• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عاشورہ کا روزہ کب رکھے ؟

شمولیت
مارچ 11، 2016
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
58
عاشورہ کا روزہ کب رکھیں؟

از:فاروق عبد اللہ نراین پوری

احادیث مبارکہ میں عاشورہ کے روزے کی بڑی فضیلت اور تاکیدآئی ہوئی ہے۔ یہ روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: صيام يوم عاشوراء، أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله۔ (صحيح مسلم 1162)۔

*بالاجماع اس دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔* علامہ ابن عبد البر، قاضی عیاض، امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے۔ (دیکھیں: التمهيد (7/203) ، اكمال المعلم (4/78)، المنهاج (4/8/245) و فتح الباري (5/437)۔

اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس دن کے روزے کا خصوصی اہتمام کرے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھواتے تھے۔ جب و ہ بھوک وپیاس سے روتے تو انہیں کھلونوں سے بہلاتے پھسلاتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔ (متفق علیہ: صحیح بخاری 1960، صحیح مسلم 1136)۔

*لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ماہ محرم کی کن تاریخوں میں یہ روزہ رکھنا ہے۔ اس بارے میں علمائے کرام کے درج ذیل اقوال پائے جاتے ہیں:*

*1 – صرف نویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔*
*2 - صرف دسویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔*
*3 - نویں اور دسویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے-*
*4 - نویں اور دسویں یا دسویں ا ورگیارہویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔*
*5 - نویں، دسویں اور گیارہویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے۔* علامہ ابن القیم رحمہ اللہ وغیرہ نے اس قول کو سب سے اکمل کہا ہے۔(دیکھیں: زاد المعاد 2/72)۔

*ان اقوال کی تفصیلات مع دلائل اور مناقشے کے حاضر ہے:*

*پہلا قول* عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر درج ذیل روایت پیش کی جاتی ہے :
عن الحكم بن الأعرج، قال: انتهيت إلى ابن عباس رضي الله عنهما، وهو متوسد رداءه في زمزم، فقلت له: أخبرني عن صوم عاشوراء، فقال: «إذا رأيت هلال المحرم فاعدد، وأصبح يوم التاسع صائما»، قلت: هكذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه قال: «نعم»۔ (صحيح مسلم 1133)۔
(حکم بن اعرج فرماتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ، وہ زمزم کے پاس اپنی چادر سے ٹیک لگائے ہوئے (آرام فرما رہے ) تھے۔ میں نے ان سے کہا : مجھے عاشورہ کے روزے کے متعلق بتائیں۔ تو انہوں نے فرمایا: جب تم محرم کا چاند دیکھ لو تو گنتی کرنا شروع کرو اور نویں تاریخ کی صبح روزے کی حالت میں کرو۔ میں نے کہا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی روزہ رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔)
اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ جب ابن عباس رضی اللہ عنہ کو عاشورہ کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے صرف نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
حالانکہ یہ استدلال صحیح نہیں، اور ان کی طرف اس قول کی نسبت بھی صحیح نہیں ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ ان کے مذکورہ قول کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وكأنه رضي الله عنه أراد صومه مع العاشر وأراد بقوله في الجواب نعم ما روي من عزمه صلى الله عليه وسلم على صومه والذي يبين هذا ما أخبرنا أبو محمد عبد الله بن يحيى بن عبد الجبار ببغداد, أنبأ إسماعيل بن محمد الصفار، ثنا أحمد بن منصور، ثنا عبد الرزاق، أنبأ ابن جريج، أخبرني عطاء، أنه سمع ابن عباس يقول: "صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود". (السنن الکبری 4/475)۔
(شاید ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد دسویں کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھنا تھا، اور سائل کے جواب میں انہوں نے جو "نعم " کہا ہے اس سے دسویں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نویں کے بھی روزہ رکھنے کا جو عزم کیا تھا اسے بیان کرنا چاہا ہے۔ اس کی دلیل خود ان کا ہی قول ہے: "صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود" (نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو)۔

*جہاں تک صرف نویں تاریخ کو عاشورہ کا روزہ رکھنے کی بات ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔* کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے" عاشورہ "کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور شرعی اصطلاح میں عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں ، نویں کو نہیں۔ امام نوووی، ابن حجر ، عینی، صنعانی اور زرقانی وغیرہ نے اسے جمہور صحابہ وتابعین کا مذہب کہا ہے۔ (دیکھیں: المنهاج (8/12), فتح الباري (5/435-436), عمدة القاري (11/165-166), سبل السلام (2/461), شرح الزرقاني على الموطأ (2/104) وغیرہ.
الزین بن المنیر فرماتے ہیں: هو مقتضى الاشتقاق والتسمية۔ دیکھیں: فتح الباري (5/436) وشرح الزرقاني على الموطأ (2/104)۔

