• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضابطہ ثبوتِ قراء ات کا تفصیلی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ضابطہ ثبوتِ قراء ات کا تفصیلی جائزہ

ڈاکٹر عبد العزیز القاری
مترجم: محمد عمران اسلم​
مدینہ منورہ یونیورسٹی کے کلِّیۃ القرآن الکریم کے سابق پرنسپل ڈاکٹر عبدالعزیز القاری﷾ کی شخصیت کا یہ امتیاز ہے کہ موصوف کا قراء ات عشرہ کے ساتھ ساتھ اَصل ذوق فقہ و اُصول فقہ کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار مدینہ منورہ یونیورسٹی میں سرپرست ماہنامہ رشد مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾کے قریبی ترین ساتھیوں اور دوستوں میں ہوتا ہے۔ کلِّیۃ الشریعہ کے چار سالہ تعلیمی سفر میں دونوں جلیل القدر اصحاب ِعلم کے بیٹھنے کی نشستیں مسلسل ساتھ ساتھ رہیں۔ مولف کا زیر نظر مضمون سہ ماہی مجلہ کلّیۃ القرآن الکریم سے ماخوذ ہے۔ مقالہ کا تعلق حدیث سبعۃ أحرف اور اس کے متعلقات سے ہے، لیکن ہم نے اس کے موضوعات کے پیش نظر اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا تھا، جس میں سے دو حصوں کا ترجمہ پچھلے شمارہ میں اور ایک حصہ کا ترجمہ اس شمارے کے گزشتہ صفحات میں پیش کیا جاچکا ہے۔ مضمون ہذا اسی مقالہ کے آخری حصے کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔(اِدارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صدرِ اوّل کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کسی بھی حرف پر اس وقت تک قرآن مجید کا حکم نہیں لگایا جا سکتا جب تک کہ اس کا تواتر کے ساتھ منقول ہونا ثابت نہ ہوجائے۔یعنی اس کو اتنی بڑی جماعت نے روایت کیا ہو جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام﷢ نے مصاحف عثمانیہ میں صرف ایسی روایات کو جگہ دی جو مطلوبہ معیارپرپوری اترتی تھیں اور ان تمام روایات کو قابل اعتناء نہ سمجھا جو اَخبار آحاد تھیں، چاہے وہ عمر بن خطاب﷜ جیسے جلیل القدر صحابی سے ہی کیوں نہ مروی ہو، جیساکہ آیت رجم کامعاملہ ہے۔ حضرت عمر﷜ کے یہ کہنے کے باوجود کہ میں نے رسول اللہﷺسے اسے حفظ کیا ہے،اسے مصحف میں جگہ نہیں دی گئی۔(فتح الباري:۱۲؍۱۴۳)
مصاحفِ عثمانیہ میں صرف ان روایات کو نقل کیا گیا جن پر لوگ متفق تھے کہ عرضۂ اخیرہ میں رسول اللہﷺنے جبریل﷤پر پڑھااور اس کے بعد صحابہ کرام﷢کو پڑھایا ہے،لیکن جب حضرت ابوبکر، عمر بن خطاب اور حضرت عثمان ﷢کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں صحابہ کرام﷢جہاد کی غرض سے مختلف ممالک میں پھیل گئے تو اس کے ساتھ ایسے قرآنی حروف کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا چلا گیاجو عرضۂ اخیرہ سے پہلے مروّج تھے یا جن کو رسول اللہﷺنے خدا تعالیٰ کے حکم سے قرآن کا حصہ نہ بنایاتھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭صدرِ اوّل کے قراء کرام نے صحابہ کرام کے حفظ وذکاوت پر ہی اعتماد کیااور اسی طرح قراء ات سینہ بسینہ دیگر لوگوں تک منتقل ہوتی رہیں،لیکن جب یہ معاملہ عوام تک پہنچااور ان کے پاس باقاعدہ کوئی ایسا معیار نہ ہونے کی وجہ سے، کہ جس پر وہ اپنی قراء ات کو پرکھ لیں، شدید اختلاف کی صورت اختیار کر گیا تو حضرت عثمان﷜ نے حفاظ کرام سے حضرت ابوبکر﷜ کے مصحف کی روشنی میں مزید مصاحف تیار کروائے اور انہیں ایک معیار کے طور پر مقرر فرمادیا جن کی مدد سے ثابت اور منسوخ قرآن کے مابین تمیز کی جاتی تھی،لیکن کیونکہ مصاحف کواَحرف سبعہ کی وجہ سے نقط واِعراب سے خالی رکھا گیاتھا اس لیے عوام بذات خود اِن کے پڑھنے پر قادر نہ تھے، اور کسی استاد سے قرآنی حروف کو بالمشافہ پڑھنے کے محتاج تھے۔اسی غرض سے حضرت عثمان﷜ نے صحابہ میں سے آئمہ قراء ات کو مختلف شہروں کی جانب روانہ کیاچنانچہ :
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عبداللہ بن سائب مخزومی﷜ کو مکہ بھیجا گیا، جو یہاں ۷۰ھ تک پڑھاتے رہے۔
٭ مغیرہ بن شہاب﷜کو شام بھیجا گیا، جہاں وہ ۹۱ھ تک رہے۔
٭ جبکہ ابوالدرداء ﷜نے یہاں ۳۲ھ تک پڑھایا۔
٭ اور یہیں پر عبادہ بن صامت﷜اور معاذ بن جبل﷜نے بھی پڑھایا ۔
٭ حضرت عبدالرحمن السلمی﷜کو کوفہ روانہ کیا گیا، جو یہاں ۷۴ھ تک پڑھاتے رہے۔
٭ جبکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ﷜ بصرہ میں ۴۴ھ تک پڑھاتے رہے۔
٭حضرت عمر﷜نے بھی اپنے دورِ خلافت میں حضرت عبادہ﷜کو حمص، حضرت ابو الدرداء﷜کود مشق اور معاذ بن جبل﷜کو فلسطین روانہ کیاتھا۔
صحابہ وتابعین میں سے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جو قرآن کریم کی درس وتدریس میں مشغول رہے اور انہوں نے اپنی زندگیوں کو اِشاعت قرآن کے لیے وقف کر دیا۔پہلی صدی کے نصف اوّل تک لوگ اسی حالت پر قائم رہے پھراس کے بعد اِشاعت اسلام میں مزید اضافہ ہوا تو اس میں ہر جنس اور زبان سے متعلقہ لوگ داخل ہونے لگے۔ جس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں بھی بیش بہا اضافہ ہوتا چلا گیااور ایک ایک مجلس میں قرآن سیکھنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ دمشق میں حضرت ابو الدداء﷜کے حلقہ میں سولہ سو لوگ موجو دتھے۔(معرفۃ القراء للذہبی:ص۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحابہ کرام﷢اور تابعین عظام رحمہم اللہ بڑی جانفشانی کے ساتھ عوام تک قرآنی حروف کو منتقل کرتے رہے،لیکن جیسے جیسے قرآن کریم سیکھنے والوں کی تعداد میں اِضافہ ہو رہا تھا ویسے ویسے اس خدشے میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھاکہ کہیں ثابتہ وغیر ثابتہ، مشہور، مستفیض اور آحاد وشاذ قراء ات کو آپس میں خلط نہ کر دیا جائے۔ لہٰذا فن قراء ات کے ماہر اَفراد نے کچھ ایسے اُصول اور ضابطے مقرر کیے جن کی مدد سے قرآنی اور غیر قرآنی حروف کے مابین امتیاز کیا جا سکے۔ اس کے لیے تین قسم کے قواعد کا اِجراء کیا گیا:
(١) سند کا تواتر کے ساتھ رسول اللہﷺتک متصل ہونا۔
(٢) روایت کا مصحف عثمانیہ کی رسم کے موافق ہونا۔
(٣) لغت عرب کی کسی بھی وجہ سے موافقت۔
