• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طارق السویدان کون اور کیا ہے؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فضیلۃ الشیخ عبید بن سلیمان بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ​
سوال:
طارق السویدان کا رد کس طرح کیا جائے؟
جواب:
اولاً:
طارق السویدان کون ہے؟ اور طارق السویدان کیا ہے؟
پس جہاں تک سوال ہے کہ وہ کون ہے؟۔
تو وہ اہل کویت میں سے ایک شخص ہے ۔ جس کی بہت سے کتب اور بہت سی کیسٹیں ہیں۔ اور وہ شرعی علم کا حامل شخص نہیں ہے، اس کا تخصص کوئی اور علم ہے۔ اور آخری خبر اس سے متعلق جو مجھ تک پہنچی ہیں وہ یہ ہے کہ وہ اسسٹنٹ پروفیسر ہے شعبۂ ٹیکنالوجی یا ٹیکنیکل ایجوکیشن میں۔ اور یہی بات کافی ہے اس پر (دینی معاملے میں) اور جو کچھ وہ نقل یا بیان کرتا ہےعدم اعتماد کی ۔ کیونکہ ہر علم کے کچھ اصول اور قواعد ہوتے ہیں جس پر وہ قائم ہوتا ہے۔ اور ان اصولوں اور قواعد میں اس علم کے متخصص لوگوں کے علاوہ کوئی مہارت نہیں رکھتا۔ پس شرعی علم کے بھی اصول وقواعد ہیں، اور طارق السویدان ان میں ماہر نہیں۔
دوسری بات کا جواب کہ آخر وہ کیا ہے؟ تو وہ ایک اخوانی شخص ہے اور ان کے مشہور قاعدے پر چلتا ہے جو انہوں نے رسالہ المنار سے ورثے میں پایا ہے ، تو یہ اولا ًالمنار والوں کا قاعدہ ہے بعد ازیں یہ اخوان المسلمین کا قاعدہ بن چکا ہے۔ قاعدۂ (المعذرة والتعاون) (معذرت وتعاون کا قاعدہ) جس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ :
"نتعاون فيما اتفقنا عليه، ويعذر بعضنا بعضا فيما اختلفنا فيه" (جس چیز میں ہمارا اتفاق ہے اس میں ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں اور جس میں اختلاف ہے تو اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھیں)۔
اس قاعدے کی وجہ سے اہل اسلام کو بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اخوان المسلمین کو اس برے قاعدے کی وجہ سے بڑے دینی خسارے سہنے پڑے،جیسا کہ ان کا در ہر گروہ کے لیے کھلا ہے خواہ وہ اسلام کی طرف منسوب گروہ ہو جیسے رافضہ جو کہ شیعہ کہلاتے ہیں یا پھر غیر مسلمین جیسے یہود ونصاری۔ اللہ کریم جو عرش عظیم کا رب ہے سے دعاء ہے کہ اسے جو ان میں سے نہیں تھا اسے بروزقیامت ہونے والے تصفیہ میں حق کی جانب ہدایت کی توفیق عنایت فرمائے۔
اور میرے پاس السویدان کی ایک کیسٹ ہے کہ جس میں ایک کانفرنس جو حسینیۃ میں منقعد ہوئی میں اس کی بھی شرکت وتقریر ہے۔ اور الحسینیات روافض کا گڑھ ، اور ان کے اجتماع وعبادت کا مرکز ہے۔ اس کیسٹ کے ذریعہ واضح طور پر اہل سنت ورافضہ میں قرب واتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اوراس میں کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں کیونکہ جب تک یہ شخص اس مندرجہ بالا قاعدے کی پیروی کررہا ہے تو اس سے پہلے بھی ایسی حرکتیں میں ملوث اس کے سلف گزر چکے ہیں ، اور وہ کیا ہی برے سلف اور کیا ہی برے نمونے تھے۔
