• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظلم کا انجام

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ جمعہ حرم مدنی ........23 ربیع الثانی 1433ھ

خطیب فضیلۃ الشیخ حسین آل شیخ
مترجم: عمران اسلم

پہلا خطبہ:

الحمد لله وحده، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيِّدنا ونبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه، اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك عليه وعلى آله وأصحابِهِ.
حمد و ثنا کے بعد!
اے اللہ کے بندوتقویٰ اختیار کرو۔ دارین کی سعادت کا حصول تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
بردرانِ اسلام:
ظلم کی متعدد شکلیں اور صورتیں ہیں۔ لوگوں کے حالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ نفسوں، عزتوں اور اموال میں ظلم کی کے جگہ بنا لینے کی ایک وجہ دنیا کی محبت ہے۔ انسانوں کو ظلم اور اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو دنیاوی زندگی میں اس کے نقصانات اور اخروی زندگی میں برے انجام سے آگاہی دی جائے۔
مسلمان بھائیو!
ذہن نشین رکھیے کہ ظلم کا انجام کسی طور اچھا نہیں ہے۔ ماضی اور زمانہ موجود میں بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں اہل خرد کے لیے عبرت کا بہت سا سامان موجود ہے۔
بردرانِ اسلام:
مظلوم کی فریاد اس تیر کی طرح ہے جس سے ظالم کبھی نہیں بچ سکتا۔ نبی کریمﷺ نے جب حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا:
«.. واتَّقِ دعوةَ المظلومِ؛ فإنه ليس بينها وبين الله حجابٌ»؛ متفق عليه.
’’مظلوم کی بددعا سے بچ! اللہ اور اس کے مابین کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔‘‘
ظالم کی عاقبت نااندیشی کا اندازہ اس سے کیجئے کہ مظلوم کی دعا ہر صورت میں مقبول ہوتی ہے چاہے وہ فاجر حتیٰ کہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«لا تُردُّ دعوةُ المظلومِ ولو كان فاجِرًا ففُجورُه على نفسه».
’’مظلوم کی دعا رد نہیں ہوتی، چاہے دعا کرنے والا فاجر ہی ہو۔ بے شبہ اس کا فجور اس کے نفس کے ساتھ (خاص) ہے۔‘‘
ایک دوسرےمقام پر آپﷺ نے فرمایا:
«اتَّقوا دعوةَ المظلوم وإن كان كافرًا؛ فإنه ليس بينها وبين الله حجابٌ».
’’مظلوم کی بددعا سے بچو چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ اللہ اور اس کے مابین کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘
شاعر نے کیا خوب کہا ہے
لا تظلِمنَّ إذا ما كنتَ مُقتدرًا فالظلمُ ترجِعُ عُقباهُ إلى النَّدَمِ
تنامُ عيناك والمظلومُ مُنتبِهٌ يدعُو عليكَ وعينُ الله لم تنَمِ​
’’جب تم مقتدر ہو تو ظلم نہ کرنا، ظلم کا انجام ندامت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تمہاری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن مظلوم جاگ کر تیرے لیے بددعا کرتا ہے؛ اور اللہ کی آنکھیں کبھی نہیں سوتیں۔‘‘
اے وہ انسان! جس کے لیے مسلمانوں کےخون قدرو قیمت سے خالی ہو گئے ہیں، جس کے لیے مسلمانوں کی عزت کی کوئی اہمیت نہیں، جس کے لیے ان کے اموال کی حیثیت پرکاہ سے بڑھ کر نہیں۔ اللہ سے ڈر جا!
ظلم اور ظلم کے انجام سے متعلق درج ذیل واقعات ملاحظہ کیجئے۔
