• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صیغہ تمریض سے کیا مراد ہے ؟

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
آج ایک علمی موضوع یہاں سے ملا - سوچا کہ اس کو یہاں پر پیش کیا جایے اور اس پر مزید اگر سوالات آتے ہیں تو پوچھے جائیں - امید ہے کہ اس کو شروع سے آخر تک پورا پڑھا جایے گا -


صیغہ تمریض سے کیا مراد ہے ؟


یہ تحقیق أحمد بن محمد بن خليل العماني کی ہے جو ملتقی اہل الحدیث سے لی گئی ہے




یہاں اس کے چیدہ نکات اور اختصار پیش خدمت ہے

صيغة التمريض سے مراد (رُوِيَ ) ، ( يُروى ) ، ( ذُكِر ) ، (بلغنا) ، ( ورد) ،( جاء) ، (نقل) وغیرہ کے الفاظ ہیں

صيغة تمريض متقدمين کے نزدیک استنباط احکام میں استمعال ہوتا ہے اور اس سے مراد صحیح حدیث بھی ہو سکتی ہے

مثلا امام الشافعی کتاب الام میں کہتے ہیں

وكل سهو في الصلاة نقصا كان، أو زيادة سهوًا واحدًا كان أم اثنين أم ثلاثة فسجدتا السهو تجزئ من ذلك كله قبل السلام وفيهما تشهد وسلام وقد روي عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : (( أنه قام من اثنتين فسجد قبل السلام )) وهذا نقصان


اور ہر سہو نماز میں نقص پر ہے … اور بلاشبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہوئے پس سلام سے پہلے سجدہ کیا اور یہ نماز میں نقص تھا


یہاں امام الشافعی نے قد روی کے الفاظ سے صيغة تمريض استمعال کیا ہے

اسی طرح کتاب الام میں امام الشافعی کہتے ہیں

قال: وإذا كان غرمه على المرتهن فهو من المرتهن لا من الراهن وهذا القول خلاف ما رُوي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم


اس قول کے خلاف نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے


یہاں بھی روی روایت کیا جاتا ہے

کتاب الام میں کہتے ہیں

وقد رُوِيَ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : (( لأقضين بينكما بكتاب الله عز وجل )) ثم قضى بالنفي والجلد على البكر والنفي


اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ اپ نے فرمایا میں تمھارے درمیان کتاب الله سے فیصلہ کروں گا


یہ روایت صحیح بخاری و مسلم میں امام الشافعی کے نزدیک بھی ثابت ہیں لیکن انہوں نے صيغة تمريض استمعال کیا ہے

کتاب الام میں ہے

وظاهر القرآن يدل على أن كل ماء طاهر ، ماء بحر وغيره ، وقد روي فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث يوافق ظاهر القرآن في إسناده من لا أعرفه

کتاب الام ” ( 6 / 157 ) :” فلما رُوي أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كان يعلمهم التشهد في الصلاة ، ورُوي أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – علمهم كيف يصلون عليه في الصلاة لم يجز والله تعالى أعلم أن نقول: التشهد واجب والصلاة على النبي – صلى الله عليه وسلم – غير واجبة …” اهـ .


پس جب روایت کیا گیا ہے …

اور یہ روایت صحیح بخاری کی ہے

کتاب الام میں ہے

وقد بلغنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لمعاذ حين بعثه إلى اليمن مصدقًا : (( إياكم وكرائم أموالهم )) وفي كل هذا دلالة على أن لا يؤخذ خيار المال في الصدقة


اور ہم تک پہنچا ہے

یہ روایت صحیح بخاری و مسلم کی ہے

امام ترمذی کہتے ہیں

وقد رُوِيَ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه : « قرأ في الظهر قدر تنزيل السجدة


یہاں بھی تمریض ہے جبکہ یہ روایت صحیح مسلم ٤٥٢ رقم کی ہے

حزرنا قيامه في الركعتين الأوليين من الظهر قدر قراءة الم تنزيل السجدة


اسی طرح امام ترمذی صيغة تمريض میں ذکر کرتے ہیں

حديث أم الفضل في القراءة بالمرسلات في صلاة المغرب ( 308 ) : ” ورُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه : (( قرأ في المغرب بالطور )) ” اهـ .


