• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طاغوت کے پجاری کون؟

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
پیش لفظ


ان الحمدللہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ و اشھدأن لا إلٰہ إلا اللہ و أشھد أن محمد اًعبدہ و رسولہ۔ اما بعد !
[FONT=&amp]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قیامت تک ظاہر ہونے والے فتنوں کے بارے میں آگاہ فرما دیا تھا ان میں سے بہت سارے فتنے ظاہر ہو چکے اور کچھ فتنے ابھی رونما ہونے والے ہیں {اللہ تعالی ہم سب کوان فتنوں سے اپنی حفظ وامان میں رکھے}ان فتنوں میں جہاں بے دینی کی بنیاد پر سامنے آنے والے فتنے تھے وہاں ایسے فتنوں نے بھی جنم لیا، جن کی بنیاد "غلو فی الدین " پر رکھی گئی تھی۔[/FONT] [FONT=&amp]ان میں سے ایک انتہائی خطرناک فتنہ " خوارج " کا ظہور تھا۔ اس گمراہ کن فتنے کا آغاز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہی میں ہو گیا تھا{جب ذوالخویصرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عدل نہ کرنے کا اعترض کیا تھا}مگر اس فتنہ نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہوئے ہر دور میں مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا۔[/FONT] [FONT=&amp]یہ فتنہ آج بھی ایک جدید شکل میں مسلمانوں میں سرائت کر چکا ہے اور اکثر سیدھے سادھے لوگ{خصوصا نوجوان}"فتنہ خوارج "کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے،خودبھی اس کا شکار ہوئے ہیں بلکہ اس کی ترویج ،اشاعت اور اسکو پروان چڑھانے میں غیر شعوری طور پر استعمال ہو کر دوسرے مسلمانوں کی گمراہی کا سبب بھی بن چکے ہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]بلا ریب ، موجودہ "فتنہ تکفیر و خوارج"اپنی نئی شکل و صورت اور جدید ایڈیشن کے با وصف اسی قدیم فتنے کا ہی کا عکس ہے اس فتنہ کی بنیادیں ،کسی شک و شبہ کے بغیر اپنے آباءو اجداد سے ہی اخذ کی گئی ہیں{گویانئی بوتل کے اندر پرانی شراب والا معاملہ ہے}مگر اسے مسلمانوں کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے ایسے انداز میں ڈھالا گیا ہے کہ لوگ نفسیاتی اور منطقی طور پر الجھ جاتے ہیں اور اندھیری کھائی میں جاگرتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]اس فتنے کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد" کفر بالطاغوت" ہے۔ عصر حاضر کے خوارج "کفر بالطاغوت" کو خود ساختہ مفہوم اور تشریحات کے ذریعے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ عوام الناس اس بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سےجلد گمراہ ہوجاتے ہیں۔زیر نظر کتاب میں ، عصر حاضر میں موجودطاغوت کے پجاریوں اور طاغوت کا انکار کرنے والوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہےاور طاغوت کی پہچان، حقیقت اور اسکی تفصیل بہت شاندار اور مدلل انداز میں بیان کی گئی ہے عصر حاضر کے خوارج کے "کفر بالطاغوت" بارے شبہات اور اشکالات کا شافی جواب موجود ہے۔ اللہ ہمارے اس بھائی کی یہ کاوش اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اس کتاب کو مسلمانوں کی فلاح و ہدایت کا باعث بنائے۔ آمین[/FONT]
[FONT=&amp] احقر العباد[/FONT]
[FONT=&amp]ڈاکٹر عبداللہ السلفی[/FONT]


ابتدائیہ

[FONT=&amp]آج کل آل تقلید کی جانب سے اہل السنہ والجماعہ کے معروف و نامور علماء کو طاغوت یا انصارالطاغوت قرار دینے کی سعیِ لا حاصل کی جا رہی ہے ۔ اس ضمن میں پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھانےاورحق وباطل کو واضح کرنے کے لئے ہم نے قلم اٹھایا ؛[/FONT]
ليهلک من هلک عن بینة ویحیى من حی عن بینة .
[FONT=&amp]تاکہ جو ہلاک ہو وہ بھی دلیل سے اورجو زندہ رہے وہ بھی دلیل سے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]یاد رہے کہ ہمارے نزدیک طاغوت انتہائی قبیح قسم کا کافر ہوتا ہے اور ہم آل تقلید کی معیّن تکفیر نہیں کرتے ۔ لیکن جن اصولوں کو اپنا کر آل تقلید نے اہل السنہ والجماعۃ پر الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی اور میدان تکفیر گرم کر رکھا ہے انہی اصولوں کی روشنی میں آل تقلید کا طاغوت اور طاغوت کا پجاری ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ یعنی[/FONT]
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات انکی
انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات انکی
[FONT=&amp]والا معاملہ ہے وگرنہ ہم ایسا کہنے اور کرنے والے نہ تھے اور اگر اب ایسا کہہ رہے ہیں تو اس لیے کہ مجبور ہیں ہم ۔ لہذا ہم یہی کہیں گے کہ[/FONT]
نہ تم صدمے ہمیں دیتے , نہ یوں فریاد ہمکرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
[FONT=&amp]مقلدین کا یہ تکفیری ٹولہ امام محمد بن عبد ا لوہاب،[/FONT][FONT=&amp]شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور دیگر سلف رحمہم اللہ اجمعین کی عبارات پیش کرکے انہیں غلط جگہوں پر فٹ کرتا ہےجس سے ان کے پھیلائے ہوئے اس خوش نما جال میں کئی مخلص اور سلف سے محبت کرنے والے نوجوان اپنے عقیدے اور منہج میں دراڑیں پیدا کر کے منہج اعتدال سے ہٹ چکے ہیں۔ لہذا ہم نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ ان شیوخ الاسلام کا صحیح موقف بھی واضح ہو جائے اور انکی عبارات کا صحیح مصداق بھی سامنے آجائے تاکہ اس امت کو مزید اندھیروں اور گمراہیوں سے محفوظ رکھا جا سکے ۔[/FONT]
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
طاغوت کی تعریف[FONT=&quot] :[/FONT]
[FONT=&quot]قرآن کی روشنی میں:[/FONT] [FONT=&quot]یہ "طغیان" سے مشتق ہے۔ جس کا معنی حد سے آگے بڑھ جانا ہے ۔قرآن مجید میں ہے :[/FONT]
[FONT=&quot]﴿ [/FONT][FONT=&quot]انا لما طغیٰ الما ء [/FONT][FONT=&quot]﴾ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] ’’جب پانی حد سے تجاوز کر گیا ‘‘(الحاقۃ: [/FONT][FONT=&quot]11[/FONT][FONT=&quot])[/FONT]​
[FONT=&quot]اسی طرح قوم ثمود کی تباہی جس آفت سے ہوئی اس کے لئے "طاغیہ "کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔[/FONT]
[FONT=&quot]﴿فاھلکوا بالطاغیۃ﴾ [/FONT]
[FONT=&quot]’’ وہ (قوم ثمود) حد سے بڑھی ہوئی ( آواز )سے ہلاک کر دیے گئے ‘‘ (الحاقۃ:[/FONT][FONT=&quot]5[/FONT][FONT=&quot]) [/FONT] [FONT=&quot]اسی سے یہ محاورہ ہے "طغی البحر"سمندر میں طوفان آگیا ۔[/FONT] [FONT=&quot]احادیث کی روشنی میں:[/FONT] [FONT=&quot]سیدناجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:‏[/FONT]
[FONT=&quot]طاغوت وہ (کاہن)ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ فیصلے لےکر جاتےہیں ،جہینہ قبیلے میں ایک طاغوت تھا،اسلم قبیلے میں ایک طاغوت ‏تھا،اسی طرح ہر قبیلے میں ایک طاغوت ہوتا ہے ،وہ کاہن ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں۔ [/FONT][FONT=&quot](صحیح بخاری،کتاب التفسیر:4583)‏[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]معلوم ہوا ؛طاغوت سے مراد جادوگر اور کاہن ہیں۔ ان کی خاص نشانی "علم غیب" کا دعویٰ ہے۔کیونکہ جادو ہے ہی علم غیب کی باتیں بیان کرنے کا نام،جو شیطان القاء کرتے ہیں۔لہذا " علم غیب "کا دعویٰ کرنے والا بھی طاغوت ہے، اس کی طرف اپنے فیصلے لے کر جانے والا اوراس کی پیروی کرنے والا طاغوت کا پجاری ہے۔[/FONT] [FONT=&quot] [/FONT] [FONT=&quot]سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں:[/FONT] [FONT=&quot]امام ابن قیم [/FONT][FONT=&quot]رحمہ اللہ[/FONT][FONT=&quot] "طاغوت "کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:[/FONT] [FONT=&quot]الطاغوت کل ما تجاوز بہ العبد حدہ من معبود او متبوع او مطاع فطاغوت کل قوم من یتحاکمون الیہ غیر اللہ ورسولہ او یعبدونہ من دون اللہ او یتبعونہ علی غیر بصیرۃ من اللہ او یطیعونہ فیما لایعلمون انہ طاعۃ للہ ۔[/FONT]
[FONT=&quot](اعلام الموقعین ص44 مطبوعہ دار طیبہ ریاض،مترجم ص52 ‏جلد1 مطبع مکتبہ قدوسیہ)‏[/FONT]​
[FONT=&quot]’’ طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی حد سے تجاوز کر جائے خواہ عبادت میں یا اتباع میں یا اطاعت میں ،ہر قوم کا طاغوت وہی ہے جس کی طرف وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی بجائے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں یا بغیر جانے بوجھے،اللہ کے سوا اس کی عبادت یاپیروی کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی ٰ کی اطاعت ہے ۔‘‘[/FONT] [FONT=&quot]شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :[/FONT] [FONT=&quot]اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی عبادت کی جارہی ہواور وہ اس پر راضی ہو ،وہ طاغوت ہے ۔ [/FONT][FONT=&quot][فتاویٰ ابن تیمیہ ، ص:[/FONT][FONT=&quot]200[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]28][/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]شیخ الاسلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :[/FONT] [FONT=&quot]طاغوت ایک عام لفظ ہے ہر وہ چیز یا ذات ،جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے اور وہ اس عبادت پر خوش اور راضی بھی ہو ،خواہ وہ معبود ہو یا متبوع یا مطاع ،وہ طاغوت کے زمرے میں آتا ہے ۔[/FONT] [FONT=&quot]شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اپنے مشہور رسالے "اصول الثلاثۃ"میں فرماتے ہیں:نوح علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی طرف ایک رسول بھیجا۔جو انہیں اللہ وحدہ کی عبادت کا حکم دیتے اور انہیں طاغوت کی عبادت سے روکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:[/FONT] [FONT=&quot]وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا ٱلطَّٰاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ فَسِيرُوا فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿36﴾ [/FONT]
[FONT=&quot] اورالبتہ تحقیق ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورطاغوت سے اجتناب کرو۔ تو ان میں [/FONT] [FONT=&quot]بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟[/FONT]
[FONT=&quot] (سورہ النحل،آیت36)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے اوپر فرض کیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ(جس کی عبادت،اتباع یا اطاعت کی جا رہی ہو[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]اور اس کے تئیں بندہ اس کی حد سے تجاوز کر جائے تو وہ طاغوت ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]فقیہ الزمان شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:[/FONT]
[FONT=&quot]یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا،جو انہیں اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت دیتا اور انہیں شرک سے منع کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌۭ[/FONT]
[FONT=&quot]بے شک ہم نے آپ کو سچا دین دے کر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں گزری مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزر چکا ہے ۔[/FONT]
[FONT=&quot](سورہ الفاطر،آیت24)[/FONT]
[FONT=&quot]اور فرمایا:[/FONT] [FONT=&quot]وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا ٱلطَّٰاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ فَسِيرُوا فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواكَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿36﴾[/FONT]
[FONT=&quot]اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورطاغوت سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔[/FONT]
[FONT=&quot](سورہ النحل،آیت36[/FONT][FONT=&quot])[/FONT]
[FONT=&quot]اور یہی "لا الہ الا للہ" کا مفہوم ہے جو کہ گزشتہ آیت کریمہ سے واضح ہو رہا ہے۔شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ "اللہ وحدہ لا شریک لہ "کی عبادت کئے اور طاغوت سے پرہیز کئے بغیر توحید مکمل نہیں ہوتی اوراللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔[/FONT] [h=1]طاغوت کی اقسام:‏[/h] [FONT=&quot]آیات قرآنیہ اور سلف صالحین کے اقوال سے معلوم ہوا کہ: طاغوت سے مراد شیطان،جادوگر،کاہن،[/FONT][FONT=&quot]أ[/FONT][FONT=&quot]ئمہ کفر(جیسے کعب بن ‏اشرف)وغیرہ ہیں ۔شیخ الاسلام امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :"طواغیت" تو بہت سارے ہیں جن میں سے بڑے بڑے پانچ ہیں۔[/FONT] [FONT=&quot]‏[/FONT][FONT=&quot]۱-[/FONT][FONT=&quot]ابلیس(لعنہ اللہ)‏[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]‏[/FONT][FONT=&quot]۲-[/FONT][FONT=&quot]جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی بھی ہو([/FONT][FONT=&quot]کما قال ابن تیمیہ فی مجموع الفتاوی[/FONT][FONT=&quot]ٰ)‏[/FONT] [FONT=&quot]‏[/FONT][FONT=&quot]۳-[/FONT][FONT=&quot]جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔[/FONT] [FONT=&quot]‏[/FONT][FONT=&quot]۴-[/FONT][FONT=&quot]جو غیب دانی کا(علم غیب )کا دعویٰ کرتا ہے۔[/FONT] [FONT=&quot]‏[/FONT][FONT=&quot]۵-[/FONT][FONT=&quot]جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرتا ہو۔[/FONT][SUP][FONT=&quot][SUP][FONT=&quot][1][/FONT][/SUP][/FONT][/SUP][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]اب ہم طاغوت کی ان پانچ اقسام کا جائزہ لیتے اور دیکھتے ہیں کہ: وہ کون لوگ ہیں جو بیان کردہ ان "طواغیت" کے پجاری ہیں؟[/FONT] [FONT=&quot]۱۔ابلیس شیطان :[/FONT] [FONT=&quot]یہ ایسا طاغوت ہے جس کی عبادت کوئی بھی کلمہ پڑھنے والا نہیں کرتابلکہ سب ہی اپنی زبان اور دل سے اس کا انکار کرتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&quot]۲۔جس کی اللہ کے سواعبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی بھی ہو:[/FONT] [FONT=&quot]اپنی عبادت کروانا اور اس پر خوش ہونا تو دور کی بات ہے،ہماری جماعت میں کیا کسی بھی مسلمان نے اپنے عقیدہ میں ایسے عمل کی گنجائش رکھی ہے؟کیا ہماراکوئی عالم،یا کوئی کتاب اس قسم کے طاغوت کی عبادت کرنے کی دعوت دیتی ہے؟ [/FONT] [FONT=&quot]ہرگز نہیں؛بلکہ ایسے گمراہوں کے خلاف اپنی زبان،قلم اور ہتھیار سے پرسر پیکار ہیں حتیٰ کہ ہماری جماعت کسی بھی عہدے پر کوئی ایسا شخص فائز ہی نہیں ہےجو طاغوت کا پجاری ہو یعنی اللہ کے سواکسی اور کی عبادت کرتا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس جماعت کا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جس کے بارے میں کوئی مخالف بیان کر سکے کہ یہ طاغوت کا پجاری ہے یا ہماری جماعت کے پلیٹ فارم پر جہاد کرتا یا جہاد کرتے ہوئے شہید ہو چکا ہے۔یہ اللہ کا فضل ہے کہ دنیا میں یہ واحد جماعت ہے کہ جس کے سب کے سب شہداء طاغوت کا انکار کرنے والے اور راسخ اہل حدیث تھے۔[/FONT] [FONT=&quot]اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کونسی جماعت ہے جس میں طاغوت بھی پائے جاتے ہیں اور اس جماعت کے کارکن ان طواغیت کی پجاری بھی ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]مقلدین کے مذہب میں خدائی کا دعویٰ کرنے والے صوفی منصور حلاج جیسے طاغوت بھی ملتے ہیں اور ایسے اکابر بھی ملتے ہیں جو لوگوں کو اللہ بننے کا گر بتاتے تھے۔ یہاں ایسے گمراہ صوفیوں کے معتقدین کی ایک تاویل بھی ملاحظہ فرمائیں :[/FONT] [FONT=&quot]ایک صوفی حکیم سے پوچھا گیا:[/FONT][FONT=&quot] "انا ربکم الاعلیٰ"[/FONT][FONT=&quot] اور" [/FONT][FONT=&quot]انا الحق[/FONT][FONT=&quot] "کہنے میں کیا فرق ہے ؟ فرمایا :ایک بزرگ نے حق تعالیٰ سے عرض کیا: اس کی کیا وجہ ہے کہ فرعون نے" [/FONT][FONT=&quot]انا ربکم الاعلیٰ[/FONT][FONT=&quot] "کہا تو مردود ہوا اور منصور نے ایسا ہی کہا،تو مقبول ہو ا۔جواب دیا گیا کہ: فرعون نے ہمارے مٹانے کے لئے کہا اور منصور نے اپنا آپ مٹانےکے لئے کہا۔[/FONT]
