• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفائی ستھرائی کے چند اہم گوشے

شمولیت
جنوری 17، 2018
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
صفائی ستھرائی کے چند اہم گوشے
✍⁩محمود حَمِید پاکوڑی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسلام نے ایک طرف انسان کو روحانی پاکیزگی عطا کی، ان کے اخلاق کو سنوارا اور تہذیب سے آشنا کیا، وہیں اس نے معاشرے کو حفظان صحت کے اصول سکھائے اور انسانوں کو رہن سہن، اٹھنے بیٹھنے اور طہارت و نظافت کا سلیقہ بھی سکھایا ۔ فطری طور پر انسان صفائی ستھرائی، طہارت و پاکیزگی اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور اسلام ایک دین فطرت ہے جس نے انسانی فطرت کا کافی لحاظ کیا ہے ؛ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صاف ستھرا رہنے والے افراد سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾[البقرہ : ٢٢٢] ”بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور بہت پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے“ ۔ اسلام نے صفائی ستھرائی کو یہیں تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اسے عقیدہ اور ایمان کے بندھن سے جوڑ دیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الإِيمانُ بضْعٌ وسَبْعُونَ، أوْ بضْعٌ وسِتُّونَ شُعْبَةً، فأفْضَلُها قَوْلُ لا إلَهَ إلّا اللَّهُ، وأَدْناها إماطَةُ الأذى عَنِ الطَّرِيقِ، والْحَياءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإيمانِ. [صحيح مسلم : ٣٥] ”ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، یا فرمایا: ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، جن میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کمتر راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : الطُّهُورُ شَطْرُ الإيمانِ . [صحيح مسلم : ٢٢٣] ”طہارت آدھا ایمان ہے“ ۔ اسلام نے نماز جیسے اہم رکن کی صحت کے لیے جائے نماز ، بدن اور کپڑوں کی طہارت کا حکم دیا ہے ۔ صاف ستھرا رہنے سے نہ صرف رب کی محبت و خوشنودی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس سے انسان متعدد امراض سے محفوظ بھی رہتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : السِّواكُ مَطهَرةٌ للفمِّ، مَرضاةٌ للرَّبِّ .[علقه البخاري في «باب سواك الرطب واليابس للصائم»] ”مسواک منھ کو صاف کرنے اور رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے“ ۔
صفائی ستھرائی کی اسی اہمیت کے پیش نظر شریعت اسلامیہ نے متعدد حالات و ظروف، اوقات اور مواقع پر اسے اپنانے اور انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔ مندرجہ ذیل سطور میں طہارت و نظافت سے متعلق چند اہم گوشوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے :
(١) بدن کی صفائی :
شریعت اسلامیہ نے جسم و بدن کی نظافت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور اس کے لیے بہت سارے احکام نافذ کیے ہیں ؛ درج ذیل سطور میں ان ہی احکام کو بیان کیا جا رہا ہے :
(الف) غسل کرنا :
اسلام نے مختلف مواقع پر اپنے ماننے والوں کو غسل کرنے کا حکم دیا ہے، جن میں سے بعض موقعوں پر غسل کرنا واجب ہے تو بعض موقعوں پر مستحب ؛ جیسے ہمبستری کے بعد میاں بیوی کا غسل کرنا، احتلام کی وجہ سے غسل کرنا اور حیض و نفاس کا خون بند ہونے پر غسل کرنا واجب ہے ۔ چنانچہ غسل جنابت کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ ﴾ [المائدہ : ٦] ”اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو طہارت حاصل کرلو“ ۔ اور غسل حیض کے بارے میں فرمایا : ﴿فَٱعْتَزِلُواْ ٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ﴾ [البقرہ : ٢٢٢] ”لہذا ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ، پھر جب پاک ہوجائیں تو جس طریق سے اللہ نے ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ ؛ یقیناً اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک و صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے“ ۔ اس آیت کریمہ میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ اسلام نے پاکی اور صفائی کا اتنا خیال رکھا ہے کہ شوہر کو حالت حیض میں بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے سے منع کر دیا ہے اور حیض کا خون ختم ہونے پر عورت کو غسل کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے ۔
اسی طرح عیدین کے موقع پر غسل کرنا مستحب ہے ۔ نافع مولی ابن عمر فرماتے ہیں : أنَّ ابنَ عُمَرَ كانَ يَغتَسِلُ يَومَ الفِطرِ، قَبلَ أنْ يَغدوَ إلى المُصَلّى.[مسند احمد :٢٧‏/٢٧٨، موطأ مالك : ١٧٧/١، اس کی سند حسن ہے] ”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے“ ۔ نیز اسی طرح ہفتہ میں ایک دن یعنی بروز جمعہ غسل کرنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے : حَقٌّ لِلَّهِ على كُلِّ مُسْلِمٍ أنْ يَغْتَسِلَ في كُلِّ سَبْعَةِ أيّامٍ، يَغْسِلُ رَأْسَهُ وجَسَدَهُ.[صحیح بخاری : ٨٩٧ ، صحیح مسلم : ٨٤٩] ”اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ سات دن میں ایک بار غسل کرے، جس میں اپنے سر اور جسم کو دھوئے‘‘ ۔ بعض احادیث میں جمعہ کے دن کی صراحت ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : إِذا جاءَ أحَدُكُمُ الجُمُعَةَ، فَلْيَغْتَسِلْ. [صحیح بخاری : ٨٧٧ ، صحیح مسلم : ٨٤٤] ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ وہ غسل کرلے“ ۔ اسلام نے غسل کرنے کا حکم صرف چلتے پھرتے انسانوں کے ساتھ ہی مقید نہیں رکھا ہے بلکہ موت کے بعد بھی اس کا حکم برقرار رکھا ہے ؛ چنانچہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ میت کو نہلایا جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک محرم شخص جس کی اونٹ سے گر جانے کی وجہ سے موت ہو گئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا : اغْسِلُوهُ بماءٍ وسِدْرٍ، وكَفِّنُوهُ في ثَوْبَيْنِ .[صحیح بخاری : ١٨٤٩ ، صحیح مسلم : ١٢٠٦] ”اسے پانی اور بیری کے پتوں سے نہلادو اور دو کپڑوں میں کفن دو“ ۔

