• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفات باری تعالیٰ اور سلف

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری
صفات ِباری تعالیٰ اور سلف
n حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م : ٧٤٨ھ) لکھتے ہیں :
فَإِنْ أَحْبَبْتَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ الْإِنْصَافَ فَقِفْ مَعَ نُصُوصِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَنِ ثُمَّ انْظُرْ مَا قَالَہُ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعُونَ وَأَئِمَّۃُ التَّفْسِیرِ فِي ہٰذِہِ الْآیَاتِ وَمَا حَکَوْہُ مِنْ مَّذَاہِبِ السَّلَفِ فَإِمَّا أَنْ تَنْطِقَ بِعِلْمٍ وَّإِمَّا أَنْ تَسْکُتَ بِحِلْمٍ وَّدَعِ الْمِرَاءَ وَالْجِدَالَ فَإِنَّ الْمِرَاءَ فِي الْقُرْآنِ کُفْرٌ کَمَا نَطَقَ بِذٰلِکَ الْحَدِیثِ الصَّحِیحِ وَسَتَریٰ أَقْوَالَ الْـأَئِمَّۃِ فِي ذٰلِکَ عَلٰی طَبَقَاتِہِمْ بَّعْدَ سَرْدِ الْـأَحَادِیثِ النَّبَوِیَّۃِ جَمَعَ اللّٰہُ قُلُوبَنَا عَلَی التَّقْوَی الْہَویٰ فَإِنَّنَا عَلٰی أَصْلٍ صَحِیحٍ وَّعَقْدٍ مَّتِینٍ مِّنْ أَنَّ اللّٰہَ تَقَدَّسَ اسْمَہ، لَا مِثْلَ لَہ، وَأَنَّ إِیمَانَنَا بِمَا ثَبَتَ مِنْ نُّعُوتِہٖ کَإِیمَانِنَا بِذَاتِہِ الْمُقَدَّسَۃِ إِذْ الصِّفَاتُ تَابِعَۃٌ لِّلْمَوْصُوفِ فَنَعْقِلُ وُجُودَ الْبَارِي وَنُمَیِّزُ ذَاتَہُ الْمُقَدَّسَۃَ عَنِ الْـأَشْبَاہِ مِنْ غَیرِ أَنْ نَّتَعَقَّلَ الْمَاہِیَّۃَ فَکَذٰلِکَ الْقَوْلُ فِي صِفَاتِہٖ نُؤْمِنُُ بِہَا وَنَعْقِلُ وُجُودَہَا وَنَعْلَمُہَا فِي الْجُمْلَۃِ مِنْ غَیْرِ أَنْ نَّتَعَقَّلَہَا أَوْ نُشَبِّہَہَا أَوْ نُکَیِّفَہَا أَوْ نُمَثِّلَہَا بِصِفَاتِ خَلْقِہٖ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیرًا .
”اللہ کے بندے! انصاف چاہتے ہو، تو نصوص قرآن و سنت پہ جم جائیے، پھر اقوال صحابہ و تابعین پہ نظر کیجئے اور ائمہ تفسیر کو دیکھئے کہ وہ اس بارہ میں سلف کا مذہب کیا نقل کرتے ہیں، علم ہو تو منہ کھولئے ورنہ خاموشی بھلی ہے، لڑائی جھگڑے سے مجتنب رہیے کہ قرآن کے بارے میں جھگڑا کفر ہے، صحیح حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے، احادیث میں تدبر کے بعد اگر آپ ائمہ کے اقوال دیکھیں گے تو وہ یہی بتاتے نظر آئیں گے،اللہ ہمارے دل تقوی پر مجتمع فرمائے، وہ تقوی جو اللہ کو محبوب ہو، اللہ کے بندے! ہم دین حنیف پر کاربند ہیں، ہم عقیدے کی پختگی پر ہیں، اللہ کے اسما مقدس ہیں۔ ان اسما کی کوئی مثال نہیں۔ قرآن و سنت سے ثابت صفات باری تعالیٰ پر ہمارا اسی طرح ایمان ہے، جس طرح خود ذات باری تعالیٰ پر، کیوں کہ صفات موصوف کے تابع ہوتی ہیں۔ ہم وجود باری تعالیٰ کو حق مانتے ہیں اور ماہیت میں غور نہیں کرتے، نہ ہی اسے مخلوقات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ہمارا یہی طریقہ اللہ کی صفات کے متعلق بھی ہے۔ ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، ان کا وجود حق مانتے ہیں، ان میں دماغ آرائی نہیں کرتے۔ انہیں مخلوقات سے تشبیہ نہیں دیتے۔ ان کی کیفیت بیان نہیں کرتے اور صفات مخلوق سے ان کی مثال بیان نہیںکرتے ہیں، اللہ ان تمام چیزوں سے بلند ہیں۔”
(العلوّ للعلي العظیم : ١/٢٤٦، ٢٤٧)
n شیخ الاسلام، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وَطَرِیقَۃُ سَلَفِ الْـاُمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا : أَنَّہُمْ یَصِفُونَ اللّٰہَ بِمَا وَصَفَ بِہٖ نَفْسَہ، وَبِمَا وَصَفَہ، بِہٖ رَسُولَہ، : مِنْ غَیْرِ تَحْرِیفٍ وَّلَا تَعْطِیلٍ، وَلَا تَکْیِیفٍ وَّلَا تَمْثِیلٍ : إِثْبَاتٌ بِّلَا تَمْثِیلٍ، وَتَنْزِیہٌ بِّلَا تَعْطِیلٍ، إِثْبَاتُ الصِّفَاتِ، وَنَفْيُ مُمَاثَلَۃِ الْمَخْلُوقَاتِ، قَالَ تَعَالٰی : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ) فَہٰذَا رَدٌّ عَلَی الْمُمَثِّلَۃِ (وَہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ)(سُورَۃُ الشُّورٰی :11) رَدٌّ عَلَی الْمُعَطِّلَۃِ . فَقَوْلُہُمْ فِي الصِّفَاتِ مَبْنِيٌّ عَلٰی أَصْلَیْنِ : أَحَدُہُمَا : أَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی مُنَزَّہٌ عَنْ صِفَاتِ النَّقْصِ مُطْلَقًا کَالسِّنَۃِ وَالنَّوْمِ وَالْعَجْزِ وَالْجَہْلِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ .
وَالثَّانِي : أَنَّہ، مُتَّصِفٌ بِّصِفَاتِ الْکَمَالِ الَّتِي لَا نَقْصَ فِیہَا عَلٰی وَجْہِ الِاخْتِصَاصِ بِمَا لَہ، مِنَ الصِّفَاتِ، فَلَا یُمَاثِلُہ، شَيْءٌ مِّنَ الْمَخْلُوقَاتِ فِي شَيْءٍ مِّنَ الصِّفَاتِ وَلٰکِنَّ نُفَاۃَ الصِّفَاتِ یُسَمُّونَ کُلَّ مَنْ أَثْبَتَ شَیْئًا مِّنَ الصِّفَاتِ مُشَبِّہًا، بَلِ الْمُعَطِّلَۃُ الْمَحْضَۃُ الْبَاطِنِیَّۃُ نُفَاۃُ الْـأَسْمَاءِ یُسَمُّونَ مَنْ سَمَّی اللّٰہَ بِأَسْمَائِہِ الْحُسْنٰی مُشَبِّہًا، فَیَقُولُونَ : إِذَا قُلْنَا حَيٌّ عَلِیمٌ فَقَدْ شَبَّہْنَاہُ بِغَیْرِہٖ مِنَ الْـأَحْیَاءِ الْعَالِمِینَ، وَکَذٰلِکَ إِذَا قُلْنَا : ہُوَ سَمِیعٌ بَّصِیرٌ فَقَدْ شَبَّہْنَاہُ بِالْإِنْسَانِ السَّمِیعِ الْبَصِیرِ، وَإِذَا قُلْنَا : ہُوَ رَءُ وفٌ رَّحِیمٌ فَقَدْ شَبَّہْنَاہُ بِالنَّبِيِّ الرَّءُ وفِ الرَّحِیمِ، بَلْ قَالُوا : إِذَا قُلْنَا : إِنَّہ، مَوْجُودٌ فَقَدْ شَبَّہْنَاہُ بِسَائِرِ الْمَوْجُودَاتِ لِاشْتِرَاکِہِمَا فِي مُسَمَّی الْوُجُودِ . فَقِیلَ لِہٰؤُلَاءِ فَقُولُوا لَیْسَ بِمَوْجُودٍ وَّلَا حَيٍّ . فَقَالُوا : أَوْ مَنْ قَالَ مِنْہُمْ إِذَا قُلْنَا ذٰلِکَ فَقَدْ شَبَّہْنَاہُ بِالْمَعْدُومِ . وَبَعْضُہُمْ قَالَ : لَیْسَ بِمَوْجُودٍ وَّلَا مَعْدُومٍ وَّلَا حَيٍّ وَّلَا مَیِّتٍ . فَقِیلَ لَہُمْ : فَقَدْ شَبَّہْتُمُوہُ بِالْمُمْتَنِعِ، بَلْ جَعَلْتُمُوہُ نَفْسَہ، مُمْتَنِعًا، فَإِنَّہ، کَمَا یَمْتَنِعُ اجْتِمَاعُ النَّقِیضَیْنِ یَمْتَنِعُ ارْتِفَاعُ النَّقِیضَیْنِ، فَمَنْ قَالَ : إِنَّہ، مَوْجُودٌ مَّعْدُومٌ فَقَدْ جَمَعَ بَیْنَ النَّقِیضَیْنِ، وَمَنْ قَالَ : لَیْسَ بِمَوْجُودٍ وَّلَا مَعْدُومٍ فَقَدْ رَفَعَ النَّقِیضَیْنِ وَکِلَاہُمَا مُمْتَنِعٌ، فَکَیْفَ یَکُونُ الْوَاجِبُ الْوُجُودُ مُمْتَنِعَ الْوُجُودِ؟ وَالَّذِینَ قَالُوا : لَا نَقُولُ ہٰذَا وَلَا ہٰذَا . قِیلَ لَہُمْ : عَدَمُ عِلْمِکُمْ وَقَوْلِکُمْ لَا یُبْطِلُ الْحَقَائِقَ فِي أَنْفُسِہَا، بَلْ ہَذَا نَوْعٌ مِّنَ السَّفْسَطَۃِ . فَإِنَّ السَّفْسَطَۃَ ثَلَاثَۃُ أَنْوَاعٍ : نَوْعٌ ہُوَ جَحْدُ الْحَقَائِقِ وَالْعِلْمِ بِہَا . وَأَعْظَمُ مِنْ ہٰذَا قَوْلُ مَنْ یَّقُولُ عَنِ الْمَوْجُودِ الْوَاجِبِ الْقَدِیمِ الْخَالِقِ : إِنَّہ، لَا مَوْجُودَ وَلَا مَعْدُومَ، وَہٰؤُلَاءِ مُتَنَاقِضُونَ، فَإِنَّہُمْ جَزَمُوا بِعَدَمِ الْجَزْمِ . وَنَوْعٌ ہُوَ قَوْلُ الْمُتَجَاہِلَۃِ اللَّاأَدْرِیَّۃِ الْوَاقِفَۃِ الَّذِینَ یَقُولُونَ : لَا نَدْرِي ہَلْ ثَمَّ حَقِیقَۃٌ وَّعِلْمٌ أَمْ لَا . وَأَعْظَمُ مِنْ ہٰذَا قَوْلُ مَنْ یَّقُولُ : لَا أَعْلَمُ وَلَا أَقُولُ : ہُوَ مَوْجُودٌ أَوْ مَعْدُومٌ أَوْ حَيٌّ أَوْ مَیِّتٌ . وَنَوْعٌ ثَالِثٌ قَوْلُ مَنْ یَّجْعَلُ الْحَقَائِقَ تَتْبَعُ الْعَقَائِدَ . فَالْـأَوَّلُ نَافٍ لَّہَا، وَالثَّانِي وَاقِفٌ فِیہَا، وَالثَّالِثُ یَجْعَلُہَا تَابِعَۃً لِّظُنُونِ النَّاسِ . وَقَدْ ذُکِرَ صِنْفٌ رَّابِعٌ : وَہُوَ الَّذِي یَقُولُ : إِنَّ الْعَالَمَ فِي سَیَلَانٍ فَلَا یُثْبِتُ لَہ، حَقِیقَۃً . وَہٰؤُلَاءِ مِنَ الْـأَوَّلِ لٰکِنْ ہٰذَا یُوجِبُہ، قَوْلُہُمْ . وَالْمَقْصُودُ ہُنَا أَنَّ إِمْسَاکَ الْإِنْسَانِ عَنِ النَّقِیضَیْنِ لَا یَقْتَضِي رَفْعَہُمَا . وَحَاصِلُ ہٰذَا الْقَوْلِ مَنْعُ الْقُلُوبِ وَالْـأَلْسِنَۃِ وَالْجَوَارِحِ عَنْ مَّعْرِفَۃِ اللّٰہِ وَذِکْرِہٖ وَعِبَادَتِہٖ، فَہُوَ تَعْطِیلٌ وَّکُفْرٌ بِّطَرِیقِ الْوَقْفِ وَالْإِمْسَاکِ، لَا بِطْرِیقِ النَّفْيِ وَالْإِنْکَارِ .
وَأَصْلُ ضَلَالِ ہٰؤُلَاءِ أَنَّ لَفْظَ التَّشْبِیہِ لَفْظٌ فِیہِ إِجْمَالٌ، فَمَا مِنْ شَیْئَیْنِ إِلَّا وَبَیْنَہُمَا قَدْرٌ مُّشْتَرَکٌ یَّتَّفِقُ فِیہِ الشَّیْئَانِ . وَلٰکِنَّ ذٰلِکَ الْمُشْتَرَکَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ لَا یَکُونُ فِي الْخَارِجِ بَلْ فِي الذِّہْنِ، وَلَا یَجِبُ تَمَاثُلُہُمَا فِیہِ، بَلِ الْغَالِبُ تَفَاضِلُ الْـأَشْیَاءِ فِي ذٰلِکَ الْقَدْرِ الْمُشْتَرَکِ، فَأَنْتَ إِذَا قُلْتَ عَنِ الْمَخْلُوقِینَ حَيٌّ وَّحَيٌّ، وَعَلِیمٌ وَّعَلِیمٌ، وَقَدِیرٌ وَّقَدِیرٌ، لَمْ یَلْزَمْ تَمَاثُلُ الشَّیْئَیْنِ فِي الْحَیَاۃِ وَالْعِلْمِ وَالْقُدْرَۃِ، وَلَا یَلْزَمُ أَنْ تَکُونَ حَیَاۃُ أَحَدِہِمَا وَعِلْمُہ، وَقُدْرَتُہ، نَفْسَ حَیَاۃِ الْآخَرِ وَعِلْمِہٖ وَقُدْرَتِہٖ، وَلَا أَنْ یَّکُونَا مُشْتَرِکَیْنِ فِي مَوْجُودٍ فِي الْخَارِجِ عَنِ الذِّہْنِ . وَمِنْ ہُنَا ضَلَّ ہٰؤُلَاءِ الْجُہَّالُ بِمُسَمَّی التَّشْبِیہِ الَّذِي یَجِبُ نَفْیُہ، عَنِ اللّٰہِ، وَجَعَلُوا ذٰلِکَ ذَرِیعَۃً إِلَی التَّعْطِیلِ الْمَحْضِ . وَالتَّعْطِیلُ شَرٌّ مِّنَ التَّجْسِیمِ، وَالْمُشَبِّہ، یَعْبُدُ صَنَمًا، وَالْمُعَطِّلُ یَعْبُدُ عَدَمًا، وَالْمُمَثِّلُ أَعْشٰی، وَالْمُعَطِّلُ أَعْمٰی .