٭اس پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ کیا صرف مصحف عثمانیہ سے ہی مطابقت کافی نہ تھی، کیونکہ وہ ان تینوں شرائط کا حامل تھا۔
٭تو اس کا جواب یہ ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں بہت سی جگہوں پر مختلف وجوہ کا احتمال پایا جاتا ہے جن کی تحدید صرف روایت کے ساتھ ہوسکتی ہے اور صرف کتابت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ کلمہ’ ملک یوم الدین‘ دس وجوہ کو گھیرے ہوئے ہے اور اہل بدعت نے اس دروازے سے قرآن کریم میں ایسے حروف کا اِضافہ کیا جو ان کی خواہشات کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو سکتاتھا۔اگر معاملہ ضبط روایت کے بغیر ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا تو اس سے قرآن کریم میں بہت سے خلط اور اِضطراب کا امکان تھا۔جیسا کہ بعض قراء کا خیال ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں جتنی وجوہ کا بھی احتمال ہے اگروہ لغت عرب کے موافق ہوں تو ان کا پڑھنا جائز ہے اگرچہ وہ روایتاً ثابت نہ بھی ہوں۔ جیسا کہ حافظ محمد بن الحسن المشہور ابن مقسم رحمہ اللہ کا خیال ہے۔ قراء کرام نے اس قول کی شدت کے ساتھ نفی کی ہے اور بھرپور دلائل کے ساتھ اس کا محاکمہ کیا ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ نے ان تین شروط کو تین اشعار میں بیان کر دیا ہے، فرماتے ہیں:
فکل ما وافق وجہ نحو
وکان للرسم احتمالا یحوی

وصح إسنادا ہو القرآن
فہذہ الثلاثۃ الأرکان

وحیثما یختل رکن أثبت
شذوذہ لو أنہ فی السبعۃ​

’’ہر وہ قراء ت جو نحوی وجہ کے موافق ہو،ر سم کے (حقیقی یا) احتمالی طور پر موافق ہو جس کی سند صحیح ہو وہ قرآن ہے، یہی تین ارکان قراء ات ہیں۔ جس جگہ کسی بھی رکن میں خلل آگیا تو وہ قراء ات شاذہ قرار پائے گی، اگرچہ قراء ات سبعہ میں سے ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
٭ اب ہم ترتیب وار ان تینوں شروط کی تفصیل پیش کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تواتر اِسناد
تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم صرف اسی طرح پڑھا جائے گا جس طرح کہ رسول اللہﷺنے سکھلا دیا اور اس سے تجاوز کی کسی شخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔صحابہ کرام﷢نے بھرپور طریق سے اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ۔
٭ لہٰذا عمر بن خطاب﷜اور زید بن ثابت﷜فرماتے ہیں:
’’القراء ۃ سنۃ متبعۃ یأخذہا الآخر عن الأول‘‘
’’ قراء ۃ ایسی سنت ہے جس کی اتباع کی گئی ہے اور اسے بعد میں آنے والوں نے پہلوں سے اخذ کیا ہے۔‘‘
٭ اسی طرح عبداللہ بن مسعود ﷜ کا فرمان ہے:
’’اقرأوا کما علّمتم وإیاکم والتنطع‘‘
’’ جس طرح تم کو سکھایا گیا ہے، اسی طرح پڑھو اور غلو سے بچو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں پڑھا جس کی سند رسول اللہﷺتک نہ پہنچتی ہو اور ابن مقسم رحمہ اللہ کے علاوہ نہ ہی کسی نے ان میں استحسان یا قیاس کو داخل کیاہے اور انہوں نے بھی اپنے مؤقف سے رجوع کر لیا تھا۔ ویسے بھی ایک منفرد شخصکی رائے اجماع کو ختم نہیں کر سکتی۔