(ب)وضو کرنا :
اسلام نے متعدد مواقع پر اور بطور خاص نماز کے وقت وضو کرنے کا حکم دیا ہے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةَ أحَدِكُمْ إذا أحْدَثَ حتّى يَتَوَضَّأَ [صحيح بخاری : ٦٩٥٤] ”اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا ہے جو محدث(بے وضو) ہو جائے یہاں تک کہ وہ وضو کرلے“ ۔ انسان کی پاکی اور صفائی کے لیے شریعت اسلامیہ نے وضو کرنے کا حکم دیا ہے ، جس میں انسانی جسم کے اہم اعضا جیسے ہاتھ، چہرے اور پیر وغیرہ دھوئے جاتے ہیں، جس سے نہ صرف انسان کے گناہ جھڑتے ہیں بلکہ اس کے جسم سے میل کچیل بھی صاف ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سونے سے قبل بھی وضو کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ انسان گندگیوں سے پاک صاف ہو جائے اور سکون کی نیند سوئے ۔ رسول اللہ ﷺ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں : إذا أتَيْتَ مَضْجَعَكَ، فَتَوَضَّأْ وضُوءَكَ لِلصَّلاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ على شِقِّكَ الأيْمَنِ.[ صحیح بخاری : ٢٤٧، صحیح مسلم : ٢٧١٠] ”جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے آؤ تو اس طرح وضو کرلو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو، پھر داہنی کروٹ پر لیٹ جاؤ“ ۔

(ج) مسواک کرنا:
اسلام نے منھ کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے مسواک کرنے پر بہت زور دیا ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : لَوْلا أنْ أشُقَّ على أُمَّتِي، لأَمَرْتُهُمْ بالسِّواكِ عِنْدَ كُلِّ صَلاةٍ. [صحیح بخاری : ٨٨٧، صحیح مسلم : ٢٥٢] ”اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا، تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘ ۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے کون سا کام کرتے ؟ تو انھوں نے جواب دیا : مسواک کرتے ۔[صحیح مسلم : ٢٥٣]