بلکہ بعض احادیث میں دسویں تاریخ کی صراحت موجود ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"إن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بصيام يوم عاشوراء يوم العاشر"۔ (مسند البزار 18/153)۔
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔)
اس کی سند صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "اسنادہ صحیح" کہا ہے۔ (مختصر زوائد البزار 1/406 حدیث نمبر 672)۔

پتہ چلا کہ دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا یہ اصل ہے۔ پوری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ نے دسویں تاریخ کا ہی روزہ رکھا ہے۔ جب آپ کے سامنے یہود کی بات کی گئی کہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ نے ان کی مخالفت میں آئندہ سال نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھنے کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: «لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع» (اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھوں گا)۔ صحيح مسلم (2/798) حدیث نمبر (1134)۔

اس کا مطلب قطعی یہ نہیں تھا کہ آئندہ سال سے دسویں کا روزہ نہیں رکھوں گا، صرف نویں کا روزہ رکھوں گا۔ اس لئے بعض حضرات کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ دسویں تاریخ کا روزہ منسوخ ہوگیا ہے۔ جو لوگ ایسی بات کرتے ہیں ان کا فہم صحابہ کرام کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔ خود ابن عباس رضی اللہ عنہ جنہوں نے "لأصومن التاسع" والی حدیث روایت کی ہے ان سےبسند صحیح مروی ہے: "خالفوا اليهود وصوموا التاسع والعاشر". (یہود کی مخالفت کرو اور نویں ودسویں تاریخ کو روزہ رکھو۔) (اس کی تخریج آگے آرہی ہے۔)

نیز کسی بھی صحابی سے نہیں ملا کہ انہوں نے اسے منسوخ سمجھا ہو اور صرف نویں تاریخ کا روزہ رکھا ہو۔
بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام دسویں تاریخ کے روزے کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے:
عن حميد بن عبد الرحمن، أنه سمع معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنهما، يوم عاشوراء عام حج على المنبر يقول: يا أهل المدينة أين علماؤكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه، وأنا صائم، فمن شاء، فليصم ومن شاء، فليفطر»۔صحیح بخاری (2003)۔
(حمید بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو جس سال انہوں نے حج کیا عاشورہ کے دن منبر پر کہتے ہوئے سنا: ائے مدینہ والوکہاں ہیں تمہارے علمائے کرام؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : یہ عاشورہ کا دن ہے، اس کا روزہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپر فرض نہیں کیا ہے ، میں روزے سے ہوں ، جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔)

معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر پر صحابہ کرام کے سامنے دسویں تاریخ کے روزے کے متعلق عاشورہ کے دن ہی انہیں کہا اور کسی نے ان پر نکیر نہیں کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام اس دن کے روزے کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔
اس لئے صرف نویں تاریخ کو روزہ رکھنا اور دسویں کو نہ رکھنا یہ صحیح نہیں ہے۔
*علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وأما إفراد التاسع فمن نقص فهم الآثار، وعدم تتبع ألفاظها وطرقها، وهو بعيد من اللغة والشرع"۔* (زاد المعاد في هدي خير العباد 2/72)۔
(صرف نویں تاریخ کو روزہ رکھنا یہ آثار کی کم فہمی اور اس کے الفاظ اور طرق کے عدم تتبع کی دلیل ہے، نیز لغوی اور شرعی اعتبار سے بھی یہ بعید تر ہے۔ )

*دوسرا قول:* جہاں تک صرف دسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کی بات ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور عمل اسی پر رہا ہے۔
بعض اہل علم نے اسے مکروہ کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے۔ البتہ افضل یہ ہے کہ نویں اور دسویں دونوں دن کا روزہ رکھا جائے۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وصيام يوم عاشوراء كفارة سنة ولا يكره إفراده بالصوم"۔ (الفتاوى الكبرى لابن تیمیہ 5/ 378)۔
(عاشورہ کے دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا مکروہ نہیں۔)

یہی بات متعدد علماء کرام سے منقول ہے۔ (دیکھیں: مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى (2/215)، تحفۃ المحتاج (3/455)، اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء ( 11/401)۔

