• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفات باری تعالی، اصول وقواعد : محمد جاوید عبد العزیز

شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
45
پوائنٹ
48
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ''وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوہ، بِھَا'' اللہ کے بہترین نام ہیں تم اسے انہی ناموں سے پکارو۔ ( سورہ اعراف: ١٨٠)اللہ اور اس کے رسول ؐ نے اللہ کے بےشمار اسماء اور اس کی عظیم صفات کا ذکر کیا ہے۔ اور ان اسماء اور صفات کے بارے میں اہل السنۃو الجماعۃ کا عقیدہ بالکل صاف اور عقل کے مطابق ہے، کہ اللہ رب العالمین کی جو بھی صفات قرآن اور سنت میں وارد ہوئی ہیں، ان پر ایمان لانا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کہ قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے۔ اورجس لفظ کے ساتھ آیا ہے اس لفظ کے معنی کے ساتھ ، لیکن بغیر تمثیل ، تشبیہ اور تکییف کے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا'' لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ وَہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ''اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھنے اور سننے والا ہے ۔(الشوری٤٢:١١)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں

أَنَّہُمْ یَصِفُونَ اللَّہَ بِمَا وَصَفَ بِہِ نَفْسَہُ وَمَا وَصَفَہُ بِہِ رَسُولُہُ مِنْ غَیْرِ تَحْرِیفٍ وَلَا تَعْطِیلٍ وَمِنْ غَیْرِ تَکْیِیفٍ وَلَا تَمْثِیلٍ فَلَا یَنْفُونَ عَنْہُ مَا أَثْبَتَہُ لِنَفْسِہِ مِنْ الصِّفَاتِ وَلَا یُمَثِّلُونَ صِفَاتِہِ بِصِفَاتِ الْمَخْلُوقِینَ فَالنَّافِی مُعَطِّلٌ وَالْمُعَطِّلُ یَعْبُدُ عَدَمًا وَالْمُشَبِّہُ مُمَثِّلٌ وَالْمُمَثِّلُ یَعْبُدُ صَنَمًا وَمَذْہَبُ السَّلَفِ إثْبَاتٌ بِلَا تَمْثِیلٍ وَتَنْزِیہٌ بِلَا تَعْطِیلٍ کَمَا قَالَ تَعَالَی : '' لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ'' وَہَذَا رَدٌّ عَلَی الْمُمَثِّلَۃِ . وَقَوْلُہُ'' وَہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ'' رَدٌّ عَلَی الْمُعَطِّلَۃِ​

سلف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کوبغیر تحریف و تعطیل کے اور بلا تکییف و تمثیل کے ان ہی صفات سے متصف کرتے ہیں جو صفت اللہ نے اپنی ذات کے لئے بیان کی یا اس کے رسول نے اس کے لئے بیان کی ہے ، لہذا جن صفات کو اللہ نے اپنے لئے ثابت کیا ہے اس کی نفی نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی صفات کی مثال مخلوق کی صفات کے مثل قرار دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ نفی کرنے والا معطل ( جو سرے سے ذات کا انکار کردے)ہوجاتا ہے اور معطل ،عدم کی عبادت کرتاہے ،تشبیہ دینے والا ایک مثال بنا دیتا ہے اور مثل بنانے والابت کی عبادت کرتا ہے ۔اور سلف کا منہج یہ ہے کہ صفات ثابت کرتے ہیں بغیر تمثیل کے اور بلا تعطیل ،اللہ کی صفات کو پاکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"لیس کمثلہ شئی '' اس کے مثل کوئی چیز نہیں یہ ممثلہ پر رد ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان '' وھو السمیع البصیر '' یہ معطلہ پر رد ہے ۔ (مجموع الفتاویٰ لا بن تیمیہ :ج٨، ص ٤٣٢)