[FONT=&quot][الکلام الحسن صفحہ نمبر:[/FONT][FONT=&quot]198، جلد:2[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]​
[FONT=&quot]اسی تقلیدی مذہب میں کفریہ عقیدہ" وحدۃالوجود" بھی جڑیں گاڑے نظر آتا ہے اور اسی عقیدے کا دفاع کرنے والے "کفر بالطاغوت "کی رٹ لگاتے بھی نظر آتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&quot]اسی کفریہ عقیدے کے بارے میں آل تقلید کے معروف صوفی و پیر طریقت"حاجی امداد اللہ مھاجر مکی" رقم طراز ہیں :’’مسئلہ "وحدۃ الوجود" حق و صحیح ہے اس مسئلے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔[/FONT]
[FONT=&quot][شمائل امدادیہ صفحہ نمبر :[/FONT][FONT=&quot]32[/FONT][FONT=&quot]،کلیات امدادیہ صفحہ نمبر :[/FONT][FONT=&quot]218[/FONT][FONT=&quot]][/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]وحدت الوجود کی تعریف :[/FONT] [FONT=&quot] صوفیوں کی اصطلاح میں :تمام موجودات کو صرف اعتباری اور فرضی ماننا،اصل میں تمام چیزیں وجود خدا ہی ہیں۔ جیسا کہ پانی ۔ وہی بلبلہ، وہی لہر، وہی سمندر ،وحدہ لاشریک وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔[/FONT]
[FONT=&quot][جامع نسیم اللغات صفحہ نمبر :[/FONT][FONT=&quot]1215[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]​
[FONT=&quot] معلوم ہوا "وحدۃ الوجود" کے عقیدے میں خالق ومخلوق ،عابدومعبود کا فرق مٹ جاتا ہے بندہ اور خدا ایک ہی وجود قرار پاتے ہیں ۔اسی کفریہ عقیدے کا قائل دیوبندیوں کا امام کچھ اس طرح سےرقم طراز ہے :[/FONT] [FONT=&quot]یا اللہ :معاف فرماناکہ حضرت کے ارشادسے تحریر ہوا ہے جھوٹا ہوں کچھ نہیں ہوں ،تیرا ہی ظل ہے تیرا ہی وجود ہے میں کیا ہوں ،کچھ نہیں ہوں اور جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہے ۔(استغفر اللہ ۔۔۔) والعیاذباللہ[/FONT] [FONT=&quot][مکاتیب رشیدیہ ،فضائل صدقات،حصہ دوم صفحہ نمبر :[/FONT][FONT=&quot]556[/FONT][FONT=&quot]][/FONT] [FONT=&quot] اسی طرح ایک اور بہت بڑےصوفی ،شیخ ضامن علی جلال آبادی نے ایک زانیہ عورت سے کہا :بی بی شرماتی کیوں ہو؟کرنے والا کون اور کرانے والا کون ؟وہ تو وہی ہے ۔(العیاذباللہ ) [/FONT]
[FONT=&quot][تذکرۃ الرشید ص:[/FONT][FONT=&quot]242[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]​
[FONT=&quot]حضرت جلال آبادی صاحب کے بارےمیں ان کے معتقدین کا دعویٰ ہے کہ وہ تو توحید ہی میں غرق تھے۔[ایضاً][/FONT] [FONT=&quot] صوفیوں کے "شیخ المشائخ" امداد اللہ سے کسی نے کہا:’’ آپ کے اس مضمون سے معلوم ہوا: عابد ومعبود میں فرق کرنا شرک ہے ‘‘تو حاجی امداد اللہ نے جواب دیا :کوئی شک نہیں ہے کہ فقیر نے یہ سب کچھ "ضیاءالقلوب" میں لکھا ہے ۔[/FONT]
[FONT=&quot][شمائم امدادیہ ،ص:[/FONT][FONT=&quot]34[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]​
[FONT=&quot]خدا بننے کاگرُ:[/FONT] [FONT=&quot] معروف صوفی امداد اللہ مہاجر مکی لوگوں کو ’’اللہ ‘‘بننے کا طریقہ بتاتے ہوئے لکھتا ہے :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]اور اس کے بعد اس کو" ہُوہُو" کے ذکر میں اس قدر منہمک ہوجانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ ) ہوجائے اور فنا درفنا کے یہی معنی ہیں۔ ([/FONT][FONT=&quot]نعوذباللہ من ذلک[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [کلیات امدادیہ ص:[/FONT][FONT=&quot]18[/FONT][FONT=&quot]،مطبوعہ دارالاشاعت کراچی][/FONT]​
[FONT=&quot]نوٹ:بریکٹ میں مذکور لفظ (اللہ )خود حاجی امداد اللہ صاحب کا ہے ۔[/FONT] [FONT=&quot]اسی طرح دیوبندیوں کے عقائد میں" فنا فی الشیخ ،فنا فی الرسول ، فنا فی اللہ" بھی توحید الہی کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ خود مرتبہ خدائی پر فائز ہونے کے دعویٰ کے مترادف ہے اسی طرح "وحدت الشہود اور حلول "کہ ہر چیز اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے ۔[/FONT] [FONT=&quot]تصور شیخ یا غیر اللہ کی عبادت :[/FONT] [FONT=&quot] "تصور شیخ" سے مراد یہ ہے کہ مرشد کہتاہے :میں نے تمہیں اللہ تک پہنچانا ہے اور چونکہ تم نے اللہ کو دیکھا نہیں ،مرشد کے ذریعے ہی اللہ تک پہنچ سکتے ہو، اس لئے تم جو ذکر کرو گے میرا تصور تمہارے سامنے ہو گا۔ دن ہو یا رات آنکھیں بند ہو یا کھلی ،تمہاری آنکھیں کھلی بھی ہوں تو ایسا نقش پکانا ہے کہ ہر جگہ مرشد نظر آئے، اسی قسم کا ایک مرید کہتاہے :[/FONT]
[FONT=&quot]~[/FONT][FONT=&quot]کیا غضب کیا تیری یاد نے مجھے آستایانماز میں[/FONT]​
[FONT=&quot]میرے وہ سجدےبھی قضاء ہوئے جو ادا ہوئے تھے نماز میں[/FONT]​
[FONT=&quot]اب حال یہ ہو جاتاہے ۔نماز بھی پڑھتا ہوں تو مرشد کی تصویر سامنے ہے اور پھر جب وہ تصویر ہر وقت سامنے رہتی ہے تو اس کی ایسی محبت دل میں بیٹھتی ہے جو صرف اللہ کا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :[/FONT] [FONT=&quot]﴿[/FONT][FONT=&quot]ومن الناس من یتخذ من دون اللّٰہ اندادا یحبونھم کحب اللّٰہ والذین امنوا اشد حباللّٰہ[/FONT][FONT=&quot]﴾[/FONT]
[FONT=&quot]​
(البقرہ:165)[/FONT]​
[FONT=&quot]’’ بعض لوگ اللہ کے علاوہ ایسے شریک بناتے ہیں کہ ان سے اللہ کی محبت جیسی محبت کرتے ہیں ،حالانکہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]انتہائی درجے کی محبت ،جس کے ساتھ انتہائی عاجزی ہو ،یہی تو عبادت ہے ۔ ہر وقت کسی کی یاد دل میں ہو ،یہ توصرف اللہ کا حق ہے اگر یہ کسی بندے کو دے دیا تو اللہ کامقام چھین کرمخلوق کو دے دیا۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند کے دیوبندی اکابرین کی اکثریت ایسے ہی شرک میں گرفتار ہے ۔اور آج "کفر بالطاغوت "کی رٹ لگانے والے، ایسے ہی طواغیت کے پجاری بھی ہیں اور ان کا دفاع کرنے والے بھی۔[/FONT] [FONT=&quot]محترم قارئین: ان دلائل سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ علماء دیوبند میں بڑے بڑے طاغوت پیدا ہوئے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان کی عبادت کرنے والے اور ان کا دفاع کرنے والےحضرات کی تعداد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔لیکن آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ کبھی بھی ایسے طواغیت [/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]جس کی اللہ کے سواعبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی بھی ہو[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot]کے انکار کی دعوت دیتے نظر نہیں آئیں گے۔نہ ہی ان کے خلاف مرتد،کافر اور واجب القتل ہونے کے فتوے صادر کرتے نظر آئیں گےبلکہ ایسے طواغیت کے پجاریوں کی چھتری تلے پناہ لے کر امت مسلمہ کے مال ،جان اور حرمت کو پامال کرتے نظر آئیں گے۔[/FONT] [FONT=&quot]قارئین کرام :آپ طاغوت کے پجاریوں کے"کفر بالطاغوت "کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت اورطاغوت کی بیان کردہ دو اقسام کے بارے میں جان چکے ہیں کہ ان کے پجاری کون ہیں اور ان کا انکار کرنے والے کون؟اب ہم طاغوت کی تیسری قسم کی وضاحت کرتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&quot]‏۳-جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔[/FONT] [FONT=&quot]ہماری جماعت میں ایسے افراد کا ہونا تو دور کی بات ہے ایسے "طواغیت "کے ساتھ،الفت،اور احترام والا رویہ بھی نہیں ملے گا،کوئی ایسا فرد نہیں ملے گا جواس قسم کے"طاغوت " کا پجار ی ہو۔لیکن دوسری طرف آل تقلید کے ماحول پر نظر دوڑائیں تو [/FONT][FONT=&quot]آپکے قرب وجوار میں ایسے بہت سے اسلام کے نام نہاد دعویدار ملیں گے جو ایک طرف "کفر بالطاغوت"کے کھوکھلے نعرے لگاکر امت مسلمہ کو لہو لہوان کر چکے ہیں اور دوسری طرف خود "طواغیت "کے مرشد،چیلےاور پجاری بنے ہوئے ہیں،آئے جائزہ لیتے ہیں آیا "کفر بالطاغوت"کا ورد کرنے والوں نےعوام الناس کو طاغوت کی اس تیسری قسم کے ساتھ کفر کرنے کی بھی کبھی دعوت دی؟کبھی ایسے طاغوت کے خلاف "کفر بالطاغوت "کے نعرے لگے؟حتیٰ کہ ہم یہ بات چیلنج کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ "طاغوت ،طاغوت"کی رٹ لگانے والوں میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جن کو علم ہی نہیں ہوگا کہ جو لوگوں کو اپنی عباد ت کی طرف دعوت دے وہ بھی "طاغوت "ہوتا ہے،اور ایسے طاغوت تو خود ہماری صفوں میں موجود ہیں،ایسے "طواغیت "تو ہماری امامت کے عہدوں پر فائز ہیں۔جس کی چند ایک مثالیں پیش نظر ہیں۔[/FONT] [FONT=&quot]حضرت حکیم الامت صاحب لکھتے ہیں :[/FONT] [FONT=&quot]"گنگوہ" میں ایک بزرگ تھے جن کا نام صادق تھا وہ مرید کم کرتے تھے ۔دو شخص ان کے پاس آئے انہوں نے ددنوں کاامتحان کیا اور کہا :کہو’’ لاالٰہ الا اللہ صادق رسول اللہ ‘‘ ایک بھاگ گیا دوسرے نے کہہ دیا: اس کوبیعت کر لیا اور فرمایا :تم نے کیا سمجھا ؟اس نے کہا: میں نے آپ کو رسول تو نہیں سمجھا ،تأویل کر لی رسول اللہ مبتدااور صادق خبر مقدم ہے فرمایا:کہ میری بھی یہی مراد تھی ۔[/FONT]
[FONT=&quot][الکلام الحسن ،ص:[/FONT][FONT=&quot]47[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]،مطبوعہ المکتبہ الاشرفیہ جامعہ اشرفیہ فیروز پور روڈلاہور پاکستان][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT] [FONT=&quot] [/FONT] [FONT=&quot] [/FONT] [FONT=&quot]ایسے گمراہ کن عقائد و نظریات کو دیکھ کر کسی نے کہا:[/FONT]
~ یہ راہزن ہیں جنہیں تم رہبر سمجھتے ہو،
قبا پوشی کے پردے میں جو عیاشی کے رسیا ہوں
میں ایسوں کو رہبرورہنما کہہ دوں؟ یہ مشکل ہے
[FONT=&quot] اسی لئےان کے آستانوں ،مزاروں اور خانقاہوں پہ طواف ہونے لگے اور ان کی بندگی کا مہلک دروازہ کھل گیا اور ان کے معتقدین و مریدین نے اعلانیہ اقرار کیا ۔[/FONT] [FONT=&quot]قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:[/FONT] [FONT=&quot]﴿ [/FONT][FONT=&quot]ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَـٰنَهُمۡ أَرۡبَابً۬ا مِّن دُونِ ٱللَّهِ۔۔۔۔۔[/FONT][FONT=&quot]﴾[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]
(التوبۃ:[/FONT][FONT=&quot]31[/FONT][FONT=&quot])[/FONT]
[FONT=&quot]''[/FONT][FONT=&quot]انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے[/FONT][FONT=&quot] اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ ذات جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے ،جو یہ لوگ کرتے ہیں''۔[/FONT] [FONT=&quot]نبی اکرمﷺ نے حضرت عدیؓ بن حاتم کے سامنے خود اس کی تفسیر کی جب انہوں نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ ہم تو ان کی عبادت نہ کرتے تھے تب آپﷺ نے فرمایا :کہ ان کی عبادت دراصل یہ تھی کہ باطل میں ان کی اطاعت کی جاتی تھی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]رب العالمین کے مقابلے میں کسی کی بات یا کسی کا حکم تسلیم کرنا اور اس كو برحق جاننا، دراصل اس ہستی کی عبادت ہے۔دیوبند حضرات سر عام اپنے ان اکابرین [/FONT][FONT=&quot](طواغیت) کی عبادت (پوجا)کرتے ہیں اور ان طواغیت کا انکار ان کے کسی مفتی،شیخ،یا کمانڈر کی زبان سے نہیں سنیں گے،لیکن اس کے باوجود بھی "کفر بالطاغوت "کے کھوکھلے نعرے لگاکر امت مسلمہ کو دھوکہ دیتے نظر آتے ہیں [/FONT][FONT=&quot]۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]قارئین کرام !دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ تیسری قسم کے طاغوت کن کے ہاں پائے جاتے ہیں؟مزید آپ تجربہ کے لیے ان کے پیروکاروں سے بات کر لیں وہ ان طواغیت کا بالکل بھی رد نہیں کریں گےبلکہ ان کا دفاع کرے نظر آئیں گے۔جس سے یہ بات صاف ہو جائے گی کہ طاغوت کے پجاری کون ؟[/FONT] [FONT=&quot]طاغوت کی یہ تین قسمیں بیان کرنے اور ان کے پجاری اور ان کےانکار کرنے والے طبقے کی وضاحت کرنے کے بعد ہم طاغوت کی چوتھی قسم بیان کرتے ہیں۔[/FONT]
[HR][/HR]
[FONT=&quot][FONT=&quot][1][/FONT][/FONT] [FONT=&quot]۔شریعت کے مطابق فیصلےنہ کرنے والا ہر شخص طاغوت نہیں ہوتا،بلکہ جو شخص اپنے فیصلوں کو شریعت کے فیصلوں سے افضل سمجھے اور اپنے فیصلے رعایا پر زبردستی لاگو کرے،وہ شخص طاغوت ہو گا۔[/FONT] [FONT=&quot] [/FONT]​
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
[FONT=&quot]‏۴-جو غیب دانی (علم غیب )کا دعویٰ کرتا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]ہماری جماعت کی تعلیمات عین اسلاف کی تعلیمات پر مبنی ہیں،علم غیب کا دعویٰ تو دور کی بات ،غیب کی خبریں بتانے والے کے پاس جانے والے کے بارے وہی موقف رکھتی ہے جو قرآن و سنت میں واضح ہے۔اور الحمداللہ "طاغوت" کی اس قسم کا بھی کھل کر رد کرتی ہے ۔[/FONT]
[FONT=&quot]اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ علماء دیوبند کا علم غیب رکھنے والوں کے بارے کیا نظریہ ہےاور کیا ان کے اکابرین بھی علم غیب کا دعویٰ کرتے تھے؟کیا ان حضرات نے کبھی "طاغوت "کی اس قسم کا رد کیا؟کیا اس کےخلاف عوام الناس میں آگہی پیدا کی؟بالکل نہیں۔۔بلکہ الٹا ایسے "طواغیت "(غیب کا دعوی کرنے والے)تو خود ان کے امام اور پیر،اکابر سمجھے جاتے ہیں۔اس کو جاننے سے پہلے ہم آپ حضرات کے سامنے علم غیب کی تعریف اور اس کے بارے میں احکام ربانی بیان کرتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&quot]علم غیب کی تعریف:[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]جو چیز انسان کے علم، ادراک اور حواس سے بالاتر اور اوجھل ہو،وہ غیب ہے ۔اور غیب مستقبل ایک حقیقی علم ہے جو اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اپنے انبیاء علیھم السلام کو کچھ بتا دے تو وہ علم غیب نہیں بلکہ اطلاع علی الغیب ہے جو بذریعہ وحی ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :[/FONT] [FONT=&quot]﴿[/FONT][FONT=&quot]عالم الغيب فلا يظهر على غيبه أحدا إلا من ارتضى من رسول فإنه يسلك من بين يديه[/FONT][FONT=&quot]﴾[/FONT]
[FONT=&quot][ال[/FONT][FONT=&quot]جن[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]7[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]][/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]لہذا جو شخص غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تکذیب کر تا ہے(جھٹلاتا ہے )اللہ تعالیٰ نے فرمایا :[/FONT] [FONT=&quot]﴿قل لا يعلم من في السماوات والأرض الغيب إلا الله وما يشعرون أيان يبعثون﴾[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][ال[/FONT][FONT=&quot]نمل[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT][FONT=&quot]65[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]​
