مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
طالبان علوم نبوت کے نام
مقبول احمد سلفی
دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد ،مسرہ،طائف (سعودی عرب)
آج بڑی تعداد میں اسلام کے دعویدار ملت اسلامیہ سے خارج نظر آتے ہیں ۔ توحید سے منحرف، دین حنیف کی دعوت دینے سے قاصراور عملا شریعت سے کوسوں دور ہیں جبکہ انہیں گمان ہے کہ وہی اسلام کے حقیقی علمبرداراوردین کے اصل محافظ ہیں ۔ان گمراہ فرقوں میں شیعہ، صوفی ٹولہ اور خوارج ہیں۔
اللہ کا فضل ہے کہ اس نےہمیں خالص دین اور خالص توحید سے نوازابلکہ اس کی ہی توفیق وہدایت سے اہل توحیدکی ایک مختصر جماعت انبیاء کے مشن پہ کماحقہ قائم ہیں اور دعوت دین کا اہم فریضہ سر انجام دے رہی ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو زبان وبیان سے توحید کی نشر واشاعت میں کوشاں ہیں ۔ گوکہ آج لوگوں کی چاہت ہے کہ نئی نئی باتیں سنائی جائیں، عجیب وغریب واقعات ذکر کئے جائیں، عقل کو حیران کردینے والے کشف وکرامات بیان کئے جائیں مگر اہل توحید نے ہمیشہ لوگوں پر توحید کی دعوت پیش کی ۔اللہ ہمیں تاعمر اس مشن کو شوق وجذبے ، اخلاص وللہیت اور جہدپیہم کے ساتھ تھامے رہنے کی توفیق دے ۔یقین کریں جو فرقہ توحید سے منحرف ہے اوراس کی دعوت سے روگرداں ہے وہ بلاشک وشبہ گمراہ فرقوں میں سے ہے ، اہل السنہ والجماعت کی اصل پہچان اور ان کی اہم ترین دعوت ،توحید کی دعوت اور اس کی نشر واشاعت ہے۔
عزیزطلبہ ! اللہ نے ہمیں نہ صرف مسلمان بنایا ہے بلکہ اہل توحید میں سے ہونے کا شرف بخشا، یہ اللہ کا ہم پہ خاص فضل واحسان ہے ورنہ کتنے فرقے اسلام کا دعویدار ہونے کی باوجود گمراہوں میں سے ہے ۔ اس واسطے ہمارے اوپراللہ کاشکر عظیم لازم ہے۔
آپ طالبان علوم نبوت ہیں، اس چشمہ صافی سے سیراب ہورہے ہیں جس سے روح کی تطہیر ہوتی ہے ،انسانیت زندہ ہوتی ہے، شعوروآگہی کو لذت حیات ملتی ہے ، قوموں کو عروج ، معاشرے کو پاکیزگی اور فرد کو حقیقی سعادت نصیب ہوتی ہے۔آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کو اللہ اپنا محبوب بناتا ہے، آپ کی قسمت میں علوم نبوت سے سیراب ہونا، سیرت وکردار میں محمدی تصویر بننا اور انبیائی مشن قائم رکھنا ہے ۔ سبحان اللہ
آج آپ طالب علم ہیں ، کل معلم انسانیت بنیں گے ، آج چٹائی پہ بیٹھتے ہیں کل درس وتدریس کی کرسی پہ بیٹھیں گے ، آج علم نبوت کے خوشہ چیں ہیں کل علوم نبوت کے وارث بنیں گے ۔ آپ بڑے خوش نصیب ہیں ، اپنے اندر احساس کمتری، معاشی پریشان خیالی، مادیت کا غلبہ، عصر حاضر کی جھوٹی رونقیں، جدید ادب اورجدیدکلچرکے نام پہ لغو ،بے حیائی اورجہالت کو داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ دیں۔
چونکہ آپ علم نبوت کے طالب ہیں، آپ کے سر انبیائی مشن آنے والا ہے ، اس وجہ سے یہاں آپ سے چند اہم اور ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں تاکہ یہ شعور پہلے سے ذہن میں پختہ رہے اور عمربھر اس شعور کو کبھی ماند نہ ہونے دیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من سلك طريقًا يطلبُ فيه علمًا ، سلك اللهُ به طريقًا من طرقِ الجنةِ ، وإنَّ الملائكةَ لتضعُ أجنحتَها رضًا لطالبِ العِلمِ ، وإنَّ العالِمَ ليستغفرُ له من في السماواتِ ومن في الأرضِ ، والحيتانُ في جوفِ الماءِ ، وإنَّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ ، وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ ، وإنَّ الأنبياءَ لم يُورِّثُوا دينارًا ولا درهمًا ، ورَّثُوا العِلمَ فمن أخذَه أخذ بحظٍّ وافرٍ(صحيح أبي داود:3641)
ترجمہ: جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لئے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا۔
ذرا اس حدیث پہ غور کریں کہ کتنا بڑا مقام ہے نبوت کا علم حاصل کرنے والےاور علم حاصل کرکے عالم بننے والوں کا ۔ آپ ڈاکٹروانجینئر نہیں بنے تو پستی کا احساس نہیں کرنا ہے، علم نبوت سے بڑھ کو دنیا کا کوئی علم نہیں ہے ۔ دنیاوی علوم، دنیا میں محض دنیاکمانے تک محدود ہےجبکہ علم نبوت کا دنیا میں ، مرنے کے بعداور آخرت تک اس کااجروفائدہ پہنچاتا ہے۔