لیکن کچھ ایسے باطل نظریہ ہیں جو سلف کے عقیدہ سے بالکل متضاد نظر آتے ہیں اور وہ یہ ہیں:
تحریف:
اللہ کے اسماء و صفات کے لئے بغیر کسی دلیل کے ان معانی کو لینا جو اصل معنی کے خلاف ہوں ۔
تعطیل:
اللہ کے صفات کی مکمل طور سے نفی کی جائے۔
تفویض:
اللہ کی صفات کو تسلیم کیا جائے لیکن بغیر معنی کے۔
تمثیل:
اللہ کی صفات کو بعینہ مخلوق کے صفات کے جیسی کہا جائے۔
تشبیہ:
اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح مانا جائے۔
تکییف:
اللہ کی صفات کی کیفیت بیان کی جائے۔
ان باطل نظریوں کا وجود کتاب و سنت پر عقل کو مقدم کرنے کی وجہ سے آیا، جس کے نتیجہ میں بعض نے اللہ کی صفات کا انکار کیا تو کچھ نے بے جا تاویلات کیا، جب کہ کچھ لوگوں نے اللہ کو بندوں کی طرح یا بندوں جیسا کہہ دیا۔ اور یہ اہل کلام کہلائے جو کہ اہل السنہ کی مخالف صف میں نظر آتے ہیں۔ یہاں ہم ایک شبہ دیکھتے ہیں جو کہ ان تمام گمراہ نظریوں کے وجود کا سبب بنا۔
شبہ:
مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ اگر ہم اللہ کو بھی سمیع کہیں اور بندہ کو بھی سمیع کہیں تو تشبیہ اور یکسانیت لازم آتی ہے کیونکہ یہ بھی سنتا اور بندہ بھی سنتا ہے گویا کہ دونوں ایک جیسے ہوئے۔ (نعوذ باللہ) اس لئے یا تو ہم اللہ کی اس صفت کی نفی کریں گے ، یا اس میں تاویل کریں گے، تو یہ اس کی کم فہمی کی دلیل ہے، اور کتاب وسنت کومنہج سلف سے ہٹ کر سمجھنے کی وجہ سے ہے۔
رد:اس کا آسان سا جواب ہے، نہیں۔ اللہ کی صفات کو تسلیم کرنے سے تشبیہ یا تمثیل لازم نہیں آتی ۔کیونکہ کئی سارے قاعدے ہیں جو سلف کے منہج کو بآسانی ہمارے سامنے واضح کردیتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
پہلا قاعدہ:
اللہ کی صفات پر ہمیں اسی طرح ایمان لانا ہے جیسا کہ قرآن و حدیث میں وارد ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا''وَلِلّہِ الأَسْمَاء الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُواْ الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَآئہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ''اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیںسو ان ناموں سے اللہ کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ۔(الاعراف ٧: ١٨٠)
دوسرا قاعدہ:
اللہ رب العالمین اپنی صفات میں کامل ہے۔ اس میں کسی طرح کا کوئی نقص نہیں ، جب کہ مخلوق کی صفات میں نقص اور کمی ہے۔اور اللہ کی صفات مخلوق کی طرح نہیں، بلکہ وہ کامل ،اعلی اور ہر عیب سے پاک ہے۔
اس کی مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ : اللہ کے لئے ہر طرح کی تعریف ہے جس کے سننے کی طاقت بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے ، خولہ رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول ؐ کے پاس اپنی شوہر کی شکایت لے کر آئی ( میں بھی گھر میں تھی )لیکن اس کے باوجود ان کی آواز میں ٹھیک طرح سے نہیں سن پا رہی تھی اور اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرما دی۔ ''قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجہا''(تحقیق کہ اللہ نے اس عورت کی بات کو سن لیا جو اپنے شوہر کے لئے آپ کے پاس جھگڑ رہی تھی...) (سنن نسائی: کتاب الطلاق: باب الظہار: ٣٤٦٠، البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تیسرا قاعدہ:
اللہ کی صفات ہمیں معنی کے اعتبار سے معلوم ہے لیکن ان صفات کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔
اس اصل اور قاعدہ کو سمجھنے کے لئے ہمارے لئے امام مالک رحمہ اللہ کا وہ واقعہ ہی کافی ہے کہ جب ان سے استواء کی کیفیت کے تعلق سے پوچھا گیا تو فرمایا
''الِاسْتِوَاءُ مَعْلُومٌ وَالْکَیْفُ مَجْہُولٌ وَالْإِیمَانُ بِہِ وَاجِبٌ وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ .'' استواء معلوم ہے ،لیکن کیفیت مجھول ہے مگر اس پر ایمان لانا واجب ہے اوراس کے تعلق سے سوال کرنا بدعت ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ :ج ٥ :ص ١٤٤)
صفات کا معنی ہمیں اس لئے پتہ ہے کیونکہ اللہ رب العالمین نے ہماری طرف جو کتاب نازل فرمائی وہ بالکل واضح عربی زبان میں ہے اگر کوئی قرآن و سنت میں وارد لفظ کو بغیر کسی دلیل کے اس کے اصل معنی سے پھیرے اور کہے کہ'' ید ''سے مراد قدرت ہے یا کچھ اور جب کہ اس کے پاس اس بات کی شریعت سے کوئی دلیل نہیں یا پھر کہے کہ یہ لفظ غیر واضح ہے لہذا ہم اس کا مجازی معنی لیں گے توگویا کہ وہ اللہ کے فرمان کا انکار کر رہا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا'' نَزَلَ بِہ الرُّوحُ الْاَمِیْن ، عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنْذَرِیْن، بِلِسَان عَرْبِی مُّبِین'' کہ اسے روح الامین جبرئیل علیہ السلام آپ کے دل پر لے کر اترے ہیں، تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں اور یہ واضح عربی زبان میں ہے۔ (شعراء: ١٩٣- ١٩٥) چونکہ یہ قرآن واضح عربی زبان میں ہے لہذا عربی زبان کے ظاہری معنی کے مطابق سمجھنا ہمارے لئے واجب اور ضروری ہے، یہاں تک بیشتر جگہوں پر اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اسے سمجھیں اور اس پر غور کریں، چاہے صفات کی آیتیں ہوں یا احکام کی ہمارے لئے ضروری ہے کہ انہیں عربی زبان کے تقاضہ کے مطابق سمجھیں۔
چوتھاقاعدہ: چونکہ قرآن و حدیث عربی زبان میں ہے تو ہمیں ان نصوص کو عربی زبان کے تقاضہ کے مطابق ہی سمجھنا ہوگا، مثلاً: جب اللہ نے اپنے لئے ـ''ید'' کا لفظ استعمال کیا تو ہمیں یہ ماننا ہے کہ اللہ کے ہاتھ ہیں، لیکن ہاتھ کس طرح کا ہے اور اس کی کیفیت کیا ہے ہمیں نہیں پتہ۔
اس کی ایک سادہ سی مثال ہم مخلوق کے درمیان ہی دیکھ لیتے ہیں، انسان کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اور ہاتھی کے بھی ہاتھ ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہاتھی کا ہاتھ انسان کے ہاتھ کی طرح ہے ؟ نہیں بلکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے، جب مخلوق میں دو چیزوں کے نام ایک طرح کے ہوتے ہیں لیکن دونوں میں کوئی مماثلت اور مشابہت نہیں ہو سکتی تو اللہ اور مخلوق میں مماثلت اور مشابہت کہاں سے لازم آتی ہے...؟ اللہ کی ذات تو بہت ہی عظیم اور ہر عیب سے پاک ہے۔
