• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طواغیت کا انکار

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
569
ری ایکشن اسکور
176
پوائنٹ
77
طواغیت کا انکار
بسم الله الرحمن الرحیم

اللہ کے علاوہ عبادت کی اقسام میں سے کوئی عبادت جن جن ہستیوں کی جناب کی جاتی ہو، اُس کا دو ٹوک اور واضح انکار کرنا۔ طواغیت چاہے پتھر سے تراشے ہوئے صنم ہوں یا خدا کی مخلوقات میں سے کوئی بڑی، چھوٹی مخلوق، خورشید سحر، درگاہ اعلی حضرت، متبرک درخت یا گھاٹ . . . یا انسانوں کا بنایا ہوا قانون، یہ سب کے سب طواغیت ہیں ان سب سے بیر پال لینا ملت ابراہیم کا منہاج ہے۔ تمام انبیاء کرام کی دعوت کا نمایاں عنوان، معبودان باطلہ کے خلاف کھڑے ہو جانا، ان سے اظہار نفرت کرنا، اور ان کی عیب جوئی کرنا ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (النحل: ۳۶)

ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعے خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔


دیکھو ابراہیم علیہ السلام اپنے عزیز واقارب سے کیا کہتے ہیں:

قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ (انعام : ۷۸)

برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔


ان کا اپنی برادری سے جھگڑا ہی ایک تھا، اول روز سے لے کر وطن کو خیرباد کہنے تک :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ ،إِلا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (زخرف: ۲۷-۲۶)

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے، میرا تعلق صرف اُس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی میری رہنمائی بھی کرے گا۔


وہ جو کلہاڑا لے کر طاغوتوں پر ٹوٹ پڑتا تھا :

قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ ،قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (انبیاء : ۶۰-۵۹)

انہوں نے آکر بتوں کا یہ حال دیکھا تو کہنے لگے، ہمارے خدائوں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ، بعض لوگوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو اِن کا ذکر کرتے سنا تھا۔ جس کا نام ابراہیم ہے۔


نبی آخر الزمان کی ابتدائی دعوت بھی مکہ کے طاغوتوں کو للکارنے سے شروع ہوئی تھی۔ لات، منات، عُزی (اہل مکہ کے طواغیت) کی اہانت جب قرآن بن کر عربی، فصیح وبلیغ زبان میں اترتی تھی تو اِن اہانت آمیز آیات کو پھیلنے سے قریش کے سردار روک نہیں سکتے تھے۔ عرب اپنی زبان کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے والے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کے آلہہ کو منصب الوہیت سے گرانے والی آیات کو (مصلحت دعوت) کے پیش نظر چھپایا نہ تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ہی نہ تھا کہ ترتیب نزولی کو مؤخر کرتے۔ ہر داعی اسلام مصلحت دعوت کو نبی آخر الزمان سے سیکھے۔

انسان ساختہ قوانین اور انہیں چلانے والی حکومتیں، نبوی دعوت کی منتظر ہیں۔ اس وقت کی حکومتیں عیار ہیں، یہ خدائی کا دعویٰ نہیں کرتی ہیں لیکن ان کی حیثیت لات، منات اور عُزّی والی ہے۔ ان سے اظہار برأت کرنا اور اس کی دعوت عام دینا ہی حقیقت دین ہے۔ کیا کوئی مصلحت اس سے بڑھ کر بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے حق پر کوئی براجمان ہو اور اس کے خلاف کلمہ شہادت نہ پڑھا جائے۔

کیا آزمائشیں اور مصائب صرف دُنیا حاصل کرنے کیلئے جھیلے جاتے ہیں۔ ﴿لا اِلہ اِلاَّ اﷲ﴾ کا جیتا جاگتا مفہوم مسلمانوں کی اکیلی شناخت بنا لینا انبیاء کرام کا اسوہ ہے۔

کیا حکومت کے ہاتھ لگنے تک طواغیت کا انکار مؤخر رکھا جائے گا؟! نبی آخر الزمان، کیا مکہ میں برسر اقتدار تھے۔ مکہ کے ناتواں مسلمان کیا بتوں کو للکارا نہیں کرتے تھے۔ مکہ کی گلیوں اور چوراہوں پر کسے نشانہ تنقید بنایا جاتا تھا۔ بے سروسامان اور نہتے مسلمانوں کی ٹولی سارے ملک عرب میں تنہا ہو گئی تھی۔

داعیانِ اِسلام اور علمائے عِظام مصلحت ، مصلحت کہتے رہتے ہیں، آخر وہ کس دین کے نفاذ کیلئے حکومت پانے کے منتظر ہیں، وہ دین جو نہ کبھی اُن کے کردار سے چھلکا اور نہ کبھی گفتار سے، حکومت پانے کے بعد آپ کس طرح ایک ایسے دین کو نافذ کر دیں گے جو آپ کے عوام نے آپ سے سنا ہی نہیں ہوگا! اس پر نہ وہ آمادہ ہوں گے اور نہ اُس ابراہیمی منہج کو وہ پہنچاتے ہی ہوں گے۔

قوم اور اس کے داعیان انسان ساختہ قوانین پر راضی بہ رضاء ہیں، اگر وہ کبھی برسر اقتدار آبھی جائیں تو انہیں قوانین کے زینے پر کھڑے ہوں گے۔ کیا وہ اپنے پیروں سے خود ہی زینہ کھینچ لیں گے!

ہم جب انسان ساختہ قوانین کو کفر کہتے ہیں تو داعیانِ اسلام گھبرا جاتے ہیں کہ پھر حاکمِ وقت کی تکفیر بھی کرنا پڑے گی جو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہے۔ دعوت کے مراحل میں یہ دو الگ الگ موضوع ہیں۔ غیر اللہ کے بنائے ہوئے قوانین، جن کا احترام لوگوں کے دِلوں میں راسخ ہو جاتا ہے، اس کی عظمت دلوں سے نکالنا، دینِ اسلام کی اساس ہے۔ لیکن حُکام کی تکفیر کرنا اور کفریہ قوانین کا انکار کرنا دونوں میں راست تناسب نہیں ہے۔ ایک عقیدے اور ایمان کا مسئلہ ہے اور دوسرا اپنے گردوپیش سے پیش آنے کا مسئلہ ہے۔
 
Top