[FONT=&quot]’’ آپ ﷺ کہہ دیجیے: اللہ کےسوا آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھا ئے جائیں گے ۔‘‘[/FONT] [FONT=&quot]آل تقلید اور علم غیب:[/FONT] [FONT=&quot]کتاب وسنت کے واضح نصوص سے ثابت ہے کہ علم غیب صرف اللہ کے لئے ہے اور بذریعہ وحی انبیاء کو بعض امور پر مطلع کیاجاتا رہا لیکن کائنات میں کوئی غیب نہیں جانتا ،اس کے باوجود یہاں پر آل تقلید اپنے اکابرو مشائخ کے بارے میں اعلانیہ غیب دانی کے دعوے کرتے ہیں ،ان کے بزرگ جانتے ہیں قبر میں مردے کی حالت کیا ہے بارش کب ہوگی ؟نفع نقصان کیا ہوگا ؟ارحام میں کیا ہے ؟اصلاب میں کیا ہے ؟حتیٰ کہ اللہ کا خاصہ علیم بذات الصدور (سینے کی باتوں کو جاننے والا )وہ بھی ان بزرگوں کے لئے معمولی معاملہ ہے اس حقیقت کی نقاب کشائی کے لئے ایک واقعہ ذکر کیے دیتا ہوں ۔[/FONT] [FONT=&quot]ایک صاحب لکھتے ہیں :[/FONT] [FONT=&quot]ایک دن امیر شاہ خان صاحب نے حضرت قدس سرہ سے ایک قصہ بیان کیا کہ میں ایک روز ایک بزرگ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اوران کے پاس ایک نوعمر درویش آئے اور بیٹھ گئے ،وہ بزرگ جن کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا اس درویش کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے :بھئ تمہارے قلب میں بڑی اچھی چیز ہے ان بیچاروں نے اپناحال چھپانا چاہا مگر انہوں نے پردہ ہی فاش کر دیا ۔کہنے لگے تمہارے قلب میں ایک عورت کی شبیہ ہے اس کی ناک ایسی ہے اور آنکھیں ایسی ہیں اور بال ایسے ہیں غرض تمام حلیہ بیان کردیا ،اس وقت وہ درویش بہت نادم ہوا اور اقرار کیا کہ بے شک آپ سچ فرماتے ہیں ابتداء جوانی میں مجھے ایک عورت سے عشق ہو گیا،ہر وقت اس کے دھیان میں رہنے سے اسکی شبیہ میرےقلب میں آگئی ہے اب جب کبھی طبیعت بے قرار ہوتی ہے تو آنکھ بند کر کے اس کو دیکھ لیتا ہوں ،کچھ سکون ہوجاتا ہے اور طبیعت ٹ[/FONT][FONT=&quot]ھہ[/FONT][FONT=&quot]ر جاتی ہے ۔مولوی امیر شاہ خان صاحب یہ قصہ بیان کر کے اس بات کے منتظر رہے کہ حضرت کچھ ارشاد فرمائیں گے مگر امام ربانی نے کچھ بھی جواب نہ دیا ،سن کر خاموش ہوگئے جب کئی مرتبہ مولوی صاحب نے یہ بات اٹھائی تب حضرت نے ارشاد فرمایا : بھئ یہ کچھ زیادہ غلبہ نہیں کیونکہ ان کو آنکھیں بند کرنے اور قلب کی طرف متوجہ ہونے کی نوبت پہنچتی تھی میرا حضرت حاجی صاحب کے ساتھ برسوں یہ تعلق رہا کہ بغیر آپ کے مشورہ کے میری نشست برخواست نہیں ہوئی حالانکہ حاجی صاحب مکہ میں تھے ۔(یہ ٹیلی فون اور موبائل کا دور نہیں تھا )اور اس کے بعد جناب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہی تعلق برسوں رہاہے یہ فرماکر آپ خاموش ہوگئے ،کچھ نہ فرمایا ،دیر تک ساکت وسر نگوں رہے مطلب ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شأنہ کی اجازت کے بغیر نہ حرکت ہوئی نہ سکون ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][تذکرۃ الرشید،ص:[/FONT][FONT=&quot]196،197[/FONT][FONT=&quot]۔ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور ][/FONT]​
[FONT=&quot]اسی طرح باطنیوں کے ایک گروہ نے تو ولایت کے لئے معیار ہی علم غیب کو قرار دے دیا ،ایک صوفی حکیم الامت لکھتا ہے ۔[/FONT] [FONT=&quot]امام شعرانی" کبریت احمر" میں فرماتے ہیں :[/FONT] [FONT=&quot]ہم نے اپنے شیخ سید علی الخواص کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ہمارے نزدیک اس وقت تک مرد کامل نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے مرید کی حرکات نسبی کو نہ جانلے ،یوم میثاق سے لیکر جنت یا دوزخ میں داخل ہونے تک ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][جاء الحق ،ص:[/FONT][FONT=&quot]90[/FONT][FONT=&quot]،[/FONT][FONT=&quot]91حصہ اول،نعیمی کتب خانہ اردو بازار لاہور ][/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ قوم کے ایسے صوفیاء، اکابر و مشائخ جوا تنے بڑے غیب دانی کے دعویدار ہیں شرعاً ان کا کیا حکم ہوگا ؟کیا یہ بھی طاغوت کے زمرے میں آئیں گے یا نہیں ؟اگر نہیں تو کیوں ؟ اگر ہیں تو کس قسم کے ؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ان کو حق پر سمجھنے والے اور ان کی تصویب کرنے والے لوگوں کا حکم کیا ہوگا ؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]ایسے لوگ یا ان کے معتقدین و مریدین کے ساتھ کیسا سلوک اور برتاؤ روا رکھا جائے ؟[/FONT] [FONT=&quot]یہ طاغوت کے پجاری ہیں یا نہیں؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]مزید یہاں شیخ محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ نواقض میں سے نمبر 3 بھی یاد رکھیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]من لم یکفر المشرکین أو شک فی کفر ھم أو صحح مذھبھم ۔۔۔[/FONT]
[FONT=&quot]’’جس نے مشرکوں کو کافر نہیں سمجھا یا ان کے کافر ہونے میں شک کیا یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھا تووہ شخص کافر ہے ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]کیا یہ قاعدہ و ضابطہ یہاں بھی عموم پر ہوگا یا سلف صالحین کی طرح تکفیر کی جملہ شرائط و موانع کو ملحوظ رکھا جائے گا ؟[/FONT] [FONT=&quot]قارئین کرام![/FONT][FONT=&quot]فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ علم غیب رکھنے والے کو شریعت طاغوت قرار دے رہی ہے اس کے باوجود ان تکفیری حضرات کےاکابرین اس کا دعوی کرتے نظر آتے ہیں اور ان کے مریدین ان طواغیت کا دفاع کرتے بھی نظر آتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ طاغوت کے پجاری یہ حضرات ،قرآن و سنت کی دعوت دینے والی جماعت اور منہج اہل السنہ کے راہیوں پر دن رات طاغوت کے پجاری ہونےکے فتوے لگاتے نظر آتے ہیں۔لیکن خود کتنے کتنے بڑے طواغیت کے پجاری ہیں ،شاید ان کو شعور بھی نہ ہو۔[/FONT] [FONT=&quot]ہم طاغوت کی چار قسمیں بیان کر چکے اور عصر حاضر میں ان کے پجاریوں اور منکرین کی بھی اچھی طرح وضاحت کر چکے ہیں لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ آپ ان تکفری حضرات کو کبھی بھی ان چاروں قسم کے طواغیت کا رد کرتے یا ان سے برات اور ان کا انکار کرنے کی دعوت دیتے نہیں پائیں گے۔بلکہ جب کبھی ان طواغیت کی بات چھڑ جاتی ہے تو یہ حضرات فوراً موضوع بدل لیتے ہیں ۔جس کو یقین نہ آئے وہ آزما کر دیکھ لے۔[/FONT] [FONT=&quot]اب طاغوت کی پانچویں قسم کو بیان کرتے ہیں۔یہ وہ قسم ہے جس کو تکفیر ی حضرات سب سے زیادہ بیان کرتے ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس بارے سب سے زیادہ خیانتیں بھی کرتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&quot]تکفیری حضرات اس کو ہی کیوں بیان کرتے اور بیان کرنے میں کون کون سی خیانتیں کرتے ہیں ؟آئیے جائزہ لیتے ہیں[/FONT][FONT=&quot]۔[/FONT] [FONT=&quot]‏[/FONT][FONT=&quot]۵-جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرتا ہو۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]اس مسئلہ پر تفصیلی بحث سے پہلے ( سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں )چند بنیادی اصولوں کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہم خلط مبحث اور اہل باطل کے طریقہ سے بچ کر اہل سنت والجماعۃ کے صحیح منہج کے مطابق مسئلہ کو سمجھ سکیں ۔[/FONT] [FONT=&quot]کفر بعض صورتوں میں اعتقادی اور ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ صرف کفر یہ فعل ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا ،چاہے اس فعل کےمرتکب کے لئے کتاب وسنت میں کفر یا کافر کا لفظ ہی کیوں نہ بیان ہوا ہو ۔[/FONT] [FONT=&quot]کفر کی اس دوسری قسم یعنی عملی کفر کے بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ کتاب الصلاۃ ‘‘میں بڑ ی عمدہ اور نفیس بحث کی ہے۔[/FONT] [FONT=&quot]اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جمیع سلف صالحین نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے کو عملی یا مجازی کفر قرار دیا ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث نہیں بنتا ، جب تک کہ فیصلہ کرنے والا اس فعل کو حلال اور اپنے فیصلے کو "حکم اللہ" سے بہتر نہ سمجھتا ہواوریہی اس درج ذیل آیت کی حقیقی مراد ہے :[/FONT] [FONT=&quot]﴿ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون﴾([/FONT][FONT=&quot]المائدۃ :[/FONT][FONT=&quot]44)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اب ہم ذیل میں سلف صالحین کے اقوال اور دیگر قرائن کی روشنی میں اس آئت کی وضاحت کرتے ہیں ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]آیت تحکیم کا سیاق وسباق :[/FONT]
[FONT=&quot]امام ابن جریرطبری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی :310ھ)علمائے کرام کے اقوال بیان کرنے کے بعد بات کو ختم کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے نزدیک ان میں سے راجح ترین قول یہ ہےکہ یہ آیت اہل کتاب کے کافروں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ اس سے پہلے اور بعد والی آیات میں ان ہی لوگوں کا تذکرہ کیاگیاہے سیاق وسباق کا یہی تقاضا ہے اس سے مراد یہود ونصاریٰ لیے جائیں اگرکوئی اعتراض کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عام بات کی ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا وہ کافر ٹھہرے گا آپ لوگ اس کو بعض لوگوں کےساتھ خاص کیوں کرتے ہیں ؟[/FONT] [FONT=&quot]جواب یہ دیا جائے گا کہ اس آیت میں عام الفاظ ان لوگوں کے بارے میں ہی استعمال کیے گئے ہیں جو اللہ کے حکم کا انکار کرنے والے تھے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں ۔جو آدمی اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتےہوئے ان کو ترک کرے گا وہ کافر کہلائے گا جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہا ہے کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالی ٰ کے حکم کو (جواس نے اپنی کتاب میں نازل کیا )جاننے کے بعد اپنے انکار کی وجہ سے کافر ہوگئے اورانکے انکارکی مثال نبی ﷺ کی نبوت کو جاننے کے بعد انکار کرنے کی طرح ہے ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot][ تفسیر طبری ،ص:557،ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot] مطبوعہ دارالحدیث القاھرہ][/FONT] [FONT=&quot]آیت تحکیم اور انکا ر یہود کا ثبوت :[/FONT] [FONT=&quot]یہود کے انکار پر آیت کا سیاق دلالت کررہا ہے ۔یہودیوں نے نبیﷺ کے فیصلے کے بارے کہا :[/FONT] [FONT=&quot]’’اگر وہ نبی تم کو تمہارے ارادےکے مطابق فیصلے دے دے تو اس کو حاکم تسلیم کر لینا اور اگر کچھ نہ دے تو بچ جانااور حاکم تسلیم نہ کرنا ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]قرآن مجید میں بھی اس قبیح (برے) اصول کا ذکر موجود ہے ،ارشاد بادی تعالیٰ ہے :[/FONT] [FONT=&quot]﴿یقولون إن أوتیتم ھذا فخذوہ وإن لم تؤتوہ فاحذروہ﴾([/FONT][FONT=&quot] المائدۃ: [/FONT][FONT=&quot]41[/FONT][FONT=&quot])[/FONT]
[FONT=&quot]’’ اگر تمہیں یہ دیا جائے تو لے لو اور اگر تمہیں یہ نہ دیا جائے تو بچ جاؤ ‘‘[/FONT] [FONT=&quot][مزیدتفصیل کےلئےجامع البیان المعروف تفسیر طبری،تفسیر قرطبی،ابن کثیروغیرھم ملاحظہ کریں][/FONT] [FONT=&quot]مسئلہ تحکیم از نبی مکرم ﷺ:[/FONT] [FONT=&quot]سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :[/FONT] [FONT=&quot]لینقضن عری الاسلام عروۃ عروۃ فکلما انتقضت عروۃ تشبث الناس بالتی تلیھا واولھن نقضاً الحکم واٰخرھن الصلاۃ[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][ مسند احمد ۔ص:251،ج:[/FONT][FONT=&quot]5[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]​
[FONT=&quot]’’ آپ ﷺ نے فرمایا :اسلام ایک ایک کڑی کر کے ٹوٹتا چلا جائے گا جب ایک کڑی ٹوٹ جائےگی تو لوگ دوسری کڑی کو پکڑ لیں گے سب سے پہلے جو کڑی ٹوٹے گی وہ ’’ حکم ‘‘ (فیصلہ ) ہوگا اور آخری ٹوٹنے والی کڑی ’’نماز ‘‘ ہوگی ۔‘‘[/FONT] [FONT=&quot]اس حدیث میں نبیﷺ نے مثال دے کر اسلام کے دور زوال کو سمجھایا اور سب سے پہلا معاملہ حکم یعنی فیصلہ ختم ہوجانے کے باوجود آپ ﷺ نے اسلام کو باقی قرار دیا جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکم بغیر ماانزل اللہ ایسا کفر نہیں جو دائرہ اسلام سے خارج کر دے ۔[/FONT] [FONT=&quot]آیت تحکیم اور سیدنا ابن عباس ؓ:[/FONT] [FONT=&quot]سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’ یہ وہ کفر نہیں جس کی طرف وہ جارہے ہیں یہ [/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]دین سے خارج کر دینے والا کفر نہیں ۔ [/FONT] [FONT=&quot]﴿[/FONT][FONT=&quot]ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون[/FONT][FONT=&quot]﴾[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]المائدۃ :[/FONT][FONT=&quot]44)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]یہ کفر دون کفر ہے ‘‘ [/FONT]
[FONT=&quot][المستدرک للحاکم رقم :اخریٰ ،وقال ھذاحدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ ووافقہ الذھبی وصححہ الألبانی ][/FONT]​
[FONT=&quot]سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے علقمہ اور مسروق رحمھما اللہ نے رشوت کے بارے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : ’’یہ حرام ہے ‘‘ دونوں نے کہا :(رشوت لے کر خلاف شریعت )فیصلہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ کفر ہےپھر صحابی رسول ﷺ عبد اللہ بن مسعود نے یہ آیت تلاوت کی ۔[/FONT] [FONT=&quot]﴿[/FONT][FONT=&quot]ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون[/FONT][FONT=&quot]﴾[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]المائدۃ :[/FONT][FONT=&quot]44)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الابانۃ (من شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ ومجانبۃ الفرقۃ المذمومۃ)للشیخ الامام ابی عبدا للہ عبید اللہ بن محمد ابن بطہ العکبری (المتوفی [/FONT][FONT=&quot]372[/FONT][FONT=&quot]ھ)ص:[/FONT][FONT=&quot]303[/FONT][FONT=&quot] ،ج:1،باب ذکر الذنوب التی تصیر بصاحبھا إلی کفر غیر خارج بہ عن الملۃ ][/FONT] [FONT=&quot]عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رشوت لے کر فیصلہ کرنے کو کفر قرار دیا ہے اور یہ کفر مخرج من الملۃ نہیں ہے۔اسی لیے امام ابن بطہ نے اس کو اس باب میں بیان کیا ہے جس میں ان گناہوں کا ذکر ہے جن کے ارتکاب سے آدمی کافر نہیں ہوتا۔[/FONT] [FONT=&quot]سید التابعین عطاء بن ابی رباح :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]وہ فرماتے ہیں:’’ [/FONT][FONT=&quot] کفر دون کفر وفسق دون فسق وظلم دون ظلم‘‘[/FONT] [FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][تفسیر طبری ،ص: 554،ج:4 رقم: [/FONT][FONT=&quot]12061][/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]طاؤس تابعی کا فیصلہ :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]وہ فرماتے ہیں: ’’یہ وہ کفر نہیں جو دین سے خارج کر دے ‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot][تفسیر طبری،ص:554 ،ج:4 ،رقم 12066][/FONT] [FONT=&quot]امام اہل السنہ احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمھما اللہ کا فیصلہ :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ میں فرماتے ہیں سلف صالحین کا یہ قول ہے کہ انسان میں جس طرح ایمان اورنفاق جمع ہوسکتا ہے اسی طرح اس میں کفر اور ایمان بھی جمع ہو سکتا جیسا کہ عبداللہ بن عباس اور ان کے شاگردوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں فرمایا:[/FONT] [FONT=&quot]﴿[/FONT][FONT=&quot]ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون[/FONT][FONT=&quot]﴾[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]المائدۃ :[/FONT][FONT=&quot]44)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]’’جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]انہوں نے ایسا کفر کیا ہے جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتاہے اور یہی موقف امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ اہل سنت نے اپنایاہے ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][مجموع الفتاویٰ ،ص:312،ج:7][/FONT]​