پانچواں قاعدہ:ا للہ کے اسماء و صفات کو حقیقی معنی پر ہی تسلیم کرنا ہے، ہم ان کو مجازی معنی میں نہیں لے سکتے، کیونکہ لفظ کو دوسرے معنی کی طرف پھیرنے کے لئے قرآن و حدیث سے دلیل چاہیئے، اور اللہ رب العالمین نے اپنے اسماء و صفات کو غیب میں رکھا ہے، اور ساتھ ساتھ ہمیں حکم بھی دیا ہے کہ قرآن و حدیث کو سمجھیں، لہذا ہمیں ان وارد شدہ الفاظ کو اسی طرح سمجھنا ہے جیسا کہ عربی زبان کا تقاضہ ہے ان کو حقیقی معنی سے پھیرنا درست اور جائز نہیں، لہذا ہم اللہ کی صفات پر عربی زبان کے تقاضہ کے مطابق ایمان لاتے ہیں بغیر تشبیہ کے ، یعنی اللہ کی صفات ویسی ہی ہیں جیسا اللہ نے کہا، لیکن وہ مخلوق کے مشابہ نہیں۔
یہ چند اصول تھے جو کہ بالکل صاف اور واضح ہیں کہ ہاں، اللہ کی صفات ہیں اور وہ اپنی صفات میں یکتا ہے۔ لیکن جب انسان شریعت کی نصوص سے آگے بڑھ کر اپنی عقل سے سوچنے کی کوشش کرتا ہے ، قرآن اور حدیث کے استدلالات کو چھوڑ کر اپنی عقل کو ہر بات میں دلیل بناتا ہے تو وہ گمراہ ہو جاتاہے۔
اللہ کی صفات میں گمراہی شرک کی طرف سب سے پہلا اور بڑا ہی خطرناک قدم ہوتا ہے۔ ممثلہ نے اللہ کی صفات کو بندوں کی صفات کے مشابہ کہا اور اللہ کی تصویر بنا کر اس کی عبادت شروع کردیا۔ اور جب عقلانییوں نے اپنی عقل کو دلیل بنایا اور عقل کو قرآن و سنت سے آگے بڑھا یا اور قرآن و سنت سے جو بات اس کی عقل میں آئی تسلیم کیا اور جو بات اس کی عقل میں نہیں آئی تو رد کردیا ، لہذا اس بنیاد پر کئی لوگ گمراہ ہوئے اور اپنی اپنی عقل کو لے کر ایک ایک فرقہ بن کر ابھر پڑے۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہرفرقہ کے علماء اپنی نسبت میں تو ایک ہیںجیسے کوئی اشعری ہے تو کوئی ماتریدی لیکن خود ان کے درمیان عقیدہ کے ایک ہی مسئلہ میں کئی بڑے بڑے اختلاف دیکھنے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار ان کی اپنی ہی باتوں میں تضاد پایا جاتا ہے ، عقیدہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں جس میں کئی سارے اقوال اور اختلافات ہوں بلکہ یہ ایک واضح راستہ ہے جس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ اس پر جو چیز جس طرح وارد ہوئی اس پر ایمان لانا ہے۔
ان باطل فرقوں میں سے چند بنیادی فرقہ یہ ہیں پھر ان میں کئی ساری عقلیں ہیں جو آپس میں لڑتی رہتی ہیں:
١- جہمیہ :
یہ جہم بن صفوان کے متبعین ہیں، جس نے جعد بن درہم سے اپنے فاسد عقائد کو سیکھا اور اس نے طالوت سے اور طالوت نے لبید بن عاصم یہودی سے باطل نظریات کو حاصل کیا تھا۔
ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ رب العالمین کی ذات اسماء اور صفات سے خالی ہے کیونکہ جب اللہ کے کئی سارے نام اور صفت ہوں گے تو اس سے تعدد آلہہ کا ہونا لازم آتا ہے۔
رد:
ان لوگوں کا یہ فاسد نظریہ بالکل بیوقافانہ ہے ،خود انسانوں میں لوگوں کے اندر کئی کئی خصوصیات ہوتی ہیں تو کیا وہ کئی افراد میں تقسیم ہوجاتے ہیں نہیں بلکہ کوئی تاجر بھی ہے اور ساتھ ساتھ ٹیچر بھی، اور اللہ کی ذات تو ہر عیب سے پاک، بلند اور اکمل ہے اس کے جیسا کوئی ہو بھی نہیں سکتا تو اس عظمت والی ذات کے لئے تعدد کہاں لازم آسکتا ہے۔ جہمیوں کی یہ بات بالکل یہود کی طرح ہے کہ جب ان لوگوں نے نبی کریم ؐ کو یا رحمن اور یا رحیم کہتے ہوئے سنا، تو کہنے لگے یہ تو کہتا ہے کہ ایک ہی معبود کی عبادت کرتا ہے لیکن یہ تو کئی سارے معبودوں کو پکار رہا ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا'' قُلِ ادْعُوا اللَّہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاء ُ الْحُسْنَی '' اے نبی کہہ دیجئے! تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر ، جس بھی نام سے پکارو ، اس کے لئے بہترین نام ہیں۔ (سورہ اسراء : ١١٠)
اور پھر اسی عقیدے میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ کچھ اور فرقے ظاہر ہوئے جن میں سے دوسرا مذہب ،معتزلہ ہے ،
٢- معتزلہ:
ان کا پیشوا واصل بن عطاء اور عمرو بن عبید ہے ، یہ صرف اللہ کے اسماء کو ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے نام ہیں مگران ناموں کی کوئی خصوصیات نہیں، اور صفات کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر صفات کو ثابت کریں تو تشبیہ لازم آتی ہے ۔
رد:
ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ کی صفات ہیں مگر وہ بندوں کی طرح نہیں بلکہ ذات باری تعالی ہر طرح سے بلند و اعلیٰ ہے تو یقینا وہ صفات میں بھی بلند و بالا ہے، اور اس کی طرح کوئی نہیں۔ اور جب اسماء کو ماننے سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو صفات کو ماننے سے بھی تشبیہ لازم نہیں آئے گی۔ '' لیس کمثلہ شئی وہو السمیع البصیر''اور جب ہم اللہ کی ذات کو صفات سے خالی مانیں تو اس سے عدم لازم آتا ہے ۔کیونکہ جب ہم یہ کہیں کہ فلاں چیز نہ کالی ہے نہ سفید ، اس کا کوئی رنگ نہیں، نہ سخت ہے نہ نرم ہے ، نہ ایسی ہے نہ ایسی، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ چیز موجود ہی نہیں، بالکل اسی طرح جب ہم اللہ کو صفات سے خالی مانیں تو گویا کہ اللہ کی ذات موجود ہی نہیں۔
٣ ،٤ - اشاعرہ : یہ ابوالحسن الاشعری کی طرف خود کو منسوب کرتے ہیں،ابو الحسن اشعری ابتدائی دور میں معتزلی تھے پھر اپنے عقیدے سے رجوع کرکے ابن کلاب کے ساتھ ہوگئے، جو کہ کلابیہ فرقہ کا سردار تھا۔
(کلابیہ)
جو اللہ کی صرف سات صفات کو ثابت مانتا تھا اور بقیہ کا انکار کرتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ ان سات صفات کو عقل تسلیم کرتی ہے اس لئے میں بھی انہیں مانتا ہوں، اور کتاب و سنت سے ثابت صفات کا انکار کرتا تھا۔ پھر ابوالحسن الاشعری نے اس سے رجوع کرلیا، لیکن اکثر لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ انہوں نے اہل السنۃ و الجماعہ کی طرف رجوع نہیں کیا تھا، مگر موجودہ اشاعرہ ابن کلاب ہی کے عقیدے پر آج بھی ہیں یعنی وہ سات صفات (علم ، قدرت، ارادہ، حیات، سمع ، بصر اور کلام کو ثابت کرتے ہیں) اور بقیہ صفات کا انکار نہیں بلکہ تاویل کرتے ہیں ۔ انہیں قدیم اشاعرہ کہا جاتا ہے اور موجودہ دور کے اشعری ، ابن کلاب کے عقیدے پر ہی ہیں۔
رد :
