• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طاغوت کی تشریح

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

طاغوت کی تشریح


مصنف
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ


ترجمعہ
عبدالکبیر عبدالقوی مبارکپوری
طارق علی بروہی


نظر ثانی،تبویب و تصحیح
طارق علی بروہی
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مشہور رسالے "اصول الثلاثۃ"میں فرماتے ہیں:نوح سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی طرف ایک رسول بھیجا۔جو انہیں اللہ وحدہ کی عبادت کا حکم دیتے اور انہیں طاغوت کی عبادت سے روکتے تھے۔دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿36﴾
ترجمعہ: ور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورطاغوت سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا (سورہ النحل،آیت36)

اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے اوپر فرض کیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں۔ امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ(جس کی عبادت اتباع یا اطاعت کی جا رہی ہو اور اس کے تئیں بندہ اس کی حد سے تجاوز کر جائے تو وہ طاغوت ہے)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں ایک رسول بھیجاجو انہیں اللہ وحدہ کی دعوت دیتا اور انہیں شرک سے منع کرتا تھا۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًۭا وَنَذِيرًۭا ۚ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌۭ﴿24﴾
ترجمعہ: بے شک ہم نے آپ کو سچا دین دے کر خوشخبری اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں گزری مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزر چکا ہے (سورہ الفاطر،آیت24)
اور فرمایا:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿36﴾
ترجمعہ: ور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورطاغوت سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا (سورہ النحل،آیت36)

اور یہی (لا الہ الا للہ) کا مفہوم ہے ۔اس سے شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز کے بغیر توحید مکمل نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155


"طاغوت" طغیان سے ماخوذ ہے۔ حد پھلانگ جانے کو طغیان کہتے ہیں۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

(إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاء حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ) (الحآقۃ:۱۱)

(ہم نے جب کہ پانی حد کو پھلانگ گیا تو تم کوکشتی میں سوا ر کیا )

یعنی جب پانی طبعی حد سے زیادہ ہو گیا تو ہم نے تم لوگوں کو کشتی میں اٹھالیا۔

"طاغوت" کی سب سے درست اصطلاحی تعریف وہی ہے جو امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے۔ یعنی "ہر وہ شخص ہے جس کی عبادت یا اتباع یا اطاعت کی جارہی ہو اور اس کے تئیں بندہ اس کی حد سے تجاوز کر جائے تو وہ طاغوت ہے"۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ کی ایسے تینوں شخصوں سے مراد غیر صالح لوگ ہیں، ورنہ صالح لوگ طاغوت نہیں ہیں۔ چاہے وہ پوجے جا رہے ہوں ،یا ان کی اتباع اور اطاعت کی جا رہی ہو۔ لہٰذا وہ بت جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجے جا رہے ہوں طاغوت ہیں۔ علماء سوء جو کفر و ضلالت کی دعوت دے رہے ہوں، یا بدعت یا حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرنے کی دعوت دے رہے ہوں طاغوت ہیں۔ اور وہ لوگ بھی جو اپنے در آمد شدہ مخالفِ اسلام نظام کے ذریعہ حاکموں کے لئے شریعت اسلامی سے باہر ہو جانے کا جواز فراہم کرتے ہوں طاغوت ہیں۔ کیوں کہ یہ تمام لوگ اپنی حد سے آگے نکل گئے ہیں ۔ ایک عالم کی حد یہ ہے کہ وہ نبی ﷺ کے لائے ہوئے احکام کا متبع ہو۔ اس لئے کہ علماء ہی حقیقتاً انبیاء کے وارث ہیں ۔و ہ انبیاء سے علم ،اخلاق، دعوت اور تعلیم کی شکل میں وراثت پاتے ہیں۔ اگر وہ اس حد سے آگے نکل جائیں اور حکام کے لئے اس طرح کے نظاموں سے شریعت اسلام سے باہر ہو جانے کا جواز فراہم کرنے لگیں تو وہ طاغوت ہیں۔ کیوں کہ اتباعِ شریعت کی جس حد میں رہنا ان کے لئے واجب تھا وہ اس سے آگے نکل گئے ۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے(یا جس کی اطاعت کی جا رہی ہو) تو اس سے وہ ایسے حکام مراد لے رہے ہیں جن کی شرعی طور پر یا حیثیت اور مرتبہ کے لحاظ سے اطاعت کی جاتی ہے ۔حکام کی شرعی طور پر اس صورت میں اطاعت کی جائے گی جب کہ وہ ایسے امور کا حکم دیتے ہوں جو اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف نہ ہوں۔ ایسی صورت میں ان کو طاغوت کہنا صحیح نہیں ہوگا بلکہ رعایا پر سمع و طاعت واجب ہوگی، اور حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت ہوگی۔ اس لئے مناسب ہے کہ جب ہم حاکم اور والی کی طرف سے اپنے اوپر عائد کسی حکم کا نفاذ کریں تو یہ ملحوظ رکھیں کہ ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔ایسا خیال رکھنے سے یہ ہوگا کہ اس حکم کے لئے ہماری پابندی اللہ تعالیٰ کے تقریب کا ذریعہ بن جائے گی، ایسا خیال اس لئے رکھنا چاہئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ) (النساء:۵۹)

(اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی)

حیثیت کے لحاظ سے اطاعت یہ ہے کہ اگر حکام اور امراء اپنی حکومت میں طاقتور ہوں تو لوگ ایمانی جذے کے تحت نہیں تو قوتِ حکومت کی وجہ سے ہی ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ کیوں کہ اطاعتِ حکام ایمانی جذبے کے تحت بھی ہوجاتی ہے اور قوتِ حکومت کی وجہ سے بھی۔ ایمانی جذبے کے تحت ہو تو یہی اطاعت کار آمد ہے، حکام کے لئے بھی اور عوام کے لئے بھی۔ اور جو طاعت خوفِ حکومت کے تحت ہوتی ہے تو وہ اس وجہ سے کہ حکومت طاقتور ہے۔ لوگ اس سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ وہ اپنی مخالفت کرنے والوں کو سزائیں دیتی ہے۔

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں حکام کے ساتھ لوگوں کے کئی حالات ہیں:

اول
یہ کہ جذبہ ایمانی اور خوف سلطانی دونوں قوی ہوں۔ یہ سب سے مکمل اور عمدہ حالت ہے۔
دوم
یہ کہ جذبہ ایمانی اور خوف سلطانی دونوں ضعیف ہوں ۔معاشرے کے لئے یہ سب سے کمتر اور خطرناک حالت ہے ۔حکام کے لئے بھی رعایا کے لئے بھی۔ کیوں کہ جب جذبہ ایمانی اور خوفِ سلطانی دونوں کمزور ہوں گے تو فکری، اخلاقی اور عملی بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔
سوم
یہ کہ جذبہ ایمانی ضعیف اور خوف سلطانی قوی ہو۔ یہ درمیانی درجہ ہے۔ کیوں کہ جب خوف سلطانی قوی ہوگا تو ظاہر میں امت کے لئے بھلائی کا سبب ہوگا۔ اگر حکومت کا خوف بھی نہ رہ جائے تو نہ پوچھو کہ امت کی حالت اور اس کی بد عملی کا کیا حال ہوگا؟
چہارم
یہ کہ جذبہ ایمانی قوی ہو اور خوف سلطانی ضعیف ہو تو امت کا ظاہری حال تیسری حالت سے دگر گوں ہوگا۔ لیکن انسان اور اس کے رب کے درمیان حالات اچھے اور کامل ہوں گے۔
ایک اور مقام پر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی اس تعریف کہ "الطاغوت: ما تجاوزبہ العبد حدہ من متبوع، او معبود، او مطاع وھو راضیا بذلک" [طاغوت ہر وہ بندہ ہے جو اپنی حد سے بطور متبوع (جس کی اتباع کی جاتی ہے) یا معبود یا مطاع(جس کی اطاعت کی جاتی ہے) تجاوز کرجائے اور وہ اس سے راضی بھی ہو] کے تحت فرماتے ہیں: یا انہیں طاغوت ان کی عبادت یا اتباع یا اطاعت کرنے والوں کے لحاظ کہاگیا ہے بایں صورت کہ اگر وہ اس سے راضی نہ ہوں۔ کیونکہ اس عبادت یا اطاعت گزار نے حد سے تجاوز کیا کہ اسے اس کی حقیقی قدرومنزلت جو اللہ تعالی نے مقرر فرمائی ہے سے بڑھا دیا۔ لہذا اس کی اس معبود کی عبادت یا اس متبوع کی اتباع یا اس مطاع کی اطاعت طغیان ہے کہ جس کے ذریعہ وہ حد سے تجاوز کرگیا۔ ان کی مثالیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