سب سے پہلے جب یہ اخوان المسلمین جماعت بنی تھی۔ جسے ان کے قائد حسن البنا نے مصر میں قائم کیا تھا۔ میرے خیال سے عیسوی کیلنڈر کے مطابق بیسوی صدی کے نصف میں ، اور یہ ان کی تاریخ ہے ویسے ہم توعیسوی صدی کے حساب سے نہیں چلتے۔ بہرحال کس طور پر حسن البنا نے اس قافلے کو ظاہر کیا ، اور اس کی بنیاد رکھی اور دعاء کی؟۔۔
پہلے پہل انہوں نے مصر میں "دار التقريب بين السنة والشيعة" اہل سنت واہل تشیع کے درمیان قربت کے قیام کے لیے مرکز قائم کیا۔ اور اس کے بارے میں جو کلمات کہے ان میں سے یہ بھی تھے کہ: (اخوان المسلمین کے مراکز اور ان کے گھر اہل تشیع کےلیے کھلے ہیں) ([1])۔اور وہ رافضہ کی قدآور شخصیات کی مہمان نوازی کرتے رہے ہیں جیسے نواف صفوی کی۔ اور وہ ایام حج میں بھی ان کے جذبات کو اپنے حق میں نرم اور موم کرنے کے لیے ایسے مقولے کہا کرتا تھا جیسے: (ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی خاص اختلاف نہیں بلکہ ہمارے اور آپ کے درمیان تو معمولی سے مسائل ہیں جن کا حل ممکن ہے جیسے متعہ)۔
(میں یہ کہتا ہوں) پھر صحابہ کرام رض کو گالیاں دینا بلکہ سوائے تین یا سات یا دس کے سب کی تکفیر کرناکہاں گیا؟ اور ان کا قرآن کریم کی تحریف کا عقیدہ کہاں گیا؟ اور وہ ان کے ساتھ میل ملاپ کرتے رہیں گے جب تک ان کا مہدی منتظر ظاہر نہ ہوجائے۔ اور کہاں گیا ان کا ام المومنین عائشہ صدیقہ رض سید الخلقﷺ کی زوجہ محترمہ کے بارے میں بہتان؟ یہ تمام رافضہ کے اقوال وعقائد ہیں جن سے کہ حسن البنا تغافل برت رہا ہے اور انہیں کسی گنتی میں نہیں لاتا، کیونکہ وہ تو سب کو لگی لپٹی باتیں کرکے جمع کرنا چاہتا ہے۔
ثانیاً:
اس نے ایک مقولہ کہا جو کہ درحقیقت ایک کفریہ مقولہ ہے۔ لیکن میری نسبت سے یہ نقل نہ کیا جائے کہ میں البنا کی تکفیر کرتا ہوں، مگر بہرحال یہ مقالہ کفریہ ضرور ہے۔ کہتا ہے:
(ہمارے اور یہود کے درمیان کوئی دینی جھگڑا نہیں۔ بلکہ ہمارے اور ان کے درمیان اقتصادی جنگ ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں ان سے محبت اور مصافحہ کا حکم فرمایا ہے)
۔ اور اپنے قول کے لیے اس آیت سے استدلال کیا کہ:
﴿وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ﴾ (العنکبوت: 46) (اور اہل کتاب سے جدال نہ کرو مگر اس طریق سے جو احسن ہو)
اور یہ بات ان سے محمود عبدالحلیم نے روایت کی ہے اور اسے(محمود کو) خود انہوں (البنا) نے اپنی کتاب "الإخوان أحداث صنعت التاريخ" میں اپنے خواص میں سے ذکر کیا ہے۔