”ائمہ سلف کا طریق یہ تھا کہ وہ اللہ کی وہی صفات بیان کرتے جو اللہ اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہیں، تعطیل، بیان کیفیت، تمثیل اور تحریف کے بغیر، وہ ان صفات کا اثبات کرتے مگر تمثیل بیان نہیں کرتے تھے، وہ اللہ کو صفات مخلوق سے منزہ تو مانتے تھے مگر صفات کے انکاری نہیں تھے، اسی طرح صفات باری تعالیٰ کا اقرار تو تھا مگر صفات مخلوق سے تشبیہ نہیں بیان کرتے تھے، اللہ فرماتے ہیں: (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ) (کوئی اس کا مثل نہیں۔) ممثلہ کا رد ہے اور (وَہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ) (وہ سمیع و بصیر ہے۔) معطلہ کا رد ہے۔
سلف کا منہج دو اصولوں پر مبنی ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ صفات نقص سے منزہ ہیں، جیسے نیند، اونگھ، عجز اور جہالت وغیرہ۔دوسرے یہ کہ اللہ صفات ِکمال کے ساتھ متصف ہے۔ ان صفات میں کوئی نقص نہیں۔ مخلوق کی صفات اللہ تعالیٰ کی صفات کے مشابہ نہیں، لیکن معطلہ (صفات کی نفی کرنے والے گمراہ ) صفات کا اثبات کرنے والوں کو نام مشبہہ رکھتے ہیں، بل کہ غالی باطنی معطلہ، اللہ کے اسمائے حسنی کو ماننے والوں کو مشبہ کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب ہم اللہ کو، حی و علیم کہتے ہیں، تو گویا ہم نے ان صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دے دی ہے، اسی طرح اگرہم نے اللہ کی صفت سمیع وبصیر کو مانا تویہ بھی تشبیہ ہے کیوں کہ سننے اور دیکھنے کی صفت تو انسان میں بھی ہے، اگر صفت رؤوف و رحیم مانیں تو یہ بھی تشبیہ ہے کیوں کہ نبی میں بھی یہ صفات ہوتی ہیں، بل کہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر ہم کہیں کہ اللہ موجود ہے تویہ بھی تشبیہ ہے کیوں کہ مخلوق میں بھی وجود کی صفت پائی جاتی ہے۔ ان سے کہا جائے کہ پھر تم کہو کہ اللہ نہ موجود ہے نہ حی ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر ہم یہ کہیں تو یہ معدوم کے ساتھ تشبیہ ہو جائے گی، ان میں سے بعض کہتے ہیں وہ نہ موجود ہے نہ معدوم، نہ حی نہ میت، ان سے کہاجائے کہ تم نے اللہ کو ایک ناممکن چیز کے ساتھ تشبیہ دی ہے، بل کہ تم نے تو ذات باری تعالیٰ کے وجود کا ہی انکار کر دیا ہے، کیوں کہ جس طرح اجتماع النقیضین ناممکن ہے۔ اسی طرح ارتفاع النقیضین بھی نا ممکن ہے، کیوں کہ جس نے کہا اللہ موجود بھی ہے اور نہیں بھی ، تو اس نے دو متضاد چیزوں کو جمع کردیا ہے، اور جس نے کہااللہ موجود بھی نہیں اور معدوم بھی نہیں، اس نے دو ضدوں کا انکار کیا، حال آں کہ یہ دونو ں (اجتماع نقیضن و ارتفاع نقیضن) صورتوں کا پیدا ہونا نا ممکنات میں سے ہے۔ پھر یہ کیسے سوچاجا سکتا ہے کہ جو اللہ دوسروں کے وجود کو قائم رکھتا ہے، خود اس کا کوئی وجود نہ ہو؟! ایسا باطل نظریہ رکھنے والوں سے کہا جائے گا کہ تمہاری بے ہودہ باتوں اور جہالت کی وجہ سے حقائق کا انکا رنہیں ہو سکتا، بل کہ یہ وہمیات سے مرکب قیاس اور منطقی مغالطہ ہے، مغالطے کی تین قسمیں ہیں :1حق بات کو جانتے ہوئے نہ ماننا۔ اس سے بھی سنگین ان کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ نہ موجود اور نہ ہی معدوم ہے، کیوں کہ یہ شک کی وجہ سے تناقضات کی وایوں میں سرگرداں ہیں۔2دوسری مغالطے کی قسم، متجاہلہ، لاادریہ (ایک فرقے کا نام ) کا قول کہ ہمیں کوئی علم نہیں کہ اللہ کی حقیقت بھی ہے یا نہیں، اس سے بھی خطر ناک اس کا قول ہے جو کہتا ہے کہ نہ میں جانتا ہوں اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ اللہ موجود ہے یا معدوم، زندہ ہے یا میت۔3مغالطے کی تیسری قسم، اس فرقے کا قول جو کہتا ہے کہ حقائق عقائد کے تابع ہوتے ہیں۔پہلی قسم حقائق کی منکر ہے، دوسری توقف کرنے والی اور تیسری جو کہتے ہیں کہ حقائق لوگوں کی عقلوں پر موقوف ہیں۔ ایک چوتھی قسم کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو کہتے ہیں کہ کائنات کا نظام خود بخود چل رہا ہے لیکن وہ اس بات کا ثبوت پیش نہیں کرتے۔ یہ بھی پہلی قسم (حقائق کے منکر) سے ہیں لیکن یہاں ان کے باطل قول (نظام کائنات خود بخود چل رہا ہے ) کی وضاحت ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ انسان کا اجتماع نقیضین کے متعلق خاموشی اختیار کرنا، ان کے عدم کا متقاضی نہیں۔ اس قول کا نتیجہ یہ ہے کہ دلوں، زبانوں اور اعضاء کو باری تعالیٰ کی معرفت، ذکر اور عبادت سے روکنا ہے۔ بطریق وقف و امساک یہ تعطیل اور کفر ہے، نہ کہ نفی و انکار کے اعتبار سے۔ اپنے گم راہ کن نظریے پر دلیل دیتے ہیں کہ تشبیہ کا لفظ مجمل ہے۔ ہر دو چیزیں کسی نہ کسی وصف میں مشترک ہوتی ہیں، لیکن یہ قدر مشترک خارج میں نہیں ہوتی، بل کہ ذہن میں ہوتی ہیں۔ دونوں چیزوں کا کسی صفت میں برابر ہونا ضروری نہیں ہوتا، بل کہ اکثر اوقات ان دو چیزوں میں سے ایک میں وہ وصف قدرے زائد ہوتا ہے۔ لہٰذا جب آپ مخلوق میں سے کسی دو کے متعلق کہیں، کہ یہ بھی ‘حی’یعنی زندہ، ہے اور یہ بھی ‘حی’ ہے، یہ بھی ‘علیم’یعنی جاننے والا، ہے اور یہ بھی ‘علیم’ ہے، اسی طرح یہ بھی ‘قدیر’یعنی قدرت والا، ہے اور یہ بھی ”قدیر” ہے، تو اس سے دونوں کا صفت حیات، علم اور قدرت میں برابر ہونا لازم نہیں آتا اور یہ بھی لازم نہیں آتا کہ ایک کی حیات، علم اور قدرت بعینہٖ دوسرے کی حیات، علم اور قدرت کے مماثل ہو۔ نیز یہ بھی لازم نہیں آتا ہے کہ دونوں خارج عن الذہن وجود میں مشترک ہوں۔ یوں یہ گم راہ تشبیہ، جس کی اللہ سے نفی کرنا ضروری تھی، کی وجہ سے جادہئ مستقیم سے گم گشتہ ہو گئے اور اس تشبیہ کو ‘تعطیل’ کا ذریعہ بنا لیا۔ عقیدہ تعطیل، ‘عقیدہ تجسیم’ (اللہ تعالیٰ کو جسم قرار دینا) سے بھی خطرناک ہے۔ مُشَبِّہ (اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینے والا) بت کی عبادت کرتا ہے اور معَطِّل (اللہ کو صفات سے عاری ماننے والا) عدم کی عبادت کرتا ہے۔ ممثل (مشبہ) کی ضعیف البصر اور معطل سرے سے ہی اندھا ہے۔”
(مِنْہاج السُّنّۃ النّبویّۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریّۃ : ٢/٥٢٣، ٥٢٦)
n حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٦٧٣۔٧٤٨ھ) فرماتے ہیں:
وَقَالَ الْـأَوْزَاعِيُّ وَہُوَ إِمَامُ وَقْتِہٖ کُنَّا وَالتَّابِعُونَ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ : إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی فَوْقَ عَرْشِہٖ، وَنُؤْمِنُ بِمَا وَردَتْ بِہِ السُّنَّۃُ مِنْ صِفَاتِہٖ، وَمَعْلُومٌ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنَ الطَّوَائِفِ أَنَّ مَذْہَبَ السَّلَفِ إِمْرَارُ آیَاتِ الصِّفَاتِ وَأَحَادِیثِہَا کَمَا جَاءَ تْ مِنْ غَیْرِ تَأْوِیلٍ وَّلَا تَحرِیْفٍ، وَلاَ تَشْبِیہٍ وَّلَا تَکْیِیفٍ، فَإِنَّ الْکَلاَمَ فِي الصِّفَاتِ فَرْعٌ عَلَی الْکَلاَمِ فِي الذَّاتِ المُقَدَّسَۃِ . وَقَدْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّ ذَاتَ الْبَارِي مَوْجُودَۃٌ حَقِیقَۃٌ، لَا مِثْلَ لَہَا، وَکَذٰلِکَ صِفَاتُہ، تَعَالٰی مَوْجُودَۃٌ، لَا مِثْلَ لَہَا .