جبکہ یہ حدیث صحیح ہے صحیح بخاری و مسلم کی ہے

مسند امام احمد میں امام احمد ایک روایت کو صيغة تمريض میں بیان کرتے ہیں پھر کہتے ہیں صحیح ہے

فقام رجل من أهل اليمن يقال له أبو شاه فقال يا رسول الله اكتبوا لي، فقال اكتبوا له .. ” الحديث . قال أبو عبد الرحمن ليس يُروى في كتابة الحديث شيء أصح من هذا الحديث؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمرهم، قال : ( اكتبوا لأبي شاه ) ما سمع النبي صلى الله عليه وسلم خطبته


پس اہل یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جس کو ابو شاہ کہا جاتا تھا اس نے کہا اے رسول الله یہ میرے لئے لکھ دیں اپ نے حکم کیا اس کے لئے لکھ دو .. حدیث ابو عبد الرحمن نے کہا لیس یروی …. (یروی
صيغة تمريض ہے) اس سے زیادہ صحیح حدیث کتاب میں نہیں

المسند احمد میں ہے ( 30 / 416 ) برقم ( 18470 ) : ” عن البراء بن عازب : ” أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقنت في صلاة الصبح والمغرب ” ، قال أبو عبد الرحمن : ليس يُروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قنت في المغرب إلا في هذا الحديث

ابو عبد الرحمان نے یروی بول کر صيغة تمريض میں کہا مغرب کی نماز میں قنوت پر صرف یہی روایت ہے

اور یہ قنوت کی روایت صحیح مسلم کی ہے – یعنی صحیح روایت کو صيغة تمريض میں بیان کیا گیا ہے

کتاب اصول السنہ میں امام احمد کہتے ہیں

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما رُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم من الأحاديث الصحاح


اور روز محشر رویت الباری پر ایمان لاو (
صيغة تمريض كما روي) جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں آیا ہے

مسند احمد میں ایک روایت کو امام احمد رد کرتے ہیں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی زینب رضی الله عنہا کے نکاح کے حوالے سے ہے اس پر کہتے ہیں

والحديث الصحيح الذي رُوي أن النبي صلى الله عليه وسلم أقرهما على النكاح الأول


اور صحیح حدیث میں ہے (
صيغة تمريض روي) روایت کیا جاتا ہے نبی سے کہ انہوں نے نکاح اول باقی رکھا

یعنی صحیح روایت کو بھی محدثین صيغة تمريض میں بیان کرتے تھے اور

جب ضعیف کو بیان کرتے تو اس کی نشاندھی کر دیتے

بخاری کی معلق روایات پر ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں

والحق أن هذه الصيغة لا تختص بالضعيف، بل قد تستعمل في الصحيح أيضًا ، بخلاف صيغة الجزم فإنها لا تستعمل إلا في الصحيح


اور حق یہ ہے کہ یہ
صيغة ضعیف کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ صحیح کے لئے بھی استمعال ہوتا ہے بخلاف صيغة جزم کے جو صرف صحیح کے لئے استمعال ہوتا ہے

امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں

باب الجمع بين السورتين في الركعة .. ويُذكر عن عبد الله بن السائب : ( قرأ النبي صلى الله عليه وسلم المؤمنون في الصبح، حتى إذا جاء ذكر موسى، وهارون – أو ذكر عيسى – أخذته سعلة فركع


باب ایک رکعت میں سورتیں جمع کرنا اور (
صيغة تمريض يذكر) ذکر کیا جاتا ہے

اس روایت کی سند امام مسلم اور ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہے اور انہوں نے اس کو صحیح میں بیان کیا ہے

امام بخاری نے اس طرح ایک دوسرے مقام پر صيغة تمريض مين کہا ويُذكر عن أبي موسى

باب ذكر العشاء والعتمة .. ويُذكر عن أبي موسى، قال: «كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها


لیکن یہ روایت صحیح ہی میں ٨٩ ، ٢٤٦٨ رقم سے بیان بھی ہے

فتح الباری میں اس پر ابن حجر نے کہا

قوله ويذكر عن أبي موسى سيأتي موصولًا عند المصنف مطولا بعد باب واحد وكأنه لم يجزم به لأنه اختصر لفظه نبه على ذلك شيخنا الحافظ أبو الفضل .


