ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
عالم اسلام میں انقلاب کی سونامی
ماضی اور حال میں کئی ممالک میں آنے والے انقلاب ایک قدر مشترک رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ طویل عرصہ تک جابر حکمرانوں کے ظلم اور محرومی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے صبرکا پیمانہ ایک نہ ایک دن لبریز ہو کر سونامی طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑے جابر حکمران اپنی تمام ظاہری قوت اور حکومتی وسائل کے باوجود یا تو عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بنتا ہے اور یا فرار ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انقلاب فرانس اور انقلاب روس سے بعد میں آنے والے بعض حکمرانوں نے رعایا کو اپنی موروثی جائیداد تصور کیا اور اس کا نتیجہ مصر کے شاہ فاروق‘ ایران کے شہنشاہ رضا پہلوی کے انجام کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے۔ اس کے باوجود اسلامی دنیا کے اکثر و بیشتر حکمران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے تاریخ کے نئے تقاضوں کا ادراک نہ کر سکے۔ حال ہی میں تیونسیا کے سابق صدر زین العابدین بن علی کو طاقت اخوت عوام کی تاب نہ لا سکنے پر تیونس سے فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ ڈھونڈنی پڑی۔