• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طاہر القادری اپنے حسابات بھی پیش کریں

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
طاہر القادری اپنے حسابات بھی پیش کریں


پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اتوار کے روز فیصل آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن غیر آئینی ہے، اس کو نہیں مانتا، جس نے جو کرنا ہے کر لے، یہ ہمارے دھرنے کا نتیجہ ہے کہ آج الیکشن کمیشن اڑھائی سو ارکان اسمبلی سے ڈگریاں اور ٹیکس ریٹرن کی فائلیں مانگ رہا ہے‘۔ انہوں نے کہا جن لوگوں نے 66 برسوں میں ٹیکس ادا نہیں کیا، عوام انتخاب اور انقلاب کے لیے تیار رہیں، غریب دشمن، سٹیٹس کو برقرار رکھنے والی طاقتیں تبدیلی نہیں چاہتیں۔

سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن خارج ہونے کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے دو روز بعد ہی پنجاب کے مختلف شہروں میں انقلاب مارچ کا ان دنوں آغاز کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے مختلف شہروں میں جلسہ ہائے عام سے خطاب کا پروگرام مشتہر کر دیا ہے۔ 23 دسمبر 2012ء سے 17 جنوری 2013ء تک ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات کے نام پر نظام کی تبدیلی کا ایک خوش کن نعرہ لگایا۔ انہوں نے رولنگ ایلیٹ کو معاشرے اور ریاست میں تمام برائیوں اور خامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس دوران عوام سے یہ وعدہ کیا کہ وہ حکمران اشرافیہ کے خلاف اپنی ’انقلابی مہم‘ جاری رکھیں گے۔ اس دوران مختلف نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بھی وہ نظام کی بساط لپیٹنے کو اپنی ’جدوجہد‘ کا مرکز ومحور قرار دیتے رہے۔ وہ اس خوش خیالی کا اظہار کرتے رہے کہ اُن کی ایک کال پر چار ملین عوا م اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر اس وقت تک دھرنا زن رہیں گے جب تک نظام کی تبدیلی کے عمل کی داغ بیل نہیں پڑ جاتی۔ اُن کا یہ نقطۂ نظر بھی ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی موجودگی میں منصفانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی نے ہیئرنگ نہیں کی اور ایک ضروری آئینی تقاضے کو پورا نہیں کیا۔

سپریم کورٹ سے رٹ پٹیشن خارج کردیے جانے کے بعد اپنی خفت مٹانے کے لیے مختلف نئے نعروں کا سہارا لیا۔ اب اُن کی تمام تر جدوجہد اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے ہے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ 17 جنوری کو اُن کے جو مذاکرات ہوئے تھے، اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ اُس کی ہر شق پر من و عن عمل درآمد کرانے میں کامیاب رہیں گے لیکن 16 فروری کو لاہور میں حکومتی وفد سے ملاقات کے بعد انہوں نے پیش کردہ شرائط کے باب میں بھی خلاف توقع لچک کا مظاہرہ کیا۔ اب حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مابین اس امر پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسمبلیاں 16 مارچ کو تحلیل ہوں گی، الیکشن کا انعقاد 60 روز میں یقینی بنایا جائے گا اور امید واروں کی سکروٹنی کے لیے 14 دن ہی کافی ہیں۔ البتہ حکومتی وزراء نے یہ کہہ کر اُن کا بھرم قائم رکھ لیا کہ نگران وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ کی تقرری پر ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔

ڈاکٹر طاہر القادری 23 دسمبر کے بعد سے بلا کسی توقف کے ارکان پارلیمنٹ اور تمام سیاستدانوں سے حساب کتاب مانگ رہے ہیں۔ وہ اُن کی بدعنوانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کرنے کے دعویدار بھی ہیں۔ یہاں ایک عام شہری یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی کیا عوام کو 23 دسمبر 2012ء سے 17 جنوری 2013ء تک چلائی جانے والی مہنگی ترین تشہیری مہم کا حساب کتاب دینے کے لیے تیار ہیں کہ اس کے لیے اُن کے پاس بھاری بھر کم زرخطیر کہاں سے آیا۔ وہ کونسا دست غیب تھا جو انہیں میڈیا پر اپنی ذات کی تشہیر کے لیے بے حد و حساب سرمایہ فراہم کرتا رہا۔ پرنٹ میڈیا میں مطبوعہ مختلف رپورٹس کے مطابق اس مہم پر انہوں نے تقریباً ایک ارب روپیہ صرف کیا۔ دینی سکالر ہونے کے ایک دعویدار سے کیا یہ استفسار کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم جو انہوں نے خرچ کی کیا یہ اسراف کے زمرے میں نہیں آتی؟اگر یہ تمام مصارف ادارہ منہاج القرآن کو ملنے والے عطیات سے صرف کیے گئے تھے تو یقیناًایک سیاسی مہم جوئی کے لیے اُن کا یہ اقدام عطیات دہندگان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا۔ اصول ہے کہ دوسرے کی آنکھ کے تنکے کی نشاندہی کرنے والوں کو اپنی آنکھ کے شہتیر پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔

بہتر ہو گا کہ ڈاکٹر طاہر القادری دوسروں کا محاسبہ اور مواخذہ کرنے سے قبل اسلامی روایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے خود احتسابی کو اپنا شیوہ و شعار بنائیں۔ بحیثیت ایک سکالر کے یقیناًاُن کے علم میں ہو گا کہ عوام الناس مچھروں کو چھانٹنے اور اونٹوں کو نگل جانے والوں کو پسند نہیں کرتے۔

لنک
 
Top