اور ان کا قول ويذكر عن أبي موسى تو یہ موصول ہے مصنف کے نزدیک … اور یہاں جزم سے نہیں کہا کیونکہ انہوں نے اس کو مختصر کر دیا ہے


اسی طرح باب میں امام بخاری نے کہا

باب الرقى بفاتحة الكتاب ويُذكر عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم


یہاں بھی صيغة تمريض يذكر ہے

یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے لیکن باب میں اختصار کی بنا پر صیغہ تمرض ہے

ان امثال سے ظاہر ہے کہ متقدمین صيغة تمريض صحیح روایات پر بھی استمعال کرتے تھے

متقدمین جب صيغة تمريض استمعال کرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی مراد ضعیف روایت بھی ہوتی ہے لیکن وہ فورا اس کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا

ابو داود نے سنن ١٤٨٥ میں کہا

روي هذا الحديث من غير وجه عن محمد بن كعب كلها واهية، وهذا الطريق أمثلها وهو ضعيف أيضًا ”


اس طرح روایت کیا جاتا ہے محمد بن کعب سے جو تمام واہیات طرق ہیں اور یہ طرق ایسا ہی ہے اور یہ بھی ضعیف ہے


اور امام البخاري نے صحیح میں ( 1 / 169 ) کہا

ويُذكر عن أبي هريرة، رفعه « لا يتطوع الإمام في مكانه ولم يصح


اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا جاتا ہے … جو صحیح نہیں


صحیح میں امام بخاری نے کہا

ويُذكر عن ابن عباس: « أن جلساءه شركاء » ولم يصح


ایسا ابن عباس سے ذکر کیا جاتا ہے .. جو صحیح نہیں


یہاں محدثین نے صيغة تمريض استمعال کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے ضعف کا حوالہ دیا ہے اور اوپر کتاب الام کے حوالہ جات ہیں جن میں امام الشافعی نے

صحیح روایت کو بھی
صيغة تمريض میں بیان کیا ہے

النكت الوفية بما في شرح الألفية از البقاعی کے مطابق

قولهُ: (استعمالها في الضعيفِ أكثرُ) (5) وكذا تعبيرُ ابنِ الصلاحِ بقولهِ: ((لأنَّ مثلَ هذهِ العباراتِ تستعملُ في الحديثِ الضعيفِ أيضاً)) (6) يدفعُ الاعتراضَ بأنَّ البخاريَّ قد يخرجُ ما صحَّ بصيغةِ التمريضِ، كقولهِ في بابِ الرُّقَى بفاتحةِ الكتابِ: ((ويذكرُ عنِ ابنِ عباسٍ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -)) (7) في الرقى بفاتحةِ الكتابِ معَ أنَّهُ أسندَ


قول اس صیغہ کا استمعال اکثر ضعیف کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابن الصلاح کی تعبیر ہے قول سے کہ اس قسم کی عبارات کا استمعال حدیث میں ضعیف پر بھی ہوتا ہے یہ اس اعتراض کو دفع کرتا ہے کہ بےشک امام بخاری نے صحیح روایت کی تخریج کی ہے
صیغہ تمریض سے جیسا کہ باب فاتحہ سے دم کرنے میں ہے بذکر عن ابن عباس اور یہ ان کی کتاب میں سندا بھی ہے

کتاب النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق

كَذَلِكَ نَازع فِيهِ الشَّيْخ عَلَاء الدّين مغلطاي – رَحمَه الله تَعَالَى -[قَالَ] فَإنَّا نجد البُخَارِيّ فِي مواضيع يَأْتِي بِصِيغَة الْجَزْم وَهِي ضَعِيفَة من خَارج وَيَأْتِي بِصِيغَة التمريض وَهِي صَحِيحَة مخرجة فِي كِتَابه