ایک راوی کے لیے قرآنی حروف کو روایت کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ راوی نے اس حرف کو اپنے شیخ سے سنا ہو اور بعض کا خیال ہے کہ اس نے اپنے شیخ کے سامنے پڑھا ہو اور شیخ نے سماعت کی ہو،کیونکہ ہر سننے والا اس بات پر قادر نہیں ہوتاکہ جس طرح اس نے سنا ہو ،ہو بہو اسی طرح بیان کر دے۔جنہوں نے روایت اور تلقی دونوں کو واجب قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ قراء ات کا فن ایک ایسا فن ہے جو نطق کی مختلف کیفیتوں کے ساتھ متعلق ہے۔اور تطبیق عملی اور سماع کے بغیر اس پر کامل عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا اور صرف کتابوں پر انحصار کافی نہیں ہے۔
پھر قرآنی حروف کا نقل ایک یا دو روایتوں میں کفایت نہیں کرے گا۔بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے جمہور قراء کے ہر طبقے میں نقل کیا گیا ہو اور یہ اس وقت تک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتاجب تک کہ اتنی بڑی جماعت سے نقل نہ کیا گیا ہو جن کا جھوٹ پر اتفاق کرنا محال ہو۔ علماء روایت کے ہاں تواتر کا معروف معنی یہی ہے۔
اگر کوئی شخص قراء ت نقل کرنے میں منفرد ہو اگرچہ وہ جھوٹ نہ بھی بول رہا ہو اور اس کی عدالت اور ثقاہت میں بھی کسی قسم کا شک نہ ہو تو بھی اس کا انفراد اور شذوذ اس کی قراء ۃ کو قبول کرنے سے مانع ہے۔ چاہے وہ قراء ۃ لغت عرب اور مصحف رسم کے موافق ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ یہ اِصطلاح نئی مقرر نہیں ہوئی،بلکہ اس پر صدر اوّل کے علماء اُمت اصحاب رسول اللہﷺکااتفاق ہے اور موجودہ دور کے محققین اور متقنین بھی اس پرمتفق ہیں۔تواتر کے معنی اور اس کی حقیقت کی وضاحت عنقریب ہم تواتر قراء ات عشرہ کے ذیل میں کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عثمانی کے رسم کی موافقت
٭مصحف عثمانی کی کتابت کے بعد اس شرط پر صدر اوّل کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام﷢کے پاس صحف قرآن کی صورت میں جو کچھ بھی لکھا ہوا تھا وہ حضرت عثمان﷜کے سپرد کر دیا گیا۔ حضرت عثمان﷜نے ایک مصحف کی تدوین کے بعد باقیوں کو پانی کے ساتھ غسل دیا اور اس کے بعد جلا دیا۔پس پوری اُمت مصحف عثمانی کے پڑھنے اور پڑھانے پر جمع ہوگئی۔
٭تمام لوگوں کااس پر بھی اتفاق ہے کہ جو کچھ مصحف عثمانی میں درج ہے وہ بغیر کسی نقص وزیادت کے قرآن ہے اور جو کچھ اس میں درج نہیں کیا گیا وہ یا تورسول اللہﷺکے حکم سے منسوخ کر دیا گیا، کیونکہ آپ نے اسے عرضۂ اخیرہ میں ترک کر دیا تھا یا پھر وہ حقیقتاً نازل ہی نہیں ہوا تھابلکہ تفسیر اور شرح کے طور پر لکھا گیا تھا۔
