• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظہور اسلام سے پہلےعرب کتاب سے آشنا تھے

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اسلام کے آنے سے پہلے عربوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ لکھنے کے سامان کی کمی کی وجہ سے اپنے آثار وآداب کی حفاظت کے لئے اپنے حافظہ پر اعتماد کیا کرتے تھے اور فن کتابت سے بالکل بیگانہ تھے۔ یہ بات ہر علم رکھنے والا جانتا ہے کہ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث سے پہلے ایک تجارتی شہر تھا جہاں دوسرے شہر سے آنے جانے والوں کا ایک سلسلہ لگا رہتا تھا اوراس میں مدینہ کی نسبت پڑھنے لکھنے والےلوگ زیادہ تھے ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مکہ میں پڑھنے لکھنے والے لوگوں کی کمی تھی کیونکہ کسی بھی ایسے شہر میں جہاں مختلف طبقوں اور شہروں کے لوگوں کی آمد کا سلسلہ ہوا اور ہو بھی تجارت کے لئے تو وہاں کے باشندوں کے لئے لکھنا پڑھنا جروری آنا چاہئیے ورنہ اس کے بغیر تجارت میں کافی دشواری ہوگی۔

اور اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں نقل کی ہے کہ جب بدر کی لڑائ ختم ہوئ اور کئ کافر مسلمانوں کے ساتھ قید ہوئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رہائ کے لئے ان سے یہ کہا کہ جو پڑھے لکھے ہیں وہ مدینے کے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں تو ان کی رہائ ہوجائے گی ۔

عہد رسالت میں تحریر شدہ صحیفے.

بعض لوگ یہ کہہ کر کہ احادیث مبارکہ ۲۵۰ سو سال بعد لکھی گئ ہیں اس لئے ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتااور ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کو احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا۔ اس لئے احادیث کی کتابت حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔اور جو کام حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے خلاف ہو وہ حجت نہیں ہو سکتا۔

یہ ان لوگوں کا اعتراض ہے جوعلم سے نابلد اور نا آشنا ہٰیں کیونکہ اگر انہیں علم ہوتا تو اس طرح کی بات نہیں کرتے یہ بات درست ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے ابتدائ دور میں احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھامگر انہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات نہیں ملے جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو احادیث لکھنے کی اجازت دی ۔

بعد میں لکھنے کی اجازت کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل ایک ایسی تحریر لکھنا چاہی جس کی موجودگی میں مسلمان گمراہ نہ ہوں۔(فتح الباری جلد ۱ ص ۱۸۵ ۔۱۸۲)

اگر قرآن کے بغیر کسی اور چیز کے لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو لکھنے کا کیوں حکم دیا ظاہر سی بات ہے کہ وہ قرآن نہیں تھا کیونکہ قرآن تو پہلے ہی مکمل ہوچکا تھا۔

اور اگر ہم ایمانداری سے کتب کا مطالعہ کریں تو ہم پر یہ بات واضح اور روشن ہوجائے گی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ احادیث جمع کیا کرتے ۔

امام ترمذی سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک صحیفہ میں احادیث نبویہ جمع کی تھیں ۔
(سنن ترمذی،کتاب الاحکام،بالیمین مع الشاہد صحیفہ ہمام بن منبہ ص۱۶)

سعد بن عبادہ کا بیٹا اس صحیفے سے حدیث روایت کیا کرتا تھا۔(صحیفہ ہمام بن منبہ بحوالہ''تدوین حدیث ''مولانا مناظر احسن گیلانی )

حضرت سمرہ بن جندب نے بھی ایک صحیفہ لکھا تھا آپ کی وفات ۶۰ ہجری میں ہوئ ان کے بعد یہ صحیفہ ان کے بیٹے سلیمان کو ملا۔اور اس سے وہ حدیث روایت کرتے تھے (تہذیب التھذیب جلد ۴ ص۲۱۴)

اسی صحیفہ کے بارے میں ابن سیرین (جن کی وفات ۱۱۰ ہجری میں ہوئتہذیب التھذیبجلد۹،ص۲۱۴) فرماتے ہیں

