابرار:5/9)
تبصرہ :
بے سند بات ہے، اس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں۔
اسی طرح طبری کی روایت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں، نیز روایت منقطع ہے، زید بن علی ابو قموص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
شبہ 3
اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبیذ کو پسند کرتے تھے۔
(موطا امام مالک : 2/894)
تبصرہ :
یہاں ایک مشروب کی بات ہو رہی ہے،جو کہ نبیذ ہے، نہ خمر ، شراب کی۔
شبہ 4
حسان بن مخار ق کہتے ہیں :

بَلَغَنِي أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، سَايَرَ رَجُلًا فِي سَفَرٍ وَكَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا أَفْطَرَ أَهْوَى إِلَى قِرْبَةٍ لِعُمَرَ مُعَلَّقَةٍ فِيهَا نَبِيذٌ قَدْ خَضْخَضَهَا الْبَعِيرُ، فَشَرِبَ مِنْهَا فَسَكِرَ، فَضَرَبَهُ عُمَرُ الْحَدَّ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّمَا شَرِبْتُ مِنْ قِرْبَتِكَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: «إِنَّمَا جَلَدْنَاكَ لِسُكْرِكَ»
'' مجھے یہ خبر ملی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر میں ایک شخص روزے سے تھا، اس نے سیدنا عمر رضی اللہ کے مشکیزے سے نبیذ پی لی، اسے نشہ ہو گیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے حد لگا ئی، عرض کیا، میں نے تو آپ کے مشکیزے سے پیا تھا؟سیدنا عمر رضی اللہ نے فرمایا : حد ہم نے آپ کو اس لئے لگائی ہے کہ آپ کو نشہ ہو گیا تھا۔''

(مصنف ابن ابی شیبہ :6/502)
تبصرہ :
سند ضعیف ہے۔
1مبلغ نامعلوم ہے۔
2سیدنا عمر رضی اللہ کے پینے کا تو ذکر نہیں۔
3نبیذ کا شراب میں تبدیل ہوجانا ممکن ہے
4سیدنا عمر رضی اللہ کا کو ڑے لگانا دلیل ہے، کہ وہ ایسی نبیذ پینا جائز نہیں سمجھتے تھے۔جو شراب میں تبدیل ہو چکی ہو۔
نوٹ : نبیذ حلال ہے، اگر اس میں نشہ پیدا ہوجائے تو حرام ہے۔سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے نشے والی نبیذ پینا بھی ثابت نہیں۔
تنبیہ :
شراب کی حرمت نازل ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ نے کہا :

اللهم بين لنا في الخمر بيانا شفاء '
''اللہ شراب کے بارے میں کوئی شافی وکافی بیان نازل فرمادے۔''
تو سورۃ البقرہ کی آیت(219) نازل ہو گئی، پھر یہ کلمات کہے تو سورۃ النساء کی آیت (43)نازل ہو گئی، پھر یہ دعا کی تو سورت المائدۃ کی آیت (91) نازل ہو گئی،تو سیدنا عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم شراب سے رک گئے۔
(مسند احمد 1/53، سنن ابی داود:3670، سنن النسائی :5555، سنن الترمذی : 3049)
تبصرہ :
سند ضعیف ہے۔
1ابو اسحاق مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
2عمر و بن شرحبیل ابو میسرہ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل ہوتی ہے۔
الاوسط طبرانی اور مستدرک حاکم میں اس کی متابعت ہوئی ہے، وہ سند ضعیف ہے، اس میں حماد بن حمید ، جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔نیز اس میں ابو اسحاق کی تدلیس بھی ہے۔