متبوع کی مثال جیسے کاہن، جادوگر اور علماء سوء

معبود کی مثال جیسے بت اصنام

مطاع کی مثال جیسے ایسے حکام جو اطاعت الہی سے خارج ہیں اگر انسان انہیں ارباب من دون اللہ (اللہ کے علاوہ رب) بناتا ہے اس طور پر کہ وہ اللہ کی حرام کردہ کو محض ان کے حلال کرنے کی وجہ سے حلال کرتا ہے اور اللہ تعالی کی حلال کردہ کو محض ان کے حرام کرنے کی وجہ سے حرام کرتا ہے تو یہ طواغیت ہیں۔ یعنی فاعل طاغوت کے تابع ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

(أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوت) (النساء: 51)

(کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہیں کتاب میں سے کچھ حصہ دیا گیا پھر بھی وہ بتوں اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں)

یہ نہیں فرمایا کہ یہ خود طواغیت ہیں۔

(القول المفید علی کتاب التوحید ص 21 ط دار ابن الجوزی)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155


پھر شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: طواغیت (طاغوت کی جمع ہے) بہت ہیں جن میں سے بڑے بڑےپانچ یہ ہیں:


1- ابلیس(لعنۃ اللہ علیہ)


شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"ابلیس" وہ شیطان ہے جو راندہٴ درگاہ ہوا۔ جس پر لعنت کی گئی اور جس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

(وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ) (ص: ۷۸)

(بے شک تم پر قیامت کے روز تک میری لعنت ہے)

"ابلیس" فرشتوں کے ساتھ ان کی صحبت میں رہ کر انہیں کی طرح عمل کرتا تھا۔ جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو جو خباثت ،انکار اور غرور اس میں تھا ظاہر ہوگیا۔ چنانچہ اس نے انکار کر یا، تکبر کا شکار ہوا اور کافر بن گیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کر دیا گیا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

(وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ) (البقرۃ: ۳۴)

(اور جس وقت ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے لئے سجدہ میں گر جاؤ تو سب سجدہ میں گر گئے بجز ابلیس کے اس نے کہنا نہ مانا اور غرور میں آگیا ،اور کافروں میں سے ہوگیا)


2- وہ جس کی عبادت کی جاتی ہو اور وہ اس کو پسند کرتا ہو


شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جارہی ہو اور اسے پسند ہو کہ وہ اللہ کے علاوہ پوجا جائے، ایساشخص بھی(نعوذ باللہ) ایک بڑا طاغوت ہے۔ چاہے وہ اپنی زندگی میں پوجا جا رہا ہو یا اپنی موت کے بعد، اور وہ جب مرا تو وہ اس بات سے راضی تھا۔


3- وہ جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہو


شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی وہ جو دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہو اگرچہ لوگ اس کی عبادت نہ کرتے ہوں، تو وہ بھی سردارانِ طاغوت میں سے ہے۔ چاہے اس کی دعوت قبول کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔


4- وہ جو علم غیب کا ذرا سا بھی دعویٰ کرتا ہو


شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو چیز انسان کے علم و ادراک سے غائب اور اوجھل ہو وہ"غیب" ہے۔ غیب کی دو قسمیں ہیں:

حال اور مستقبل : "غیب حال" ایک نسبتی علم ہے، کسی کو معلوم ہوتا ہے کسی کو نہیں، اور غیب مستقبل حقیقی علم ہے جو اللہ وحدہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، لیکن ان رسولوں کو معلوم ہو جاتا ہے جنہیں کہ اللہ تعالیٰ اطلاع دے دیتا ہے۔ لہٰذا جو غیب مستقبل کے علم کا دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے۔ کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ) (النمل: 65)

(آپ کہہ دیجئے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کئے جائیں گے)

جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد ﷺ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرعام اس بات کا اعلان کر دیں کہ آسمان اور زمین میں رہنے والا کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب نہیں جانتا تو جو علمِ غیب کا دعوی کرے وہ اس قرآنی خبر میں اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلاتا ہے۔

ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم تو غیب جانو اور نبی ﷺ غیب نہ جانیں؟ کیا تم زیادہ شرف والے ہو یا رسول اللہ ﷺ؟ اگر کہتے ہیں کہ ہم رسول سے زیادہ شرف والے ہیں تو ایسے کفریہ قول کی وجہ سے وہ کافر ہیں۔ اور اگر کہتے ہیں کہ رسول زیادہ شرف والے ہیں، تو ہم کہیں گے کہ تب غیب ان سے کیوں پوشیدہ رہا اور تم اسے جان گئے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایاہے:

(عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا.إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنرَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا) (الجن: ۲۶-۲۷)

(غیب کا جاننے والا وہی ہے سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ ہاں مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو۔ تو اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے)


5- جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو


شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا توحید ربوبیت میں سے ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا نفاذ ہے جو اس کی ربوبیت ،اس کی مکمل ملکیت اور تصرف کا مقتضی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اتباع کرنے والوں کا رب کہا ہے، جن کی اتباع اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کے خلاف کی جاتی ہے۔ فرمایا:

(اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ) (التوبۃ: ۳۱)

(انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا رکھا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود ِحقیقی نہیں ،وہ ان کے شرک سے پاک ہے)

اللہ تعالیٰ نے متبوعین کو رب کا نام دیا کیوں کہ متبعین نے انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ قانون ساز بنا لیا تھا، اور متبعین کو پجاری کا نام دیا ہے کیوں کہ انہوں نے متبوعین کے سامنے ذلت کا اظہار کیا اور اللہ کے حکم کے خلاف ان کی اطاعت کی۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا:"حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تھی"۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا تھا:" کیوں نہیں، انہوں نے ان کے لئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا اور لوگوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی طرف سے ان کی عبادت تھی"(رواه الترمذي وحسنه، كتاب التفسير سورة التوبة، 5/262.)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155


جب یہ سمجھ گئے تو جان لو کہ جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ غیراللہ اور غیر رسول سے فیصلہ کرائے تو ایسے شخص کے سلسلے میں کئی آیات ہیں ،جو اس کے ایمان کی نفی کرتی ہیں۔ کئی اور آیات ہیں جو اس کے لئے کفر، ظلم اور فسق کو بھی ثابت کرتی ہیں۔

پہلی قسم کی آیت:

(أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا.فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَآؤُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا.أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلاً بَلِيغًا.وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا.فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا) (النساء: ۶۰-۶۵)


(کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا انکار کریں، اورشیطان تو یہ چاہتا ہے تمہیں بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے۔ ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ کلام کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رکے جاتے ہیں۔ پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آ کر اللہ تعالٰی کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالٰی پر بخوبی روشن ہے آپ ان سے چشم پوشی کیجئے، انہیں نصیحت کرتے رہئے اور انہیں وہ بات کہئے جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو۔ ہم نے ہر رسول کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالٰی سے استغفار کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالٰی کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ سو قسم ہے تیرے ر ب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں )

اللہ تعالیٰ نے مدعین ایمان کی جو کہ حقیقت میں منافق ہیں چند صفتیں بیان کی ہیں:

