• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عام ,عام کے لفظ کی دلالت اورستعمالات,, عام کا حکم اصول الفقہ

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
عام

تعریف:
لغت میں عام شامل کو کہتےہیں۔ اور عموم کہتے ہیں مطلق طور پر ایک چیز کا دوسری چیز میں شامل ہونا۔

اصطلاح میں اس لفظ کو عام کہتے ہیں جو اپنے اندران تمام چیزوں کو سمو لے جن کا اس عام کے اندر بغیر حصر کے ایک ہی وضع اور ایک ہی مرتبہ میں سمویا جانا صحیح ہو۔

تو ہماری اس بات «دفعة» سے اثبات کے سیاق میں’رِجل‘ (ٹانگ یا پاؤں) جیسے الفاظ نکل گئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ لفظ ان چیزوں کو اپنے اندر سمولینے والا ہے جو اس کے اندر شامل ہوجانے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن یہ شمولیت بدلیت کے اعتبار سے ہوتی ہے نہ کہ ایک ہی مرتبہ۔

اسی طرح ہماری اس بات «بوضع واحد» سے مشترک المعنی قسم کے الفاظ نکل گئے ہیں۔ مثال کے طور پر «القرء والعين» ان میں سے ہر ایک وضع دو یا دوسے زیادہ معانی کےلیے ہے۔

اور ہماری اس بات «في غير حصر» سے اسماء الاعداد نکل گئے ہیں، جیسے کہ دس اور سو ہے۔

یہ آخری بات ان لوگوں کے نزدیک ہے جو اعداد کو عام کے صیغوں میں شمار نہیں کرتے۔

عام کے صیغے:


عام پر دلالت کرنے والے چند الفاظ ہیں جن کو عموم کے صیغ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں چند حسبِ ذیل ہیں:

کل۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: ” ﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ﴾ [الأنبياء:35] “ ہر جان موت کو چکھنے والی ہے۔ اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان: ” ﴿ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ ﴾ [البقرة:285] “ (رسولوں اور مؤمنوں میں سے )ہر ایک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر ایمان لایا ہے۔

جمیع۔جیسا کہ : ” جاء القوم جميعهم “ ساری کی ساری قوم آئی۔

جمع کا وہ صیغہ جو معرف باللام ہو لیکن عہد(ذہنی یاخارجی)کےلیےنہ ہو۔ جیسا کہ: ” ﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ [المؤمنون:1] “ یقیناً مؤمن کامیاب ہوگئے۔

اسی طرح جمع کا وہ صیغہ جو اضافت کی وجہ سے معرفہ بن جائے۔ جیسا کہ : ” ﴿ يوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ ﴾ [النساء:11] “ اللہ رب العزت تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتے ہیں۔

وہ مفرد لفظ جو معرف باللام ہو لیکن عہد(ذہنی یا خارجی) کےلیے نہ ہو۔ جیسا کہ: ” ﴿ وَالْعَصْرِ (1) إنَّ الإنسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ [العصر:1ـ3] “زمانے کی قسم(1)بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے(2)سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (3)

اسی طرح وہ مفرد لفظ جو اضافت کی وجہ سے معرفہ بن گیا ہو۔ جیسا کہ: ” ﴿ وَإن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا ﴾ [النحل:18] “ اگرتم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے۔

تثنیہ کا وہ صیغہ جو معرف باللام ہو۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ” «إذا التقى المسلمان بسيفيهما...» “ جب دو مسلمان آپس تلواریں لے کر ملاقات کریں۔۔۔الخ

تو یہاں پر ” المسلمان “ تمام مسلمانوں کو شامل ہے۔

’ما‘۔ یہ غیر عاقل کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ بطور موصولہ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ” ﴿ مَا عِندَكُمْ ينفَدُ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقٍ ﴾ [النحل:96] “ جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے ، وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

بطور شرطیہ اس کی مثال اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے: ” ﴿ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيرٍ يعْلَمْهُ اللَّهُ ﴾ [البقرة:197] “ تم جو بھی بھلائی کا کام کروگے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے جان لیں گے۔