نوٹ :
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے شراب پینا ثابت نہیں:
عبد اللہ بن بریدہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلٰی مُعَاوِیَۃَ فَأَجْلَسَنَا عَلَی الْفُرُشِ، ثُمَّ أُتِینَا بِالطَّعَامِ فَأَکَلْنَا، ثُمَّ أُتِینَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِیَۃُ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي، ثُمَّ قَالَ : مَا شَرِبْتُہ، مُنْذُ حَرَّمَہ، رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ مُعَاوِیَۃُ : کُنْتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَیْشٍ وَّأَجْوَدَہ، ثَغْرًا، وَّمَا شَيْءٌ کُنْتُ أَجِدُ لَہ، لَذَّۃً کَمَا کُنْتُ أَجِدُہ، وَأَنَا شَابٌّ غَیْرُ اللَّبَنِ، أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِیثِ یُحَدِّثُني .
''میں اور میرے والد گرامی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے ہمیں قالین پر بٹھایا، ہمیں کھانا پیش کیا گیا، ہم نے کھایا، پھر کوئی مشروب لایا گیا، معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اور میرے ابو کو تھما دیا اور فرمایا : جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا، میں نے کبھی نہیں پیا، مزید فرمایا : میں قریش میں سب سے زیادہ خوب صورت نوجوان اور عمدہ دانتوں والا تھا اور جو لذت مجھے تب آتی تھی آج نصیب نہیں ہوتی، سوائے دودھ سے اور کسی انسان کی اچھی اچھی باتیں سننے سے۔''
(مسند الإمام أحمد : ٣٨/٢٦)
تبصرہ :
سند ''ضعیف'' ہے۔ عبد اللہ بن بریدہ سے حسین بن واقد کی روایت ''منکر'' ہوتی ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ الَّذِي رَوٰی عَنہُ حُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ مَا أَنْکَرَہَا .
''عبد اللہ بن بریدہ، کی وہ روایات جو اس سے حسین بن واقد بیان کرتا ہے، کس قدر منکر ہیں!''
(العلل ومعرفۃ الرّجال بروایۃ ابنہ عبد اللّٰہ : ١٤٢٠)
یہ جرح مفسر ہے، جو ناقابل رد ہے۔

تاریخ دمشق (34/420)میں ایک واقہ مذکو رہے :
غزا عبد الرحمن بن سهل الأنصاري في زمان عثمان ومعاوية امير على الشام فمرت به روايا خمر تحمل فقال إليها عبد الرحمن برمحه فبقر كل راوية منها فناوشه غلمانه حتى بلغ شأنه معاوية فقال دعوه فإنه شيخ قد ذهب عقله فقال كذب والله ما ذهب عقلي ولكن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) نهانا ان ندخل بطوننا وأسقيتنا واحلف بالله لئن انا بقيت حتى أرى في معاوية ما سمعت من رسول الله (صلى الله عليه وسلم) لأبقرن بطنه

''سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ زمانے میں جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے امیر تھے،عبد الرحمان بن سہل ایک غزوہ پر تھے کہ ان کے پاس سے شراب کی مشکیں گزریں، انہوں نے نیزے سے وہ مشکیں پھاڑ دیں، لڑکوں نے انہیں روکا، یہ واقعہ سیدنا معاویہ رضی اللہ کو معلوم ہوا تو کہنے لگے، چھوڑ دیجئے ! یہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان کی عقل جواب دے گئی ہے،عبد الرحمان رضی اللہ فرمانے لگے، اللہ کی قسم ! میری عقل ٹھیک لیکن نبی کریمﷺ نے ہمیں منع فرمایا تھا کہ شراب ہمارے پیٹوں یا برتنوں میں رہے، اللہ کی قسم !میں نے اپنی زندگی میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو شراب پیتے دیکھا تو ان کا پیٹ پھاڑ دوں گا۔''
تبصرہ :
سند ضعیف ہے۔
1محمد بن اسحاق مدلس ہیں،سماع کی تصریح نہیں کی۔
2برید بن سفیان اسلمی جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں، ان پر امام بخاری،امام ابوحاتم ، اما م احمد بن حنبل وغیرہ کی جروح ہیں۔
امام دارقطنی نے متروک کہا ہے۔
 
Top