پھر اس کے بعد سے جو کوئی بھی اپنی دعوت میں البنا یا اخوان المسلمین کے منہج پر ہوتا ہے وہ اسی قاعدے پر ہوتا ہے۔ اس سے پھر دعوت آگے بڑھ کر وحدت ادیان اور بین المذاہب مکالمات (انٹر فیتھ ڈائیلاگ) تک جا پہنچتی ہے۔ آپ کسی بھی کٹر اخوانی کو نہیں پائیں گے مگر وہ یہی مذاہب کے درمیان قربت کی بات کررہا ہوگا۔ اور ان میں سے سب سے کٹر جسے ہم جانتے ہیں وہ حسن عبداللہ الترابی السوڈانی اور یوسف القرضاوی المصری ہیں۔ جو کچھ میں ان سے نقل کررہا ہوں میرے پاس اس بارے میں ثبوت وفائلیں موجود ہیں۔ وہ اس قاعدے کو سنہری قاعدہ کہتے ہیں۔ اور وحدت ادیان کی یہ علت بیان کرتے ہیں کہ زندگی ایک دین و تمدن سے زیادہ وسعت پذیر ہے،بلکہ خود ایک ہی دین میں ایک سے زیادہ نکتۂ نظر اپنانے کی وسعت ہے۔ یعنی دین ان کے نزدیک ایک چیونگ گم کی طرح ہے ۔ جس کا جس طرح دل چاہے کھینچ تان کر ان مختلف شاہراہوں پر گامزن رہے کہ جنہیں القرضاوی اور اس قبیل کے لوگوں نے ایجاد کیا ہیں۔ یہ وہ دین اسلام نہیں کہ جو انبیاء کرام علیہم السلام لے کر آئے تھے، جس کی تعریف یہ ہے کہ:
"الاستسلام لله بالتوحيد، والانقياد له بالطاعة، والبراءة من الشرك وأهله" (توحید کے ذریعہ اللہ تعالی کے لیے مکمل تابعداری، اطاعت کے ذریعہ اس کی مکمل فرمانبرداری، اور شرک اور مشرکین سے مکمل بیزاری)
ناکہ اسلام مجرد دعوت ہے لوگوں کو جمع کرنے اور گھیرنے کی کہ جو چاہے اس میں ضم ہوتاجائے۔لیکن القرضاوی کے نزدیک ایسا ہی ہے۔ پس اس قاعدے کے مطابق وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے ہیں رافضہ اور صوفیہ،اسی طرح سے باطنیہ، حلولیہ اورقبرپرست لوگ بھی مسلم برحق ہیں۔ کیونکہ وہ تمام اہل اسلام اور اہل سنت کے ساتھ کم از کم زبان سے لا الہ الا اللہ پڑھنے پر متفق ہیں۔ اور اس کے علاوہ دوسری باتوں میں اختلاف ہے۔ ان کے نزدیک سب نے اجتہاد کیا اور جہاں تک جس کا اجتہاد اسے لے گیا وہ وہاں چلا گیا۔
بتانے کا مقصود یہ ہے کہ طارق السویدان اسی قاعدے پر گامزن ہے۔ یہ اس کی دعوت کا عام مزاج ہے البتہ جہاں تک چیدہ چیدہ مسائل کا تعلق ہے تو ان میں سے بعض کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:
1- مشاجرات صحابہ کو نشر کرنا حالانکہ اسے ترک کردینے پر اجماع ہے۔ یہ حرام ہے جائز نہیں کہ جو مشجرات صحابہ کرام رض کے مابین ہوئے اسے نشر کیا جائے کیونکہ اس وجہ سے مسلمانوں میں فتنہ برپا ہوتا ہے اور صحابہ کرام رض پر ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں جن سے وہ بری ہوتے ہیں۔
2- اسی طرح سے وہ اپنے بیان کے لیے قصہ گو والا انداز اپناتا ہےاور یہ اسلوب کتاب وسنت پر مبنی نہیں۔
3- بلکہ یہ شخص اسی کیسٹ میں جس کا میں نے ابھی آپ کے سامنے ذکر کیا تقریب بین الادیان والمذاہب، وحدت صف اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے کی جانب دعوت دیتا ہے جب تک کہ ان کی دعوت اور ہدف ایک ہے۔ مثلا ًوہ کہتا ہے: (سیدنا ابوہریرہ﷜ کو کم از کم میرے سامنے گالی نہ دو، اگر دینی ہی ہے تو اپنے گھر میں دیتے رہو)۔ لہذا یہ اس کی طرف سے صحابہ رض کو سب وشتم کرنے کا اقرار اور اجازت دینا ہے۔ وہ محض اس وقت اسے منکر سمجھتا ہے جب وہ علانیہ ہو۔ کیونکہ اس سے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وحدت صف وہدف کے کاز کو گزندپہنچتی ہے۔ اور شاید کہ اس نے یہ انتخابات کے وقت کہا تھا۔