اسی طرح نزاع کیا ہے مغلطاي نے الله رحم کرے کہا ہم صحیح بخاری میں پاتے ہیں بعض مقام پر کہ
صیغہ جزم ہے اور روایت صحیح سے باہر کی کتب میں ضعیف ہے اور صیغہ تمریض بخاری نے استمعال کیا ہے اور روایت صحیح ہے جو ان کی کتاب میں موجود نہیں ہے

متاخرین کے نزدیک تدریب الراوی از السيوطي کے مطابق صيغة تمريض ضعیف روایت کے صیغہ ادا کے حوالے سے استمعال ہوتا ہے

وإذا أردت رواية الضعيف بغير إسناد، فلا تقل: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كذا، وما أشبهه من صيغ الجزم) بأن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قاله، (بل قل: روي) عنه (كذا، أو بلغنا) عنه (كذا، أو ورد) عنه (، أو جاء) عنه كذا (، أو نقل) عنه كذا


جب کوئی ضعیف روایت بغیر اسناد نقل کرنا ہو تو بالجزم یوں نہیں کہنا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ ( یا فلاں نے ) یوں کہا ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ روایت کیا گیا یا ہمیں یہ بات پہنچی یا یوں وارد ہے یا ایسے نقل کیا جاتا ہے جیسے
صیغے استعمال کرنا لازم ہیں

(تدریب جلد اول ص۳۵۰ )

نووی مجموع میں کہتے ہیں

قال العلماء المحققون من أهل الحديث وغيرهم : إذا كان الحديث ضعيفاً لا يقال فيه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أو فعل أو أمر أو نهى أو حكم ، وما أشبه ذلك من صيغ الجزم ، وكذا لا يقال فيه رَوى أبو هريرة أو قال أو ذكر أو أخبر أو حدث أو نقل أو أفتى وما أشبهه ، وكذا لا يقال ذلك في التابعين ومن بعدهم فيما كان ضعيفاً فلا يقال في شيء من ذلك بصيغة الجزم .

وإنما يقال في هذا كله رُوِيَ عنه أو نُقل عنه أو حُكي عنه أو جاء عنه أو بلغنا عنه أو يقال أو يذكر أو يحكى أو يروى أو يرفع أو يعزى ، وما أشبه ذلك من صيغ التمريض وليست من صيغ الجزم . قالوا فصيغ الجزم موضوعة للصحيح أو الحسن ، وصيغ التمريض لما سواهما .

وذلك أن صيغة الجزم تقتضي صحته عن المضاف إليه ، فلا ينبغي أن يطلق إلا فيما صح وإلا فيكون الإنسان في معنى الكاذب عليه . وهذا الأدب أخل به المصنف ، وجماهير الفقهاء من أصحابنا وغيرهم ، بل جماهير أصحاب العلوم مطلقاً ما عدا حذاق المحدثين؛ وذلك تساهل قبيح، فإنهم يقولون كثيراً في الصحيح : رُوِيَ عنه ، وفي الضعيف : قال وروى فلان ، وهذا حيد عن الصواب ” اهـ .


اہل حدیث کے علماء محققین اور دیگر کہتے ہیں کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس میں نہیں کہا جاۓ گا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہا یا کیا یا امر دیا یا منع کیا یا حکم کیا اور اسی طرح کے
جزم کے صیغے- اور اسی طرح نہیں کہا جائے گا کہ ابو ہریرہ نے روایت کیا یا کہا یا ذکر کیا یا خبر دی یا روایت کیا یا نقل کیا یا فتوی دیا اور اسی طرح ، اور نہیں کہا جائے گا کہ تابعین اور ان کے بعد والوں نے ایسا کہا اس میں جو ضعیف روایت ہو پس اس میں کسی چیز پر جزم کا صیغہ نہیں کہا جائے گا اور یہ صیغہ ان تمام پر کہا جائے گا جو ان سے روایت کیا گیا یا نقل کیا گیا یا حکایات کیا گیا یا ان سے آیا یا ہم تک پہنچا ان سے یا کہا جاتا ہے یا ذکر کیا جاتا ہے یا حکایت کیا جاتا ہے یا روایت کیا جاتا ہے یا رفع کیا جاتا ہے اور اسی طرح اور جو صیغہ تمریض سے ہوں نہ کہ صیغہ جزم سے- کہتے ہیں صحیح اور حسن پر صیغہ جزم لگے اور ان سے سوا جو ہوں ان پر صیغہ تمریض اور یہ اس لیے کہ صیغہ جزم تقاضی کرتا ہے مضاف الیہ کی صحت ہو پس ہونا چاہیے کہ اس کا اطلاق سوائے اس کے جو صحیح ہو