اس حدیث کی گہرائی میں جاکر غور کریں تو انبیاء کی زندگی میں تین قیمتی سرمایہ ملتا ہے ۔ پہلا سرمایہ علم، دوسرا سرمایہ عبادت اور تیسرا سرمایہ دعوت یعنی انبیاء سب سے بہترین عالم ہوتے ہیں، کثرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والے ہوتے ہیں(عبادت میں اللہ کی رضا کا ہر کام داخل ہے) اور اپنی امت تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں تمامتر کوشش صرف کردیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت محمدیہ میں علم اور عالم ، عبادت اور عابد ، دعوت اور داعی کے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ اور علم، عالم، عبادت، عابد، دعوت اور داعی کے الفاظ انبیاء کے لئے خصوصی طور پر وارد ہوئے ہیں ۔
پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نےنبی محمد ﷺ کو مخاطب فرمایا:اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (العلق:1)
ترجمۃ: پڑھیئے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
وحی کی تلاوت کے ساتھ اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (العنکبوت:45)
ترجمہ:جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے ۔
عبادت پہ جہد کثیر کا ذکر کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
صلَّى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلم حتَّى انتفخَت قدماهُ، فقيلَ لَهُ: أتتَكَلَّفُ هذا وقد غُفِرَ لَكَ ماتقدم من ذنبِكَ وما تأخَّرَ، قالَ: أفلا أَكونُ عبدًا شَكورًا(صحيح الترمذي:412)
ترجمہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیر سوج گئے تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔
اللہ کی طرف اس کی وحدانیت کی دعوت دینے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا جو کہ اصلا تمام انبیاء کی دعوت ہے:
قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (یوسف:108)
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں ۔
بلکہ اللہ نے اپنے پیغمبر محمد ﷺ کو بطور خاص تبلیغ کرنے کا حکم دیا:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (المائدة:67)
ترجمہ:اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
پھر اللہ نے رسول اللہ کی شدید دعوتی فکر وبے چینی کا ذکر فرماتے ہوئے کہا:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الکہف:6)
ترجمہ:پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟
ہم انبیاء کے وارث بنیں گے تو ظاہر سی بات ہے ان کی زندگی کے جو اہم ترین اوصاف ہیں انہیں اپنانا پڑے گا تاکہ وراثت کی ذمہ داری ٹھیک ٹھیک نبھاسکیں بلکہ دیکھا جائےتو تمام اہل ایمان کو اللہ اور اس کے رسول ان اوصاف سے متصف ہونے کا حکم دیتے ہیں ۔
نبوت کا علم سیکھنا فریضہ قراردیتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ ، وإِنَّ طالبَ العلمِ يستغفِرُ له كلُّ شيءٍ ، حتى الحيتانِ في البحرِ(صحيح الجامع:3914)
ترجمہ: علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے اور بے شک طالب علم کے لئے ہرچیز مغفرت کی دعا کرتی ہے حتی کہ مچھلیاں سمندر میں۔
عبادت تو تخلیق انسانی کا مقصد ہی ہے جیساکہ اللہ نے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:56)
ترجمہ: میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔
اورقرآن کی مندرجہ ذیل آیت کا خصوصیت سے مخاطب آپ طالبان علوم نبوت ہیں ، ارشاد الہی ہے :
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:104)
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جوبھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم دے اوربرے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔
اوپر کی باتوں کا خلاصہ نکالنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمومی طور پر عام مسلمانوں کو بھی علم حاصل کرنے ، مقصد حیات پورا کرنےیعنی رب کی بندگی کرنے اور دعوت الی اللہ کا کام کرنے کی ضرورت ہے مگر وارثین انبیاء کے سر سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔انہیں نبوت کی صحیح معرفت ہونی چاہئےتاکہ پختہ علم سے لیس راسخ عالم بنیں جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے :
وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ(آل عمران:7)
ترجمہ:ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔
جب راسخ علم نہیں ہوگا تو نہ صرف عبادت میں کجی ہوگی بلکہ اپنی کج علمی سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ اسی طرح زمانہ طالب علمی سے ہی عبادت کی پابندی کریں مگر طلبہ میں اس وصف کی بڑی کمی محسوس کی جاتی ہے ۔ جب ابھی سے عبادت میں کمزوری ہوگی تو آگے بھی کمزوری لاحق رہے گی اور تصو ر کریں جب نبوت کا عالم وداعی عبادت میں کوتاہ ہوپھر اسکے علم اور دعوت میں اثر کہاں سے پیدا ہوگا ۔ کلام میں تاثیر اللہ کی جانب سے ہے جو بغیر صالحیت اور بندگی کے کیسے آسکتی ہے ؟
اب تیسرے وصف پہ غور کریں کہ ایک طالب علم ، فارغ ہوکر عالم توبن گیا، عبادت پہ پابندی بھی کرنے والا ہے مگر دعوت دین کا فریضہ ترک کردیا ہے، اس نے یکسر اپنا میدان بدل لیا؟ کیا وہ وارث انبیاء ہے ؟ کیا اس کے علم کا کوئی فائدہ خود اس کی ذات کو یا دوسروں کو پہنچے گا یا پھر کسی کا خود عمل کرلینے اور دوسروں کو اس کی دعوت نہ دینے سے اللہ کے یہاں اس کی عبادت مقبول ہوگی جبکہ وہ عالم دین ہو۔ ہرگزاس کی عبادت مقبول ہوگی ۔ ان ساری باتوں کا ایک جملے میں خلاصہ یہ ہے کہ طلبہ محنت ومشقت کے ساتھ پختہ علم حاصل کرکے مثالی عالم بنیں، عالم بھی ایسا کہ جملہ قسم کی عبادات میں بھی کثرت اجتہاد کریں اورقوم وملت کو لوٹنے والے تو بہت مگر آپ دین کے بے لوث خام بنیں۔ اللہ کا فرمان ہے :
قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (سبا:47)
ترجمہ:کہہ دیجئے! کہ جو بدلہ میں تم سے مانگوں وہ تمہارے لئے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالٰی ہی کے ذمے ہے ۔ وہ ہرچیز سے باخبر اور ( مطلع ) ہے ۔
گرامی قدر عزیزطلبہ ! اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانیں اور اپنے اندر انبیاء کے تینوں اہم اوصاف پیداکریں۔دنیا آپ کی پیاسی ہے، کفر وشرک کے عہد میں صدائے حق بلند کرنے والے بہت تھوڑے ہیں۔ ان قلیل افراد میں بھی اپنے فریضے سے برگشتگی اختیار کرنے لگیں تو پھر کون امت کی اصلاح کرے گا؟ عزم مصمم پیدا کریں، زمانے کارخ موڑنے کا تہیہ کریں، لوگوں کو شرک وکفر کے دلدل سے نکالنے کی فکر کریں اور اپنے ساتھ ساتھ افراد امت کے لئے بھی نجات کا راستہ ہموار کریں ۔
عزیزطلبہ! آج کے سوشل میڈیا کے دور میں آپ سے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جامعہ میں رہتے ہوئےاپنے اساتذہ سے علم حاصل کریں، لائبریری کی کتابوں سے استفادہ کریں ۔ میرے پاس بہت سارے طلبہ کے سوالات آتے ہیں میں انہیں اپنے اساتذہ کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔آپ علم کے سمندرمیں ہیں ، وہاں سے علم لیں ۔یاد رکھیں سوشل میڈیا کا علم پائیدارنہیں ہے ،کتابی علم ہی پختہ ہے ۔صرف اونچی جماعت کے طلباءسوشل میڈیا کا استعمال کریں وہ بھی بقدر ضرورت اور بطور تعاون اور اسا س کے طور پر اپنے اساتذہ اور لائبریری سے استفادہ کریں۔ جس قدر ممکن ہو قرآن بھی حفظ کرتے رہیں،حفظ متون حدیث کا خصوصی اہتما م کریں ۔ یہی چیزیں آگے دعوت دین، تقریر وتحریراور استشہاد وبیان میں کام آئیں گی ۔
اللہ سے تمام سلفی اداروں کی حفاظت، ان کے ذمہ داروں کے حوصلوں میں بلندی، طلباء اور اساتذہ کے لئے علم وعمل میں پختگی اور اخلاص کی عاجزانہ ومخلصانہ دعا کرتاہوں ۔ جو بھی سلفی اداروں کے لئے کسی شکل میں تعاون پیش کررہے ہیں اللہ جل شانہ ان جملہ احباب کے لئے جنت کا راستہ آسان بنائےاور تاقیام قیامت سلفی ا داروں کا فیض ساری دنیا میں جاری وساری رکھے ۔ آمین یارب العالمین۔