• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طاغوت کا انکار کیسے کیاجائے؟

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
طاغوت کا انکار کیسے کیاجائے؟

طاغوت کے انکار کی پانچ صورتیں ہیں ۔
1۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ طاغوت کی عبادت باطل ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اﷲَ ھُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ھُوَ الْبَاطِلُ وَ اِنَّ اﷲَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ
اس لئے کہ اﷲ ہی حق ہے اور یہ لوگ جو اﷲ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ باطل ہے اﷲ ہی سب سے بلند اور بڑا ہے ۔(حج ۔62)

2۔ طاغوت کی عبادت چھوڑ دینا اور اس سے اجتناب کرنا ۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (النحل:36)۔
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (وہ ان سے کہے)اﷲ کی عبادت کرو طاغوت سے اجتناب کرو۔
فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور۔(الحج :62)
بتوں کی ناپاکی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔
طاغوت کی عبادت اور بتوں کی پرستش یہی ہے کہ انہیں طاقت کا مالک مانا جائے اور ان سے مدد مانگی جائے ان کے لئے نذر و نیاز دیئے جائیں ۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر256کی تفسیر میں کہا ہے کہ اہل جاہلیت کا شرک یہی تھا۔

طاغوت کو چھوڑ دینے کی تین اقسام ہیں ۔
1۔اعتقادی۔ 2۔قولی۔ 3۔فعلی ۔
جب تک کوئی مسلمان ان تینوں طریقوں سے طاغوت کو نہیں چھوڑے گا تووہ طاغوت کے چھوڑنے والوں میں شمار نہیں ہوگا اس لئے کہ منافقین کا وطیرہ یہ تھا کہ قولی اور فعلی طور پر طاغوت کوچھوڑ دیاتھا مگر اعتقادی طور پر نہیں چھوڑا تھا اسی طرح کچھ لوگ اعتقادی طور پر چھوڑ دیتے ہیں مگر قولی نہیں جس طرح کہ وہ لوگ جو غیر اﷲ کی قسمیں کھاتے ہیں۔
بعض لوگ اعتقاداً چھوڑ دیتے ہیں مگر فعلاً نہیں جیسے طاغوت کے سامنے سجدہ کرنے والے ان کے نام کی نذر نیاز دینے والے یا ان سے فیصلے کرانے والے یا ایسے لوگوں کے عقائد کو صحیح تسلیم کرنے والے بھی عملاً طاغوت کو چھوڑنے والوں میں شمار نہیں ہوں گے ۔لہٰذا جب تک ترک طاغوت کی مذکورہ تینوں صورتیں کسی میں موجود نہ ہوں اس وقت تک اسے تارک طاغوت نہیں سمجھا جائے گا۔
شیخ سلیمان بن عبداﷲرحمہ اللہ نے ﴿الم تر الی الذین یزعمون ........﴾آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان پر فرض ہے کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور قانون کے مطابق کئے گئے فیصلوں کو چھوڑ دے اور خود بھی کبھی قرآن و سنت کے علاوہ کسی اور قانون کے پاس اپنے مقدمات نہ لے جائے اگر کوئی شخص اﷲ و رسول کے قوانین کو چھوڑ کر دوسرے قوانین کی طرف اپنے معاملات لیجاتا ہے تو وہ مؤمن تو کیا مسلمان بھی نہیں ہے یہاں ایک بات بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ جہاں اﷲ نے ہمیں طاغوت کے انکار کا حکم دیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی ہے وہاں ہمیں یہ بھی حکم دیا گیاہے کہ ہم طاغوت کی طاغوطیت سے بھی خود کو بچائیں اور اﷲ کے حقوق میں سے کوئی اور حق اسے نہ دیں ۔ مثلاً اگر کوئی شے یا شخص اس وجہ سے طاغوت کہلاتا ہے کہ لوگ اس سے مرادیں مانگتے ہیں مصائب میں اس کے سامنے فریاد کرتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اس سے مرادیں نہ مانگیں تکالیف میں اسے نہ پکاریں اور اگر کوئی اس وجہ سے طاغوت کہلاتا ہے کہ اس کے مقربین و متوسلین اس کے نام پر ذبیحہ و قربانی کرتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کے نام پر ذبیحہ نہ کریں اس طرح کہ اگر کوئی اس بنا پر طاغوت ہے کہ لوگ اس کے پاس اپنے مقدمات اور فیصلے لیجاتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سے فیصلے نہ کرائیں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یہی وجہ ہے کہ کتاب اﷲ کے بغیر اگر کوئی حکمران یا قاضی فیصلہ کرتا ہے تو اسے طاغوت کہاجاتا ہے (مجموعۃ الفتاوی28/201)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ہر قوم کا طاغوت وہ ہے جس کے پاس وہ اپنے فیصلے لیجاتے ہیں (اور وہ اللہ ورسول کے احکام کے بغیر کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو)،(اعلام الموقعین 1/40)