”امام زمانہ، اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ ہم اور بہت سارے تابعین کہا کرتے تھے کہ اللہ عرش پر ہے۔ ہم قرآن و سنت میں بیان ہونے والی صفات باری تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ سلف صالحین صفات باری تعالیٰ کے بارے میں یہ موقف رکھتے تھے کہ انہیں اسی طرح قبول کیا جائے جس طرح قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان میں تمثیل، تاویل، تحریف یا بیانِ کیفیت کے چکر نہ چلائے جائیں۔یاد رکھیئے کہ صفات میں کلام کرنا ذات خدا وندی میں کلام کی فرع ہے اور مسلمان اس مسلمہ حقیقت سے واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقی طور پر ازل سے موجود ہے جس کا مثل کوئی نہیں، جب اللہ تعالیٰ ابتدا سے موجود ہے تو اس کی صفات بھی ابتدا سے موجود ہیں، ان کی بھی مثال نہیں ہے۔”
(سِیَر أعلام النُّبلاء : ٨/٤٠٢)
n نیز فرماتے ہیں:
قَدْ فَسَّرَ عُلَمَاءُ السَّلَفِ الْمُہِمَّ مِنَ الْـأَلْفَاظِ وَغَیْرَ المُہِمِّ، وَمَا أَبْقَوْا مُمْکِناً، وَآیَاتُ الصِّفَاتِ وَأَحَادِیثُہَا لَمْ یَتَعَرَّضُوا لِتَأْوِیلِہَا أَصْلاً، وَہِيَ أَہَمُّ الدِّینِ، فَلَوْ کَانَ تَأْوِیلُہَا سَائِغاً أَوْ حَتْماً، لَبَادَرُوا إِلَیْہِ، فَعُلِمَ قَطْعاً أَنَّ قِرَاءَ تَہَا وَإِمْرَارَہَا عَلٰی مَا جَاءَ تْ ہُوَ الْحَقُّ، لَا تَفْسِیرَ لَہَا غَیْرُ ذٰلِکَ، فَنُؤْمِنُ بِذٰلِکَ، وَنَسْکُتُ اقْتِدَائً بِّالسَّلَفِ، مُعْتَقِدِینَ أَنَّہَا صِفَاتٌ لِّلّٰہِ تَعَالَی اسْتَأْثَرَ اللّٰہُ بِعِلْمِ حَقَائِقِہَا، وَأَنَّہَا لَا تُشْبِہُ صِفَاتِ الْمَخْلُوقِینَ، کَمَا أَنَّ ذَاتَہُ المُقَدَّسَۃَ لَا تُمَاثِلُ ذَوَاتِ الْمَخْلُوقِینَ، فَالْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ نَطَقَ بِہَا، وَالرَّسُولُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلَّغَ، وَمَا تَعَرَّضَ لِتَأْوِیلٍ، مَعَ کَوْنِ الْبَارِي قَالَ : (لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِم)(النَّحْلُ : 44)، فَعَلَیْنَا الْـإِیمَانُ وَالتَّسْلِیمُ لِلنُّصُوصِ، وَاللّٰہُ یَہْدِي مَنْ یَّشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ .
”ائمہ سلف نے اہم اور غیر اہم ہر دو قسم کے الفاظ کی تفسیر جہاں تک ممکن ہو سکا بیان کر دی ہے، ان ائمہ کرام نے صفات کے متعلق احادیث و آیات کی تاویل نہیں کی، یہ دین کا اہم مسئلہ ہے، اگر اس میں تاویل جائز ہوتی یا حتمی طور پر اس تاویل کا علم ہو پاتا تو ائمہ سلف ضرور کر گزرتے، تو قطعی رائے اس بارے میں یہی ہے کہ احادیث و آیات صفات جیسے قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں ویسے ہی رہنے دی جائیں اور ان کی تفسیر نہ کی جائے، ہم ان پر ایمان لاتے ہیں، اور سلف کی طرح اس باب میں خاموشی اختیار کرتے ہیں، ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی صفات ہیں، جن کی حقیقت کا علم اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے اور جس طرح اللہ کی ذات مخلوق سے مشابہہ نہیں اسی طرح اس کی صفات بھی مخلوق کے مشابہہ نہیں ہیں، یہ صفات کتاب اللہ نے بتلائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا تاویل ہم تک پہنچا دی ہیں، قرآن کہتا ہے:’پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ انسانیت کو وحی الٰہی کی تشریح سمجھا دیں۔’ تو ہم پر لازم ہے کہ ہم تسلیم و رضا کے پیکر بنیں اور ان چیزوں پر پختہ ایمان رکھیں، اللہ جسے چاہے صراط مستقیم پر گامزن کر دیتا ہے۔”
(سِیَرُ أعلام النُّبلاء : ١٠/٥٠٦)
n امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَدْرَکْنَا إِسْمَاعِیلَ بْنَ أَبِي خَالِدٍ وَّسُفْیَانَ وَمِسْعَرًا یُّحَدِّثُونَ بِہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وَلَا یُفَسِّرُونَ بِشَيْءٍ .
”اسماعیل بن ابی خالد، سفیان بن سعید ثوری اور مسعر رحمہم اللہ جیسے کبار ائمہ سے ہماری ملاقات رہی ہے، وہ یہ احادیث بیان کرتے تھے، مگر ان کی (گمراہ فرقوں والی) تفسیر نہیں کرتے تھے۔”
(تاریخ یحیی بن معین روایۃ الدُّوري : ٣/٥٢٠، رقم : ٢٥٤٣، الأسماء والصفات للبیہقي : ٧٥٩، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِذَا سُئِلْنَا عَنْ تَفْسِیرِہَا لَا نُفَسِّرُہَا وَمَا أَدْرَکْنَا أَحَدًا یُّفَسِّرُہَا .
” ہم احادیث ِصفات کی تفسیر نہیں کرتے، نہ ہی ہم نے اہل سنت کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔”
(الأسماء والصفات للبیہقي : ٧٦٠، وسندہ، صحیحٌ)
n شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) اس قول کی سند کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَخْبَرَ أَنَّہ، مَا أَدْرَکَ أَحَدًا مِّنَ الْعُلَمَاءِ یُفَسِّرُہَا(أيْ تَفْسِیرَ الْجَہْمِیَّۃِ) .
” امام قاسم بن سلام یہ بتلا رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی ایک عالم بھی نہیں دیکھا جوان احادیث کی تفسیر ، جہمیہ کی طرح کرتا ہو۔”
(الفتوی الحَمَوِیَّۃ، ص : ٣٠، مجموع الفتاویٰ : ٥/٥١)
n شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
فَاالْحَاصِلُ فِي ہٰذَا الْبَابِ أَنْ یُّوصَفَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِمَا وَصَفَ بِہٖ نَفْسَہ،، وَبِمَا وَصَفَتْہُ بِہٖ رُسُلُہ، نَفْیًا وَّإِثْبَاتًا، فیُثْبَتُ لِلّٰہِ مَا أَثْبَتَہ، لِنَفْسِہٖ، وَیُنْفٰی عَنْہُ مَا نَفَاہُ عَنْ نَّفْسَہٖ .
”اس باب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی وہی صفات بیان کی جائیں، جو اس نے اپنے لئے بیان کی ہیں، یا جو انبیائے کرام نے نفیاً و اثباتاً اللہ کے لئے بیان کی ہیں، تو اللہ کے لئے ان چیزوں کا اثبات کیا جائے جن کا اللہ نے اپنے لئے اثبات کیا، اور ان چیزوں کی اللہ سے نفی کی جائے جن کی اللہ نے اپنے لئے نفی کی۔”
(الرِّسَالۃ التَّدْمُرِیَّۃ، ص : ٤)
n امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٠٩۔٢٧٩ھ) لکھتے ہیں:
وَالْمَذْہَبُ فِي ہٰذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنَ الْـأَئِمَّۃِ مِثْلِ سُفْیَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَکِ، وَابْنِ عُیَیْنَۃَ، وَوَکِیعٍ وَّغَیْرِہِمْ أَنَّہُمْ رَوَوْا ہٰذِہِ الْـأَشْیَائَ، ثُمَّ قَالُوا : تُرْوٰی ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثُ وَنُؤْمِنُ بِہَا، وَلَا یُقَالُ : کَیْفَ؟ وَہٰذَا الَّذِي اخْتَارَہ، أَہْلُ الْحَدِیثِ أَنْ یَّرْوُوا ہٰذِہِ الْـأَشْیَاءُ کَمَا جَاء َتْ وَیُؤْمَنُ بِہَا وَلَا تُفَسَّرُ وَلَا تُتَوَہَّمُ وَلَا یُقَالُ : کَیْفَ، وَہٰذَا أَمْرُ أَہْلِ الْعِلْمِ الَّذِي اخْتَارُوہُ وَذَہَبُوا إِلَیْہِ .
”اس بارے میں سفیان ثوری، مالک بن انس، عبد اللہ بن مبا ر ک، سفیان بن عیینہ اور وکیع بن جراح وغیرہم رحمہم اللہ جیسے کبار ائمہ یہ احادیث بیان کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ احادیث ہمیں بیان کی گئی ہیں، ہم ان پر ایمان لاتے ہیں، یہ نہیں پوچھتے کہ ان کی کیفیت کیا ہے؟ اہل حدیث کا مختار مسلک یہی ہے کہ انہیں (بغیرتاویل کے )بیان کیا جائے۔”
(سُنَن التِّرْمِذِي تحت الحدیث : ٢٥٥٧)
n نیزفرماتے ہیں:
وَقَدْ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنْ أَہْلِ العِلْمِ فِي ہٰذَا الْحَدِیثِ وَمَا یُشْبِہُ ہٰذَا مِنَ الرِّوَایَاتِ مِنَ الصِّفَاتِ وَنُزُولِ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا، قَالُوا : قَدْ تَثْبُتُ الرِّوَایَاتُ فِي ہٰذَا وَیُؤْمَنُ بِہَا وَلَا یُتَوَہَّمُ وَلَا یُقَالُ : کَیْفَ ہٰکَذَا رُوِيَ عَنْ مَّالِکٍ، وَسُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّہُمْ قَالُوا فِي ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ : أَمِرُّوہَا بِلَا کَیْفٍ، وَہٰکَذَا قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، وَأَمَّا الْجَہْمِیَّۃُ فَأَنْکَرَتْ ہٰذِہِ الرِّوَایَاتِ وَقَالُوا : ہٰذَا تَشْبِیہٌ، وَقَدْ ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِي غَیْرِ مَوْضِعٍ مِّنْ کِتَابہِ الْیَدَ وَالسَّمْعَ وَالْبَصَرَ، فَتَأَوَّلَتِ الْجَہْمِیَّۃُ ہٰذِہِ الْـآیَاتِ فَفَسَّرُوہَا عَلٰی غَیْرِ مَا فَسَّرَ أَہْلُ العِلْمِ، وَقَالُوا : إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَخْلُقْ آدَمَ بِیَدِہٖ، وَقَالُوا : إِنَّ مَعْنَی الْیَدِ ہَاہُنَا القُوَّۃُ، وقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ : إِنَّمَا یَکُونُ التَّشْبِیہُ إِذَا قَالَ : یَدٌ کَیَدٍ، أَوْ مِثْلُ یَدٍ، أَوْ سَمْعٌ کَسَمْعٍ، أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ، فَإِذَا قَالَ : سَمْعٌ کَسَمْعٍ، أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ، فَہٰذَا التَّشْبِیہُ، وَأَمَّا إِذَا قَالَ کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی یَدٌ، وَسَمْعٌ، وَبَصَرٌ، وَلَا یَقُولُ کَیْفَ، وَلَا یَقُولُ مِثْلُ سَمْعٍ، وَلَا کَسَمْعٍ، فَہٰذَا لَا یَکُونُ تَشْبِیہًا، وَہُوَ کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِي کِتَابِہٖ :(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) (الشُّورٰی : ١١) .
”کئی اہل علم احادیث ِصفات اور نزولِ باری تعالیٰ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ روایات ثابت ہیں، ان پر ایمان لایا جائے، وہم پر مبنی باتیں نہ کی جائیں اور کیفیت کا سوال بھی نہ کیا جائے، امام مالک، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ اہل سنت فرمایا کرتے تھے کہ ان احادیث کو اسی طرح بیان کرتے رہیں جس طرح بیان ہوئی ہیں۔ جہمیہ ان روایات کے انکاری ہیں۔ وہ ید سے قوت مراد لیتے ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب آپ کہیں اللہ کے لئے ید ہے اور وہ ہمارے ید کے مشابہہ یا مماثل ہے،اللہ کے لئے صفت سمع و بصر ثابت ہے اور وہ ہماری صفت سمع کے مماثل یا مشابہہ ہے، تو اسے تشبیہ کہا جائے گا۔ لیکن اگر آپ یوں کہتے ہیں:اللہ کا ‘ید’ ہے، کیفیت ہم نہیں جانتے اور اللہ کا ید مخلوق کے ید سے مشابہہ و مماثل نہیں ہے،اللہ کی صفت سمع و بصر ثابت ہے، مگر نہیں معلوم کہ اس کی کیفیت کیا ہے؟ ہاں اتنا ہے کہ یہ صفات، مخلوق سے مشابہہ و مماثل نہیں ہیں، تو اسے تشبیہ نہیں کہا جا سکتا، اللہ کا قرآن یہی سمجھا رہا ہے : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ)(کوئی چیز اس کی مثل نہیں، وہ سمیع و بصیر ہے۔)”
(سنن الترمذي تحت حدیث : ٦٦٢)
n امام محمد بن حسین ابوبکر آجری رحمہ اللہ (٣٦٠) لکھتے ہیں:
اِعْلَمُوا وَفَّقَنَا اللّٰہُ وَإِیَّاکُمْ لِلرَّشَادِ مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ أَنَّ أَہْلَ الْحَقِّ یَصِفُونَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا وَصَفَ بِہٖ نَفْسَہ، عَزَّ وَجَلَّ وَبِمَا وَصَفَہ، بِہٖ رَسُولُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِمَا وَصَفَہ، بِہِ الصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَہٰذَا مَذْہَبُ الْعُلَمَاءِ مِمَّنِ اتَّبَعَ وَلَمْ یَبْتَدِعْ وَلَا یُقَالُ فِیہِ : کَیْفَ؟ بَلِ التَّسْلِیمُ لَہ، وَالْإِیمَانُ بِہٖ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَضْحَکُ کَذَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنْ صَحَابَتِہٖ وَلَا یُنْکِرُ ہٰذَا إِلَا مَنْ لَا یُحْمَدُ حَالُہ، عِنْدَ أَہْلِ الْحَقِّ وَسَنَذْکُرُ مِنْہُ مَا حَضَرَنَا ذِکْرُہ، وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ لِلصَّوَابِ .
”یاد رکھیے! اہل حق اللہ کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اس نے اپنے لئے بیان فرمائی ہیں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں، یا صحابہ] نے بیان فرمائی ہیں، اللہ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ بدعات سے کنارہ کش رہنے والے متبعین شریعت علماء کا یہی موقف ہے۔ ان صفات کی کیفیت کا سوال نہیں کیا جائے گا، بل کہ انہیں تسلیم کیا جائے گا اور اس بات پر ایمان لایا جائے گا کہ اللہ ہنستا ہے۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے، اس کا انکار کوئی برا شخص ہی کر سکتا ہے۔آئندہ ابواب میں چند ایسی شخصیات کا تذکرہ بھی موجود ہے اور اللہ ہی درست بات کی توفیق دینے والا ہے۔”
(الشَّرِیعَۃ للآجُرِّي : ٢/١٠٥١)
n امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں:
فَنَحْنُ وَجَمِیعُ عُلَمَائِنَا مِنْ أَہْلِ الْحِجَازِ وَتِہَامَۃَ وَالْیَمَنِ، وَالْعِرَاقِ وَالشَّامِ وَمِصْرَ، مَذْہَبُنَا : أَنَّا نُثْبِتُ لِلّٰہِ مَا أَثْبَتَہُ اللّٰہُ لِنَفْسِہٖ، نُقِرُّ بِذٰلِکَ بِأَلْسِنَتِنَا، وَنُصَدِّقُ ذٰلِکَ بِقُلُوبِنَا، مِنْ غَیْرِ أَنْ نُشَبِّہَ وَجْہَ خَالِقِنَا بِوَجْہِ أَحَدٍ مِّنَ الْمَخْلُوقِینَ، عَزَّ رَبُّنَا عَنْ أَنْ یُّشْبِہَ الْمَخْلُوقِینَ، وَجَلَّ رَبُّنَا عَنْ مَّقَالَۃِ الْمُعَطِّلِینَ، وَعَزَّ أَنْ یَّکُونَ عَدَمًا کَمَا قَالَہُ الْمُبْطِلُونَ، لِـأَنَّ مَا لَا صِفَۃَ لَہ، عَدَمٌ، تَعَالٰی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُ الْجَہْمِیُّونَ الَّذِینَ یُنْکِرُونَ صِفَاتِ خَالِقِنَا الَّذِي وَصَفَ بِہَا نَفْسَہ، فِي مُحْکَمِ تَنْزِیلِہٖ، وَعَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ .
”ہمارا اور حجاز، تہامہ، یمن، عراق ، شام اور مصرکے سب علماء کا یہی مسلک ہے کہ ہم اللہ کی ان صفات کا اثبات کرتے ہیں جن صفات کا اثبات اس نے اپنے لئے کیا ہے، ہماری زبانیں اس کی اقراری اور ہمارے دل اس کے مصدق ہیں، ہاں ہم اللہ کے چہرے کو مخلوق کے چہروں سے تشبیہ نہیں دیتے، ہمارا اللہ تشبیہ سے بلند ہے اور معطلین کی ہفوات سے بالا ہے، اہل باطل اللہ کو عدم مانتے ہیں، کیوں کہ وہ اس کی صفات کے انکاری ہیں اور جس کی صفات نہ ہوں وہ عدم ہوتا ہے، حالاں کہ میرا اللہ عدم نہیں ہے، اللہ جہمیہ کی باتوں سے بہت بلند ہے جو اللہ کی ان صفات کا انکار کرتے ہیں جن کا اللہ نے اپنے لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے لئے اثبات کیا ہے۔”
(کتاب التوحید وإثبات صفات الرّبّ : ١/٢٦)
n امام معمر بن احمد، ابو منصور اصبہانی رحمہ اللہ (م : ٤١٨ھ) اسے اہل سنت کا اجماعی عقیدہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَمَا صَحَّ مِنْ أَحَادِیثِ الصِّفَاتِ عَن رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اجْتَمَعَ الْـأَئِمَّۃُ عَلٰی أَنَّ تَفْسِیرَہَا قِرَاءَ تُہَا، قَالُوا : أَمِرُّوہَا کَمَا جَاءَ تْ، وَمَا ذَکَرَ اللّٰہُ فِي الْقُرْآنِ مِثْلُ قَوْلِِہٖ عَزَّ وَجَلَّ : (ہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا أَن یَّأْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ) وَقَوْلِہ، عَزَّ وَجَلَّ : (وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا) کُلُّ ذٰلِکَ بِلَا کَیْفٍ وَّلَا تَأْوِیلٍ نُّؤْمِنُ بِہَا . إِیمَانُ أَہْلِ السَّلَامَۃِ وَالتَّسْلِیمِ لِـأَہْلِ السُّنَّۃِ والسَّلاَمَۃِ وَاسِعَۃٌ بِّحَمْدِ اللّٰہ وَمَنِّہٖ، وَطَلَبُ السَّلامَۃِ فِي مَعْرِفَۃِ صِفَاتِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ أَوْجَبُ وَأَوْلٰی، وَأَقْمَنُ وَأَحْرٰی، فَإِنَّہ، (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ) فَلَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ یَّنْفِي کُلَّ تَشْبِیہٍ وَّتَمْثِیلٍ، وَہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ، یَنْفِي کُلَّ تَعْطِیلٍ وَّتَأْوِیلٍ، فَہٰذَا مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ والْـأَثَرِ، فَمَنْ فَارَقَ مَذْہَبَہُمْ فَارَقَ السُّنَّۃِ، وَمَنِ اقْتَدٰی بِہِمْ وَافَقَ السُّنَّۃَ، وَنَحْنُ بِحَمْدِ اللّٰہِ مِنَ الْمُقْتَدِینَ بِہِمُ الْمُنْتَحِلِینَ لِمَذْہَبِہِمُ الْقَائِلِینَ بِفَضْلِہِمْ، جَمَعَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ فِي الدَّارَیْنِ، فَالسُّنَّۃُ طَرِیقَتُنَا، وَأَہْلُ الْـأَثَرِ أَئِمَّتُنَا، فَأَحْیَانَا اللّٰہُ عَلَیْہَا وَأَمَاتَنَا بِرَحْمَتِہٖ إِنَّہ، قَرِیبٌ مُّجِیبٌ .
”صفات کی تمام صحیح احادیث کے بارے میں امت کا اجماع ہے کہ ان کی تفسیر یہی ہے کہ انہیں بیان کیا جائے، ان کا کہنا ہے کہ ان احادیث کو ایسے ہی بیان کریں جیسے وہ وارد ہوئی ہیں، قرآن میں اللہ کا یہ فرمان: (ہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا أَن یَّأْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ) ‘کیا یہ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ بادلوں کی اوٹ سے ان کے پاس آئے۔’ یا پھر یہ فرمان باری تعالیٰ: (وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا) ‘تیرا رب آئے گا اور فرشتے صف در صف آئیں گے۔’ ہم اہل السنۃ والسلامہ ان تما م آیات پر بیان ِکیفیت اور تاویل کے بغیر ایمان رکھتے ہیں، صفات الٰہی کے بارے میں سلامتی کی طلب واجب، اولیٰ اورلائق علم ہے، کیوں کہ آیت قرآنی ہے:(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ)(اللہ جیسی کوئی چیز نہیں، وہ سمیع و بصیر ہے۔) آیت کا پہلا حصہ (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ) ہر تشبیہ و تمثیل کی نفی کرتا ہے اور دوسرا حصہ (وَہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ) ہر تعطیل و تاویل کی نفی کرتا ہے۔ یہ اہل سنت اہل حدیث کا مذہب ہے، جو ان کا مذہب چھوڑ دے اس نے سنت کو چھوڑ دیا ہے۔ جو اس مذہب پہ قائم رہا، وہ طریق ِسنت پر ہے، ہم اللہ کے فضل سے اقتدا کرنے والے ہیں۔ ہم نےمسلک ِسلف کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے، سلف کی فضیلت کے قائل ہیں۔ اللہ دنیا و آخرت میںہمارا ساتھ قائم رکھے، سنت ہمارا راستہ اور اہل ِحدیث ہمارے ائمہ ہیں، اللہ ہمیں اسی مسلک پر زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔ بلا شبہ وہ قریب ہے اور دعا قبول کرنے والا ہے۔”
(الحُجَّۃ في بَیان المَحَجَّۃ لأبي القاسم الأصبہاني : ١/٢٦٠، وسندہ، صحیحٌ)
n امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ (٣٩٢۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں:
أَمَّا الْکَلاَمُ فِي الصِّفَاتِ، فَإِنَّ مَا رُوِيَ مِنْہَا فِي السُّنَنِ الصِّحَاحِ، مَذْہَبُ السَّلَفِ إِثبَاتُہَا وَإِجرَاؤُہَا عَلٰی ظَوَاہِرِہَا، وَنَفْيُ الْکَیْفِیَّۃِ وَالتَّشْبِیہِ عَنْہَا، وَقَدْ نَفَاہَا قَوْمٌ، فَأَبْطَلُوا مَا أَثبَتَہُ اللّٰہ، وَحَقَّقَہَا قَوْمٌ مِّنَ الْمُثْبِتِینَ، فَخَرَجُوا فِي ذٰلِکَ إِلٰی ضَرْبٍ مِّنَ التَّشْبِیہِ وَالتَّکْیِیفِ، وَالْقَصْدُ إِنَّمَا ہُوَ سُلُوکُ الطَّرِیقَۃِ الْمُتَوَسِطَۃِ بَیْنَ الْـأَمرَیْنِ، وَدِینُ اللّٰہِ تَعَالٰی بَیْنَ الْغَالِي فِیہِ وَالْمُقَصِّرُ عَنْہُ .