*تیسرا قول:* نویں ودسویں تاریخ کو یہ روزہ رکھا جائے ۔ تمام اقوال کے مابین یہی عمل سب سے افضل اور سنت سے قریب تر ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کا خود روزہ رکھنے اور رکھنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه, قالوا: "يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى, فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع", قال: "فلم يأت العام المقبل حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم". (صحيح مسلم 1134).
(جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا ، اور اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا : ائے اللہ کے رسول یہود ونصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آئندہ سال ہوگا تو ہم نویں کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس فرماتے ہیں: لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قال الشافعي وأصحابه وأحمد وإسحاق وآخرون يستحب صوم التاسع والعاشر جميعا لأن النبي صلى الله عليه وسلم صام العاشر ونوى صيام التاسع"۔ شرح النووي على مسلم (8/12)۔
(امام شافعی اور ان کے اصحاب، احمد، اسحاق اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ نویں اور دسویں دونوں دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کا روزہ رکھا اور نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی آپ نے نیت کی تھی۔)

جہاں تک *چوتھے اور پانچویں قول* کی بات ہے تو اس میں نویں و دسویں کے ساتھ، یا صرف دسویں کے ساتھ گیاہویں تاریخ کے بھی روزہ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔

اس کی دلیل کے طور پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے:
*صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا"۔*
*وفي رواية عند البيهقي: "صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا وَبَعْدَهُ يَوْمًا"۔*
(تم لوگ عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو، اور اس میں یہود کی مخالفت کرو، اس سے ایک دن پہلے روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد۔ اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے: اس سے ایک دن پہلے روزہ رکھو اور ایک دن بعد۔)

*لیکن اس سے استدلال کرتے ہوئے مذکورہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت ثابت نہیں ہے،* جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
یہ حدیث "داود بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه عن جده عبد الله بن عباس رضي الله عنه" سے تین طریق سے مروی ہے:
*پہلا طریق:* امام احمد ، بزار، ابن خزیمہ، طحاوی، ابن عدی اور بیہقی وغیرہ نے اسے "ابن أبي لیلی عن داود بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه عن جده عبد الله بن عباس رضي الله عنه" کے طریق سے روایت کی ہے۔ (دیکھیں: مسند احمد (4/52)[2154]، مسند بزار [5238]، صحيح ابن خزيمة (3/290-291) [2095]، شرح معاني الآثار (2/78) [3303]، الكامل (3/89)، السنن الكبرى (4/287)۔
ابن ابی لیلی یہ قاضی محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی ہیں۔ ائمہ جرح وتعدیل نے ان کے حافظہ پر سخت کلام کیا ہے۔
امام شعبہ بن حجاج فرماتے ہیں: "ما رأيت أحدًا أسوأ حفظًا من ابن أبى ليلى" (میں نے ابن ابی لیلی سے بڑا حافظہ کا گڑبڑ کسی کو نہ پایا۔) (الجرح والتعديل 1/152)۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل اور ابو حاتم رازی وغیرہ نے بھی ان کے حفظ وضبط پر کلام کیا ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "صدوق سیئ الحفظ جدا"۔ (تقریب التہذیب 6121)۔