پہلی
یہ کہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ طاغوت سے فیصلہ کرائیں، اور طاغوتی فیصلہ ہر وہ فیصلہ ہے جو اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف ہو۔ یہی اس ذات کے حکم کے ساتھ طغیان اور سر کشی ہے جس کو کہ اختیارِ فیصلہ ہے اور جس کی طرف تمام معاملات لوٹیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

(أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ) (الاعراف: ۵۴)

(یاد رکھو اسی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔ بڑی خوبیوں سے بھرا ہے اللہ رب العالمین)

دوسری
یہ کہ ان کے اپنے کرتوت سے کوئی مصیبت ان پر آتی ہے۔ (ان کے کرتوت کا کھل جانا بھی ان کے لئے ایک مصیبت ہے)۔ تو قسمیں کھانے لگتے ہیں کہ انہوں نے اچھائی اور بھلائی ہی چاہی تھی۔ جیسے آج کچھ لوگ احکام اسلام کو چھوڑتے اور مخالفِ اسلام قوانین کو یہ کہہ کر اپناتے ہیں کہ یہی بھلائی اور زمانے کے حالات کے موافق ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ صفات کے حامل ایمان کے دعویٰ داروں کو خبردار کیا ہے کہ جو کچھ ان کے دل میں ہے اور جو کچھ وہ اپنے قول کے خلاف چھپا رہے ہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ انہیں سمجھائیں اور ان سے ان کے بارے میں کارگر بات کہیں۔ پھر بیان فرمایا ہے کہ رسولوں کے بھیجنے میں حکمت یہ ہے کہ انہیں کی اتباع اور انہیں کی اطاعت کی جائے، ان کے علاوہ کسی آدمی کی نہیں ۔ چاہے اس کی عقل و فکر کتنی ہی بلند اور اس کی معلومات کتنی ہی وسیع ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس ربوبیت کی قسم کھائی ہے، جو اس کے رسول کے تئیں ایک خاص قسم کی ربوبیت ہے اور جس میں آپ کی رسالت کی سچائی کی طرف اشارہ ہے ۔اس ربوبیت کی پختہ قسم کھائی گئی ہے کہ ایمان تین باتوں کے بغیر صحیح نہیں ہو سکتا۔

اول
ہر نزاع کا فیصلہ اللہ کے رسول کے یہاں ہو۔
دوم
دل اس فیصلے کو بخوشی قبول کریں اور اس سے طبیعت میں کوئی تنگی و ہچکچاہٹ نہ ہو۔
سوم
رسول جو فیصلہ فرمادیں اس کو کسی سستی اور بے رخی کے بغیر قبول کر کے نافذ کیا جائے اور سر تسلیم خم کر دیا جائے۔
دوسر قسم کی آیت:

(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) (المائدۃ: ۴۴)

(اور جو شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے موافق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ کافر ہیں)

اور فرمایا:

(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ) (المائدۃ:۴۵)

(اور جو شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے موافق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ ظالم ہیں)

اور فرمایا :

(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ) (المائدۃ: ۴۷)

(اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے موافق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ فاسق ہیں)

کیا یہ تینوں صفتیں ایک ہی موصوف کی ہیں؟ اس معنی میں کہ جو اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر، ظالم اور فاسق ہے؟ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے ظلم اور فسق دونوں صفتیں بیان کی ہیں۔ فرمایا:

(وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ) (البقرۃ: ۲۵۴)

(کافر لوگ ہی ظالم ہیں)

اور فرمایا:

(إِنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُواْ وَهُمْ فَاسِقُونَ) (التوبۃ: ۸۴)

(بے شک جنہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا اور مر گئے وہی فاسق ہیں)

لہٰذا کافر ظالم اور فاسق ہے۔ یا یہ کہ یہ اوصاف اللہ کے قوانین کے مطابق فیصلہ نہ کرنے پر ابھارنے والے جذبہ کے لحاظ سے دو موصوف کے ہوں۔ میرے نزدیک یہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155