٭حضرت عثمان﷜نے ایک حرف میں متعدد وجوہ کا احتمال ہونے کی صورت میں انہیں مصحف میں ایک ہی جگہ جمع کر دیا، لیکن چونکہ تمام وجوہ لکھنے کی صورت میں لوگوں کے توہم کے شکار ہونے کا قوی اندیشہ تھا لہٰذا جن حروف میں متعدد وجوہ کا احتمال تھا ان کی کتابت میں ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ تمام وجوہ کو آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکے۔ اس لیے تمام حروف کو نقطوں سے پاک رکھا گیا۔ یاد رہے کہ جس جگہ ممکن ہوسکا ایسا طریقہ اختیار کیا گیا، کیونکہ تمام جگہوں پر ایسا ممکن نہیں تھا۔٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثلاًانہوں نے ’ملک‘کو میم کے بعدبدون الف کے لکھا۔ اسی طرح ’غیبت‘ ’رسالت‘ اور’جملت‘ کو بھی بغیر الف کے ہی لکھاگیا،لیکن ان کی کتابت میں ایسی صورت اختیار کی گئی کہ ان کو الف اور بغیر الف دونوں طرح پڑھا جا سکے، کیونکہ اہل عرب نطق کے وقت الف کی موجودگی کا اندازہ کر لیتے ہیں، اگرچہ کتابت میں موجود نہ بھی ہو۔ حضرت عثمان﷜کے اختیار کردہ طریقہ کتابت میں ذکرکردہ کلمات کومنزل وجوہ کے ساتھ پڑھا جا سکتا تھا۔ جیسے ’مَلِکِ‘ اور ’مَالِکِ‘، ’غَیَابَتْ‘ اور ’غَیَابَات‘، ’رسَالَت‘ اور’رسَالَات‘، ’جِمٰلَت‘ اور ’جِمَالَات‘ ان سب کو مفرد اور جمع دونوں طرح پڑھنا ممکن تھا۔اور یہ تمام کی تمام قراء ات نازل کردہ ہیں۔
اور اسی طرح ’الصراط‘ ’صراط‘ اور’ مصیطر‘ ان سب کو ’صاد‘ کے ساتھ لکھا گیا۔ ان میں دو وجوہ کا احتمال موجود ہے: ’صاد‘ کے ساتھ پڑھیں یا’ سین‘ کے ساتھ ۔اور لغت عرب میں ’صاد‘ کی جگہ پر ’ سین‘ کے نطق کا احتمال موجود ہے۔ لیکن اگر کسی جگہ پر’ سین‘ لکھا ہوا تو اس کی جگہ پر ’صاد‘ نہیں پڑھا جائے گا کیونکہ اہل عرب کے ہاں اس کا عکس معروف نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پھر خط کے نقطوں اور شکل سے خالی ہونے کی وجہ سے بہت سے کلمات میں نازل کردہ متعدد وجوہ کو پڑھنے میں مدد ملی۔جیسا کہ کلمہ ’یرجعون ‘ کو بہت سی جگہوں میں ’تا‘ اور’یا‘ کے ساتھ پڑھنا ممکن ہے۔ اور’فیقتلون ویقتلون‘ میں پہلے فعل کو مجہول اور دوسرے کو معلوم یا اس کے برعکس پڑھا جا سکتاہے۔
٭ صحابہ﷢کی اقتداء کرتے ہوئے ان کے بعد آنے والے تمام علماء متفق ہیں کہ قرآن کی قراء ت کا انحصار مصحف عثمانی پر ہے۔ جو قراء ت مصحف عثمانی میں درج ہوگی صرف اسی کو پڑھا جائے گا اور جو قراء ت مصحف عثمانی کی کسی بھی وجہ سے موافقت نہ رکھتی ہوگی اس کو بطور قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا صحیح سند کے ساتھ نبی ﷺ کے سے ثبوت بھی ہو۔ تمام اصحاب رسولﷺکا اجماع ہے کہ تمام احرف منسوخہ کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہﷺنے عرضۂ اخیرہ میں ان کو نہیں پڑھا تھا۔
٭ اس میں کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے سوائے امام محمد بن شنبوذرحمہ اللہ کے۔ جو کہ چوتھی صدی ہجری کے بہت بڑے امام اور حافظ ہیں، وہ اس اجماع سے الگ ہوگئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ تمام حروف جو رسول اللہﷺسے صحیح سند کے ثابت ہیں ان کی تلاوت کی جائے گی اگرچہ وہ رسم عثمانی کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔لیکن علماء وفقہاء بغداد نے ان کا ایسا علمی محاکمہ کیا ہے کہ جو اپنی نوع میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
 
Top