(د) ختنہ کرنا :
اسلام نے بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے مسلمانوں کو ختنہ کرنے کا حکم دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے حاملین بھی موجودہ دور میں حفظان صحت کے لیے ختنہ کرواتے ہیں ؛ ختنہ کہتے ہیں مرد کے عضو تناسل کے سامنے کی کھال کاٹ دینا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الفِطْرَةُ خَمْسٌ، أَوْ خَمْسٌ مِنَ الفِطْرَةِ: الخِتانُ، والِاسْتِحْدادُ، وَنَتْفُ الإبْطِ، وَتَقْلِيمُ الأظْفارِ، وَقَصُّ الشّارِبِ.[صحیح بخاری : ٥٨٨٩ ، صحیح مسلم : ٢٥٧] ”پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں : ختنہ کرنا، زير ناف کے بال مونڈنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا اور مونچھ چھوٹی کرانا“۔

(ھ) ناخن تراشنا :
بدن کی صفائی ستھرائی میں ناخنوں کو تراشنا بھی شامل ہے، اس سے ناخن میں میل کچیل جنم نہیں لیتے اور انسانی طبیعت میں ایک طرح کی توانائی پیدا ہوتی ہے اور انسان بہت سی بیماریوں سے بچ جاتا ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وُقِّتَ لنا في قَصِّ الشّارِبِ، وتَقْلِيمِ الأظْفارِ، ونَتْفِ الإبِطِ، وحَلْقِ العانَةِ، أنْ لا نَتْرُكَ أكْثَرَ مِن أرْبَعِينَ لَيْلَةً[صحيح مسلم : ٢٥٨] ”ہمارے لیے مونچھیں ترشوانے، ناخن کاٹنے، بغلوں کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف کے بال صاف کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر کی گئی ہے“۔

(و) جسم کے زائد بال صاف کرنا:
اسلام نے جسم کے غیرضروری بالوں کی صفائی کو طہارت کا حصہ اور انسانی فطرت کا تقاضا قرار دیا ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عَشْرٌ مِنَ الفِطْرَةِ: قَصُّ الشّارِبِ، وإعْفاءُ اللِّحْيَةِ، والسِّواكُ، واسْتِنْشاقُ الماءِ، وقَصُّ الأظْفارِ، وغَسْلُ البَراجِمِ، ونَتْفُ الإبِطِ، وحَلْقُ العانَةِ، وانْتِقاصُ الماءِ. قالَ زَكَرِيّا: قالَ مُصْعَبٌ: ونَسِيتُ العاشِرَةَ إلّا أنْ تَكُونَ المَضْمَضَةَ. [صحيح مسلم: ٢٦١] ”دس باتیں فطرت میں سے ہیں: مونچھیں کاٹنا ، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف کے بال مونڈنا اور پانی سےاستنجا کرنا ۔ زکریا کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا ، شاید کلی کرنا ہو“ ۔

(ز) کنگھی کرنا :
بالوں میں تیل لگانا اور انھیں سنوارنا مستحب ہے؛ کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مَن كان له شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْه .[صحيح الجامع : ٦٤٩٣] ”جس نے بال رکھے ہوئے ہیں وہ بالوں کی تکریم کرے“ ۔ حدیث کے الفاظ " وہ بالوں کی تکریم کرے " کا مطلب یہ ہے کہ انھیں دھو کر تیل لگائے اور کنگھی کر کے صاف ستھرا اور خوشنما رکھے، بالوں کو بکھرا ہوا مت رکھے، کیوں کہ صفائی ستھرائی اور خوبصورتی مطلوب امر ہے ، تاہم بالوں کی دیکھ بھال اور بناؤ سنگھار میں مبالغہ کرنا قابل مذمت ہے ۔

(٢) کپڑوں کی صفائی :