ہم کہتے ہیں :جو شخص قوانینِ الہٰی کو بے قدر یا حقیر سمجھ کر یا یہ اعتقاد رکھ کر کہ دوسرے قوانین مخلوق کے حق میں زیادہ اصلاح کار، نفع بخش یا قوانین الہی جیسے ہی ہیں،ان کے ذریعہ فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر اور ملت سے خارج ہے۔ انہیں میں ان لوگوں کا بھی شمار ہے جو لوگوں کے لئے ایسے قوانین وضع کرتے ہیں جو شریعت اسلام کے مخالف ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ انہی کے وضع کردہ قوانین کو اختیار کریں۔ انہوں نے یہ مخالفِ اسلام قوانین اس اعتقاد کے ساتھ ہی تو بنائے ہیں کہ یہ مخلوق کے لئے زیادہ اصلاح کار اور زیادہ سود مند ہیں۔ کیوں کہ یہ بالکل کھلی ہوئی، معقول اور فطری بات ہے کہ انسان ایک راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ یہی سمجھ کر اپناتا ہے کہ دوسرا پہلے سے افضل ہے۔

اور جو قوانین الہٰی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام کی نا قدری بھی نہیں کرتا ،انہیں حقیر نہیں سمجھتا اور نہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ دوسرا قانون مخلوق کے لئے حکمِ الہٰی سے زیادہ اصلاح کار یا حکم الہٰی جیسا ہے ،بلکہ وہ قوانین الہٰی کے علاوہ کسی متبادل قانون کے مطابق فیصلہ صاحبِ معاملہ کے خوف یا رشوت وغیرہ دنیاوی فائدے کی غرض سے کرتا ہے تو وہ فاسق ہے، کافر نہیں ہے۔ اس کے فسق کے درجات فیصلہ اور وسائل فیصلہ کے پیش نظر مختلف ہوں گے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے سلسلے میں جنہوں نے احبار و رہبان کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب بنا لیا تھا۔ فرمایا ہے کہ وہ دو طرح کے تھے:

"ایک تو وہ جنہیں علم تھا کہ احبار اور رھبان نے اللہ کے دین کو بدل دیا ہے، پھر وہ تبدیلی کے باوجود ان کی اتباع کرتے تھے ۔اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ حرام حلال ہوگیا اور حلال حرام ہوگیا ہے۔ وہ اپنے سرداروں کی اتباع میں ایسا کرتے تھے، حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ انہوں نے رسولوں کے دین کی مخالفت کی ہے۔ پس یہ کفر ہے اور اس کو اللہ اور رسول نے شرک قرار دیا ہے۔

دوسرے وہ جن کا اعتقاد و ایمان حرام کو حلال کرنے اور حلال کو حرام کرنے کے سلسلے میں راست تھا۔ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں احبار و رہبان کی اطاعت کرتے تھے۔ جیسے کہ مسلمان نا فرمانیاں کرتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ نافرمانیاں ہیں۔ ایسے لوگ گنہگار ہیں"۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155


وہ مسائل جو عام تشریع سمجھے جاتے ہیں، اور وہ متعین مسئلہ جس میں قاضی بغیر قانونِ الہٰی کے فیصلہ کرتا ہے، دونوں میں فر ق ہے۔ کیوں کہ وہ مسائل جو عام تشریع ہیں ان پر مذکورہ تقسیم لاگو نہیں ہوتی، بلکہ وہ خالص پہلی قسم سے ہیں۔ کیوں کہ قانون ساز جس نے مخالفِ اسلام قانون بنایا ہے اس اعتقاد کے تحت بنایا ہے کہ وہ بندوں کے حق میں اسلام سے زیادہ اصلاح کرے گا اور اس سے زیادہ فائدہ پہنچائے گا ۔جیسا کہ اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے([1])۔