یعنی متاخرین کے نزدیک صیغہ تمریض صرف ضعیف پر استمعال ہونا چاہیے

جبکہ جیسا تحقیق سے ثابت ہوا تین قرون میں اس کی مثال موجود ہے کہ

صحیح روایت کو بھی صیغہ تمریض میں بیان کیا جاتا تھا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اول صغیہ تمریض سے بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ روایت ضعیف ہے، اور نہ صیغہ جزم سے یہ لازم آتا ہے کہ روایت صحیح ہے۔
ہاں صاحب قول کے میلان کی طرف اشارہ ہوتا ہے! یا کہ صاحب قول کی نظر میں اس تک پہنچنے والی روایت ضعیف ہونے کی صورت میں وہ صیغہ تمریض استعمال کرتا ہے!
اور صاحب قول کسی روایت کو صحیح سمجھ رہا ہو، اور صيغہ جزم استعمال کرے لیکن تحقیق اس روایت کے ضعف پر دلالت کرے!
دوم کہ صاحب قول کے اسلوب اور کلام کی معرفت صاحب قول کے مؤقف کے سمجھنے کے لئے ضروری ہوتی ہے!
یعنی کہ صاحب قول کا صیغہ تمریض سے کسی روایت کو بیان کرنا، اس کے اسلوب اور انداز کلام و سیاق و سباق کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے، کہ یہاں صاحب قول نے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، یا صاحب قول نے اس سے احتجاجاً بیان بیان ہے!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
صاحب قول کا صیغہ تمریض سے کسی روایت کو بیان کرنا، اس کے اسلوب اور انداز کلام و سیاق و سباق کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے، کہ یہاں صاحب قول نے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، یا صاحب قول نے اس سے احتجاجاً بیان بیان ہے!
دوسری طرف یہی بھائی کہہ رہے ہیں کہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
علم الحدیث کے وہ وہ مطالب منظر پر آرہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے آج سے قبل محدثین خواہ متاخرین سے ہوں، یا متقدمین سے ان کو تو ان مطالب کی ہوا بھی نہ لگی!
غالباً علم الحدیث کی رفارمیشن کی مشق کی جا رہی ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان دو اقتباس میں تضاد کیا ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
1۔صیغہ مجہول ’ تمریض ‘ کے لیے بھی ہوتا ہے ، صرف ’ تمریض ‘ کے لیے ہی نہیں ہوتا ۔ بعض دفعہ اختصار وغیرہ کے لیے بھی صیغہ مجہول استعمال کیا جاتا ہے ۔
2۔ صیغہ جزم اور صیغہ تمریض یہ قرائن ہیں ، حدیث کی صحت و ضعف کے حتمی دلائل نہیں ، صحت و ضعف کی بنیاد تو سند کی صحت پر موقوف ہوتی ہے ۔ صیغے چھوڑیے محدثین تو مکمل سند دیکھ کر بھی بلا تحقیق اس پر کوئی حکم نہیں لگاتے ۔
3۔ یہ استعمالات اغلبی ہوتے ہیں ، ان سے مستثنیات بھی مل جاتے ہیں ، انہیں نقض قاعدہ کی بجائے اس نظر سے دیکھنا چاہیے ۔
یہ تحقیق أحمد بن محمد بن خليل العماني کی ہے جو ملتقی اہل الحدیث سے لی گئی ہے
صاحب مقالہ کی تحقیق میں ہی نقص تھا کہ وہ کئی اہم اقوال پر مطلع نہیں ہوسکے ، انہیں ابن الصلاح سے پہلے کوئی قول نہیں ملا ، حالانکہ صیغ میں فرق والی بات ان سے پہلے بیہقی ، ان سے پہلے ابن المنذر ان سے پہلے امام مسلم بلکہ شافعی وغیرہ سے بھی منقول ہے ( جیساکہ ملتقی پر اس موضوع کے نیچے دیگر اہل علم نے استدراکات پیش کیے ہیں ) ۔
اس ناقص مقالہ کا اختصار کرکے آپ نے اس میں مزید نقص پیدا کردیا ہے ۔ :)
صرف ایک مثال پیش کرکے متقدمین و متاخرین کے درمیان فرق کی دیوار کھڑی کی جاسکتی ہے ؟!
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
1۔صیغہ مجہول ’ تمریض ‘ کے لیے بھی ہوتا ہے ، صرف ’ تمریض ‘ کے لیے ہی نہیں ہوتا ۔ بعض دفعہ اختصار وغیرہ کے لیے بھی صیغہ مجہول استعمال کیا جاتا ہے ۔
2۔ صیغہ جزم اور صیغہ تمریض یہ قرائن ہیں ، حدیث کی صحت و ضعف کے حتمی دلائل نہیں ، صحت و ضعف کی بنیاد تو سند کی صحت پر موقوف ہوتی ہے ۔ صیغے چھوڑیے محدثین تو مکمل سند دیکھ کر بھی بلا تحقیق اس پر کوئی حکم نہیں لگاتے ۔
3۔ یہ استعمالات اغلبی ہوتے ہیں ، ان سے مستثنیات بھی مل جاتے ہیں ، انہیں نقض قاعدہ کی بجائے اس نظر سے دیکھنا چاہیے ۔