وَالْـأَصْلُ فِي ہٰذَا أَنَّ الْکَلاَمَ فِي الصِّفَاتِ فَرْعُ الْکَلاَمِ فِي الذَّاتِ، وَیُحْتَذٰی فِي ذٰلِکَ حَذْوُہ، وَمِثَالُہ،، فَإِذَا کَانَ معلُوماً أَنَّ إِثْبَاتَ رَبِّ الْعَالِمِینَ إِنَّمَا ہُوَ إِثْبَاتُ وَجُوْدٍ لَّا إِثْبَاتُ کَیْفِیَۃٍ، فَکَذٰلِکَ إِثْبَاتُ صِفَاتِہٖ إِنَّمَا ہُوَ إِثْبَاتُ وَجُودٍ لَّا إِثْبَاتُ تَحْدِیدٍ وَّتَکْیِیفٍ فَإِذَا قُلْنَا : لِلّٰہِ یَدٌ وَّسَمْعٌ وَّبَصَرٌ، فَإِنَّمَا ہِيَ صِفَاتٌ أَثْبَتَہَا اللّٰہُ لِنَفْسِہٖ، وَلَا نَقُولُ : إِنَّ مَعْنَی الْیَدِ الْقُدْرَۃُ، وَلَا إِنَّ مَعْنَی السَّمْعِ وَالْبَصَرِ : الْعِلْمُ، وَلَا نَقُولُ : إِنَّہَا جَوَاح، وَلَا نُشَبِّہُہَا بِالْـأَیْدِي وَالْـأَسْمَاعِ وَالْـأَبْصَارِ الَّتِي ہِيَ جَوَارحُ وَأَدَوَاتٌ لِّلْفِعْلِ، وَنَقُولُ : إِنَّمَا وَجَبَ إِثبَاتُہَا لِـأَنَّ التَّوقِیفَ وَرَدَ بِہَا، وَوَجَبَ نَفِيُ التَّشْبِیہِ عَنْہَا لِقَوْلِہٖ : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ)(الشُّورٰی : ١١) (وَلَمْ یَکُنْ لَّہ، کُفُواً أَحَدٌ) (الـإِخْلاَص : ٤)
”صفات باری کے مسئلے میں جو صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں، سلف کا مذہب ان کے اثبات اور انہیں ظاہر پر محمول کرنے کا ہے، سلف کیفیت اور تشبیہ کے قائل نہیں ہیں، ایک گروہ اللہ کی ان صفات کا انکاری ہے، جن کا اس نے اثبات کیا ہے۔ ایک گروہ نے اثبات تو کیا، لیکنتشبیہ و تکییف کی طرف نکل گئے۔ حق ان کے دو انتہاوںکا درمیانی راستہ ہے، (کیوں کہ) اللہ تعالیٰ کا دین افراط و تفریط کے درمیان اعتدال پسندی کا نام ہے۔
در اصل صفات باری تعالیٰ میں گفتگو کرنا ذات باری تعالیٰ میں ہی گفتگو کرنا ہے۔ ان میں بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا، جو ذات باری تعالیٰ کے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ تو بدیہی بات ہے کہ رب العالمین کا اثبات اس کی ذات کا اثبات ہے، نہ کہ اس کی کیفیت کا۔ اسی طرح صفات کا اثبات وجود کا اثبات ہے، نہ کہ کیفیت اور تحدید کا۔ لہٰذا جب ہم کہیں گے کہ صفت ید، سمع اور بصر اللہ کے لیے ثابت ہے، تو معنی یہ ہوگا کہ یہ صفات ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے۔ یہ نہیں کہیں گے کہ ید (ہاتھ) کا معنی قدرت ہے اور سمع و بصر کا معنی علم ہے۔ نہ ہی انہیں جوارح (جسمانی اعضائ) قرار دیں گے۔ اور نہ ہی انہیں ہاتھوں، کانوں اور آنکھوں، جو کہ جسمانی اعضاء ہیں اور کام کرنے کے آلہ کار ہیں، کے ساتھ تشبیہ دیں گے، بل کہ ہم کہیںگے کہ ان کا اثبات واجب ہے، کیوں کہ یہ شریعت سے ثابت ہیں اور تشبیہ کی نفی کرنا بھی از حد ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ) (الشُّوْرٰی : ١١) ‘اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں۔’ نیز فرمایا : (وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُواً أَحَدٌ) (الإِخلاَص : ٣) ‘اور اس کے ہم سر کوئی نہیں ہے۔”
(سیر أعلام النّبلاء : ١٨/٢٨٤، وسندہ، صحیحٌ)
n امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں:
أَہْلُ السُّنَّۃِ مُجْمِعُونَ عَلَی الْإِقْرَارِ بِالصِّفَاتِ الْوَارِدَۃِ کُلِّہَا فِي الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ وَالْإِیمَانِ بِہَا وَحَمْلِہَا عَلَی الْحَقِیقَۃِ لَا عَلَی الْمَجَازِ إِلَّا أَنَّہُمْ لَا یُکَیِّفُونَ شَیْئًا مِّنْ ذٰلِکَ وَلَا یَحُدُّونَ فِیہِ صِفَۃً مَّحْصُورَۃً وَّأَمَّا أَہْلُ الْبِدَعِ وَالْجَہْمِیَّۃُ وَالْمُعْتَزِلَۃُ کُلُّہَا وَالْخَوَارِجُ فَکُلُّہُمْ یُنْکِرُہَا وَلَا یَحْمِلُ شَیْئًا مِّنْہَا عَلَی الْحَقِیقَۃِ وَیَزْعُمُونَ أَنَّ مَنْ أَقَرَّ بِہَا مُشَبِّہٌ وَّہُمْ عِنْدَ مَنْ أَثْبَتَہَا نَافُونَ لِلْمَعْبُودِ وَالْحَقُّ فِیمَا قَالَہُ الْقَائِلُونَ بِمَا نَطَقَ بِہٖ کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃُ رَسُولِہٖ وَہُمْ أَئِمَّۃُ الْجَمَاعَۃِ .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ قرآن و سنت میں وارد ہونے والی تمام صفات کا اثبات کیا جائے، ان پر ایمان لایا جائے، انہیں حقیقت پر محمول کیا جائے، نہ کہ مجاز پر۔ اہل سنت نہ تو ان صفات کی کیفیت بیان کرتے ہیں نہ کسی صفت کو محدود و محصور سمجھتے ہیں، جب کہ اہل بدعت، جہمیہ، معتزلہ اور خوارج سبھی ان صفات کا انکار کرتے ہیں، کسی صفت کو حقیقت پر محمول نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ جو ان صفات کا اقرار کرتے ہیں وہ مشبہ ہیں، اہل سنت کا یہ کہنا ہے کہ منکرین صفات اصل میں ذات باری تعالیٰ کے منکر ہیں۔ حق وہی ہے، جو کتاب و سنت کے قائلین یعنی ائمہ اہل سنت نے بیان کر دیا ہے۔”
(التمہید لما في المُوَطّأْ من المعاني والأسانید : ٧/١٤٤)
n نیز فرماتے ہیں:
رَوَاہَا السَّلَفُ وَسَکَتُوا عَنْہَا وَہُمْ کَانُوا أَعْمَقَ النَّاسِ عِلْمًا وَّأَوْسَعَہُمْ فَہْمًا وَّأَقَلَّہُمْ تَکَلُّفًا وَّلَمْ یَکُنْ سُکُوتُہُمْ عَنْ عِيٍّ فَمَنْ لَّمْ یَسَعْہُ مَا وَسِعَہُمْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ .
”احادیث ِصفات، سلف نے بیا ن کی ہیں اور بیان کیفیت سے خاموش رہے ہیں۔ سلف صالحین کا علم سب سے گہرا، فہم سب سے زیادہ وسیع تھا۔ ان میں تکلف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ان کا صفات باری تعالیٰ کی بابت سکوت لا علمی کی بنا پر ہر گز نہیں تھا۔ (سنیئے!) جو سلف کے علم پر اکتفاء نہیں کرتا وہ خساروں کا سوداگر اور ناکامِ زمانہ ہے۔”
(جامع بَیان العلم وفضلہ : ٢/٩٤٥)
n علامہ، مورخ دیار ِمصر، ابو العباس، احمد بن علی، مقریزی (٧٦٦۔٨٤٥ھ) صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں ائمہ کا موقف یوں بیان فرماتے ہیں :
ذِکْرُ الْحَالِ فِي عَقَائِدِ أَہْلِ الْـإِسْلَامِ، مُنْذُ ابْتِدَاءِ الْمِلَّۃِ الْـإِسْلاَمِیَّۃِ إِلٰی أَنِ انْتَشَرَ مَذْہَبُ الْـأَشْعَرِیَّۃِ .
