• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبادتوں سے منحرف کون ہوتاہے..؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الر حیم



عبادتوں سے منحرف کون ہوتاہے..؟​



محمد شارب ابن شاکر السلفی​



عید کی چاند نظر آتے ہی عوام الناس کی اکثریت عبادت و بندگی سے دور ہو جاتی ہے،اِدھر چاند نکلتا ہے اُدھر مساجد ویران،ذکر وورد ختم،مصحف کی تلاوتیں بند،وہی پرانی والی روش،وہی رفتار بے ڈھنگی،وہی ڈال وہی پات، عوام وخواص عبادتوں سے ایسے ہی بھاگتے ہیں جیسے کہ بدکے ہوئے گدھے شیر سے بھاگتے ہیں،اِدھر شرکش شیطانوں کو آزادی نصیب ہوتی ہے اُدھر مسلمانوں کی معصیت و طغیانیت کی شروعات ہوتی ہے، چاند کے نظر آتے ہی ہر کوئی ہر طرح کی اپنی پرانی عادتوں کو بالخصوص برائیوں کو انجام دینے میں آزادی محسوس کرتے ہوئے فخر کرتا ہے، اور صرف چند گھنٹوں میں اپنی مہینہ بھر کی محنتوں کو رائیگاں و برباد کر لیتا ہے، اس کی مثال کچھ اسی طرح ہے کہ کوئی انسان اچھی طرح سے صابن وغیرہ سے اپنے بدن کے میل کچیل کو صاف کرے ،نئے کپڑے زیب تن کرے،خوشبوؤں سے معطر ہو جائے پھر اپنے جسم پر گندگی کو ملتے ہوئے یہ سمجھے کہ میں نے اچھا کام کیا ہے،بھلا ایسے آدمی کو عقل مند کون کہہ سکتا ہے۔

رمضان بھر عبادتوں میں محنت و مشقت کرکے پھر اسے ترک کردینے والوں کی مثال اس عورت کی طرح ہے جو محنت و مشقت کرکے دھاگے تیار کرتی ہے پھر اسے ضائع و برباد کردیتی ہے، فرمان ِباری تعالی ہے ﴿ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ أنْکَاثاً ﴾ اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑڈالا۔(النحل:۹۲)رمضان کے بعد عبادتوں سے منحرف ہوجانے کی اس سے بہتر اور کیا تمثیل بیان کی جاسکتی ہے،عبادتوں کو ترک کردینا تو شرعاًو عقلاًغلط ہے ہی مگر عبادتوں کو انجام دے کر مقبول ہونے پر یقین کر کے بے خوف ہو جانا بھی سراسر حماقت و بیوقوفی ہے،عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے آپﷺ سے اس آیت ﴿ وَالَّذِیْنَ یُؤتُوْنَ مَا اٰتَوْ وَّ قُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ ﴾ اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔(المومنوں :۶۰)کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب نوشی اور چوری کرتے ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایاکہ: " لَا یَا بِنْتَ الصِّدِّیْقِ وَ لٰکِنَّھُمُ الَّذِیْنَ یَصُوْمُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ وَ یَتَصَدَّقُوْنَ وَھُمْ یَخَافُوْنَ أنْ لَّا یُقْبَلَ مِنْھُمْ " اےصدیق کی بیٹی !نہیں اس سے مراد یہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ عبادات رد نہ کردی جائیں ۔(ترمذی:3175 ابن ماجہ:4198 وصححہ الالبانی)

محترم ومکرم سامعین وسامعات:اتنا ہی نہیں بلکہ جو لوگ اللہ کی عبادت و بندگی سے منحرف ہو جاتے ہیں تو در اصل یہی لوگ سرکشی کی راہ کو اپنانے والے لوگ ہیں فرمان باری تعالی ہے ﴿ فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَ مَنْ تَا بَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا﴾ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو استقامت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ سرکشی کی راہ کو اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے(ھود:۱۱۲) اور عبادتوں سے منحرف ہوجانا بھی سرکشی کی راہ ہے،یہی وجہ ہے کہ اس تعلق سے اللہ نے مسلمانوں کو دعا بھی سکھلائی جس کا اھتمام کرنا بہت ضروری ہے فرمایا: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ أَنْتَ الْوَھَّابُ﴾ اے ہمارے رب!ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطافرما، یقینا تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے ۔(ال عمران:۸)اورخودآپﷺ بھی ہمہ وقت اللہ سے اس بات کی پناہ مانگاکرتے تھے کہ اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کے بعدپھرسے اس کی نافرمانی کی جائے،آپﷺ کی دعاکچھ یوں ہے کہ’’ أَلّٰلھُمَّ اِنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ!اس بات سے میں پناہ مانگتاہوں کہ ایمان کے بعدکفر،اطاعت کے بعدمعصیت،خیرکے بعدشرکی طرف لوٹوں۔(مسلم:1343)