صاحب مقالہ کی تحقیق میں ہی نقص تھا کہ وہ کئی اہم اقوال پر مطلع نہیں ہوسکے ، انہیں ابن الصلاح سے پہلے کوئی قول نہیں ملا ، حالانکہ صیغ میں فرق والی بات ان سے پہلے بیہقی ، ان سے پہلے ابن المنذر ان سے پہلے امام مسلم بلکہ شافعی وغیرہ سے بھی منقول ہے ( جیساکہ ملتقی پر اس موضوع کے نیچے دیگر اہل علم نے استدراکات پیش کیے ہیں ) ۔
اس ناقص مقالہ کا اختصار کرکے آپ نے اس میں مزید نقص پیدا کردیا ہے ۔ :)
صرف ایک مثال پیش کرکے متقدمین و متاخرین کے درمیان فرق کی دیوار کھڑی کی جاسکتی ہے ؟!
چلیں اور بھی پیش کر دیتے ہیں

ابن المنذر کے حوالے سے النووی نے کتاب تهذيب الأسماء واللغات میں دعوی کیا کہ

وله عادات جميلة فى كتابه الإشراف، أنه إن كان فى المسألة حديث صحيح، قال: ثبت عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كذا، أو صح عنه كذا، وإن كان فيها حديث ضعيف قال: روينا، أو يروى عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –


أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) کی اچھی عادتوں میں سے ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں حدیث صحیح ہو تو کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اس طرح یا صحیح ہے ان سے اس طرح اور اگر حدیث ضعیف ہو تو کہتے ہیں ہم سے روایت کیا گیا ہے یا نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے


جبکہ النووی کی بات صحیح نہیں ہے کتاب الإشراف على مذاهب العلماء میں ابن المنذر ایک مقام پر کہتے ہیں

روينا عن النبى – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن الاختصار في الصلاة. وكره ذلك ابن عباس، وعائشة، ومجاهد، والنخعى، وأبو مجلز، ومالك، والأوزاعى، وإسحاق، وأصحاب الرأي.


نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نماز میں اختصار سے منع کیا اور اس سے کراہت کی ابن عباس، وعائشة، ومجاهد، والنخعى، وأبو مجلز، ومالك، والأوزاعى، وإسحاق، وأصحاب الرأي نے


اس طرح کتاب میں کہا

روينا عن النبي- صلى الله عليه وسلم – أنه أمر بقتل الأسودين في الصلاة الحية والعقرب


نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ اپ نے نماز میں بچھو اور سانپ قتل کرنے کا حکم کیا


عصر کی نماز کے لئے ابن المنذر نے کہا

وقد روينا عن النبي- صلى الله عليه وسلم – أخباراً تدل على صحة هذا القول


اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے خبریں جو اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہیں


واختلفوا فيما يقرأ به في صلاة الجمعة، فكان الشافعي، وأبو ثور، يقولان بحديث: (ح 331) أبي هريرة رضي الله عنه أنه كان يقرأ سورة الجمعة، وإذا جاءك المنافقون، ويروى ذلك عن النبي – صلى الله عليه وسلم –


نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کی نماز میں سوره المنافقون پڑھتے تھے ایسا ان سے روایت کیا جاتا ہے


یہ حدیث صحیح ہے

ابن المنذر نے اپنی کتاب میں کہا

روي عن ابن عباس أن رسول الله- صلى الله عليه وسلم – جمع بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء في غير خوف ولا مطر، قيل لابن عباس: لم فعل ذلك، قال أراد أن لا يحرج أمته.


ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر عصر کو جمع کیا اور مغرب و عشاء کو جمع کیا بغیر خوف اور سفر اور بارش کے


لیکن یہ بھی کہا

ثبت عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه جمع بالمدينة بين الظهر والعصر وبين
المغرب والعشاء في غير خوف ولا سفر


اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یہ بغیر خوف اور سفر ہوا


یعنی ثابت اس وقت بولا جب تحقیق سے ایک بات صحیح ثابت ہو گئی

جبکہ صحیح مسلم میں ہے

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، كِلَاهُمَا عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ


یہ کام بغیر خوف اور بارش کیا گیا


معلوم ہوا کہ ابن المنذر کے نزدیک صحیح مسلم کی یہ حدیث ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اس میں بارش کا لفظ ہے

امام بیہقی نے بھی صیغہ تمریض میں روایت کو صحیح کہا ہے مثلا کتاب مختصر خلافيات البيهقي
از أحمد بن فَرح کے مطابق امام بیہقی سے علی رضی الله عنہ نے فاتحہ خلف الامام پر کہا چپ رہو اس پر بیہقی نے کہا

وَقد روينَا عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ ضد هَذَا، وَأما الْمَوْقُوف الَّذِي رُوِيَ عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَإِنَّمَا رُوِيَ بأسانيد واهية لَا يَصح شَيْء من ذَلِك فقد صَحَّ عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ ” أَنه كَانَ يَأْمر بِالْقِرَاءَةِ خلف الإِمَام


اور علی رضی الله سے اس کے بر خلاف روایت کیا گیا ہے …. انہوں نے امام کے پیچھے قرات کا حکم دیا


یعنی النووی کی بات مطلقا صحیح نہیں

یعنی متاخرین کے نزدیک صیغہ تمریض صرف ضعیف پر استمعال ہونا چاہیے

جبکہ جیسا تحقیق سے ثابت ہوا تین قرون میں اس کی مثال موجود ہے کہ صحیح روایت کو بھی صیغہ تمریض میں بیان کیا جاتا تھا
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وله عادات جميلة فى كتابه الإشراف، أنه إن كان فى المسألة حديث صحيح، قال: ثبت عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كذا، أو صح عنه كذا، وإن كان فيها حديث ضعيف قال: روينا، أو يروى عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –
أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) کی اچھی عادتوں میں سے ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں حدیث صحیح ہو تو کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اس طرح یا صحیح ہے ان سے اس طرح اور اگر حدیث ضعیف ہو تو کہتے ہیں ہم سے روایت کیا گیا ہے یا نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے
یعنی النووی کی بات مطلقا صحیح نہیں
امام النووی رحمہ اللہ نے اسے قاعدہ کلیہ تو کہا ہی نہیں! تو پھر یہ مطلقا کا معاملہ کہاں سے آگیا؟
 
Top