اسلام نے لباس و پوشاک اور کپڑوں کی بھی صفائی ستھرائی کا حکم دیا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ، قُمْ فَأَنْذِرْ ، وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ، وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ، وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ﴾ [المدثر : ١-٥] ”اے چادر اوڑھنے والے ! کھڑا ہوجا اور آگاه کردے ،اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر اور ناپاکی کو چھوڑ دے“ ۔ اسی طرح حدیث میں بھی کپڑوں کی صفائی ستھرائی پر مسلمانوں کو ابھارا گیا ہے، چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : أتانا رسولُ اللهِ ﷺ زائرًا في منزلِنا فرأى رجلًا شَعِثًا قد تفرَّقَ شعرُه، فقال : أما كان يَجِدُ هذا ما يُسَكِّنُ به شعرَه ، ورأى رجلًا آخرَ وعليه ثيابٌ وَسِخَةٌ، فقال : أما كان هذا يجدُ ماءً يغسلُ به ثوبَه .[سلسلة الأحاديث الصحيحة : ٤٩٣] ”رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر زیارت کی نیت سے تشریف لائے، تو آپ نے پراگندہ بال والے ایک آدمی کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: کیا اسے اپنے بال درست کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں ملتی؟ پھر آپ نے ایک دوسرے آدمی کو دیکھا جو گندے کپڑے پہنا ہوا تھا ، تو آپ نے فرمایا : کیا اسے پانی نہیں ملتا کہ اس سے اپنے کپڑے دھولے ؟“ ۔
شریعت نے نہ صرف کپڑوں کی طہارت کا حکم دیا ہے بلکہ کپڑوں کو نجس چیزوں سے محفوظ رکھنے کا بھی حکم دیا ہے ، چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا : إنَّهُما لَيُعَذَّبانِ، وما يُعَذَّبانِ في كَبِيرٍ، أمّا هذا فَكانَ لا يَسْتَتِرُ مِن بَوْلِهِ، وأَمّا هذا فَكانَ يَمْشِي بالنَّمِيمَةِ .[صحيح بخاری : ٦٠٥٢] ” یہ دونوں عذاب دیے جارہے ہیں اور کسی بڑی چیز کے سبب عذاب نہیں دیے جارہے، ان میں سے ایک تو پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا“ ۔ اسی طرح عمدہ اور اچھے لباس زیب تن کرنے سے بھی اسلام نے منع نہیں کیا ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَن كانَ في قَلْبِهِ مِثْقالُ ذَرَّةٍ مِن كِبْرٍ ، قالَ رَجُلٌ: إنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أنْ يَكونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا ونَعْلُهُ حَسَنَةً، قالَ: إنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الجَمالَ، الكِبْرُ بَطَرُ الحَقِّ، وغَمْطُ النّاسِ .[صحيح مسلم : ٩١] ”جس شخص کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا، ایک شخص نے عرض کیا : ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں اور اس کا جوتا بھی اچھا ہو ، تو کیا یہ غرور اور گھمنڈ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے ، غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق بات کو رد کردے اور لوگوں کو حقیر سمجھے“ ۔ کپڑوں کو خوشبودار رکھنے کے لیے عطر کا استعمال کرنا چاہئے کیوں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ، آپ نے فرمایا : حُبِّبَ إلي منَ الدُّنيا : النساءُ والطِّيبُ، وجُعِلَ قرةُ عيني في الصلاةِ .[صحيح سنن نسائی : ٣٩٤٩ ] ”دنیا کی چیزوں میں سے عورتیں اور خوشبو میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے“ ۔