[FONT=&quot]اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہےتحکم بغیرماانزل اللہ عملی یامجازی کفر ہے اس کفر کا مرتکب علی الاطلاق کافر ومرتد نہیں جب تک کہ اس میں انکار وجحود یا استحلال وغیرہ نہ پایا جائے اور خوارج نے اس آیت کو فہم سلف سے ہٹ کر مطلقا کفر اکبر پرمحمول کیا اور توحید حاکمیت کانعرہ لگاتے ہوئے صرف حکمرانوں کو مرتد قرار دے دیا جوحکم بغیر ما انزلا للہ کا مرتکب ہوا حالانکہ یہ صریحاً ظلم ہے ۔[/FONT]
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
[FONT=&quot]مسئلہ تحکیم اور تقلیدی مذاہب:[/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں[/FONT][FONT=&quot]:[/FONT]
[FONT=&quot]﴿ ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَـٰنَهُمۡ أَرۡبَابً۬ا مِّن دُونِ ٱللَّهِ﴾[/FONT]
[FONT=&quot](التوبۃ:31)[/FONT]
[FONT=&quot]''انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ ذات جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں''۔[/FONT]
[FONT=&quot]نبی اکرمﷺ نے حضرت عدیؓ بن حاتم کے سامنے خود اس کی تفسیر کی جب انہوں نے آپؐ سے دریافت کیا کہ ہم تو ان کی عبادت نہ کرتے تھے تب آپﷺ نے فرمایا کہ ان کی عبادت دراصل یہ تھی کہ باطل میں ان کی اطاعت کی جاتی تھی۔[/FONT]
[FONT=&quot]رب العالمین کے مقابلے میں کسی کی بات یا کسی کا حکم تسلیم کرنا اور اس كو برحق جاننا دراصل اس ہستی کی عبادت ہے۔دیوبند حضرات سر عام اپنے ان اکابرین (طواغیت) کی عبادت (پوجا)کرتی ہے اور ان طواغیت کا انکار ان کے کسی مفتی،شیخ،یا کمانڈر کی زبان سے نہیں سنیں گے،لیکن اس کے باوجود بھی "کفر بالطاغوت "کے کھوکھلے نعرے لگاکر امت مسلمہ کو دھوکہ دیتے نظر آتے ہیں ۔[/FONT]
[FONT=&quot]علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :[/FONT] [FONT=&quot]ربیع کہتے ہیں میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا :[/FONT] [FONT=&quot]کیف کانت تلک الربوبیۃ فی بنی اسرائیل ؟[/FONT]
[FONT=&quot]’’بنی اسرائیل کس طرح غیراللہ کو رب سمجھتے تھے ؟‘‘[/FONT] [FONT=&quot]ابوالعالیۃ نے جواب دیا :جب انہیں تورات میں کوئی ایسی بات ملتی جو ان کے علماء اور پیروں (درویشوں )کے خلاف ہوتی تو وہ اپنے علماءو پیروں کی بات لے لیتے اور تورات کو پسِ پشت ڈال دیتے تھے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][تفسیر کبیر [/FONT][FONT=&quot]37/10[/FONT][FONT=&quot]، دارالکتب العلمیہ طھران ][/FONT]
[FONT=&quot]درج بالا آیت و حدیث وغیرہ سے ثابت ہوگیا کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے مولویوں اور پیروں کو حاکم اور شارع کی حیثیت دی یہ آیت اگرچہ یہود ونصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی لیکن یہ بات بالاتفاق قانون کی حیثیت رکھتی ہے :[/FONT] [FONT=&quot][العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ] [/FONT]
[FONT=&quot]’’یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ سبب کے خصوص ( شان نزول ) کا اعتبار ہوتا ہے ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]اگر ایسا نہ ہو یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار نہ کیاجائے تو پھر قرآن مجید کی کوئی آیت ہم پر صادق نہ آئے ۔دوسری بات یہ ہے کہ شایدنبی ﷺ نے فرمایا :[/FONT] [FONT=&quot]لتتبعن سنن من کان قبلکم[/FONT][FONT=&quot] (صحیح بخاری )[/FONT]
[FONT=&quot]’’تم ضرور میرے بعد یہود ونصاریٰ کے طریقہ کار کو اختیار کرو گے ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو شارع کی حیثیت دی اسی طرح اس امت کے مقلدین نے بھی اپنے اماموں کو وہی حیثیت دی ،اسی لئے قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :’’مقلد کے ہاں عملاً (اپنے امام ) امتی کا وہی مقام ہوتا ہے جوامتی کے نزدیک نبی کا ہوتا ہے ۔‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][ترتیب المدارک،ص:[/FONT][FONT=&quot]78[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]1[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]
[FONT=&quot]قریب قریب یہی بات شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مقلدین کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][تفہیمات، ص:[/FONT][FONT=&quot]151[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]1[/FONT][FONT=&quot] ،حجۃ اللہ البالغہ،ص:[/FONT][FONT=&quot]155[/FONT][FONT=&quot] ،ج:[/FONT][FONT=&quot]1[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]
[FONT=&quot]اب ہم ذیل میں یہود ونصاریٰ کے طرز تقلید کے حامی دیوبندیوں کے عملی نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے ۔[/FONT] [FONT=&quot]انکار قرآن اور اصول تقلید :[/FONT] [FONT=&quot]مسئلہ رضاعت :[/FONT] [FONT=&quot]قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے کہ دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے ۔ لیکن دوسری طرف تقلیدی حضرات قرآن کے اس فرمان کے بالکل تضاد میں اپنی فقہ کا اصول پیش کرتے ہیں کہ دودھ پلانے کی مدت دو سال نہیں بلکہ اڑھائی سال ہے۔[/FONT] [FONT=&quot]رضاعت ابو الحسن الکرخی الحنفی نے کہا ہے :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]الاصل ان کل اٰیۃ یخالف قول اصحابنا فانھا تحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولیٰ ان تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق[/FONT]
[FONT=&quot]’’ اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقہاءاحناف ) کے خلاف ہے اسے منسوخیت پر محمول یا مرجوح سمجھا جائے گا بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس آیت کی تأویل کر لی جائے ۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot][اصول کرخی، ص:[/FONT][FONT=&quot]29[/FONT][FONT=&quot]، اخریٰ ،ص:[/FONT][FONT=&quot]11[/FONT][FONT=&quot]، مجموعہ قواعد الفقہ،ص:[/FONT][FONT=&quot]18[/FONT][FONT=&quot]][/FONT] [FONT=&quot]منصب رسالت اور تقلید :[/FONT] [FONT=&quot]اصول کی کتب میں یہ بات مذکور ہے کہ[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]اما المقلد فمستندہ قول مجتھدہ[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]’’مقلد کی دلیل اس کے امام کا قول ہے ۔‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][مسلم الثبوت ،ص:[/FONT][FONT=&quot]7[/FONT][FONT=&quot]،مکتبہ رحمانیہ اردو بازار] [/FONT] [FONT=&quot] اسی طرح ایک مقلد نے لکھا : مقلد کے لئے صرف قول امام ہی حجت ہوتا ہے ۔[/FONT][FONT=&quot][ارشاد القاری ،ص:[/FONT][FONT=&quot]288[/FONT][FONT=&quot]][/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]تقلید کی بابت تقلیدی علماء کے نظریات:[/FONT] [FONT=&quot]1 [/FONT][FONT=&quot]-[/FONT][FONT=&quot]ایک معروف مقلد لکھتا ہے : یہ بحث شرعا لکھ دی ہے ورنہ رجوع الی الحدیث وظیفہ مقلد نہیں ہے ۔ [/FONT][FONT=&quot][احسن الفتاویٰ ،ص:[/FONT][FONT=&quot]50[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]3[/FONT][FONT=&quot]][/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]- اسی طرح ایک مقلد کو کسی سائل نے سوال پوچھا اور کہا کہ حدیث رسول ﷺ سے جواب دیں اس جواب میں مقلد مفتی لکھتا ہے ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں بھی کہہ دیں جو آپ نے سوال کے اختتام پر سپردقلم کیا ہے یعنی حدیث رسول ﷺ سے جواب دیں ۔[/FONT] [FONT=&quot]اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں یہ دراصل اس قاعدہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے قرآن وحدیث کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ کے فیصلے اور فتووں کی ضرورت ہے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][ماہنامہ تجلی دیوبند ،ج:[/FONT][FONT=&quot]19[/FONT][FONT=&quot]،شمارہ:[/FONT][FONT=&quot]11-12[/FONT][FONT=&quot]،جنوری ،فروری ،ص:[/FONT][FONT=&quot]47[/FONT][FONT=&quot]][/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]3[/FONT][FONT=&quot]-ایک اور مقلد حکیم الاسلام لکھتا ہے :اب ایک فیصلہ جو اب عرض کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ،ہم یہ آیت واحادیث سائل کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں احادیث یا آیات امام ابوحنیفہ کی دلیلیں ہیں[/FONT][FONT=&quot][جاء الحق،ص:[/FONT][FONT=&quot]9[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]][/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]-ایک مقلد حکیم الامت لکھتا ہے :اکثر مقلدین عوام کیا خواص اس قدر جامد ہیں کہ اگر قول مجتھد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح وانبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتاہے پھر تأویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتھد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تأویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لئے تأویل ضروری سمجھتے ہیں دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتھد کو چھوڑکر حدیث صحیح صریح پر عمل کرلیں ۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][تذکرۃ الرشید ،ص:[/FONT][FONT=&quot]131[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]1[/FONT][FONT=&quot]، مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور ][/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]1- [/FONT][FONT=&quot]شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کا فیصلہ:[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]اگر تم یہودیوں کانمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو (ہمارے زمانے کے )علماء سوءکو دیکھ لو جو دنیا کی طلب اور (اپنے) سلف کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں ،یہ لوگ کتاب وسنت کی نصوص (دلائل) سے منہ پھیرتے ہیں اور کسی (اپنے پسندیدہ) عالم کے تعمق، تشدد اور استحسان کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہیں انہوں نے رسولﷺ جو معصوم ہیں ان کے کلام کو چھوڑ کر موضوع روایات اور فاسدتأویلوں کو گلے سے لگا لیا ہے اسی وجہ سے یہ لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ،ص:[/FONT][FONT=&quot]25[/FONT][FONT=&quot]،مکتبہ امدادیہ ملتان ][/FONT]
[FONT=&quot]آل تقلید اور حدوداللہ :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اکثر مسلمان ممالک عرصہ دراز سے قانون الٰہی سے محروم ہیں اس کے ذمہ دار جہاں وہ ظالم حکمران ہیں جنہوں نے حدود اللہ کو عملاً نافذ کرنا ترک کر دیا ہے ان سے بھی زیادہ وہ اصحاب علم وفتویٰ ذمہ دار ہیں جنہوں نے حکمرانوں کوحدود میں ایسی شقیں ایجاد کر کے دیں جن کی موجودگی میں حدود اللہ کا نفاذممکن نہ رہا ان حضرات نے سب سے پہلے گزشتہ امتوں کی طرح اقامت حدود میں شریف وضعیف میں تفریق پیدا کر دی اور اپنے قانون قانون سازی سے سلاطین کو حدود سے مستثنیٰ قرار دیا۔[/FONT] [FONT=&quot]1- [/FONT][FONT=&quot]صدارتی استثناء :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]بنیﷺ نے سابقہ امتوں کی بربادی کاسبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :[/FONT] [FONT=&quot]اذا سرق الشریف ترکوہ واذا سرق الضعیف فیھم اقامواعلیہ الحد [/FONT]
[FONT=&quot]’’جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تواس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی ان میں کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے ۔‘‘[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][صحیح بخاری کتاب الحدود باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد ،رقم:[/FONT][FONT=&quot]6788[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]
[FONT=&quot]حدود اللہ خالص اللہ کا حق ہے اور قانون میں اشراف پر حدود کے نفاذ کا تذکرہ موجود ہے اور اشراف میں بادشاہ وقت سب سے پہلے نمبر پرآتا ہے جبکہ اس کے مد مقابل الھدایہ جسے یہ قرآن کی طرح سمجھتے ہیں اور اولی النھی والباب پر اس کی غلاظت پوشیدہ نہیں اس میں یہ قانونیہ قانون بنایا گیا [/FONT] [FONT=&quot]وکل شیء صنعہ الامام الذی لیس فوقہ امام فلا حد علیہ الا القصاص فانہ یوخذ بہ و بالاموال [/FONT] [FONT=&quot]’’وہ امام جس سے اوپر کوئی امام نہ ہو جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی حد نہیں سوائے قصاص کے ،اس کے ساتھ اسے پکڑا جائے گا اور اموال کے ساتھ ‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الھدایۃ کتاب الحدود ،باب الوطء الذی یوجب الحد والذی لایوجبہ، ص:[/FONT][FONT=&quot]99[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]، مکتبہ البشریٰ ][/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT] [FONT=&quot]2- [/FONT][FONT=&quot]شاتم رسولﷺ اور ابطال حدود:[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]اسلام میں شاتم رسول واجب القتل جبکہ فقہ حنفی میں وہ شاتم رسول کافرجوٹیکس دیتا ہو واجب القتل نہیں :[/FONT] [FONT=&quot]ومن امتنع من الجزیۃ او قتل مسلماً او زنیٰ بمسلمۃ او سب النبی لم ینتقض عھدہ [/FONT]
[FONT=&quot]’’ جو ( ذمی کافر) جزیہ دینے سے انکار کر دے یا مسلمان کو قتل کر دے یا اس نے مسلمان عورت کے ساتھ زنا کیا یا نبیﷺ کو گالی دی ،اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا یعنی وہ واجب القتل نہیں ہے ۔‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [الھدایۃکتاب السیر ،ص:[/FONT][FONT=&quot]598[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]،فتاویٰ عالمگیری ،ص:[/FONT][FONT=&quot]253[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]
[FONT=&quot]بلکہ حنفی فقیہ ابن نجیم حنفی رقمطراز ہے :[/FONT] [FONT=&quot]نعم نفس المؤمن تمیل إلی قول المخالف فی مسئلۃ السب لٰکن اتباعنا للمذھب واجب [/FONT]
