صفت کے ذریعے تخصیص:
صفت سے مراد صفت معنوی ہے، علم نحو میں معروف نعت (موصوف والی صفت) نہیں ہے، لہٰذا یہ صفت حال، ظرف، تمییز وغیرہ کو شامل ہوتی ہے۔
صفت کے ذریعے تخصیص میں اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ صفت اپنےماقبل موصوف کی تخصیص کرتی ہے اور بسا اوقات صفت موصوف سے پہلے بھی آجاتی ہے جیسا کہ اس وقت ہوتا ہے جب صفت کو موصوف کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔
صفت کے ذریعے تخصیص کرنے کی صورت یہ ہے کہ یہ حکم کو صرف اسی چیز پر مقصور کردیتی ہے جس پر صادق آتی ہے اور جب اس کا مفہوم معتبر ہوتو وہ حکم کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔
1۔ مثلاً: ”اقرأ الكتب النافعة في البيت“ گھر میں بیٹھ کر مفید کتابیں پڑھو۔
تو آپ کا اپنے دوست سے کہنا کہ: ”کتاب پڑھو“ ہر کتاب کے بارے میں عام ہے لیکن یہاں پر مفید کا وصف پڑھنے کے حکم کو صرف مفید کتابیں پڑھنے کے حکم پر مقصور کررہاہے اور باقیوں کو اس حکم سے نکال رہا ہے۔
2۔ اسی طرح ”کتاب پڑھو“ تو یہ حکم ہر جگہ کے بارے میں عام ہے کہ کہیں پر بھی جاکر پڑھ لو ، لیکن آپ کا یہ کہنا کہ ”گھر میں بیٹھ کر“ یہ باقی جگہوں کے علاوہ صرف گھر میں پڑھنے پر حکم کو محصور کرر ہا ہے۔
3۔ آپ کا یہ کہنا: «إذا حضرت مبكرًا أدركت الدرس الأول» جب آپ صبح سویرے حاضر ہوں گے تو پہلے سبق کو پالیں گے۔
تو یہاں پر حاضر ہونا تمام اوقات کے لیے عام ہے لیکن ” مبكرًا “ نے اس کی تخصیص کردی ہے۔
صفت کے ذریعے تخصیص کی مثالوں میں سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿ وَمَن لَّمْ يسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن ينكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيمَانُكُم مِّن فَتَياتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ [النساء:25] اور تم میں سے جو آزاد مؤمنہ عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھے تو وہ مؤمنہ لونڈیوں سے ،جن کے تم مالک ہو، اپنا نکاح کرلے۔
تو یہاں پر لفظ «فتياتكم» عام ہے جس کی تخصیص ” المؤمنات “ کے وصف سے کی گئی ہے۔
صفت کے ذریعے تخصیص کرنے کی شرط یہ ہے کہ صفت موصوف سے لفظاً ملی ہوئی ہو جیسا کہ شرط اور استثناء میں بھی یہ بات گزری ہے۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر