یقین نہیں آرہا کہ کسی جگہ پر یہ سب کچھ واقعتا ہورہا ہے ، اور تعلیم و تربیت کے لیے ہورہا ہے ، یہ تو بالکل بھی نہیں لگ رہا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک پرانی خبر:
سوڈان میں عازمین حج وعمرہ کی تربیت کے لیے حسب سابق اس سال بھی خرطوم میں بیت اللہ شریف کا ماڈل تعمیر کر کے عازمین حج کی تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مناسک حج کے طریقے سکھانے کے لیے بنائے گئے اس منفرد ماڈل کو دیکھنے کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد خرطوم آ رہی ہے۔
العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت خرطوم کے شمال میں الحضراء گراؤنڈ میں بنائے گئے بیت اللہ کےنمونے کا تجربہ ملائیشیا سے حاصل کیا گیا ہے کیونکہ ملائیشیا میں گذشتہ کئی سال سے عازمین حج کو مناسک کی ادائیگی کے طریقے بتانے کے لیے اسی طرح کا ماڈل بنایا جاتا ہے۔ خرطوم میں پہلی مرتبہ گذشتہ برس خانہ کعبہ کا ماڈل بنایا گیا تھا۔
خرطوم وزارتِ مذہبی و امور وحج کمیشن کو توقع ہے کہ خانہ کعبہ کا ماڈل تعمیر کر کے انہوں نے نہ صرف حجاج کرام کی تربیت کا بہترین انتظام کیا ہے بلکہ اس طریقے سے امسال سوڈان سے حجاج کرام کی تعداد میں دس ہزار عازمین کے اضافے کی توقع ہے۔
خرطوم میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سوڈانی وزیر اوقاف و مذہبی امور عثمان الکباشی کا کہنا تھا کہ خانہ کعبہ کے نمونے کے ذریعے وہ زیادہ فعال طریقے سے عازمین حج وعمرہ کی تربیت کر سکیں گے تاکہ وہ مناسک حج صحیح اسلامی طریقے کے مطابق ادا کر سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں الکباشی نے کہا کہ خانہ کعبہ کا ماڈل تعمیر کرنے میں دو ہزار ڈالرز کی لاگت آئی۔ یہ رقم وزارت مذہبی امورکی جانب سے ادا کی گئی ہے، جس کے بعد عازمین حج میں یہ خوف بھی پیدا ہوا ہے کہ حکومت ان سے حج کی اضافی فیس وصول کرے گی۔ تاہم حکومت نے عازمین حج وعمرہ کو اطمینان دلایا ہے کہ ان سے کوئی اضافی چارجز وصول نہیں کیے جائیں گے۔
حج کمیشن کے ایک دوسرے عہدیدار نے بھی کہا ہے کہ خانہ کعبہ کا ماڈل بنا کرحجاج کرام کو لوٹنا ہمارا مقصد نہیں بلکہ ہم عازمین کی بہتر طریقے سے تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے نمونے کی تعمیر سے حجاج کے حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
العربیہ ٹی وی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ الخضراء گراؤنڈ میں بنائے گئے خانہ کعبہ کے نمونے کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شہری آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امسال حجاج کرام کی تعداد میں بھی خاطرخواہ اضافے کی توقع ہے۔
http://www.alarabiya.net/articles/2011/10/02/169711.html