''سمرہ نے جو مکتوب اپنے بیٹوں کے نام روانہ کیا اس میں بہت سا علم موجود تھا۔ (تھذیب التھذیب جلد۴،ص۲۳۶)

حضرت جابر بن عبداللہ متوفی۷۸ھ نے بھی ایک صحیفہ رقم کیا تھا ۔(طبقات ابن سعد جلد ۵ ص۳۴۴)

جو صحیفہ عصر نبوت میں لکھے گئے ان مٰیں''صحیفہ صادقہ ''سب سے زیادہ مشہور ہے ۔

یہ صحیفہ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص نے لکھا تھا ان کی وفات ۶۵ ہجری میں ہوئ بقول ابن الاثیر اس میں ایک ہزار حدیثیں تھیں ۔ (اسدالعابتہ لابن الاثیر ترجمہ عبداللہ بن عمروبن العاص جلد ۳ ص۲۳۳)

حضرت عبداللہ بن عمروالعاص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکردریافت کیا میں جو کچھ آپ سے سنو وہ لکھ لیا کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوں یا غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس لئے کہ میں ہر حال میں حق کہتا ہوں۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبرج۱،ص۷۱مسند احمدج۱،ص۲۰۷،مستدرک حاکم ج۱ ص۱۰۵)

حضرت عبداللہ بن عمرالعاص کا صحیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتوی تھا حضرت عبداللہ کے صحیفے کے لکھنے کی بہت بڑی دلیل حضرت ابوہریرہ کا یہ قول ہے ۔ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں مجھ سے زیادہ کثیرہ الروایات اور کوئ نہ تھا ۔ البتہ حجرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معاملہ جداگانہ نوعیت کا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حدیث لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا۔ (تقدیر العلم ص۸۲ جامع بیان العلم ج۱ ص۷۰، مسند احمدج۲،ص۲۸۴والاصابہ ج۴ص۱۱۲،فتح لباری ۱ص۱۸۴ ) ۔

حضرت عمر بن العاص متوفی۹۶۹نے بڑےاہتمام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی حدیث وسیرت سے متعلق بہت سا مواد تختیوں ہر تحریر کیا تھا جب آپ کسی علمی مجلس میں جاتے تو یہ تختیاں بھی ہمراہ لے جاتے (طبقات ابن سعد)

نقل متواتر سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کے وفات کے وقت آپ نے ایک اونٹ کے بار کے برابر کتابیں چھوڑیں تھیں۔ (طبقات ابن سعدج۵ص۲۱۶)

ابو ہریرہ سے ان کے شاگرد ہمام بن منبہ نے اییک صحیفہ روایت کیا پھر اس کو ہمام کی طرف منسوب کردیا اوراس کو صحیفہ ہمام کہنے لگے حالانکہ یہ صحیفہ ابوہریرہ نے ہمام کے لئے ترتیب دیا تھا ہم اس صحیفہ کو احادیث کے ان مجموعوں میں شمار نہیں کرسکتے جو عہد رسالت میں لکھے گئے تھے اس لئے کہ ہمام چالیس ہجری کے لگ بھگ پیدا ہوئے ۔اور ابوہریرہ کی وفات ۵۸ ہجری میں ہوئ ۔اس بحث وتمخیص سے ایک علمی نتیجہ نکلتا ہے اور یہ بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز بہت ابتدائ زمانہ ہوگیا تھا ہم نے یہ سال وفات طبقات ابن سعد ج۵ ص۳۹۶ کی روایت کے مطابق تحریر کیا ہے ۔

ان تمام دلائل کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ احادیث عہد رسالت لکھی جاتی رہی ہیں اور جو یہ کہتے ہیںکہ احادیث ڈھائ سو سال بعد لکھی گئ ہیں وہ بغیر دلیل کے بات کررہے ہیں۔ ہمام بن منبہ کا صحیفہ مسند احمد بن حنبل میں دورج ہے ۔
 
Top