تاریخی کتب میں خالد بن عبداللہ برمکی کا واقعہ منقول ہے کہ جب وہ اور اس کا بیٹا جیل میں تھے تو اس کے بیٹے نے کہا: ابا جی! کیا وجہ ہے کہ ہم اس قدر شان و شوکت کے بعد قید خانے کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں؟ تو خالد بن عبداللہ نے کہا: ہمارا آج یہ حال اس وجہ سے ہے کہ ہم نے مظلوم کی کان پر کان نہیں دھرے جبکہ اللہ اس سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتا۔
علمائے کرام نے مالک بن دینار کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کو بخارہوگیا، جب کچھ افاقہ ہوا تو ضروری کام سے باہر نکلے۔ باہر پولیس کے کچھ اہلکاروں سے سامنا ہوا کہتے ہیں کہ انھوں نے (بلاوجہ) مجھے پکڑکر زمین پہ لٹایا اور ایک شخص نے میری پیٹھ پر کوڑے مارنا شروع کر دئیے، جن کی تکلیف بخار سے کہیں زیادہ تھی۔ تو میں نے اسے کہا: اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھ کاٹے! کہتے ہیں کہ اگلے دن کچھ ہمت کر کے ضروری کام سے باہر نکلا تو دیکھتا ہوں کہ اسی شخص کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں اور وہ انھیں گردن میں لٹکائے پھر رہا ہے۔
اے ظالم اور متشدد انسان! اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈر! اور مظلوم کی دعا کا شکار ہونے سے بچ جا!
کچھ لوگ دنیا میں خوف خدا کادامن تھام لیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کے لیے راہیں آسان کر دیتا ہے۔
طبرانی میں صحیح سند کےساتھ ایک روایت ہے کہ ایک آدمی (اللہ کے بجائے) حضرت علی سے مدد طلب کیا کرتا۔ حضرت سعدبن ابی وقاص نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ حضرت سعد نے کہا پھر میں تیرے لیے بددعا کروں گا۔ آپ نے اس کے لیےبددعا کی تو کچھ ہی دیر بعد ایک چنگھاڑتے ہوئے اونٹ نے اسے روند ڈالا۔ جس سے وہ مر گیا۔
ابو نعیم نے ’الحلیۃ‘اور ابن الجوزی نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ سلیمان التیمی ایک صالح ،عبادت گزار شخص تھے۔ ان کا کسی آدمی کے ساتھ اختلاف تھا، آپ کا اس کےساتھ جھگڑا ہوا تو اس نے آپ کے پیٹ پر گھونسا مارا۔ آپ نے اس کے لیے بددعا کی تو اس کا ہاتھ سوکھ گیا۔
مسلمان بھائیو!
ایک سبق آموز واقعہ سنیے اور نصیحت حاصل کیجئے۔
ابن ابی ابی الدنیا نے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان کے مخالفین میں سے ایک شخص نے قسم کھائی کہ جب عثمان شہید ہو جائیں گے تو میں ان کے چہرے پر تھپڑ ماروں گا۔ وہ کہتا ہے کہ عثمان کے شہادت کے بعد میں اپنے دوست کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ اس وقت عثمان کاسر ان کی بیوی کے گود میں تھا۔ میرے دوست نے ان سے کہا: اس کا چہرے سے کپڑا ہٹاؤ۔ اس نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا میں ان کے چہرے پر تھپڑ مارنا چاہتا ہوں۔ تو اس نے کہا تمھیں اس پر رسول اللہﷺ کی وعیدیں یاد نہیں ہیں؟ پھر وہ عثمان کے فضائل کا تذکرہ کرنے لگی۔ وہ کہتا ہے کہ میرا دوست یہ سن کر شرمسار ہوا اور واپس چلا گیا۔ میں نے پھر بھی اس سے کہا ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاؤ۔ اس پر وہ مجھے برا بھلا کہتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی۔ پھرمیں نے عثمان کے چہرے پر تھپر مادیا۔ تو وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھ خشک کرے، تجھے اندھا کر دےاور تجھے کبھی معاف نہ کرے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا کی قسم! میں ابھی ان کے گھر سے نکلا بھی نہیں تھا کہ میرے ہاتھ سوکھ گئے، میں نابینا ہوگیا اور اب میرا نہیں خیال کہ مجھے اللہ تعالیٰ معاف کرے گا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کعبہ کا طواف کرتا اور اللہ تعالیٰ سے سزا کا خواستگار ہوتا تھا۔ وہ اندھا تھا اور کہا کرتا تھا: اے اللہ مجھے بخش دے۔