*دوسرا طریق:* ابن عدی اسے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدثنا محمد بن أحمد بن هارون الدقاق، حدثنا عباس بن يزيد البحراني، حدثنا ابن عيينة، عن ابن حي عن داود بن علي بن عبد الله بن عباس، عن أبيه، عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال...الحديث. (الكامل في ضعفاء الرجال 3/ 554)۔
ابن عدی کی اس سند کے مطابق ابن حی نے داود بن علی سے روایت کرنے میں ابن ابی لیلی کی متابعت کی ہے۔
لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہ ہے کہ سفیان بن عیینہ نے بھی دوسرے روات کی طرح اسے "ابن ابی لیلی عن داود بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه عن جده عبد الله بن عباس رضي الله عنه" کے طریق سے ہی روایت کی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام حمیدی نے اپنی مسند (1/434) میں سفیان بن عیینہ سے اسے روایت کی ہے اور اس میں ابن عیینہ نے ابن حی سے نہیں بلکہ ابن ابی لیلی سے ہی روایت کی ہے۔ اور امام حمیدی کو محدثین کرام أثبت الناس فی ابن عیینہ کہتے ہیں۔ تقریبا انیس سال تک انہوں نے ان کی ملازمت اختیار کی ہے۔ (دیکھیں: الجرح والتعدیل 5/57، سیر اعلام النبلاء 10/617)۔
بلکہ ابن عدی اسے روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "قال العباس: "وغير سفيان يقول: ابن حي عن ابن أبي ليلى يعني عن داود".
یعنی عباس بن یزید البحرانی فرماتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے اسے "ابن حی عن داود..." کے طریق سے روایت کی ہے ۔ جب کہ سفیان کے علاوہ دوسرے روات جب روایت کرتے ہیں تو "ابن حي عن ابن أبي ليلى يعني عن داود" کے طریق سے روایت کرتے ہیں۔
اس صورت میں یہ کوئی نئی سند نہیں ہوگی ، بلکہ پہلے طریق ہی کی طرف لوٹ جائےگی۔ اور ابن حی : ابن ابی لیلی کے متابع نہیں ہوں گے ۔
امام حمیدی کی روایت دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ عباس بن یزید البحرانی سے ہی سفیان کی طرف منسوب کرکے جو انہوں نے بات کہی ہے اس میں ان سے غلطی ہوئی ہے۔ حافظ ابن حجر نے انہیں "صدوق یخطئ" کہا ہے۔ (التقریب 3211)۔
لہذا صحیح یہ ہے کہ یہ کوئی نئی سند نہیں بلکہ ابن ابی لیلی کی ہی پہلی والی سند ہے۔

*تیسرا طریق:* ابن عدی الکامل (3/554) میں اسے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدثنا ابن سعيد ثنا محمد بن أحمد بن العوام الرياحي حدثنا أبي ثنا الحارث بن النعمان بن سالم عن سفيان بالإسناد المذكور مختصرًا بلفظ : "صوموا عاشوراء".
ابن عدی نے اپنے شیخ کا نام ابن سعید کہا ہے، اگر وہ احمد بن محمد بن سعید ابو العباس المعروف بابن عقدہ ہیں جیسا کہ غالب گمان ہے تو یہ سند ضعیف ہے۔ ابن عقدہ پر بہت سارے محدثین نے کلام کیا ہے۔ شیخ نایف المنصوری نے ارشاد القاصی والدانی (ص160) میں ان اقوال کو جمع کیا ہے جسے وہاں پر دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ متن مختصر ہے اور اس میں محل شاہد "وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما أو بعده يوما" والا ٹکڑا موجود نہیں ہے۔
لہذا یہ سندیں داود بن علی تک صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہیں۔
اور *داود بن علی خود معتمد علیہ راوی نہیں ہیں۔* ابن حبان نے الثقات (6/281) میں انہیں ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ کہا ہے: "یخطئ"۔
امام ابن معین فرماتے ہیں: "ارجو انہ لیس یکذب"۔ الکامل میں فی ضعفاء الرجال (3/553)۔
امام بزار فرماتے ہیں: لم يكن بالقوي في الحديث (مسند البزار 11/394).
حافظ ذہبی فرماتے ہیں: "لیس حدیثہ بحجۃ"۔ (المغنی فی الضعفاء 2013)۔
اور حافظ ابن حجر نے انہیں التقریب (1812) میں "مقبول" کہا ہے۔ اور ان کے مقبول کہنے مطلب یہ ہے کہ متابعت کے وقت مقبول ہیں ورنہ وہ لین الحدیث ہیں۔ اور ان کی کوئی متابعت نہیں مل سکی۔
امام بزار فرماتے ہیں: "هذا الحديث قد روي عن ابن عباس من وجوه، ولا نعلم روي عن ابن عباس، ولا عن غير ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أن يصام قبله يوما وبعده يوما إلا في حديث داود بن علي، عن أبيه، عن ابن عباس"۔ مسند البزار(11/399)۔
(یہ حدیث -یعنی صوموا قبلہ یوما و بعدہ یوما- ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعدد وجوہ سے مروی ہے، اور ہمیں نہیں معلوم کہ داود بن علي، عن أبيه، عن ابن عباس کی حدیث کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ روایت کی گئی ہو کہ ابن عباس یا ان کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہو کہ عاشورہ سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد میں روزہ رکھا جائے۔ )
یعنی "صوموا قبلہ یوما وبعدہ یوما" کا لفظ داود بن علی کے علاوہ ابن عباس سے یا کسی دوسرے سے کوئی روایت نہیں کرتا۔
*بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث موقوفا اس طرح وارد ہے:*
*"خالفوا اليهود وصوموا التاسع والعاشر".* (یہود کی مخالفت کرو اور نویں ودسویں تاریخ کو روزہ رکھو۔)
اسے امام عبد الرزاق نے اس سند سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني عطاء، أنه سمع ابن عباس، يقول في يوم عاشوراء: «خالفوا اليهود وصوموا التاسع والعاشر»۔ مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4/287) حدیث نمبر (7839)۔
اس کی سند صحیح ہے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: *"صوموا التاسع والعاشر ولا تشبهوا باليهود".* (نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو۔)
امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے درج ذیل سند سے روایت کی ہے:
أخبرنا سفيان أنه سمع عبيد الله بن أبي يزيد يقول: سمعت ابن عباس يقول: "صوموا التاسع والعاشر ولا تشبهوا باليهود"۔ (دیکھیں: معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 6/350، حدیث نمبر 8966، والبدر المنیر 5/751)۔
اور یہ سند بھی صحیح ہے۔
یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفا یہ حدیث دو صحیح سندوں سے مروی ہے، ان میں بھی یہود کی مخالفت کی بات آئی ہے لیکن ان میں صرف نویں اور دسویں تاریخ کے روزے کی بات ہے، گیارہویں تاریخ کے روزے کی نہیں۔
*اور جہاں تک مرفوع حدیث کی بات ہے تو وہ داود بن علی تک اس کی سند ثابت نہ ہونے اور ان کے متکلم فیہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔*
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ فرماتے ہیں: "رواية أحمد هذه ضعيفة منكرة من طريق داود بن علي عن أبيه عن جده، رواها عنه ابن أبي ليلى"۔ (نيل الأوطار 4/289)۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ (تحقیق صحیح ابن خزیمہ 3/291)۔
شیخ شعیب ارنؤوط اور ان کی ٹیم نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔ (تحقیق مسند امام احمد 5/280)۔
*اور جب یہ دلیل صحیح نہیں تو اس سے استدلال کرتے ہوئے عاشورہ کی نیت سے دسویں کے ساتھ گیارہویں، یا نویں اور دسویں کے ساتھ گیارہویں تاریخ کے روزہ رکھنے بات کرنا بھی صحیح نہیں ہے، چہ جائیکہ اسے سب سے اکمل اور افضل کہا جائے۔ واللہ اعلم۔*