یہ مسئلہ یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کا مسئلہ ایک ایسا عظیم مسئلہ ہے جس کے ذریعہ آج کے حکام آزمائش میں مبتلا ہیں۔ لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ وہ ان کے پاس کسی ایسے معاملہ کا مقدمہ پیش کرنے میں جلد بازی نہ کرے جس کا انہیں حق نہ ہو یہاں تک کہ واضح ہو جائے کہ حق کیا ہے؟ کیوں کہ مسئلہ پر خطر ہے۔ (اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے ان کے حکام کی اصلاح فرمائے) ایسے ہی جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ ایسے حکام سے یہ مسئلہ بیان کر دیں تاکہ ان پر حجت قائم ہو جائے اور صحیح راستہ واضح ہو جائے۔ پھر جسے ہلاک ہونا ہے دلیل جان کر ہلاک ہو، جسے زندہ رہنا ہے دلیل جان کر زندہ رہے، اس کو بیان کرنے کے سلسلے میں ہر گز اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے اور نہ کسی سے ڈرے۔ عزت تو اللہ ،اس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے۔


پھر شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس (قانون الہٰی کے مطابق فیصلہ اور طاغوت کے انکار پر وجوب) کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

(لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ) (البقرۃ: ۲۵۶)

(دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ لہٰذا جو شخص طاغوت کا کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا)

اور یہی ‘‘لا الہ الا اللہ’’کا مفہوم ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دین کے دلائل واضح اور روشن ہو جانے کے بعد دین پر کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا ہے(قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ)(ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے) جب ہدایت اور گمراہی دونوں الگ الگ واضح ہوگئی ہیں تو ہر شخص چھان بین کی زحمت سے بچ گیا ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ وہ گمراہی کو چھوڑ کر ہدایت اختیار کرے۔

اور اللہ تعالیٰ نے "ایمان باللہ" سے پہلے"کفر بالطاغوت" کو بیان فرمایا ہے ۔کیوں کہ شے کا کمال یہ ہے کہ ثوابت کے وجود سے پہلے رکاوٹیں ہٹا دی جائیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے: "التخلیة قبل التحلیة" یعنی(صفائی آرائش سے پہلے)۔

"عروۃ الوثقی" کو مضبوطی سے تھامنے کا مطلب ہے کہ اس کو مکمل طور پر گرفت میں لے لیا۔ پائدار حلقہ اسلام میں غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (فَقَدِ اسْتَمْسَكَ) فرمایا: "تَمَسَّکَ" نہیں۔ کیوں کہ پہلے کا معنی دوسرے سے قوی ہے۔
(ماخوذ من شرح الاصول الثلاثۃ از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

[1] تشریع عام کےنفاذ پر تکفیر سلفی علماء کرام میں مختلف فیہ ہے البتہ راجح قول یہی تفصیل والا ہے جسے شیخ ابن باز والبانی رحمہمااللہ نے اختیار فرمایاتھا اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی اپنی وفات سے قبل تشریع عام پر مطلق تکفیر سے رجوع فرمالیا تھا چناچہ ڈاکٹر مرتضی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: بعض سلفی علماء کرام جیسے شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی یہ دلیل کہ جس نے غیرشرعی قوانین جاری رکھے ہوئے ہیں لازم بات ہے کہ وہ انہیں شریعت سے بہتر سمجھتا ہے تبھی تو انہیں نافذ کئے رکھا ہے اور جو وضعی قوانین کو شریعت سے بہتر سمجھے وہ تو بالاتفاق کافر ہے، یہ دلیل کمزور ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ یہ لازم آئے اور لازم آنے کو بہرطور دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کے جواب میں نکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ساتویں بات یہ کہ علامہ فقیہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا تھا کہ قوانین کے نفاذ سے افضل ہونے کا اعتقاد لازم آتا ہے۔ کیونکہ پہلے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بھی یہی سمجھتے تھے اور ان کا قتوی بھی ہے کہ تشریع عام کرنے والا حکمران کافر ہے، کفر اکبر میں مبتلا ہے۔ لیکن جب انہو ں نے تحقیق کی اور دیکھا تو اپنی وفات سے پہلے اس قول سے رجوع فرمالیا، ان دونوں اقوال کو ملاحظہ کیجئے۔