صفات میں تاویل جائز نہیں بلکہ ان پر بغیر تشبیہ اور تمثیل کے اسی طرح ایمان لانا ہے جیسا کہ عربی لغت کا تقاضا ہے ۔ اور رہی بات سات صفات کو تسلیم کرنے کی کیونکہ عقل ان کو تسلیم کرتی ہے ۔ یہ ان ہی لوگوں کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ اور رسول پر نہیں بلکہ عقل پر ایمان لاتے ہیں جب کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی تمام صفات اسی طرح ہیں جو اس کی عظیم ذات کے مناسب ہے۔ اور جس ذات نے جس کتاب میں کہا کہ وہ سمیع اور بصیر ہے اسی رب نے اسی کتاب میں یہ بھی کہا کہ وہ عرش پر ہے۔ تو انکار کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
٥- ماتریدیہ :
ان کا عقیدہ اشاعرہ کی طرح ہے لیکن یہ ابو منصور ماتریدی کے معتقد ہیں، ان میں اور قدیم اشاعرہ کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ، گرچہ بعض علماء نے دونوں کے درمیان باریکی کو واضح کیا ہے ، اور اکثر احناف عقیدے میں اشعری اور ماتریدی ہی ہوتے ہیں، خاص طور سے ہندوستان اور پاکستان میں موجود حنفی عقیدے میں اشعری اور ماتریدی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صفات باری تعالیٰ سے وارد شدہ نصوص کو ماننے سے تشبیہ لازم آتی ہے ،ان کے سابق امام ابو محمد جوینی نے اس عقیدہ سے رجوع کے بعد کہا تھا، کہ علماء ماتریدیہ نے نصوص میں تاویلات اس لئے کی کیونکہ ان کو لگا کہ اس کے تسلیم کرنے سے اللہ اور بندوں کے درمیان تشبیہ لازم آتی ہے ، اس وجہ سے ان لوگوں نے کلام الہی میں تحریف کیا ،اور اللہ کو ان صفات سے خالی تسلیم کیا جن سے اللہ العلی الاعلی نے خودکو متصف کیا۔
اسی طرح یہ نصوص صفات میں تاویل کرتے ہیں اور بعض صفات کے لفظ کو تسلیم کرتے ہیں لیکن بغیر معانی کے ، کہتے ہیں ان کا معنی کیا ہے ہم نہیں جانتے، جبکہ اہل السنۃ ،الجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے خود کو جن صفات سے متصف کیا ان کو تسلیم کرنا ہے ، معانی کے ساتھ ، لیکن ہاں ، کیفیت ہم نہیں جانتے۔ کیونکہ کیفیات غیب میں سے ہے اور اس پر ہمیں ایمان لانا ہے کہ وہ اسی طرح ہے جو اس کے مناسب ہے۔ اہل السنۃ والجماعۃ معنی کی تفویض نہیں کرتے بلکہ معنی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن کیفیت کی تفویض(انکار) کرتے ہیں۔ اشاعرہ اور ماتریدیہ اللہ کے علو علی العرش کی نفی کرتے ہیں وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
ّاگر ہم اجمالا دیکھیں تو اسماء و صفات میں چار طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
معطلہ:
اللہ کی صفات کا مکمل طور سے انکارکرتے ہیں، اس میں جہمیہ اور کلابیہ داخل ہیں۔اور اشاعرہ اور ماتریدیہ بھی معطلہ میں ہیں کیونکہ وہ اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔ یا اقرار تو کرتے ہیں لیکن اس کے لفظ کو تسلیم کرتے ہیں ،بغیر معنی کے یا پھر اس میں تاویل کرتے ہیں۔
ممثلہ :
اللہ کی صفات کو بندوں کی صفات کے مثل قرار دیتے ہیں۔ جیسے بت پوجنے والے اور کافر کرتے ہیں۔
مشبہ :
اللہ کی صفات کو بندوں کی صفات کی طرح کہتے ہیں۔اور اسلام کا لیبل لگا کر سب سے پہلے اس کا دعوی کرنے والے ، ہشام بن الحکم الرافضی اور بیان بن سمعان التمیمی تھے۔
مفوضہ :
اللہ کی صفات کا انکار کردیتے ہیں یا اس میں تاویل کرتے ہیں۔ یہ اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں۔اکثر صوفیاء بھی اسی کے زمرہ میں داخل ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top