3۔ طاغوت سے دشمنی ۔
اﷲ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قول بطور حکایت کے بیان کرکے فرمایا ہے:
قَالَ اَفَرَٲَیْتُمَ مَاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اَنْتُمْ وَ اٰبَاؤُکُمُ الْاَ قْدَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّلِّیْ اِلَّارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ (الشعراء :75تا78)
(ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے) کہا کہ مجھے بتاؤ (انکی حقیقت)جنکی تم عبادت کرتے ہو تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی یہ (تمہارے معبود) میرے دشمن ہیں سوائے رب العلمین کے ۔

4۔ طاغوت سے نفرت۔
اﷲ کا ارشاد ہے :
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَابِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ اَبَداً حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہُ (الممتحنہ :4)
تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کی سیرت بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم اور تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہیں جنہیں تم اﷲ کے علاوہ پکارتے ہو ہم تمہارے ان عقائد کاانکار کرتے ہیں اورہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور نفرت ظاہر ہوچکی جب تک کہ تم ایک اﷲ پر ایمان نہ لے آؤ۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (النحل:36)
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جو ان سے کہتا تھا)کہ اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں الدررالسنیۃ میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک شخص اﷲ کی عبادت کرتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اﷲ کے پسندیدہ اُمور کو پسند کرتا ہے مگر مشرکین کے عقائد کی وجہ سے ان سے نفرت نہیں کرتا ان سے دشمنی نہیں رکھتا تو یہ شخص خود کو طاغوت سے اجتناب کرنے والا نہ سمجھے اور جب کوئی شخص طاغوت سے نہیں بچتا وہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا لہٰذا کافر شمار ہوگا۔ اگرچہ سب سے زیادہ عبادت گذار ہو رات کو تہجد پڑھتا ہو دن کو روزے رکھتا ہو اسکی مثال ایسی ہے جیسا غسل جنابت کئے بغیر نماز پڑھ لی ہو یا سخت گرمی میں روزہ رکھ کر روزے کے دوران بدکاری کی ہو۔

5۔کافر سمجھنا۔
یعنی طاغوت اور طاغوت کی عبادت کرنے والے کو اور ہر اس شخص کو کافر سمجھنا جو کفریہ طریقے خود اختیار کرے یا دوسروں کو اسکی طرف دعوت دے ۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔اﷲ نے ابن آدم پر سب سے پہلا کام جو فرض کیا ہے وہ ہے طاغوت کا انکار اور اﷲ پر ایمان لانا جیسا کہ ارشاد ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (النحل:36)
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (جو ان سے کہتا تھا )اﷲ کی عبادت کرو طاغوت سے بچو۔
طاغوت کے انکار کا مقصد یہ ہے کہ انسان غیر اﷲ کی عبادت کو بالکل باطل سمجھے اسے چھوڑ دے اس سے نفرت کرے اور طاغوت کی عبادت کرنے والوں کو کافر سمجھے اور ان سے عداوت رکھے۔ اسی طرح یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلاسکتا جب تک کہ وہ طاغوت کاانکار نہ کرے اس لئے کہ اﷲ کا ارشاد ہے :
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنُ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی
جس نے طاغوت کاانکار کیا اور اﷲ پر ایمان لایا تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا(البقرہ۔256)۔(مجموعۃ التوحید ص 14-5)۔
نیز دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔میرے بھائیو تمہیں اﷲ کا واسطہ اپنے دین کی بنیاد کو تھام لو شروع سے آخر تک اور یہ بنیاد ہے لا الہ الا اﷲ ۔اس کا معنی و مطلب سمجھو اس سے محبت رکھو اس کے ماننے والوں سے محبت رکھو انہیں اپنا بھائی بناؤاگرچہ وہ تم سے دور ہی کیوں نہ ہوں طاغوت کاانکار کرو اس سے نفرت کرو طاغوت کے ماننے والوں سے نفرت کرو ان سے محبت کرنے والوں سے بھی نفرت کرو ان سے بھی نفرت کرو جو انکی حمایت کرتے ہیں یا ان کو کافر نہیں سمجھتے یا یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان کے کرتوتوں سے کیا واسطہ ؟یا یہ کہے کہ یہ میری ذمہ داری نہیں کہ میں طاغوت کے پیروکاروں سے دشمنی کروں۔ اگر کوئی ایسی بات کرتا ہے تو وہ اﷲ کی بات کو جھٹلاتا ہے بلکہ اﷲ پر جھوٹ باندھتا ہے اس لئے کہ اﷲ نے اس پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اس پر فرض کر دیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کرے اس سے اور اس کے ماننے والوں سے نفرت اور بیزاری و براء ت کا اعلان کرے اگرچہ وہ اس کے بھائی یا اولاد ہی کیوں نہ ہو۔لہٰذاان باتوں کو مضبوطی سے تھام لوتاکہ تم اﷲ کے پاس جب جاؤ تو مشرک بن کے نہ جاؤ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلام پر موت دے اور ہمیں صالحین کے ساتھ یکجا کردے۔(مجموعۃ التوحید۔ص1/141) ۔

اللہ تعالیٰ آئمہ دعوت النجدیہ رحمہم اللہ پر رحم فرمائے جنہوں نے ہم تک راسخ توحید پہنچائی ۔
 
Top