[FONT=&quot]’’ مؤمن کا دل نفس مسئلہ میں سبّ رسول ﷺ میں مخالف (امام شافعی ) کے قول کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن ہمارے لئے اپنے مذہب کی اتباع ضروری ہے ۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot][البحر الرائق کتاب السیر ،ص:[/FONT][FONT=&quot]115[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]5[/FONT][FONT=&quot]اخریٰ، ص:[/FONT][FONT=&quot] 195/5[/FONT][FONT=&quot]][/FONT] [FONT=&quot]3- [/FONT][FONT=&quot]زانی سے حد ساقط:[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]قرآن مجید کا فیصلہ :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]﴿[/FONT][FONT=&quot] ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجۡلِدُواْ كُلَّ وَٲحِدٍ۬ مِّنۡہُمَا مِاْئَةَ جَلۡدَةٍ۬[/FONT][FONT=&quot]﴾[/FONT][FONT=&quot]‌[/FONT][FONT=&quot]ۖ[/FONT][FONT=&quot](النور:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]’’ زانی مردو زن کو سو کوڑے لگاؤ ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]اگر زانی شادی شدہ ہے تواس کو رجم کیا جائے گا جبکہ فقہ حنفی میں عورت کو کرایہ پر لے کر زنا کرنے سے کوئی حد نہیں چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں مرقوم ہے:[/FONT] [FONT=&quot]استأجر إمراۃلیزنی بھا او لیطأھا او قال خذی ھذہ الدراھم لأطأک او قال مکنینی بکذا ففعلت لم یحد ۔ ۔ ۔ ۔ ولو قال امھرتک کذالأزنی بکِ لم یجب الحد[/FONT]
[FONT=&quot]’’کسی آدمی نے کرایہ پر عورت لی تاکہ اس سے زنا کرے یا جماع کرے یا وہ اس کو کہے تو یہ درھم لے لے تاکہ میں تجھ سے صحبت کروں یا مجھے اپنے اوپر قدرت دے اور عورت نے ایسا کر لیا (یعنی زنا کروالیا)تو اس پر کوئی حد نہیں ۔‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot][فتاویٰ عالمگیری ،ص:[/FONT][FONT=&quot]149[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، البحر الرائق ،ص:[/FONT][FONT=&quot]30[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]5[/FONT][FONT=&quot]،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ ][/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]4- [/FONT][FONT=&quot]گونگے سے حد معاف :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]لا یؤخذ الأخرس بحد الزنا ولا بشیءمن الحدود [/FONT]
[FONT=&quot]’’ گونگے آدمی پر نہ زنا کی حدہے نہ ہی کوئی اور شرعی حد لاگو ہو گی ‘‘[/FONT] [FONT=&quot]گونگے کو عام طور پر چھوٹ جو مرضی جرائم کر لے ہر حد اسے معاف ۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][فتاویٰ عالمگیری، ص:[/FONT][FONT=&quot]149[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]، کتاب الحدود الباب الرابع فی الوطءالذی یوجب الحد والذی لایوجبہ][/FONT]
[FONT=&quot]5- [/FONT][FONT=&quot]دار الحرب میں زنا کرنے والے پر حد معاف :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]ومن زنیٰ فی الحرب او فی دار البغی ثم خرج الینا لایقام علیہ الحد[/FONT]
[FONT=&quot]’’جو بندہ دارالحرب میں یا دار البغی (انڈیا، امریکہ، برطانیہ وغیرہ )میں زنا کرے پھر وہ مسلمانوں کے پاس آجائے اس پر حد لاگو نہیں ہوگی ‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][فتاویٰ عالمگیری، ص:[/FONT][FONT=&quot]149[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ][/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
[FONT=&quot]6- [/FONT][FONT=&quot]کتابوں کی چوری پر حد :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]لاقطع فی الدفاتر کلھا [/FONT]
[FONT=&quot]’’کتابیں چوری کرنے میں کوئی حد نہیں‘‘[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ وما لا یقطع،ص:[/FONT][FONT=&quot]146[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]مطبوعہ مکتبہ البشریٰ کراچی ][/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT] [FONT=&quot]7- [/FONT][FONT=&quot]قرآن مجید کی چوری پر حد ساقط:[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]ولا فی سرقۃ المصحف وان کان علیہ حلیۃ [/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید کے نسخے چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگرچہ اس پر زیورات(تزیین وآرائش کےلئے ) ہوں‘‘ اور عالمگیری میں ہے کہ اگرچہ وہ تزیین وآرائش کا اتنا کام ہو جو ہزار درھم کے برابر ہو تب بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ، ص:[/FONT][FONT=&quot]144[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]،فتاویٰ عالمگیری،ص:[/FONT][FONT=&quot] 177[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]2[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]
[FONT=&quot]8- [/FONT][FONT=&quot]بردہ فروشی سے حد ساقط :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]ولا قطع علی سارق الصبی الحر وان کان علیہ حلی لان الحر لیس بمال وما علیہ من تبع لہ [/FONT]
[FONT=&quot]’’آزاد بچے کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائےگا اگرچہ اس پر زیور ہو کیونکہ وہ مال نہیں اور جواس پر زیور ہے وہ اس کے تابع ہے۔‘‘[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الھدایۃکتاب السرقۃباب مایقطع،ص:[/FONT][FONT=&quot]145[/FONT][FONT=&quot]،ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]،مکتبہ البشریٰ کراچی][/FONT]
[FONT=&quot]9- [/FONT][FONT=&quot]مسجد سے چوری پر حد باطل:[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]ولا یقطع فی ابواب المسجد ۔ ۔ ۔لا یحرز بباب المسجد ما فیہ حتیٰ لایجب القطع بسرقۃ متاعہ[/FONT]
[FONT=&quot]مسجد سے چوری کرنے والے کا بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ ۔ ۔ کیونکہ مسجد کے دروازے سے وہ چیزیں محفوظ نہیں ہوتی جو اس میں ہیں اس لئے اس سامان کی چوری سے ہاتھ کاٹنا واجب نہیں ۔‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ، ص:[/FONT][FONT=&quot]144-145[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]
[FONT=&quot]10- [/FONT][FONT=&quot]دکان سے محافظ کی موجودگی میں چوری پر حد نہیں :[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]دکانوں سے چوری کرنے والوں کو تحفظ دینے اور شرعی حدود کو باطل و کالعدم کرنے کے لئے کئی قسم کی حیلہ سازیاں بھی کی گئی ہیں جن میں سے ایک ضابطہ یہ بھی ہے چنانچہ ھدایہ میں ہے :[/FONT] [FONT=&quot]والحرزعلی نوعین حرزلمعنی فیہ کالبیوت والدوروحرز بالحافظ ۔ ۔ ۔ ۔ وفی المحرز بالمکان لایعتبر الاحراز بالحافظ[/FONT]
[FONT=&quot]’’حرز کی دو قسمیں ہیں ایک وہ حرز کہ خود اس میں حفاظت کا مفہوم موجود ہے جیسا کہ مکان اور گھر اور ایک وہ حرز جو حفاظت کرنے والے کی وجہ سے محفوظ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس کی حفاظت جگہ کی وجہ سے ہو رہی ہے ( مثلاً:مکانات اور گھر وغیرہ)اس کی حفاظت محافظ کے ساتھ معتبر نہیں ہے‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الھدایۃ ،کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ ،ص:[/FONT][FONT=&quot]154[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]][/FONT]
[FONT=&quot]پھر دکانوں ،ہوٹلوں اور اس قسم کے مقامات پر اس ضابطہ کو منطبق کیاہے چنانچہ ھدایۃ میں ہے :[/FONT] [FONT=&quot]بخلاف الحمام والبیت الذی اذن للناس فی دخولہ حیث لایقطع لانہ بنی فکان المکان حرزا فلا یعتبرالحراز بالحافظ[/FONT]
[FONT=&quot]’’یعنی حمام اور ان تمام مکانوں سے جہاں لوگوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے (یعنی دکانیں اور میزبان کا گھر وغیرہ) چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ یہ عمارتیں بنائی ہی اسی لئے گئی ہیں اس لئے یہ جگہ خود حفاظت والی ہے چنانچہ یہاں حفاظت کرنےوالےشخص کی حفاظت کاکوئی اعتبارنہیں ہوگا۔‘‘ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][الھدایۃ،ص:[/FONT][FONT=&quot]155[/FONT][FONT=&quot]، ج:[/FONT][FONT=&quot]4[/FONT][FONT=&quot]][/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]یعنی دکانوں پر مالک اور پہرے دار بھی کھڑے ہوں ،چور غیر محفوظ جگہ سے ہی چوری کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ سارا قاعدہ ہی ایجاد بندہ ہے۔ [/FONT][FONT=&quot](تلک عشرۃ کاملۃ)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]بطلان [/FONT][FONT=&quot]ٍ[/FONT][FONT=&quot]ِحدود اللہ اور آل تقلید :[/FONT]
[FONT=&quot]عالم اسلام میں ہمیشہ سے ایسے لوگ بھی رہے ہیں جنہوں نے حدود الٰہی سےصاف انکار کر دیا خواہ رجم ہو یا چور کا ہاتھ کاٹنا اب بھی مسلمان کہلانے والے کئی ایک حکمران ،جج، وکیل، دانشور، منکرین حدیث بلکہ دراصل منکرین حدوداللہ ہیں جو مغربی ملکوں سے ذہنی شکست خوردگی کی وجہ سے چور کے ہاتھ کاٹنے کو وحشیانہ سزا قرار دیتے ہیں اور چورکا ہاتھ کاٹنے کی صورت میں تمام ملک کے لوگ ٹنڈےکر دیے جانے کے اوہام زور وشور سے پھیلاتے رہتے ہیں یہ لوگ قرآن مجید کے فرمان [/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]’’چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو!‘‘[/FONT][FONT=&quot]) کو بھی نت نئے معانی کاجامہ پہناتے رہتے ہیں مگر عام مسلمان ان کی رائے کو ایک گمراہ ذہنیت سے زیادہ ماننے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے دل سے اس مبارک دور کی یاد مٹ نہیں سکتی جب ان حدود الٰہیہ کی بدولت حیرہ سے تنہا عورت نکل کر بیت اللہ کا طواف کرتی تھی اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوتا تھا اور اب بھی وہ بچشم سر ان برکات کو سعودی عرب میں دیکھ رہے ہیں اس کے برعکس مغربی قوانین کی بدولت کسی ملک میں اس امن واطمینان کی کوئی نظیر نہیں ملتی چونکہ ان قوانین کا نتیجہ چوری، ڈاکے،آبرو ریزی اور بد امنی میں روزافزوں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں نکلااس لئے عام مسلمان مغرب کے ان ذہنی غلاموں کی بات کو دل ودماغ میں جگہ دینے کےلئے تیار نہیں ہو سکے بطلان حدود (یعنی حدود اللہ کو باطل قرار دینے)کے لئے ان کا طریقہ کار عامۃ المسلمین میں مؤثر نہ ہو سکا ۔[/FONT]
[FONT=&quot]بطلانِ حدود اللہ کا دوسرا طریقہ:[/FONT]
[FONT=&quot]جو کامیاب بھی ثابت ہواان لوگوں نے اختیار کیا جو پورے زور سے اعلان کرتے رہے کہ زنا کی سزا درے اور رجم ہے ،چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ،شراب کی حد درے مارنا ہے ،اپنی تقریروں اور تحریروں میں خلافت اسلامیہ کے مبارک دور کے خواب بھی دکھاتے رہے عوام کے سامنے حدود الٰہیہ کے پاسبان بن کر آئے مگر قانون بناتے وقت صرف کتاب وسنت پر اکتفاء کرنے کی بجائے اس میں اپنی عقلی موشگافیوں اور شکوک وشبہات کے ذریعے ایسی شقیں شامل کر دیں کہ عملاً چور کا ہاتھ کاٹنا ممکن نہ رہا، زانی کو درے مارنا یارجم کرنا اور نہ ہی شرابی پر حد نافذ کرنا چونکہ یہ لوگ قانون الٰہی کے محافظ ہونے کے روپ میں سامنے آئے اور انہوں نے تنفیذ حدود کے پردے میں ابطال حدود کا کام سرانجام دیا اس لئے ان کے دام ہمرنگ زمین سے بہت کم خوش قسمت بچ سکے اس وقت بھی یہ حالت ہے کہ ایک طرف پاکستان کے مسلمان اسلامی حدود کے نفاذ کے لئے سخت بے قراری کا اظہار کرتے رہتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اکثریت نے ایسے لوگوں کو اپنا پیشوا اور رہنما بنایا ہوا ہے جو دن رات اپنے اکابرین [/FONT][FONT=&quot]ومتفقھین[/FONT][FONT=&quot] کے خود ساختہ قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں جس نے حدود الٰہیہ کو عملاً معطل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی عملی حقائق جاننے کے لئے پانچ سو حنفی علماء کا اجتماعی فتویٰ عالمگیری اور فقہ حنفی کی معتبر دستاویز الھدایۃ وغیرھما کی کتاب السیر ،کتاب الحدود،کتاب السرقۃ،کتاب الطلاق وغیرہ کا مطالعہ کرلیں یا ہمارے شیخ حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ کی مطبوعہ کتاب چوری کے متعلق قانون الٰہی اور قانون حنفی دیکھ لیں ابطال حدود کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ۔ان شاء اللہ [/FONT] [FONT=&quot]اب آخر میں امام ابن تیمہ رحمۃ اللہ کا ایک سنہری فرمان بھی پڑھ لیں،تاکہ تقلید کرنے والے کسی قسم کی خوش فہمی اور سہانے خواب کا شکار نہ ہوں۔[/FONT] [FONT=&quot]وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ مُتَّبِعًا لِأَبِي حَنِيفَةَ أَوْ مَالِكٍ أَوْ الشَّافِعِيِّ أَوْ أَحْمَدَ: وَرَأَى فِي بَعْضِ الْمَسَائِلِ أَنَّ مَذْهَبَ غَيْرِهِ أَقْوَى فَاتَّبَعَهُ كَانَ قَدْ أَحْسَنَ فِي ذَلِكَ، وَلَمْ يَقْدَحْ ذَلِكَ فِي[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]دِينِهِ. وَلَا عَدَالَتِهِ بِلَا نِزَاعٍ؛ بَلْ هَذَا أَوْلَى بِالْحَقِّ، وَأَحَبُّ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِمَّنْ يَتَعَصَّبُ لِوَاحِدٍ مُعَيَّنٍ، غَيْرِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَمَنْ يَتَعَصَّبُ لِمَالِكٍ أَوْ الشَّافِعِيِّ أَوْ أَحْمَدَ أَوْ أَبِي حَنِيفَةَ، وَيَرَى أَنَّ قَوْلَ هَذَا الْمُعَيَّنِ هُوَ الصَّوَابُ الَّذِي يَنْبَغِي اتِّبَاعُهُ، دُونَ قَوْلِ الْإِمَامِ الَّذِي خَالَفَهُ.[/FONT]
[FONT=&quot]فَمَنْ فَعَلَ هَذَا كَانَ جَاهِلًا ضَالًّا: بَلْ قَدْ يَكُونُ كَافِرًا؛ فَإِنَّهُ مَتَى اعْتَقَدَ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى النَّاسِ اتِّبَاعُ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةِ دُونَ الْإِمَامِ الْآخَرِ فَإِنَّهُ يَجِبُ أَنْ يُسْتَتَابَ، فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ[/FONT][FONT=&quot]۔[/FONT]
[FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]الفتاوى الکبرى لابن تیمیہ ج ۲ ص104, ۱۰۵)[/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT]​
[FONT=&quot]ترجمہ:[/FONT] [FONT=&quot]اوراگر کوئی شخص امام ابوحنیفہ یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد رحمہم اللہ کا متبع ہو : اوربعض مسائل میں دیکھے کہ دوسرے کا مذہب زیادہ قوی ہے اوراس کی اتباع کرلے تو اس کا یہ کام بہتر ہوگا اوراس سے اس کے دین یا عدالت میں بالاتفاق کوئی عیب نہیں لگے گا، بلکہ یہ شخص زیادہ حق پر اور اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہوگا اس شخص کی بنسبت جواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی معین( امام) کے لئے تعصب رکھے۔[/FONT] [FONT=&quot]مثلا کوئی امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد یا امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا متعصب ہو اور یہ سمجھے کہ اس معین امام کا قول ہی درست ہے اوراسی کی اتباع کرنی چاہئے نہ کہ اس کے مخالف کسی دوسرے امام کی ، [/FONT][FONT=&quot]"تو جو شخص بھی ایسا کرے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں وہ کافر ہو جاتا ہے" چنانچہ جب وہ یہ اعتقادر کھے کہ لوگوں پر ان ائمہ (اربعہ) میں سے کسی ایک معین امام ہی کی اتباع کرنی ہے اوردوسرے کسی امام کی نہیں، تو ایسی صورت میں واجب ہوگا کہ اس شخص سے توبہ کرائی جائے، پھر اگر توبہ کرلے توٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا(کیونکہ ایسی صورت میں وہ کافر ہوجائے گا)[/FONT] [FONT=&quot]قارئین کرام آپ نے پڑھ لیا کہ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کون کرتا ہے؟اور اپنے معاملات کو کون ان طواغیت کے پاس لے کر جاتے ہیں؟وہ فیصلے نکاح،طلاق،کے ہوں یا غسل ،نماز کے۔جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلے کرے گا وہ تکفیریوں کے نزدیک تو کافر ہو جائے گا۔لیکن ان تقلیدی ملاؤں کو استشناء کس بنیاد پر؟[/FONT] [FONT=&quot]ایک شخص جج،وکیل،حکمران اللہ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر انتظامی معاملات میں غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور ان کو اللہ کے فیصلوں سے افضل قرار بھی نہیں دیتاہے[/FONT][FONT=&quot] ([/FONT][FONT=&quot]یعنی فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے[/FONT][FONT=&quot])۔[/FONT][FONT=&quot]اور دوسرا شخص عقیدہ میں اللہ کے نازل کردہ شریعت کو چھوڑ کر امام ماتریدی کے عقیدے کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور نماز،روزہ،حج ،زکواۃ،جیسی عبادات میں اللہ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ کون بڑا مجرم ہے؟[/FONT]
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
[FONT=&amp]اب ہم آتے ہیں حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے ان بیانات کی طرف جن میں انہوں نے کہا کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات کا رد اور چیلنج میں دنیا کی ہر عدالت میں کرنے کے لے تیار ہوں۔اور اگر وہ مجھے مجرم ثابت کریں تو میں ان کا فیصلہ ماننے کے لیے بھی تیار ہوں۔[/FONT] کیا موجودہ عدالتوں کی طرف رجوع تحاکم الی الطاغوت ہے ؟

[FONT=&amp]بعض لوگ سادہ لوح عوام کو یہ تأثر دیتے ہیں کہ جو شخص ان عدالتوں کی طرف رجوع کرتا ہے وہ طاغوت کا پجاری اور شریعت اسلامیہ سے خارج ہے (کیونکہ فیصلہ کروانا عبادت ہے جب اس نے غیر شرعی عدالت سے فیصلہ کروایا گویا اس نے اس کی عبادت کی )حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ جب سلطہ والی (خود مختار ،اختیارات والی)شرعی عدالتیں موجود نہ ہوں تو اپنے جائز حقوق کے لئے غیر اسلامی عدالتوں سے فیصلہ کروانا نہ صرف جائز ودرست ہے بلکہ انبیاء و صالحین کا طریقہ بھی ہے (جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کا وقت کے بادشاہ سے تحقیق کا مطالبہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دربارنجاشی میں پیش ہونا ) ہاں اگر معاشرہ میں بااختیار اسلامی شرعی عدالتیں موجود ہوں اور ان کے مدمقابل غیر شرعی اور غیر اسلامی عدالتیں قائم ہوں تومحض لوٹ کھسوٹ یا اپنے حق میں ناجائز فیصلہ لینے کے لئے اسلامی بااختیار عدالت کو چھوڑ کر ایسی عدالت میں جانا حرام ہے ۔جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساءمیں کیا ہے :[/FONT] [FONT=&amp]﴿ [/FONT][FONT=&amp]أَلَمۡ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزۡعُمُونَ أَنَّهُمۡ ءَامَنُواْ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبۡلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓاْ إِلَى ٱلطَّـٰغُوتِ وَقَدۡ أُمِرُوٓاْ أَن يَكۡفُرُواْ بِهِۦ وَيُرِيدُ ٱلشَّيۡطَـٰنُ أَن يُضِلَّهُمۡ ضَلَـٰلاَۢ بَعِيدً۬ا [/FONT][FONT=&amp]﴾[/FONT][FONT=&amp] (النساء:[/FONT][FONT=&amp]60[/FONT][FONT=&amp])[/FONT]
[FONT=&amp]’’ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجو گمان کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو تیری طرف نازل کیا گیا اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے چاہتے ہیں کہ آپس کے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا کہ اس کا انکار کریں اور شیطان چاہتا ہےکہ انہیں گمراہ کر دے بہت دور کا گمراہ کرنا۔‘‘اب ان آیات سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ جو بااختیار اسلامی شرعی عدالت کی موجودگی میں کسی غیر اسلامی عدالت سے فیصلہ کروانے پہ خوش ہے تو لازما اس کے دل میں کھوٹ ہے ،اور اگر معامل اس کے برعکس ہو یعنی بااختیار اسلامی شرعی عدالت موجود نہ ہو تو تب ان سے فیصلہ کروایا جا سکتا ہے ،دلائل اوپر گزر چکے ہیں ۔مزید آیت کے پس منظر سے واضح ہو جائے گا۔[/FONT] [FONT=&amp]آیت کا پس منظر و شان نزول :[/FONT] [FONT=&amp]اس آیت میں طاغوت سے مراد کاہن یا کعب بن اشرف یہودی ہے جن سے کافر لوگ اپنے فیصلے کرواتے تھے جیساکہ مشہور تابعی امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے دعویدار ایک آدمی (مسلمان ) اور یہودی کا آپس میں جھگڑاہو گیا ،یہودی نے کہا کہ :میں تیرا فیصلہ تیرے دین والوں سے کرواتا ہوں یا کہا کہ تیرے نبی(محمد ﷺ)سےکرواتا ہوں کیونکہ وہ یہودی جانتا تھا کہ نبی ﷺفیصلہ وغیرہ میں رشوت نہیں لیتے[/FONT][FONT=&amp]اور برحق فیصلہ کرتےہیں [/FONT][FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp]لیکن وہ منافق قسم کا مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا تھا،کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حق سچ کا فیصلہ کرنا ہے تو چونکہ میرا قصور ہے اس لیے مجھے سزا ملے گی،اس لیے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے ایک کاہین سے فیصلہ کروا لیتا ہوں ،تاکہ بچاو کی کوئی راہ نکل سکے[/FONT][FONT=&amp])[/FONT][FONT=&amp] اور فیصلہ کروانے میں ان دونوں کا تنازع ہوگیا پھر وہ دونوں جہینہ قبیلے کے ایک کاہن سے فیصلہ کروانے پر متفق ہو گئے تو تب یہ آیت نازل ہوئی ۔[/FONT][FONT=&amp][تفسیر طبری ،ص:[/FONT][FONT=&amp]926[/FONT][FONT=&amp]،ج:[/FONT][FONT=&amp]3[/FONT][FONT=&amp]،رقم:[/FONT][FONT=&amp]9918[/FONT][FONT=&amp]][/FONT] [FONT=&amp]قارئین کرام[/FONT][FONT=&amp]![/FONT][FONT=&amp]یہاں تک آپ حضرات کے سامنے طاغو ت کی اقسام اور ان کے ماننے اور ان کی پوجا کرنے والوں کا تعارف اور ان کا انکار کرنے والوں کے بارے میں تفصیل اور موجودہ عدالتوں سے فیصلے کروانے کی شرعی حیثیت بیان کر دی گئی ہے،اب آپ حضرات کے سامنے ایک عجیب صورت حال پیش کرنے جا رہے ہیں۔جس سے آپ اس بات کا اندازہ کر سکیں گے کہ جن بنیادوں پر دوسروں کو طاغوت کا پجاری قرار دیتے ہیں ،جب وہ شرائط آل تقلید اور نام نہاد سلفی مجاہدین پر فٹ آتی ہیں تو فوراً ان کے اصول بھی بدل جاتے ہیں اور ٹون بھی ۔ایک ایسا ہی نمونہ ہم آپ حضرات کے سامنے پیش کرتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]آل تقلید کے امام ابو بصیر طرطوسی،ابو قتادہ،عمر البکری،سعد الفقیہ،اور ان کے علاوہ بے تحاشا گمنام حضرات برطانیہ،کینڈا،یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور باقاعدہ وہاں کی شہریت یافتہ ہیں۔یہ بات تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کفار کے ممالک میں قیام کرنا،ان کی طرف سفر کرنا ،ان کے طاغوتی نظاموں کو ماننا،اور ان کی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا یعنی ان سے فیصلے کروانا پاکستان کی نسب کہیں بڑے جرائم ہیں۔لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔پاکستان کی عدالتوں سے فیصلے کروانے والے کو کافر،مرتد کہا جاتا ہے ،جبکہ برطانیہ کی عدالتوں سے فیصلے کروانے والے کو امیر المجاہدین کہا جاتا ہے۔پاکستان کو "دارلکفر" کہا جاتا ہے ،لیکن برطانیہ کو "دارالسلام"کہا جاتا ہے،تبھی تو بہت سارے حضرات پاکستان سے سفر کر کے برطانیہ چلے گئے ہیں،اور بعض حضرات تو اپنے اس سفر کو" ہجرت "قرار دیتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]آئیے جانتے ہیں وہ کیسے؟[/FONT] [FONT=&amp]ابو قتادہ،ابو بصیر طرطوسی،ابو حمزہ،سعدالفقہی برطانیہ کے شہری ہیں۔اور برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ایک حلف نامہ اٹھانا پڑتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے[/FONT][FONT=&amp].[/FONT] [FONT=&amp]حلف نامے کے الفاظ یہ ہیں۔[/FONT]
Oath of allegieance

[FONT=&amp]British citizenship[/FONT]
[FONT=&amp]I(name) swear by Almighty God that on becoming a British citizen, I will be faithful and bear true allegiance to Her, Majesty Queen Elizabeth the Second, her Heirs and Successors, I will uphold its democratic values. I will observe its laws faithfully and fulfill my duties and obligations as a British citizen.[/FONT] [FONT=&amp]”میں (نام) خدائے عظیم و برتر سے عہد کرتا ہوں کہ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد برطانوی قانون کے مطابق عزت مآب ملکہ الزبتھ دوئم، ان کے ورثاءاور جانشینوں کا تابعدار رہوں گا،برطانیہ عظمیٰ کا وفادار رہوں گا اور اس ریاست میں رائج قوانین، حقوق اور آزادیوں کا احترام کروں گا، میں برطانیہ کی جمہوری اقدار کی پاسداری کروں گا اور صدق دل سے ان تمام قوانین اور ذمہ داریوں کا پابند رہوں گا، جو برطانیہ میں رائج ہیں“[/FONT] [FONT=&amp]جو مسلمان ہندوستان میں رہتے ہیں {انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی پچیس کروڑ سےبھی زیادہ ہے} انہوں نےانڈیا کے{کفریہ} آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا یا ہوا ہے وہاں پرانکی مساجد و مدارس قائم ہیں اور ہندوستان کے دارالکفر و دارالشرک ہونے میں دو مسلمانوں کا بھی اختلاف نہیں ہو سکتا ۔ کروڑوں کی تعداد میں ان مسلمانوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں علمائے دین تکفیر وشرع خوارج ؟؟؟[/FONT] [FONT=&amp]اور عام مسلمان تو دور کی بات ہے،دارلعلوم دیوبند ہندوستان کے علماء کے بارے ہیں اپنا فتوی پیش کر دیں کہ وہ بھی طاغوت کے پجاری ہیں ،وہ بھی کافر،مرتد اور واجب القتل ہیں؟[/FONT] [FONT=&amp]قارئین کرام :اب فیصلہ آپ حضرات نے کرنا ہے کہ وہ لوگ جوپاکستان {ایک اسلامی ملک،جس کا آئین بھی اسلامی ،آئین میں قرآن و سنت کو بالا دستی بھی حاصل ،اسلام پر عمل کرنے کی مکمل آزادی بھی ہے}میں مقیم ہیں اور یہاں رہ کر دعوت و جہاد کا کام کرتے ہیں ،وہ طاغوت کے پجاری ہیں یا وہ حضرات ،جو ملکہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھائیں ، صدق دل سے برطانیہ جیسے طاغوت کے نظام کو تسلیم کرکےان کی مکمل پاسداری کی یقین دہانی کروائیں؟یا وہ جو ہندوستان میں بیٹھ کر جہاد کشمیر کو تو باطل قرار دیتے ہیں،جو پاکستان کے حکمرانوں کو تو مرتد قرار دے کر پاکستان کی عوام کو ان حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے کے فتوے صادر کرتے ہیں ؟[/FONT] [FONT=&amp]آخر کیا وجہ ہے کہ ان حضرات کو برطانیہ میں ہونے والے کفر اور "تحکیم بغیر ما انزل اللہ "اور" تحاکم الی الطاغوت "نظر نہیں آتا ،جبکہ باقی ممالک میں ان حضرات کی تعلیمات اور فتاوی ٰ جات "کفر بالطاغوت"کے علاوہ کچھ ہوتے ہی نہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]اب چونکہ ان حضرات نے برطانیہ میں رہنا تھا تو اپنے دفاع میں فتوے بھی پیش کرنے لگے ،جن سے ان کی اپنی جڑیں کٹنے لگیں۔[/FONT] [FONT=&amp]ایک ایسا ہی فتوی ابو بصیر طرطوسی کا ہے جس میں برطانیہ جیسی کفریہ عدالتوں سے فیصلے کروانے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔[/FONT] [FONT=&amp]آئیے؛ فتوے کا جائزہ لیتےہیں۔[/FONT]
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
[FONT=&amp]تکفیریوں کے امام ابو بصیر طرطوسی کا فتوی کہ[/FONT]
[FONT=&amp] طاغوتی عدالتوں سے فیصلے کروانے کی شرعی حثیت کیا ہے؟[/FONT]

[FONT=&amp]"طاغوت سے فیصلہ کروانا عقیدے کا اہم مسئلہ ہے جس کی تفصیلات جاننے میں سستی نہیں کرنی چاہیے ۔لوگ اس مسئلہ میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ غلو کرتے ہوئے "خارجیت" کی راہ پر گامزن ہیں تو دوسرے "ارجاء "کی بدعت کا شکار ہیں ۔"تحاکم الی الطاغوت "کی اُس صورت کو جاننا ضروری ہے جو کفراکبر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اسی صورت کو بیان فرمایا ہے۔[/FONT] [FONT=&amp]الَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُونَ أَنَّہُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ یُرِیْدُونَ أَن یَتَحَاکَمُواْ إِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن یَکْفُرُواْ بِہِ وَیُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَن یُضِلَّہُمْ ضَلاَلاً بَعِیْداً٭ وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ إِلَی مَا أَنزَلَ اللّہُ وَإِلَی الرَّسُولِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّونَ عَنکَ صُدُودا}[/FONT]
[FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp]النساء :[/FONT][FONT=&amp]۶۰،۶۱)[/FONT]
[FONT=&amp]کیاآپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کا اُس پر ایمان ہے جو آپ پر اور آپ سے پہلے نازل کیا گیا لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اُس کا انکار کریں۔شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ اُنہیں بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے ،ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ( قرآن) اور رسول کی طرف آو تو آپ دیکھیں گے کہ یہ منافق آپ کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں ۔[/FONT] [FONT=&amp]امام المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:[/FONT] [FONT=&amp]یہ اپنے جھگڑوں کا فیصلہ طاغوت سے کروانا چاہتے ہیں ،طاغوت وہ ہے جس کی یہ تعظیم کرتے ہیں اور اللہ کے حکم کو چھوڑ کر جس کے فیصلوں پر راضی ہوتے ہیں جبکہ [/FONT][FONT=&amp]{[/FONT][FONT=&amp]وَقَدْ أُمِرُواْ أَن یَکْفُرُواْ بِہ[/FONT][FONT=&amp]}[/FONT][FONT=&amp] انہیں اللہ نے حکم دیا تھا کہ طاغوت کے فیصلوں کو جھٹلائیں ،لیکن انہوں نے اللہ کوچھوڑ کر طاغوت سے اپنے فیصلے کروائے اور شیطان کے حکم کی پیروی کی [/FONT][FONT=&amp]۔[/FONT][FONT=&amp]{[/FONT][FONT=&amp]وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ إِلَی مَا أَنزَلَ اللّہُ وَإِلَی الرَّسُولُ[/FONT][FONT=&amp]}[/FONT][FONT=&amp]ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کے اُن احکام کی طرف پلٹو جو اُس نے اپنی کتاب میں نازل کیے اور جو رسول لے کر آئے تاکہ وہ ان سے ہمارے درمیان فیصلہ کریں ۔{ رَأَیْْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّونَ عَنکَ صُدُودا}یہ منافق آپ کی طرف فیصلہ کروانے کے لیے آنے سے خود بھی رکے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں ۔[/FONT]
[FONT=&amp]امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں[/FONT] [FONT=&amp]اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے ایمان کو جھٹلایا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر جو اُس نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف ساتھ ہی اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کروانے کے لیے کتاب وسنت کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ کسی اور طرف جاتے ہیں ۔اس آیت کے سبب نزول میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایک یہودی اور انصاری کے تنازع پر نازل ہوئی ،یہودی کہتا تھا چل محمد ﷺ سے فیصلہ کروائیں جبکہ انصاری کعب بن اشرف کے پاس جانے کو کہتا تھا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت اُن منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اسلام کو ظاہر کرتے لیکن در پردہ جاہلیت کے سرداروں سے فیصلہ کروانا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں ۔یہ آیت اپنے حکم اور الفاظ کے لحاظ سے عام ہے اور اُن تمام واقعات کو شامل ہے ۔اس میں ہر اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جو کتاب وسنت سے ہٹ کر کسی بھی باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جاتا ہے یہاں طاغوت سے یہی باطل مراد ہے ۔‘‘[/FONT]