’من‘۔ یہ عاقل کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ موصولہ کے طور پر اس کی مثال یہ فرمان الہٰی ہے: ” ﴿ وَلا تُؤْمِنُوا إلاَّ لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ ﴾ [آل عمران:73] “ تم صرف اسی کی بات مانو جو تمہارے دین کی پیروی کرتا ہے۔

بطور شرطیہ اس کی مثال اللہ رب العزت کا یہ فرمان ہے: ” ﴿ فَمَن يعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيرًا يرَهُ ﴾ [الزلزلة:7] “ تو جو کوئی ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا ، اسے دیکھ لے گا۔

مَتٰی۔مبہم زمانہ کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ بطور شرطیہ اس کی مثال: ” «متى زرتني أكرمك» “ جب بھی آپ مجھے ملنے آئیں گے ، میں آپ کی عزت وتوقیر کروں گا۔

اَیْنَ۔ مبہم جگہ کےلیے استعمال ہوتا ہے۔بطور شرطیہ اس کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” ﴿ أَينَمَا تَكُونُوا يدْرِككُّمُ الْمَوْتُ ﴾ [النساء:78] “ تم جہاں بھی ہوں گے ، موت تمہیں تلاش پالے گی۔

10۔ نفی کے سیاق میں نکرہ۔ یہ عموم میں نص اور ظاہر ہوتا ہے۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
عام کے ایک فرد پر عام کا حکم لگانے سے اس عام کا عموم ختم نہیں ہوگا

جب کسی ایسے عام کو ذکر کیا جائے جس پر کوئی حکم لگایا گیا ہو، پھر یہ حکم اس عام کے بعض افراد پر لگادیا جائے تو اس طرح اس عام کا حکم گر نہیں جائے گا۔ اس میں ابو ثور نے اختلاف کیا ہے۔اس حکم لگانے میں برابر ہے کہ عام کے افراد اکٹھے ذکر کیے گئے ہوں—جیسے: ﴿ تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ ﴾ [القدر:4] روح (جبریل امین) اور فرشتے نازل ہوتے ہیں—یا پھر علیحدہ علیحدہ ۔ جیسا کہ یہ حدیث ہے: «أيما إهاب دبغ فقد طهر» جو کھال بھی رنگ لی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے۔

اس مسلم کی اس حدیث کےساتھ کہ نبیﷺ ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: «هلا أخذتم إهابها فانتفعتم به» تم نے اس کی کھال کیوں نہ پکڑلی کہ اس کے ذریعے تم فائدہ اُٹھالیتے۔

اسی طرح یہ حدیث: «من وجد متاعه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من الغرماء» جو شخص اپنے مال کو ایک دیوالیہ آدمی کے پاس پالے تو باقی قرض خواہوں کے نسبت وہی اس کا زیادہ حق دار ہے ۔

اس حدیث کے ساتھ : «إذا ابتاع الرجل سلعة ثم أفلس وهي عنده فهو أحق بها من الغرماء» جو آدمی کوئی سودا خریدے پھر دیوالیہ(مفلس) ہوجائے اور وہ مال اس کے پاس ویسے ہی پڑا ہو تو مال کا مالک باقی قرض خواہوں کی نسبت اس مال کا زیادہ حق دار ہے۔

اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ کے قول کی طرح بات کہ: ”قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل شيء“ نبی کریمﷺ نے ہر چیز میں شفعہ کا فیصلہ دیا ہے۔

اس حدیث کے ساتھ: «فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة» جب حدیں واقع ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں ہے۔

عام کے بعض افراد پر عام کا حکم لگانے کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس طرح اس فرد کے عام سے نکل جانے کے احتمال کی نفی کردی جاتی ہے۔

ان الفاظ کا بیان جو عام کے درجے پر ہوتے ہیں یا عام کے قائمقام ہوتے ہیں:

عموم کے قائمقام کے بارے میں اصولیوں کے ہاں ایک مسجع عبارت مشہور ہے جو امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔ عبارت یہ ہے: ” «ترك الاستفصال في حكاية الحال مع قيام الاحتمال ينزل منزلة العموم في المقال ويحسن به الاستدلال» “ حال کی حکایت میں احتمال ہونےکے باوجود تفصیل طلب کرنے کو ترک کردینا بات میں عموم کے قائمقام ہے اور اس سے استدلال کرنا درست ہے۔

اس قاعدے کی مثالوں میں سے ایک مثال نبی ﷺ کی غیلان ثقفی کو کہی گئی یہ بات ہے جب وہ مسلمان ہوئے تھے اور اس وقت ان کے پاس دس بیویاں تھیں: ” «أمسك منهن أربعًا وفارق سائرهن» “ ان میں سے چار کو رکھ لے اور باقیوں کو جدا کردے۔

آپ ﷺ نے غیلان ثقفی سے یہ نہیں پوچھا کہ اس نے ان عورتوں سے اکٹھی ہی شادی کی تھی یا ترتیب سے۔ تو یہ بات دونوں حالتوں میں فرق کے نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
عام کے لفظ کی دلالت اور اس کے استعمالات:

لفظ عام میں اصول یہ ہے کہ اس کی دلالت کلی ہونی چاہیےیعنی اس پر لگایا جانے والا حکم اس کے تحت آنے والے افراد میں سے ہر فرد پر ہونا چاہیے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جس اس میں تخصیص داخل نہ ہو، یہ وہ عام ہوتا ہے جو اپنے عموم پر باقی رہتا ہے اور ایسا بہت کم ہوتا ہے (یعنی یہ کہ اس عموم کی تخصیص نہ آئے) اس (باقی رہنے والے عام)کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

اللہ رب العزت کا یہ فرمان : ﴿ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الأَرْضِ إلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا ﴾ [هود:6] زمین پر جو بھی جاندار ہے ، اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔

اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَلِيمٌ ﴾ [البقرة:282] اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب اچھی طرح جاننے والے ہیں۔

اور اللہ رب العالمین کا یہ فرمان بھی: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ﴾ [النساء:23] تم پر اپنی ماؤں سے نکاح کرنا حرام کردیا گیا ہے۔

بعض اوقات عام کا لفظ بول کر اس سے عام کے بعض افراد مراد ہوتے ہیں۔ یہ وہ عام ہوتا ہے جس سے کچھ خاص افراد مراد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رب کائنات کا یہ فرمان مبارک ہے: ﴿ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ ﴾ [آل عمران:173] جب انہیں لوگوں نے کہا۔

یہاں پر ’ناس‘ یعنی لوگوں سے مراد صرف نعیم بن مسعود یا اس کے علاوہ کوئی شخص ہے۔

اسی طرح اللہ رب العزت کا یہ فرمان عالیشان بھی: ﴿ أَمْ يحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ [النساء:54] یا پھر وہ لوگوں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان (لوگوں )کو اپنے فضل سے نوازا ہے۔

تو یہاں پر ’ناس‘ سے مراد نبی کریمﷺ ہیں۔ اور کبھی لفظ عام کا بولا جاتا ہے پھر اس میں تخصیص داخل ہوجاتی ہے، یہ مخصوص عام ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے:

﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ ﴾ [البقرة:228] اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے نفسوں کے ساتھ تین حیض تک انتظار کریں (یعنی عدت گزاریں)۔

تو یہاں پر لفظ ’مطلقات‘ عام ہے جس کی تخصیص اللہ رب العالمین کے اس فرمان کے ذریعے کی گئی ہے: ﴿ وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﴾ [الطلاق:4] اور حیض والی (طلاق یافتہ) عورتوں کی عدت کی مدت ان کے وضع حمل تک ہے۔

تو اس طرح ان حاملہ مطلقات کی عدت وضع حمل تک ہے نہ کہ تین حیض تک۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top