صحیح بخاری میں جابر بن سمرۃ سے مروی ایک روایت ہے کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر سے حضرت سعد کی شکایت کی کہ وہ نماز ٹھیک نہیں پڑھاتے۔ حضرت سعد نے حضرت عمر سے کہا: میں ان کو رسول اللہﷺ والی نماز پڑھاتا ہوں، اس سے کچھ کمی نہیں کرتا۔ پہلی دو رکعتیں ٹھہراؤ اور آخری دو رکعتیں مختصر کرتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا اللہ کی قسم! اے ابو اسحاق تیرے بارے میں میں میرا یہی خیال تھا۔
پھر حضرت عمر نے کچھ آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ وہ جس سے بھی حضرت سعد سے متعلق دریافت کرتے وہ حضرت سعد کی تعریف ہی کرتا۔ پھر وہ ان کی مسجد میں آئے تو ایک آدمی ابو سعدۃ نے کہاکہ حضرت سعد فیصلہ کرتے ہوئے انصاف سے کام نہیں لیتے، تقسیم کرتے ہوئے حق تلفی کرتے ہیں اور نرمی سے کام نہیں لیتے۔
حضرت سعد نے یہ سن کر کہا: اے اللہ!اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کو اندھا کر دے، اس کے فقر کو بڑھا دےاور اسے فتنوں پر پیش کر۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں ابوسعدۃ کو دیکھا کہ وہ بڑھاپے کی حالت میں راستوں میں اشارے کرتا پھرتا تھا۔ جب اس سے کہا جاتا اپنی حرکتوں سے باز آجا تو وہ کہتا: میں فقیر ہوگیا، فتنوں میں مبتلاہوگیا مجھے سعد کی دعا لے بیٹھی۔
اے مظلوم کی پکار پر کان نہ دھرنے والے! یہ واقعات تمہارے لیے ظم کا دامن چھوڑنے کے لیے کافی ہو جانے چاہئیں۔
بیان کیا گیاہے کہ حضرت حسین کے قاتلین میں سے ایک شخص نے آپ کو تیر مارا۔ آپ نے پانی طلب کیا تو یہ شخص آپ اور پانی کے درمیان حائل ہو گیا۔تو آپ نے کہا: اے اللہ! اس کو پیاسا رکھ!
بتایا جاتا ہے کہ جب اس آدمی کی موت کا وقت قریب ہوا تو وہ پیٹ میں شدید گرمی اور پشت میں شدید ٹھنڈک کی وجہ سے چیخ و پکار کر رہا تھا۔ اس کے سامنے پنکھا اور برف رکھی گئی اور پشت کی طرف بھٹی گرم کی گئی۔ اور وہ کہہ رہا تھا:مجھے پانی پلاؤ میں پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگیا۔ اس کے لیے بڑے برتن میں میٹھا مشروب لایا گیا، جو پانچ بندوں کے لیے بھی کافی تھا، وہ ساراپی کر بھی کہنے لگا: مجھے پانی پلاؤ میں پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگیا۔ پھر اس کا پیٹ پھول گیا۔
اے لوگوں پر ظلم ڈھانے والے! چاہے جو بھی ہوجائے تجھے اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«إن اللهَ ليُملِي للظالمِ حتى إذا أخَذَه لم يُفلِتْهُ»
’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، پھر جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو اس کو چھوڑتا نہیں۔‘‘
پھر نبی کریمﷺ نے یہ آیت پڑھی:
وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ [هود: 102].
’’تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔‘‘
اے مسلمان! خلق خدا پر ظلم نہ کر اور ہر اس قول اور عمل سے اپنے آپ کو بچا کے رکھ جس سے ظلم کی مدد ہوتی ہو۔
أقولُ هذا القولَ، وأستغفرُ الله لي ولكم ولسائرِ المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفِروه، إنه هو الغفور الرحيم.
دوسرا خطبہ:

أحمدُ ربي وأشكُرُه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريكَ له، وأشهد أن نبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه، اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك عليه وعلى آلِهِ وأصحابِهِ.
اما بعد!
مسلمان بھائیو! ہمارا فرض ہے کہ ہم تقویٰ اختیار کریں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت لازمی کریں اور معصیتوں سے دوری اختیار کریں۔
اور اے لوگوں کے اموال زبردستی چھین کر، قرض واپس نہ لوٹا کر اور دوسروں کے حقوق پر قابض ہو کر ظلم کرنے والے انسان! مذکورہ بالا نصائح پر غور کر، اور خدا کی پکڑ سے قبل اپنی اصلاح کر لے۔ حدیث قدسی میں ہے:
«يا عبادي! إني حرَّمتُ الظلمَ على نفسي، وجعلتُهُ بينكم مُحرَّمًا، فلا تظالَموا»
’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے، اور تمہارے لیے بھی حرام کر دیا ہے۔ لہذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں درود کا تحفہ عطا کیا ہے جس کے ذریعے ہم دارین کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على سيدِنا ونبيِّنا وحبيبِنا وقُرَّةِ عيوننا: نبيِّنا محمدٍ، وارضَ اللهم عن الخلفاء الراشدين، وعن الأئمةِ المهديين: أبي بكرٍ، وعُمر، وعُثمان، وعليٍّ، وعن سائرِ الآلِ والصحابةِ أجمعين، ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين.
اللهم يا حيُّ يا قيُّوم يا ذا الجلال والإكرام، نسألك أن تحفظَ المُسلمين في كل مكان، اللهم احفَظ المسلمين في كل مكان، اللهم أنزِل حفظَك وكلأتَك على المُسلمين، اللهم احفَظهم بحِفظِك، واكلأهم برعياتك.
اللهم انصُرهم على من بغَى عليهم، اللهم انصُرهم على من بغَى عليهم، اللهم انصُرهم على من بغَى عليهم يا قويُّ يا عزيزُ.
اللهم عليك بأعداءِ المُسلمين، اللهم أبطِل مكرَهم، اللهم اجعل الدائرةَ عليهم، اللهم اجعل الدائرةَ عليهم.
اللهم يا حيُّ يا قيُّوم يا ذا الجلال والإكرام، احفَظ المُسلمين في الشام، احفَظ المُسلمين في أفغانستان، احفَظ المُسلمين في العراقِ، احفَظ المُسلمين في فلسطين، احفَظ المُسلمين في ليبيا، احفَظ المُسلمين في مصر، احفَظ المُسلمين في تُونس، وفي كل مكانٍ يا حيُّ يا قيُّوم يا ذا الجلال والإكرام.
اللهم ارفع كُرُباتهم، اللهم نفِّس غمَّهم، اللهم نفِّس غمَّهم، اللهم أدخِل عليهم الأمنَ، اللهم حقِّق لهم الأمنَ والأمان، اللهم حقِّق لهم الأمنَ والأمان، اللهم حقِّق لهم ما يصبُون من الأمنِ والأمان يا حيُّ يا قيُّوم.
اللهم احفَظ بلادَ المُسلمين من كل سُوءٍ ومكروهٍ، اللهم احفَظ المُسلمين في بلاد الحرمين من كل سُوءٍ ومكروهٍ، اللهم اجعل بلادَ المُسلمين قويةً عزيزةً منيعةً على الأعداءِ يا ذا الجلال والإكرام.
اللهم احفَظ خادمَ الحرمين، اللهم أيِّده بتأييدك، اللهم أطِل عُمره يا حيُّ يا قيُّوم على الطاعةِ والتقوى، اللهم انصُر به دينَكَ، وأعلِ به كلمتَك.
اللهم ولِّ على المُسلمين خِيارَهم، اللهم ولِّ على المُسلمين خِيارَهم، اللهم ولِّ على المُسلمين خِيارَهم يا حيُّ يا قيُّوم.
اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا.
اللهم أسعِدنا بتقواك، اللهم أسعِدنا بتقواك، اللهم مُنَّ علينا بفضلِك، اللهم اغفِر لنا ذنوبَنا، اللهم كفِّر عنا سيئاتنا، اللهم كفِّر عنا سيئاتنا، اللهم كفِّر عنا سيئاتنا، وأدخِلنا الجنةَ مع الأبرار، يا عزيزُ يا غفَّار.
وأختِمُ قولي بصلاةٍ وسلامٍ على سيدِي ونبيِّ محمدٍ، اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على نبيِّنا ورسولِنا محمدٍ.


خطبہ سننے کے لیے یہاں کلک کریں
 
Top