[FONT=&amp](تفسیر ابن کثیر)[/FONT]
[FONT=&amp]علامہ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں[/FONT] [FONT=&amp]جو کوئی مومن ہونے کا دعویدار ہو اور پھر اللہ کے حکم پر طاغوت کے حکم کو ترجیح دیتا ہو وہ ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے ۔‘‘[/FONT]
[FONT=&amp](تفسیر سعدی)[/FONT]
[FONT=&amp]ان دلائل سے ثابت ہوا کہ تحاکم الیٰ الطاغوت( جو کفر اکبر ہے) کی درج ذیل صفات ہیں :[/FONT]
[FONT=&amp]۱[/FONT][FONT=&amp]۔اسلامی حکومت یا ایسا مسلم سلطان موجودہوجو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے پر قادر ہو اور فریقین سے یہ فیصلہ منوانے کی طاقت رکھتاہو۔[/FONT] [FONT=&amp]۲[/FONT][FONT=&amp]۔ایسے مسلم سلطان کے ہوتے ہوئے اللہ کے حکم سے اعراض کرنا اور طاغوت سے شریعت الٰہی کے مخالف فیصلہ کروانا ۔یعنی آزادی،اختیار اور رضامندی سے طاغوت سے فیصلہ کروانا اور اُسے حکم باری تعالیٰ پر مقدم کرنا جبکہ وحی الٰہی کے مطابق فیصلہ کروانا بآسانی ممکن اور میسر تھا۔[/FONT] [FONT=&amp]۳[/FONT][FONT=&amp]۔اللہ کی شریعت سے فیصلہ کروانے سے رکنا جب کبھی اسے اللہ کی شریعت کی طرف لے جایا جائے تو اہل نفاق اس سے خود بھی رکتے اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔وہ صرف طاغوت سے فیصلہ چاہتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]جس کسی میں یہ صفات پائی جائیں جس پر یہ آیت اور مفسرین کے اقوال دلالت کرتے ہیں وہ ملت اسلام سے خارج اور کفر اکبر کا مرتکب ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]رہے وہ حالات جن میں شرعی عدالتیں نہ پائی جاتیں ہوں اور مسلم سلطان بھی موجود نہ ہو جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرتااور جھگڑا کرنے والوں پر اللہ کے حکم کے نفاذ کی طاقت و قدرت رکھتا ہوگویا ان حالات میں طاغوتی قوانین سے فیصلہ کروانے والے مجبور ہوں ۔ وہ دل میں اس سے بغض و کراہت رکھنے اور اللہ کی شریعت سے محبت کرنے کے باوجود ان حالات میں اپنے حقوق حاصل کرنے یا اپنے سے ظلم کو دفع کرنے کے لیے ان طواغیت کی عدالتوں سے فیصلے کروانے جاتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔جو شخص مجبور کر دیا جائے تو شرعاً اور عقلاً اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہناغلط ہے کہ وہ تحاکم الی الطاغوت کرنے والے اور اللہ کی شریعت سے اعراض کرنے والے ہیں ۔اس سے بہت سے ان مسلمانوں کی تکفیر لازم آتی ہے جو ایسے علاقہ میں رہتے ہیں جہاں طاقت رکھنے والی شرعی عدالتیں موجود نہیں ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا خوارج کا طریقہ ہے۔[/FONT] [FONT=&amp]شریعت اسلام کے مقاصد میں ایک مقصد ظلم کو دفع کرنا ، مظلوم کو انصاف دلانا اور ظالم کو حق کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنا ہے ۔ایسا کرنا اگر کسی مسلمان کے ہاتھوں ممکن نہ ہو اور صرف کافر کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اگر کافر عدل و انصاف سے کام لے اور مظلوم کی امداد کرے تو اسلام اس کی تعریف کرتا ہے اور ظلم کوئی مسلمان بھی کیوں نہ کرتا ہو اس کی مذمت کی جاتی ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ احسان کرنے والے کی گواہی دو کہ وہ محسن ہے چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ اور زیادتی کرنے والے پر بھی گواہی دو کہ وہ مس[/FONT][FONT=&amp]یء[/FONT][FONT=&amp] ہے چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔(السلسلہ الصحیحہ للالبانی،ح:[/FONT][FONT=&amp]۴۵۷)[/FONT] [FONT=&amp]رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ میں اپنے چچاؤں کے ساتھ حلف المطبین میں موجود تھا ۔ میں اس حلف کو توڑنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ ملے۔[/FONT]
[FONT=&amp](صحیح ادب المفرد:[/FONT][FONT=&amp]۴۴۰)[/FONT]
[FONT=&amp]امام ابن الاثیر فرماتے ہیں ’’ جاہلیت کے زمانے میں بنو ہاشم، بنو زہرہ اور بنو تمیم ابن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے انہوں نے ایک بڑے پیالے میں خوشبو ڈالی اور پھر اپنے ہاتھ ڈبوئے اور ظالم سے مظلوم کا حق لینے اور اس کی مدد کرنے پر حلف اٹھایا اس حلف کا نام حلف المطبین ہوگیا ۔[/FONT]
[FONT=&amp](النھایہ)[/FONT]
[FONT=&amp]اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کونجاشی کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جس کے پاس ظلم نہیں ہوتا۔اورجب مشرکین مکہ نجاشی کے پاس پہنچے تو صحابہ کرام نے نجاشی کے سامنے اپنی دعوت اوردلائل پیش کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا تاکہ وہ انہیں مشرکین مکہ کے حوالے نہ کرے۔نجاشی کے سامنے یہ معاملہ ایک عدالت ہی کی طرح تھا کیونکہ نجاشی کافر حاکم تھا جس کے سامنے عمر وبن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ مشرکین مکہ کے ترجمان کے طور پر پیش ہوئے اور مسلمانوں کی طرف سے جعفر بن ابی طالب نے مسلمانوں کا موقف پیش کیا اور آخر میں مجلس کے اختتام پر حاکم نے اپنا یہ فیصلہ سنایا کہ وہ مسلمانوں کو مشرکین مکہ کے حوالے نہیں کرے گا۔[/FONT] [FONT=&amp]اس واقعہ پر کسی نے نہیں کہا کہ صحابہ کرام نے طاغوت سے فیصلہ کروایا۔[/FONT] [FONT=&amp]اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ اپنی مرضی و اختیار سے تاتاریوں کے بادشاہ قازان اور اس کے لشکر کے سرداروں قطوشاہ اور لولائی کے سامنے کھڑے ہوئے اور آپ نے ان سے دلائل کے ساتھ مباحثہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا مسلمان اور ذمی قیدیوں کو آزاد کر دیں ۔آپ کے اس عمل کو اس دور کے تمام علمائے کرام نے پسند کیا اور کسی نے نہیں کہا کہ آپ نے تحاکم الی الطاغوت کیا۔اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے قبرص کے عیسائی بادشاہ سرجواس کو خط لکھا اور نرمی سے گفتگو کرتے ہوئے اسے ترغیب دی کہ مسلمان قیدیوں کے ساتھ احسان کرے آپ کے اس عمل کوکسی نے تحاکم الی الطاغوت نہیں کہا۔[/FONT] [FONT=&amp]طاغوتی عدالتوں میں جانے والا ہر شخص تحاکم الیٰ الطاغوت کا مرتکب نہیں ہوتا[FONT=&amp][1][/FONT]ان عدالتوں میں جانے والے کچھ تو وہ ہیں جو اپنا حق لینے کے لیے اور کچھ ظالم کا ہاتھ روکنے اور بعض مظلوم کی مدد کرنے کے لیے وہاں جاتے ہیں۔اس لیے ایسے لوگوں کو متحاکم الیٰ الطاغوت کہنا درست نہیں بلکہ ان عدالتوں میں جا کر کوئی حق کی گواہی دیتا ہوا قتل کر دیا گیا ہو تو وہ شہیدوں کا سردار ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سید شہداء حمزہ بن عبدالمطلب اور وہ شخص ہے جو ظالم سلطان کے سامنے کھڑا ہو کر اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور نتیجتاً قتل کر دیا جاتا ہے ۔[/FONT]
[FONT=&amp](السلسلہ الصحیحہ للا لبانی ،ح:[/FONT][FONT=&amp]۴۹۱)[/FONT]
[FONT=&amp]آپ ﷺ نے فرمایا افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے ۔‘‘(ابوداؤد[/FONT][FONT=&amp]۴۳۴۴[/FONT][FONT=&amp]،ترمذی)[/FONT] [FONT=&amp]بعض اوقات کسی حق کو حاصل کرنا اور ظلم کو دور کرنا بھی کلمہ حق ہو سکتا ہے اس لیے ظالم حاکم کے سامنے ہر کھڑا ہونے والا اس کے کفر پر راضی نہیں ہوا کرتا ۔معاشرے میں ظلم اور ذلت ورسوائی پر راضی رہنا یا ستم ڈھانے والوں کو دیکھ کر خاموش رہنا اور ان سے اس حجت کے ساتھ آنکھیں بند کر لینا کہ آج کوئی مسلمان حکمران موجود نہیں جو ان مظلوموں کو انصاف دلانے پر قادر ہو اور یہ نتیجہ نکالنا کہ مظلوموں کو ان کا حق دلوانے کے لیے کسی غیر مسلم سے مطالبہ کرنا جائز نہیں ۔اسی لیے اربوں کھربوں مسلمان اس وقت تک انتظار کریں یہاں تک کہ کوئی مسلمان حاکم حکومت میں آئے جو اسلام نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہو‘پھر ان کے حقوق ملیں گے اور ظلم ختم ہوگا ‘اس وقت تک اس امت کو ظلم و ستم پر خاموشی ہی سے کام لینا ہوگا اگر انہوں نے ان مروجہ عدالتوں کی طرف رجوع کیا تو وہ تحاکم الی الطاغوت کرنے والے ہوں گے ۔ اس نظریہ کی اللہ کی شریعت میں کوئی دلیل موجود نہیں۔نہ اللہ نے اپنے بندوں کے لیئے اس بات کو پسند کیا ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]}[/FONT][FONT=&amp]وَالَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنتَصِرُونَ }([/FONT][FONT=&amp]الشوریٰ[/FONT][FONT=&amp]:[/FONT][FONT=&amp]۳۹[/FONT][FONT=&amp]([/FONT] [FONT=&amp]جب اُن پر زیادتی ہوتی ہے تو بدلہ لیتے ہیں ۔[/FONT] [FONT=&amp]یعنی وہ اپنی استطاعت کے بقدر اپنے اوپر یا دوسروں پر ہونے والی زیادتی کے ازالہ کی کوشش کرتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جب لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کو منع نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں گھیر لے ۔‘‘[/FONT]
[FONT=&amp](ابوداؤد[/FONT][FONT=&amp]۴۳۳۸[/FONT][FONT=&amp]۔ترمذی)[/FONT]
[FONT=&amp]رسول اللہ ﷺ کا اِنَّ النَّاسَ کہنے میں تمام لوگ شامل ہیں چاہے کافر ہوں یا مومن یہ اللہ کی سنت ہے جب اس کے بندے ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتے اور مظلوم کی مدد نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیتا ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ ظلم سے بچو جتنی تمہاری استطاعت ہو۔‘‘[/FONT]
[FONT=&amp](صحیح الترغیب والترہیب۔[/FONT][FONT=&amp]۲۲۲۱)[/FONT]
[FONT=&amp]آپ ﷺ نے فرمایا’’ جو اپنے مال کو بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے جو اپنا دین بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے جو اپنی جان بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے جو اپنے اہل کو بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ۔(ترمذی[/FONT][FONT=&amp]۱۴۲۱)[/FONT][FONT=&amp]اور جو اپنے آپ کو ظلم سے بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ۔(صحیح الترغیب والترہیب)جو اپنا مال ،اپنا دین اور اپنے اوپر ظلم سے بچاتے ہوئے قتل ہوا ۔اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اس نے قتال بھی کیا ہو۔ ہو سکتا ہے اس نے قتال کیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ حالات قتال کی اجازت نہ دیتے ہوں ۔اس صور ت میں وہ ظالم کے سامنے دلائل سے بحث کرتے ہوئے اپنا حق لینے کی کوشش کر رہا ہو اور وہ ظالم اسے قتل کر دے ‘ایسا شخص شہید ہے چہ جائیکہ ہم اسے تحاکم الی الطاغوت کا مجرم قرار دیں۔[/FONT] [FONT=&amp]یوسف علیہ السلام نے شاہِ مصر کے نمائندے کو کہا:[/FONT] [FONT=&amp]قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ اللاَّتِیْ قَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنَّ إِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِہِنَّ عَلِیْمٌ۔[/FONT][FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp]یوسف 50)[/FONT]
[FONT=&amp]اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کی کیا حقیقت ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے میرا رب ان کا فریب خوب جانتا ہے۔[/FONT] [FONT=&amp]یوسف علیہ السلام نے بادشاہ وقت کو یہ کہا کہ وہ اس تہمت کا پہلے فیصلہ کریں جس کی بنا پر یوسف علیہ السلام کو اتنے عرصے کے لیے جیل رہنا پڑا ،تاکہ انہیں پتا چلے کہ کہ آپ مظلوم تھے اور آپ کا کوئی جرم نہ تھا۔ثابت ہوا کہ تہمت دور کرنے کے لیے کسی طاغوتی محکمے کی طرف جانا جائز ہے اور یہ تحاکم میں داخل [/FONT][FONT=&amp]……[/FONT][FONT=&amp]نہیں[/FONT] [FONT=&amp]اسی طرح شریعت اسلامیہ کا ایک مقصد نقصان کا ازالہ کرنا اور تکلیف کو دور کرنا ہے ۔اگر کسی مسلمان کے ذریعے یہ ازالہ کرنا مشکل ہوجائے اور کافر کے ذریعے ہی تکلیفیں دور ہوتی ہوں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہم کافر سے اس تکلیف کو دور نہیں کر وائیں گے۔ جس طرح مسلمان ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں کافر ڈاکٹر کے ہاتھوں مسلمان عورت مریضہ کا علاج کرواناجائزہے ۔یہ کہنا جائز نہیں کہ ہم تیرے مرض کا ازالہ نہیں کریں گے کیونکہ ازالہ کرنے والا کافر ہے ۔نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشرے میں بیماریاں بڑھتی چلی جائیں گے۔ اسی طرح دیگر تکالیف اور نقصان دہ چیزیں بھی بڑھتی چلی جائیں گے یہ بات مسلمان تو دور کوئی عقلمند انسان بھی [/FONT][FONT=&amp]………[/FONT][FONT=&amp]نہیں کہتا[/FONT] [FONT=&amp]اس بات کو ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں کہ نشہ کا کاروبار کرنے والا تاجر جو امت کے نوجوانوں کا دین و دنیا برباد کرنے پر تلا ہو، مسلمان اسے نہ روک سکتے ہوں اور وہ نصیحت بھی قبول نہ کرتا ہو ۔ا سے روکنے کے ہر کوشش ناکام ہو جائے اور ایک ہی راستہ موجود ہو کہ طاغوت کی پولیس سے اس مجرم تاجر کی شکایت کی جائے ایسی صورت میں یقیناً طاغوتی اداروں کو اس کی شکایت کرنا ضروری ہے تاکہ مسلمان اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔[/FONT] [FONT=&amp]اللہ تعالیٰ فرماتا ہے [/FONT][FONT=&amp]:[/FONT][FONT=&amp]{وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی }[/FONT][FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp]المائدہ:[/FONT][FONT=&amp]۲)[/FONT]
[FONT=&amp]’’[/FONT][FONT=&amp]اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو[/FONT][FONT=&amp]‘‘[/FONT] [FONT=&amp]یہ تعاون صرف مسلمانوں کے درمیان نہیں بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کی شرط یہ ہے کہ تعاون نیکی ،تقوی اور اصلاح پر ہو۔ ظلم اور فساد کے خلاف کفار سے تعاون کو تحاکم الیٰ الطاغوت سمجھنا درست نہیں ہے ۔[/FONT]
شبہ


[FONT=&amp]اس بحث سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کافر بھی عادل ہو سکتا ہے ۔[/FONT]
ازالہ

[FONT=&amp]عدل کی کئی اقسام ہیں جس میں سب سے عظیم اور اعلیٰ قسم توحید پر ایمان لانا ہے جو کہ اہل ایمان کے ساتھ ہی خاص ہے جبکہ دوسری قسم انسان کا اپنے آپ سے یا کسی دوسرے شخص سے عدل سے کام لینا ہے یعنی اُس پر ظلم و زیادتی نہ کرنا ہے ،عدل کی اس قسم میں کافر اور مومن دونوں شریک ہیں ۔[/FONT] [FONT=&amp]اللہ تعالیٰ فرماتا ہے [/FONT][FONT=&amp]:{فَمَا اسْتَقَامُواْ لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُواْ لَہُم}([/FONT][FONT=&amp]التوبہ:[/FONT][FONT=&amp]۷)[/FONT] [FONT=&amp]’’[/FONT][FONT=&amp]اگر وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی اپنے قول وقرار پر قائم رہو ‘‘۔[/FONT] [FONT=&amp]یہ آیت دلیل ہے کہ ایک کافر بھی اپنے معاہدے پر استقامت اختیار کرسکتا ہے اور ایفائے عہدعدل میں سے ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں[/FONT] [FONT=&amp]اللہ تعالیٰ کسی مومن کی نیکیوں کے بارے میں ظلم نہیں کرتا ۔دنیا میں اسے بھلائی دیتا ہے اور آخرت میں اس کی جزا دیتا ہے ۔رہا کافر تو دنیا میں اچھے اعمال کی بنا پر اسے کھلایا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ آخرت کی طرف رخت سفر باندھتا ہے تو اس کی کوئی نیکی نہیں ہوتی جس کا اسے بدلہ دیا جائے۔‘‘(مسلم2808)[/FONT] [FONT=&amp]یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کے بادشاہ کے بارے میں کہا کہ حبشہ کے علاقے میں ایک بادشاہ ہے جس کے پاس ظلم نہیں کیا جاتا ۔ تم اس کے ملک چلے جائو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس تکلیف سے جس میں تم ہو کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا کردے۔[/FONT]