(٣) برتنوں کی صفائی :
جس طرح اسلام نے طہارت و نظافت کے بہت سارے احکام بیان کیے ہیں اسی طرح برتنوں کو ڈھانپنے، انھیں صاف ستھرا رکھنے اور کتے کے منھ ڈالنے پر سات مرتبہ دھونے پر زور دیا ہے ؛جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غَطُّوا الإناءَ، وأَوْكُوا السِّقاءَ، وأَغْلِقُوا البابَ، وأَطْفِئُوا السِّراجَ، فإنَّ الشَّيْطانَ لا يَحُلُّ سِقاءً، ولا يَفْتَحُ بابًا، ولا يَكْشِفُ إناءً، فإنْ لَمْ يَجِدْ أحَدُكُمْ إلّا أنْ يَعْرُضَ على إنائِهِ عُودًا، ويَذْكُرَ اسْمَ اللهِ، فَلْيَفْعَلْ، فإنَّ الفُوَيْسِقَةَ تُضْرِمُ على أهْلِ البَيْتِ بَيْتَهُمْ .[صحيح مسلم : ٢٠١٢] ”(سوتے وقت) برتنوں کو ڈھانپ دو، مشکیزہ کا منھ باندھ دو، دروازہ بند کر لو اور چراغ بجھا دو، اس لیے کہ شیطان کسی منھ باندھا ہوا مشکیزے اور بند دروازے کو نہیں کھولتا ہے اور نہ کسی بندھن اور برتن کو کھولتا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص برتن پر لکڑی کو چوڑائی میں رکھنے اور بسم اللہ کہنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ پائے تو ضرور ایسا کرے، (اور چراغ اس لیے بجھا دو کہ) چوہا لوگوں کا گھر جلا دیتا ہے“ ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : طَهُورُ إناءِ أحَدِكُمْ إذا ولَغَ فيه الكَلْبُ، أنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرّاتٍ أُولاهُنَّ بالتُّرابِ. [صحيح مسلم : ٢٧٩]جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منھ ڈال دے، تو وہ اسے سات مرتبہ دھوئے اور پہلی مرتبہ مٹی سے''۔

(٤) پانی کی صفائی :
پانی ہر مخلوق کی ضرورت ہے، اس کے بغیر حیات ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں پانی کی اہمیت و ضرورت، اس کی حفاظت و صیانت اور اس کے طریقۂ استعمال اور صفائی ستھرائی کے متعلق متعدد نصوص موجود ہیں؛ اسلام نے نہ صرف پانی کی حفاظت اور صفائی ستھرائی کا حکم دیا ہے بلکہ اس کے طریقے سے بھی مسلمانوں کو روشناس کرایا ہے ۔ تالاب، جھیل، ٹنکی اور کنویں وغیرہ کے پانی کی صفائی کے تعلق سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لا تَبُلْ في الماءِ الدّائِمِ الذي لا يَجْرِي ثُمَّ تَغْتَسِلُ منه .[صحيح مسلم : ٢٨٢] ”ایسے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرو جو جاری نہ ہو ( تاکہ ایسا نہ ہو کہ ) پھر تم اسی سے غسل کرو“ ۔ اسی طرح برتن، ٹب، گھڑے اور مٹکے میں موجود پانی کی صفائی ستھرائی کے بارے میں فرمایا : إذا اسْتَيْقَظَ أحَدُكُمْ مِن نَوْمِهِ، فلا يَغْمِسْ يَدَهُ في الإناءِ حتّى يَغْسِلَها ثَلاثًا؛ فإنَّه لا يَدْرِي أيْنَ باتَتْ يَدُهُ. [صحيح مسلم : ٢٧٨] ”جب تم میں سے کوئی آدمی سو کر اٹھے تو اپنے ہاتھ کو پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے تین بار دھو نہ لے، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ رات بھر اس کا ہاتھ کہاں رہا“ ۔
(٥) راستوں اور گزرگاہوں کی صفائی :
اسلام نے سڑکوں، راستوں، گزرگاہوں اور گلیوں کو بھی پاک و صاف رکھنے کا تاکیدی حکم دیا ہے اور ان میں گندگیاں پھیلانے سے منع کیا ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : اتَّقُوا اللَّعّانَيْنِ، قالوا: وَما اللَّعّانانِ يا رَسُولَ اللهِ ؟ قالَ: الذي يَتَخَلّى في طَرِيقِ النّاسِ، أَوْ في ظِلِّهِمْ. [صحيح مسلم : ٢٦٩] ’’دو لعنت کے سبب بننے والے کاموں سے بچو، لوگوں نے پوچھا : وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جو لوگوں کے راستے اور ان کے سایہ دار جگہوں میں قضائے حاجت کرتا ہے‘‘ ۔ گویا کہ راستوں اور سایہ دار جگہوں پر پیشاب و پاخانہ کرنا باعثِ لعنت ہے، لہذا اس طرح کی حرکتوں سے آس پڑوس میں رہنے والے افراد کو تکلیف نہیں دینی چاہیے؛ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : واللهِ لا يؤمنُ، والله لا يؤمنُ، والله لا يؤمنُ، قيل: من يا رسولَ اللهِ؟ قال: الذي لا يأمنُ جارُه بوائقَه، قالوا : يا رسولَ اللهِ ! وما بوائقُه؟ قال: شرُّه. [صحيح الترغيب : ٢٥٥٠] ” اللہ کی قسم وہ کامل مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ کامل مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ کامل مومن نہیں ، صحابہ نے دریافت کیا : کون یا رسول اللہ ؟ تو آپ نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو“ ۔
(٦) مساجد کی صفائی :
اسلامی معاشرے میں مساجد کی اہمیت و ضرورت مسلم ہے، وہاں پر عبادت کے علاوہ دیگر خدمات بھی انجام دی جاتی ہیں، جس کی بنا پر لوگوں کا بکثرت آنا جانا ہوتا ہے؛ اسی لیے شریعت نے جہاں مساجد کی تعمیر کا حکم دیا ہے وہیں ان کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا بھی حکم دیا ہے؛ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : أمرَنا رسولُ اللهِ ببناءِ المساجدِ في الدُّورِ، وأن تُنظَّفَ وتُطيَّبَ .[صحيح الترغيب : ٢٧٩] ’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آبادیوں اور کالونیوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا ہے اور انھیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو سے معطر کرنے کا حکم دیا ہے‘‘ ۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الْبُزاقُ في المَسْجِدِ خَطِيئَةٌ، وكَفّارَتُها دَفْنُها. [صحيح بخاری : ٤١٥ ، صحیح مسلم : ٥٥٢] ”مسجد ميں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے مٹی میں دبا دینا ہے“ ۔ حدیث میں مسجدوں کی صفائی ستھرائی کرنے والوں کی بھی فضیلت بیان کی گئی ہے ؛ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: أنَّ رَجُلًا أسْوَدَ أوِ امْرَأَةً سَوْداءَ كانَ يَقُمُّ المَسْجِدَ فَماتَ، فَسَأَلَ النبيُّ ﷺ عنْه، فَقالوا: ماتَ، قالَ: أفلا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي به دُلُّونِي على قَبْرِهِ - أوْ قالَ قَبْرِها - فأتى قَبْرَها فَصَلّى عَلَيْها.[صحيح بخاری : ٤٥٨] ” ایک سیاہ رنگ عورت مسجد نبوی
میں جھاڑو لگاتی تھی یا ایک کالا آدمی تھا جو یہ کام انجام دیتا تھا، پھر اس کا انتقال ہو گیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کے تعلق سے پوچھا تو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : اس کا انتقال ہو گیا ہے ، آپ نے فرمایا : تو تم لوگوں نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی ؟ چلو مجھے اس کی قبر بتاؤ ، پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس قبر پر نماز جنازہ پڑھی“ ۔

معزز قارئین ! مندرجہ بالا نصوص سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ اسلام نے طہارت و پاکیزگی پر مسلمانوں کو ابھارا ہے اور ہر چیز کی صفائی ستھرائی کی طرف توجہ دلائی ہے، اس لیے روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور ماحولیاتی پاکیزگی اور نفاست بھی مسلمانوں کے ایمان کا اہم جزء ہے ، مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمان قرآن و سنت سے دور ہوکر صفائی اور پاکیزگی سے دور ہوگئے ہیں؛ گندگی اور غلاظت مسلمانوں کے محلّوں کی شناخت بن کرر ہ گئی ہے، گھروں میں اور گھر کے باہر کوڑے کرکٹ کا انبار، ابلتی ہوئی نالیاں، گندگی میں لوٹتے ہوئے بچے، ایسے مناظر ہیں جو آپ کو ہر مسلم محلّے میں دیکھنے کو مل جائیں گے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی و فلاحی تنظیمیں اور دینی جماعتیں مسلمانوں میں صفائی ونفاست اور خوش سلیقگی کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں اور قرآن و حدیث کے طرز پر ایک مثالی مسلم معاشرے کی تشکیل کو ممکن بنائیں ۔
 
Top