بعض حضرات کہتے ہیں کہ اصل مقصود یہود کی مخالفت ہے، چاہے یہ مخالفت نویں تاریخ کا روزہ ضم کرکے کریں یا گیارہویں تاریخ کا دونوں صحیح ہے۔ لیکن ان کا یہ قول صحیح نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ مخالفت کا طریقہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ نویں تاریخ کو دسویں کے ساتھ ضم کرکے روزہ رکھا جائے، اگر گیارہویں تاریخ کا ضم کرنا بھی مخالفت کی صحیح صورت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان کردیتے، لیکن آپ نے اسے بیان نہ کیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے وضاحت اور صراحت کے ساتھ مخالفت کا حکم دیا ہے اور یہود کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے لیکن انہوں نے بھی مخالفت کی صورت یہ بیان کی کہ دسویں کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ اس لئے اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہوئے گیارہویں تاریخ کو صوم عاشورہ میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ احتیاط کے طور پر اگر کوئی گیارہویں تاریخ کو عاشورہ کا روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔ اس کے لئے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث سے دلیل لیتے ہیں:
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فِي السَّفَرِ، وَيُوَالِي بَيْنَ الْيَوْمَيْنِ مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ» مصنف ابن أبي شيبہ (2/313) حدیث نمبر (9388)۔

اس پر یہ کہنا ہے کہ *اولا:* یہ حدیث شعبہ مولی ابن عباس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں: "صدوق سیئ الحفظ"۔ (التقریب 2792)۔

*ثانیا:* اس روایت میں گیارہویں تاریخ کی صراحت نہیں ہے، اس میں نویں اور دسویں کا بھی احتمال ہے۔

*ثالثا:* احتیاط یا شک کی وجہ سے روزہ رکھنے کا حکم شریعت میں نہیں آیا ہے۔ اگر احتیاط کی ہی بات کی جائے تو دوسرے روزوں کے تعلق سے بھی یہ بات کہنی چاہئے صرف عاشورہ کے متعلق نہیں۔

ہاں اگر کوئی عاشورہ کی نیت سے نہیں بلکہ عام نفلی روزے کی نیت سے گیارہویں محرم کو روزہ رکھتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت ماہ محرم کا روزہ رکھنا ثابت ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بہترین علمی تحریر ہے۔
 
Top