[FONT=&amp](السلسلہ الصحیحہ للالبانی[/FONT][FONT=&amp]:[/FONT][FONT=&amp]۳۱۹۰)[/FONT]
[FONT=&amp]آپ کا یہ فرمان نجاشی کے اسلام لانے سے پہلے کا ہے ۔یہی بات جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہی۔ ہم نے آپ کو دوسروں پر ترجیح دی کیونکہ ہمیں امید تھی کہ آ پ کے پاس ہم پر ظلم نہ کیا جائے گا۔[/FONT] [FONT=&amp]یہ واضح دلیل ہے کہ کافرحاکم بھی عدل کی صفت سے موصوف ہو سکتا ہے ۔ اگرچہ اس کا عدل شرک و کفر کی وجہ سے ناقص ہوتا ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]اسی طرح طاغوت کی پناہ پکڑنا تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور وہ ان بدبودار لوگوں کے بارے میں سوال کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں آزاد کر دیتا۔(بخاری4024) مطعم بن عدی جو مشرک تھا اور شرک کی حالت میں فوت ہوا اس نے آپ ﷺ کو کفار مکہ کی اذیت سے بچایا اور آپ کو پناہ دی تھی۔ اس کے اس عمل کو آپ اس کے مرنے کے بعد بھی نہیں بھولے ۔اس لیئے ظلم سے بچنے کے لیئے کسی کافر کی امان یعنی پناہ حاصل کرنا تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں کہلواتا۔[/FONT] [FONT=&amp]نبی کریم ﷺ نے بعض کفار کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کرتے ہیں ۔آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’قیامت اُس وقت قائم ہوگی جب رومی تمام لوگوں سے زیادہ ہو جائیں گے ،سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رومیوں میں چار خصلتیں ہیں :وہ آزمائش کے وقت لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار ہوتے ہیں ،مصیبت کے بعد لوگوں میں سب سے جلدی اُس کا ازالہ کرنے والے ہوتے ہیں ،مسکین ،یتیم اور کمزوروں کے [/FONT] [FONT=&amp]لیے سب سے بہتر ہوتے ہیں اور ان میں عمدہ خصلت یہ ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بادشاہوں کے ظلم سے روکنے والے ہوتے ہیں ۔‘‘ [/FONT]
[FONT=&amp](مسلم:[/FONT][FONT=&amp]۲۸۹۸)[/FONT]
خلاصہ کلام[FONT=&amp]:[/FONT]
[FONT=&amp]انسان طبعاً اجتماعیت میں رہنے والی مخلوق ہے جسے معاشرے کے ساتھ خریدو فروخت ،شادی بیاہ اور دیگر تعلقات استوار کرنے ہوتے ہیں اس لیے مسلمانوں کو ان معاشروں میں لوگوں کے ساتھ معاملات میں اپنے حقوق حاصل کرنے اور دوسروں کے ظلم و زیادتی سے بچنے کے لیے کسی نہ کسی نظام کی ضرورت رہتی ہے ،اسلامی نظام کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہیں عدل و انصاف کے حصول کے لیے مروجہ عدالتوں سے بالکل روکنا عقلاً و شرعاً اُن پر ظلم ڈھانا ہے ۔مسلمان پسند کریں یا نہ کریں وہ بہرحال کفریہ نظاموں کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جہاد ،مجاہدین اور علمائے حق کا ساتھ نہیں دے رہے جو اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش کرنے میں مخلص ہیں ،[/FONT][FONT=&amp]”[/FONT][FONT=&amp]حب الدنیا اور کراہیۃ الموت [/FONT][FONT=&amp]“[/FONT][FONT=&amp]کی بیماری یہاں اکثریت کو لاحق ہے نتیجتاً وہ اسلامی خلافت قائم نہیں ہو رہی جو اللہ کے قانون کا پرچم لہراتی ہو ۔[/FONT] [FONT=&amp]ان المناک حالات سے ایک مسلمان کو کیسےنمٹنا ہے اسے ہم نے پیچھے تفصیل سے واضح کیاہے ۔آخر میں ہم پوری بحث کا خلاصہ درج ذیل نقاط میں بیان کرتے ہیں:[/FONT] [FONT=&amp]۱[/FONT][FONT=&amp]۔مقتدر شرعی عدالتوں یا مسلم بادشاہ (جو اللہ کاقانون نافذ کرنے کی قوت رکھتا ہو) کے موجود ہوتے ہوئے جو شخص حکم ربانی سے اعراض کرتے ہوئے کسی اور قانون سے فیصلہ کرواتا ہے تو ایسا کرنا تحاکم الیٰ الطاغوت ہے جو کفر اکبر ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]اس صورت میں کفریہ قوانین سے فیصلہ کرنے والی عدالتوں سے فیصلہ کروانا جائز نہیں ،چاہے اُن کا فیصلہ کسی معاملے میں شریعت سے مطابقت ہی کیوں نہ رکھتا ہو ،کیونکہ ان عدالتوں کا یہ فیصلہ اللہ کی اطاعت وبندگی اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی وجہ سے صادرنہیں ہوا بلکہ وہ اپنی خواہش اور عقل کے پیروکار ہیں جس کا فیصلہ بسا اوقات شرعی حکم کے موافق بھی ہوجاتا ہے ۔یہ فیصلہ چونکہ عقل کی بنیاد پر ہوتا ہے اسی لیے کل کو انکی عقل اس نتیجہ پرپہنچے کہ اس فیصلہ کو تبدیل ہونا چاہیے تو وہ شریعت کی وجہ سے ایسا کرنے سے باز نہیں آتے ۔اس لیے ایسا فیصلہ اللہ کا نازل کردہ فیصلہ نہیں کہلاتا بلکہ یہ طاغوت کا ہی حکم کہلائے گا ،چاہے شریعت سے موافقت ہی کیوں نہ رکھتا ہو ۔کوئی حکم "بما انزل اللہ" کی سند اُس وقت ہی پا سکتا ہے جب اُس میں یہ دوصفتیں پائی جاتی ہوں۔[/FONT] [FONT=&amp](ا)وہ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق ہو ۔[/FONT] [FONT=&amp])[/FONT][FONT=&amp]۲[/FONT][FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp]اللہ کی عبادت اور اُس کی اطاعت کرتے ہوئے صادر کیا گیا ہو ۔[/FONT] [FONT=&amp]جس حکم میں ان میں سے کوئی ایک صفت بھی نہ پائی جائے وہ اللہ کا حکم کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ عبادت کا ہر عمل اُسی وقت عبادت کہلاتا ہے جب وہ اللہ کی رضا مندی اور اُس کی اطاعت و فرمانبرداری میں کیا جائے ۔[/FONT] [FONT=&amp]۲[/FONT][FONT=&amp]۔جو کوئی طاغوتی قوانین و دساتیر میں پائے جانے والے اللہ کی شریعت کے منافی فیصلوں کو اچھا سمجھتے ہوئے اور اُن سے راضی ہوتے ہوئے قبول کرتا ہے ،یا اللہ کے حکم کو ناپسندیدہ اور برا سمجھتے ہوئے اُس سے فیصلہ نہیں کرواتا ،ایسا انسان تحاکم الیٰ الطاغوت کرنے والا ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp])[/FONT][FONT=&amp]۳[/FONT][FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp]جو کوئی عدل و انصاف اور اپنا جائز حق شرعی طریقے سے لینے پر قادر ہو ،غیر اسلامی عدالتوں کی طرف رجوع کیے بغیر اُس کے لیے دوسروں کے ظلم وزیادتی سے بچنا ممکن اور میسر ہواور پھر بھی وہ ان طاغوتی عدالتوں کی طرف رجوع کرے اور شریعت کے مخالف دستور سے فیصلہ کروائے تو ایسا کرنا یقینا تحاکم الیٰ الطاغوت ہے ۔عذر تو اُس کے لیے ہے جو مجبور ہو ،ارشاد ربانی ہے[/FONT][FONT=&amp]{لَا یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا}[/FONT][FONT=&amp](البقرہ:[/FONT][FONT=&amp]۲۸۶)[/FONT]
[FONT=&amp]یہ چونکہ ان عدالتوں سے بچ سکتا تھا اس لیے اس کے لیے کوئی عذر نہیں ۔[/FONT] [FONT=&amp]۴[/FONT][FONT=&amp]۔جب دو شخص کسی معاملے میں جھگڑا کریں اور ان میں سے ایک طاغوت کے فیصلوں سے بغض رکھنے والا ہو اور اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتا ہو مگر دوسرا فریق اسے بشری قانون سے فیصلے کرنے والی عدالتوںمیں جانے پر مجبور کر دے تو پہلے شخص پر کوئی گناہ نہیں سارا گناہ دوسرے فریق کو ہوگا۔[/FONT] [FONT=&amp]۵[/FONT][FONT=&amp]۔اپنا حق حاصل کرنااور مظلوم کی مدد کرنا (چاہے یہ غیر مسلموں اور کافر عدالتوں کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو) جائز ہے اسے تحاکم الیٰ الطاغوت کہنا غلط ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]۶[/FONT][FONT=&amp]۔مروجہ عدالتوں میں پیش ہونے والے بہت سے ذاتی نوعیت کے جھگڑوں کی دو شقیں ہوتی ہیں ،ایک شق اللہ کے حق سے جبکہ دوسری بندے کے حق سے تعلق رکھتی ہے۔جیسے چوری :۔اس میں اللہ کا حق یہ ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں جبکہ بندے کا حق یہ ہے کہ اُس کا مال چور سے برآمد کروایا جائے ۔اگر کسی وجہ سے اللہ کا حق لینا ممکن نہ ہو اور صرف بندے کا حق ہی مل سکتا ہو تو بندے کا حق لینا ضروری ہے چاہے ہم اللہ کا حق لینے پر قدرت نہ بھی رکھتے ہوں ،کیونکہ دونوں کے حق کو چھوڑ دینے سے کسی ایک کا حق لینا تو بہتر ہی ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]۷[/FONT][FONT=&amp]۔ان مروجہ وضعی عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں صاحب حق کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے جائز حق سے زیادہ کا مطالبہ کرے ۔اس صورت میں وہ ظلم کا مقابلہ ظلم کے ساتھ کرنے والا شمار ہوگا۔اسی طرح اُس کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ ان عدالتوں سے اپنے مخالف کو غیر اسلامی سزا دینے کا مطالبہ کرے ۔اگر یہ کہا جائے کہ عدالت مطالبہ کیے بغیر ہی اگر غیر شرعی سزا سنائے تو پھر کس کو گناہ ہو گا ؟جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں گناہ فیصلہ کرنے والے پر ہے نہ کہ اپنے حق کی خاطر وہاں جانے والے پر۔[/FONT] [FONT=&amp]۸[/FONT][FONT=&amp]۔غیر مسلموں کی مدد سے کسی نیکی کاکام کرنا، کسی برائی کا خاتمہ کرنایاظلم کو روکنا تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں کہلاتا۔[/FONT] [FONT=&amp]۹[/FONT][FONT=&amp]۔عدل کا فیصلہ چاہے کسی کافر کے ہاتھوں ہی کیوں نہ صادر ہو تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں کہلاتا ۔ عدل ہر حال میں محمود و مطلوب ہے ،اس کا کرنے والا چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو ۔[/FONT] [FONT=&amp]۱۰[/FONT][FONT=&amp]۔کافرانہ نظاموں کے تحت بعض ممالک میں قائم شرعی عدالتیں جنہیں شخصی معاملات میں فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا ہے اُن سے شخصی معاملات (شادی بیاہ،طلاق وخلع،وراثت وغیرہ) میں فیصلہ کروانا تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں ہے ۔[/FONT] [FONT=&amp]۱۱[/FONT][FONT=&amp]۔غیر اسلامی عدالتوں سے ان مسائل میں رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں جو اسلامی شریعت کے مخالف نہیں ہیں،جیسے اداری اور نظم ونسق کے امور جن میں بعض تجارتی قوانین ،شناختی کارڈ اورپاسپورٹ سے متعلق ملکی قوانین وغیرہ آتے ہیں۔[/FONT] [FONT=&amp]علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں[/FONT]
[FONT=&amp]"یہ بھی معلوم رہے کہ وہ وضعی قوانین جس کا نفاذ خالق ارض و سماء کے ساتھ کفر ہے اور ایسے قوانین جن کا نفاذکفر نہیں ہے ‘میں فرق کرنا ضروری ہے۔اس کی وضاحت یہ ہے[/FONT] [FONT=&amp]نظام دو طرح کے ہوتے ہیں شرعی یا انتظامی اور دفتری ۔جہاں تک انتظامی اور دفتری نظام کا تعلق ہے اگر اس کا مقصد نظم وضبط قائم رکھنا ہے تو اس کی ممانعت نہیں ہے ‘بشرطیکہ وہ شریعت کے مخالف نہ ہوں ۔اس بات کا صحابہ اور اُن کے بعد آنے والے اہل علم میں کوئی بھی مخالف نہیں رہا ۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بہت سے ایسے امور پر عمل کیا جو عہد نبوی میں نہیں تھے ۔ جیسے آپ نے رجسٹر میں فوجیوں کے نام لکھے تاکہ معلوم رہے کہ کون حاضر ہے اور کون غائب۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا تھا ،یہی وجہ ہے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا پیچھے رہ جانے کا علم آپ ﷺ کو تبوک پہنچنے پر ہوا۔اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ کے گھر کو خرید کر جیل خانہ میں تبدیل کر دیا تھا جبکہ اللہ کے رسول ﷺ اور سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا تھا تو اس قسم کے انتظامی قوانین جائز ہیں جن کا مقصد نظم و نسق کا قیام ہو اوروہ شریعت کے خلاف نہ ہو ں جیسے ملازمین کے انتظامی امور اور دفتری کاموں کا انتظام وغیرہ ۔[/FONT] [FONT=&amp]البتہ ایسے وضعی قوانین جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی شریعت کے خلاف ہوں ان کا نفاذ آسمان و زمین کے مالک کے ساتھ کفر ہے جیسے یہ دعویٰ کہ میراث میں لڑکے کو لڑکی پر فوقیت دینا انصاف نہیں ہے بلکہ دونوں کو برابر حصہ ملنا چاہیے ،یا یہ دعویٰ کہ مرد کو طلاق دینے کا حق یا اُسے چار شادیوں کی اجازت دینا عورت کے ساتھ ظلم ہے ،یازانی کو رجم کرنا اورچور کا ہاتھ کاٹنا وحشیانہ سزائیں ہیں ۔لوگوں کے جان و مال ،اعراض وانساب سے متعلق طاغوتی قوانین اللہ کے ساتھ کفر صریح اور تمام مخلوقات کے خالق کے بنائے ہوئے آسمانی نظام کے خلاف بغاوت ہے ۔’’ (اضواء البیان:[/FONT][FONT=&amp]۴/۱۱۰،۱۱۱)[/FONT] [FONT=&amp]۱۳[/FONT][FONT=&amp]۔اس صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ خلافت اسلامیہ کا قیام ہے ،جس کی جدوجہد کے لیے دعوت و جہاد کو کھڑا کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی اسلامی حکومت کے قیام کا نبوی منہج ہے ۔خلافت کا قیام امت پر فرض ہے ،شریعت کا قاعدہ ہے کہ[/FONT]
))ما لا یتم الواجب الا بہ فھو واجب((
[FONT=&amp]جس چیز کے بغیر کوئی واجب پورا نہ ہوتا ہو اُس چیز کو حاصل کرنا بھی واجب ہوتا ہے ۔[/FONT]
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین


[HR][/HR]
۔2
[FONT=&amp]اگر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ پاکستان کی عدالتوں میں جائے تو ان پر مرتد ہونے کے فتوے لگتے ہیں،لیکن دوسری طرف ان کے اپنے امام اپنے قول اور عمل سے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ طاغوتی عدالتوں سے فیصلے کروانا جائز ہی نہیں بلکہ شرعی عدالتوں کے غیر موجودگی میں ان طاغوت عدالتوں سے فیصلے کروانا لازم بھی ہے۔[/FONT]
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
[FONT=&quot]قارئین کرام[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]!!![/FONT]
[FONT=&quot]یہ ہے ساری اس مسئلے کی بحث جس پر نام نہاد دین کے ٹھیکے دار امت مسلمہ پر دن رات کفر،ارتداد اور واجب القتل کے فتوے لگاتے نظر آتے ہے۔جس کی حقیقت قرآن و سنت اور فہم سلف اور ان کے اپنے اماموں کی روشنی میں واضح کر دی گئی ہے۔[/FONT][FONT=&quot]یاد رہے کہ ہم آل تقلید اور ان کے اماموں کی معیّن تکفیر نہیں کرتے ۔ لیکن جن اصولوں کو اپنا کر آل تقلید نے اہل السنہ والجماعۃ پر الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی اور میدان تکفیر گرم کر رکھا ہے انہی اصولوں کی روشنی میں آل تقلید کا طاغوت اور طاغوت کا پجاری ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ یعنی[/FONT]
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات انکی
انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات انکی
[FONT=&quot]والا معاملہ ہے وگرنہ ہم ایسا کہنے اور کرنے والے نہ تھے اور اگر اب ایسا کہا ہےتو اس لیے کہ مجبور ہیں ہم ۔ لہذا ہم یہی کہیں گے کہ ؛[/FONT]
نہ تم صد مے ہمیں د یتے , نہ یوں فریاد ہم ک ر تے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یں رسوائیاں ہوتیں[FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات سمجھنے کی توفیق دے اور فتنہ پرور حضرات کے ہاتھو ں اپنی جان،مال اور ایمان کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔[/FONT]
[FONT=&quot]اللھم ارناالحق حقاًوارزقنااتباعہ[/FONT]
[FONT=&quot]اللھم ارنا الباطل باطلاًوارزقنااجتنابہ[/FONT]
[FONT=&quot]
آمین یا رب العالمین۔[/FONT]

[FONT=&quot]
٭٭٭٭[/FONT]
[FONT=&quot][/FONT]
 
Top