”عقائد اہل ِاسلام ابتداء ِاسلام سے اشعری مذہب پھیلنے تک۔”
اِعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَمَّا بَعَثَ مِنَ الْعَرَبِ نَبِیَّہ، مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُولاً إِلَی النَّاسِ جَمِیعًا، وَصَفَ لَہُمْ رَبُّہُمْ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی، بِمَا وَصَفَ بِہٖ نَفْْسَہ، الْکَرِیمَۃَ فِي کِتَابِہِ الْعَزِیزِ الَّذِي نَزَّلَ بِہٖ عَلٰی قَلْبِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرُّوحُ الْـأَمِینُ وَبِمَا أَوْحٰی إِلَیْہِ رَبُّہ، تَعَالٰی، فَلَمْ یَسْأَلْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ بِأَسْرِہِمْ، قَرَوِیہِمْ وَبَدَوِیہِمْ عَنْ مَّعْنٰی شَيْءٍ مِّنْ ذٰلِکَ کَمَا کَانُوا یَسْئَلُونَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرِ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصِّیَامِ وَالْحَجِّ وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّا لِلّٰہِ فِیہِ سُبْحَانَہ، أَمْرٌ وَّنَہْيٌ، وَکَمَا سَأَلُوہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْ أَحْوَالِ الْقِیَامَۃِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ إِذْ لَوْ سَأَلَہ، إِنْسَانٌ مِّنْہُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنَ الصِّفَاتِ الْـإِلٰہِیَّۃِ لَنُقِلَ کَمَا نُقِلَتِ الْـأَحَادِیثُ الْوَارِدَۃُ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي أَحْکَامِ الْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ، وَفِي التَّرْغِیبِ وَالتَّرْہِیبِ، وَأَحْوَالِ الْقِیَامَۃِ وَالْمَلاَحِمِ وَالْفِتَنِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ مِمَّا تَضَمَّنَتْہُ کُتُبُ الْحَدِیثِ، مَعَاجِمُہَا وَمَسَانِیدُہَا وَجَوَامِعُہَا وَمَنْ أَمْعَنَ النَّظَرَ فِي دَوَاوِینِ الْحَدِیثِ النَّبَوِيِّ، وَوَقَفَ عَلَی الْـآثَارِ السَّلَفِیَّۃِ، عَلِمَ أَنَّہ، لَمْ یَرِدْ قَطُّ مِنْ طِرِیقٍ صَحِیحٍ وَّلَا سَقِیمٍ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَعَلَی اخْتِلاَفِ طَبَقَاتِہِمْ وَکَثْرَۃِ عَدَدِہِمْ، أَنَّہ، سَأَلَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ مَّعْنٰی شَيْءٍ مِمَّا وَصَفَ الرَّبُّ، سُبْحَانَہ، بِہٖ نَفْسَہُ الْکَرِیمَۃَ فِي الْقُرْآنِ الْکَرِیمِ، وَعَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، بَلْ کَلُّہُمْ فَہِمُوا مَعْنٰی ذٰلِکَ وَسَکَتُوا عَنِ الْکَلاَمِ فِي الصِّفَاتِ نَعَمْ وَلَا فَرَّقَ أَحَدٌ مِّنْہُمْ بَّیْنَ کَوْنِہَا صِفَۃَ ذَاتٍ أَوْ صِفَۃَ فِعْلٍ، وَإِنَّمَا أَثْبَتُوا لَہ، تَعَالٰی صِفَاتٍ أَزَلِیَّۃً مِّنَ الْعِلْمِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْحَیَاۃِ وَالْـإِرَادَۃِ وَالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ وَالْکَلاَمِ وَالْجَلاَلِ وَالْـإِکْرَامِ وَالْجُودِ وَالْـإِنْعَامِ وَالْعِزِّ وَالْعَظَمَۃِ، وَسَاقُوا الْکَلاَمَ سَوْقًا وَّاحِدًا وَہٰکَذَا أَثْبَتُوا رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَا أَطْلَقَہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہ، عَلٰی نَفْسِہِ الْکَرِیمَۃِ مِنَ الْوَجْہِ وَالْیَدِ وَنَحْوِ ذٰلِکَ، مَعَ نَفْيِ مُمَاثَلَۃِ الْمَخْلُوقِینَ فَأَثْبَتُوا رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِّلَا تَشِْبیہٍ، وَنَزَّہُوا مِنْ غَیْرِ تَعْطِیلٍ، وَلَمْ یَتَعَرَّضْ مَعَ ذٰلِکَ أَحَدٌ مِّنْہُمْ إِلٰی تَأْوِیلِ شَيْءٍ مِّنْ ہٰذَا، وَرَأَوْا بِأَجْمَعِہِمْ إِجْرَاءَ الصِّفَاتِ کَمَا وَرَدَتْ وَلَمْ یَکُنْ عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّا یُسْتَدَلُّ بِہٖ عَلٰی وَحْدَانِیَّۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَعَلٰی إِثْبَاتِ نُبُّوَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، سِوٰی کِتَابِ اللّٰہِ، وَلاَ عَرَفَ أَحَدٌ مِّنْہُمْ شَیْئًا مِّنَ الطُّرُقِ الْکَلاَمِیَّۃِ وَلَا مَسَائِلِ الْفَلْسَفَۃِ، فَمَضٰی عَصْرُ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ عَلٰی ہٰذَا إِلٰی أَنْ حَدَثَ فِي زَمَنِہِمُ الْقَوْلُ بِالْقَدَرِ، وَأَنَّ الْـأَمْرَ أَنَفَۃٌ، أَيْ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَمْ یُقَدِّرْ عَلٰی خَلْقِہٖ شَیْئًا مِمَّا ہَمَّ عَلَیْہِ .
”جب اللہ نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانیت کی طرف رسول بنا کر بھیجا، تو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی وہ صفات بیان کیں، جو صفات اللہ نے اپنے لئے قرآن حکیم، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پاک پر جبریل امین لے کر اترے، میں بیان کی ہیں، تو عرب بدویوں یا حضرویوں میں سے کسی نے بھی ان کے معنی کی بابت سوال نہیں کیا۔ ہاں! لوگ نماز، زکوۃ، حج، روزہ اور اسی طرح دیگر مسائل، جن میں اللہ کی طرف سے کوئی امر و نہی وارد ہے، کے متعلق سوال کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح قیامت، جنت اور جہنم کے بارے میںسوال کرتے رہتے تھے۔ (لیکن صفات کے متعلق کوئی سوال نہ کرتا)، کیوں کہ اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صفات الٰہیہ کے بارے میں سوال کرتا، تو وہ بھی اسی طرح منقول ہوتیں، جس طرح دوسری چیزیں منقول ہوئی ہیں، مثلا، حلال و حرام کے احکام، ترغیب و ترہیب، احوال ِقیامت، ملاحم و فتن اور اس طرح کی چیزیں جو کتب حدیث، جوامع، معاجم اور مسانید میں موجود ہیں۔ دواوین حدیث اور آثار ِسلف میں بنظر غور دیکھیں تو جان لیں گے کہ کسی صحیح یا ضعیف حدیث میں بھی اس کا معنی وارد نہیں ہوا۔ اتنے صحابہ موجود ہیں مگر ایک بھی نظر نہیں آتا، جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن و حدیث میں وارد صفات ِباری تعالیٰ کے معنی کے بارے میں سوال کیا ہو، بل کہ سبھی اس کا معنی جانتے تھے اور صفات باری تعالیٰ میں گفتگو نہیں کرتے تھے۔ جی ہاں، کسی ایک صحابی نے بھی صفات ذاتیہ اور صفات ِفعلیہ میں فرق نہیں کیا۔ انہوں نے اللہ کی صفات ِازلیہ مثلا : علم، قدرت، حیات، ارادہ، سمع و بصر، کلام، جلال، اکرام، جود، انعام، عزت اور عظمت۔ اس بارے میں سلف ایک ہی بات پر متفق ہیں۔ اسی طرح جن صفات کا اطلاق اللہ نے اپنے لئے کیاہے، اسلاف بھی ان چیزوں کا اطلاق اللہ کے لئے کرتے ہیں، مثلا : وجہ، ید وغیرہ، البتہ مماثلت کی نفی کرتے ہیں۔ ائمہ سلف صالحین بلا تشبیہ صفات ِباری تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں، بغیر تعطیل کے اللہ کی تنزیہ بیان کرتے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی ان کی تاویل نہیں کی۔ یہ اجماعی طور پر تمام صفات کو اسی طرح بیان کرتے ہیں، جس طرح وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کی وحدانیت اور نبوت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات کے لئے کتاب اللہ کے علاوہ کوئی ذریعہ استعمال نہیںکرتے۔ اہل کلام کے طریقوں اور فلسفیانہ مسائل سے نا واقف تھے، عصر صحابہ گزر گیا، تو ان کے بہت بعد تقدیر کے بارے میں سوالات اٹھائے جانے لگے، حالاں کہ سمجھ آنے والی بات تھی کہ اللہ نے اپنی تقدیر پر اپنے سوا کسی کو قدرت ہی نہیں دی۔”
(المواعظ والاعتبار بذکر الخِطَط والأثار : ٤/١٨٨)
 
Top