یہ درحقیقت ایک مختصر سی جھلک تھی کہ طارق السویدان کون ہے؟ اور کیا ہے؟ اور کس منہج پر گامزن ہے؟! امید ہے کہ اس کا رد کرنے کا سبب آپ کو معلوم ہوگیا ہوگااور پرانی کہاوت ہے کہ:
"إذا عُرف السبب بطل العجب" (اگر سبب معلوم ہوجائے تو تعجب جاتا رہتا ہے)۔
[1]
بالکل یہی بات شیخ ربیع المدخلی اپنی مشہور کتاب "منہج الانبیاء میں جماعت اسلامی کے متعلق فرماتے ہیں کہ: (۔۔۔علاوہ ازیں کن لوگوں کے ساتھ مل کر صالح امامت راشدہ قائم کریں گے حالانکہ حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت اور تنظیم کے دروازے ہر ایک کے لئے کھول رکھے ہیں۔ چناچہ ان کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے خواہ وہ غالی قبرپرست بریلوی ہویا رافضی، دیوبندی ہویا سلفی یعنی صحت مندوں کے ساتھ مریضوں کا اختلاط کیا جارہا ہے تو نتیجہ کیا نکلے گا وہی جو نکل رہا ہےکہ مرض بڑھ جائے گا اور اس کے جراثیم صحت مند افراد کو بھی پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، یا پھر کم از کم توحید وسنت کی دعوت اور شرک وبدعات کے خلاف جنگ سے ان کی زبانوں کو اور کتابت سے ان کے قلموں کو مفلوج کردیں گے۔یہ نتیجہ ہے ایسے اجتماع اور ایسے مناہج کا جو ان کے لئے مقرر کیا جاتا ہے)۔ اور اس کی ایک مثال بھی شیخ نے بیان فرمائی: (یہ بات جو ہم بتارہے ہیں اس جماعت کے تعلق سے مشہور ومعروف ہے اگر کوئی نہیں جانتا تو ہم ایک دلیل بطور مثال پیش کئے دیتے ہیں: پاکستانی روزنامہ اخبار "جنگ" بتاریخ 25 اپریل، 1984ع کوکراچی میں محمود الشام کا نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر غفور احمد سے لیا گیا انٹرویو شائع کیا، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:
’’ آپ کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے ہے جو مذہبی بنیادوں پر جماعت اسلامی سے تعارض کرتے ہیں؟ پروفیسر غفور احمد کہتے ہیں: یہ بات بالکل درست ہے کہ مذہبی جماعتیں بہت سے امور میں ہم سے تعارض برتتی ہیں بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ ہمیں مسلمان تک نہیں سمجھتیں، لیکن ان دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ دین کو اختلافات اور تفرقہ کا سبب نہ بنائیں۔ ہمارےموجودہ حالات تو ایسے ہیں کہ یہ اختلافات مساجد تک میں جنگ وجدل ومخاصمت تک پہنچ چکے ہیں محض عقیدے کی بنیاد پر، حالانکہ جہاں تک جماعت اسلامی کے عقیدے کا تعلق ہے تو اس میں ہر فرقے کے افراد موجود ہیں چاہے اہل حدیث ہوں یا دیوبندی، بریلوی ہوں یا شیعہ۔ خود میں بریلوی عقیدے سے تعلق رکھتا ہوں پر کسی شخص کا بریلوی ہونا اسے جماعت اسلامی میں شمولیت سے ہرگز بھی مانع نہیں۔‘‘
 
Top