پہلا قول
فرماتے ہیں کیونکہ جس نے ایسا قانون کو نافذ کیا جو اسلام کے خلاف ہے تو اس نے صرف اسی لئے کیا کہ اس کا عقیدہ ہے کہ یہ قانون جس کا اس نے نفاذ کیا اسلام سے بہتر ہے، اور لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے۔ (فتاوی ابن عثیمین ج 2 ص 134) یہاں بھی وہی لازم کو دلیل بنایا ہے کہ جس نے ایسا کیا لازمی طور پر اس کا عقیدہ یہی ہوگا۔

دوسرا اور آخری قول
جس میں آپ نے رجوع فرما لیا تھا، سوال ہوا تھا کہ جس کا مفہوم ہے تشریع عام کرنے پر بھی حاکم کا عقیدہ مدنظر رکھا جائے گا یا نفاذ ہی سے کفر لازم ہوجائے گا؟ جواب میں شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: "۔۔۔جہاں تک حکم بغیرما انزل اللہ کا تعلق ہے تو وہ اللہ تعالی کی کتاب عزیز میں تین اقسام میں تقسیم ہوا ہے: کفر، ظلم اور فسق، ان اسباب کے پیش نظر جن کی بنا پر یہ حکم کیا گیا ہے۔ پس اگر کوئی انسان اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے علاوہ حکم کرتا ہے اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے جبکہ اسے اس بات کا علم حاصل ہے کہ حق تو وہی ہے جو اللہ تعالی کا فیصلہ ہے، تو ایسا شخص کافر نہیں بلکہ فاسق اور ظالم کے درمیان ہے، لیکن اگر وہ ایک تشریع عام (عام قوانین ریاست) کے طور پر نافذ کرتا ہے جس پر عوام چلتی ہے اور وہ اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ مصلحت کا یہی تقاضہ ہے اور اس پرامر کو مشتبہ کردیا گیا ہے توایسا شخص بھی کافر نہیں ہوگا۔ کیونکہ بہت سے حکام ایسے ہیں جو شرعی علم سے جاہل ہیں اور جن لوگوں سے یہ بہت بڑا عالم سمجھ کر رابطہ رکھتے ہیں انہیں خود بھی حکم شرعی کا علم نہیں ہوتا نتیجتاً شریعت کی مخالفت ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ شرعی حکم جانتا ہے لیکن پھر بھی ان (وضعی قوانین) کے مطابق فیصلہ کرتا ہےاور اسےایسے دستور یا آئین کی حیثیت دیتا ہے جس پر لوگ کاربند ہوں، تو ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس معاملے میں وہ ظالم ہے۔ مگر اس حق کے وجہ سے جو قرآن وسنت کے ذریعے آیا ہم ایسے شخص کی تکفیر نہیں کرسکتے۔ ہم تو اسی کی تکفیر کرسکتے ہیں جو یہ نظریہ رکھتا ہے کہ لوگوں کے لئے زیادہ لائق ہے کہ وہ اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی شریعت کے علاوہ حکم پر چلیں، یا یہ (خودساختہ قانون) بھی شرعی حکم ہی کی طرح ہےتو ایسا شخص کافر ہے۔۔۔" سماعت فرمائیں کیسٹ "التحرير في مسألة التكفير" جو کہ اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے ہماری ویب سائٹ اصلی اہلسنت ڈاٹ کام پر "الحکم بغیرماانزل سے متعلق آئمہ کرام کے اقوال" کتاب میں اصل عربی عبارت کے ساتھ موجود ہے۔ اور یہی شیخ کا آخری قول ہے کیونکہ اس ریکارڈنگ کی تاریخ 22/3/1420ھ ہے اور شیخ کی وفات 1421ھ میں ہوئی رحمہ اللہ۔ (ط ع)
ختم شد
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم ۔۔۔

اب یہ مضمون نظر ثانی و ٹائٹل اور تزئین و آرائش کے ساتھ ٹرو منہج ڈاٹ کام پر پی ڈی ایف فارمیٹ میں بھی پیش کر دیا گیا ہے۔۔۔۔


کتابچہ کا ڈاونلوڈ لنک:::
طاغوت (تعریف ، اقسام اور تشریح )

جزاک اللہ خیرا
 
Top