برادران اسلام اورمعززخواتین اسلام!رمضان کے بعد عبادتوں سے منحرف ہو کر پھر سے برائیوں کو اپنا لینا اس عہد کے خلاف بھی ہے جو ایک انسان اپنے رب سے دعا و مناجات کرتے ہوئے گناہ نہ کرنے کا عزم مصمصم کرتا ہے ،اب ایسے شخص پرواجب ہے کہ وہ اپنے رب سے کئے ہوئے وعدے پرقائم ودائم رہے،فرمان باری تعالی ہے: ﴿وَأوْفُوْابِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَاعَاھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوْاالْأیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلاً﴾ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول و قرار اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو،حالانکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن (گواہ)ٹھہرا چکے ہو۔(النحل:۹۱)یقینا اس سے بڑا بد نصیب و بدبخت کون ہوسکتا ہے جو اللہ کو گواہ (کبائر و صغائر گناہ کے چھوڑنے پر)بنا کر بھی اپنے عہد و پیمان کو توڑدے۔رمضان کے بعدعبادتوں سے منحرف ہونے والے لوگوں کے بارے میں بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ صرف رمضان کے دنوں میں اللہ کی عبادت وبندگی کرنے والوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ،انہوں نے جواب دیا کہ ایسے لوگ بہت برے ہیں جو اللہ کو صرف ایک وقت میں پہچانتے ہیں۔کیوں نہ ہو ایسے لوگ برے جب کہ یہ عادت،یہ طور وطریقے،یہ عبات و بندگی کے نسخے ھندؤں و دیگر اقوام عالم کا ہے کہ وہ لوگ صرف چند ایا م میں ہی اپنے بھگوان، دیوی و دیوتا،اپنے رشی ومنی،پیر و فقیر،سادھو سنت و مہنت کو یاد کرتے ہیں ،موسم در موسم پوجا پاٹ ،گیت و بھجن کا راگ الاپتے ہیں پھر ایک سال تک کے لئے ۔۔۔نسیا منسیا۔۔۔بھول جاتے ہیں گویا کہ جاہل عوام کی اکثریت نے عبادتوں کے انجام دینے اور پھر چھوڑدینے کا یہ اثر دیگر اقوام سے مستعار لیا ہے ،حالانکہ جو رب رمضان کے مہینے میں عبادت و بندگی کے لائق ہے وہی بقیہ سارے مہینوں میں بھی عبادت کے لائق ہے۔حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ میں جنت کے شوق میں عبادت نہیں کرتا کیونکہ یہ تجارت ہے، میں دوزخ کے خوف سے بھی عبادت نہیں کرتا کیونکہ یہ غلامی ہے ،میں تو صرف اور صرف عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ میرا اللہ ہی عبادت کے لائق ہے،یقینا وہ رب ذوالجلال والاکرام اس لائق ہے کہ اس کی عبادت وبندگی ہمیشہ کی جائے، اس سے سر مو انحراف نہ کیا جائے، قرآن میں بھی رب کا یہی اعلان ہے ﴿وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَأتِیَکَ الْیَقِیْنُ﴾ اور تم اللہ کی عبادت و بندگی زندگی کی آخری سانس تک کیا کرو! (الحجر:۹۹)اب جوشخص زندہ رہے اورپھربھی اللہ کی عبادت وبندگی نہ کرے تو ایسے شخص کے بارے میں علامہ امام ابن قیم ؒ نے کہاکہ جس شخص کے پاس اللہ کے لیے وقت نہ ہوتوموت اس کے لیے زندگی سے بہترہے۔(الداء والدواء:186/1)

آج امت مسلمہ کی اکثریت کی یہ حالت زار دیکھ کر یہ محسوس کرنا کچھ مشکل نہیں کہ دور حاضر میں آج شیطان اپنے اس مقصد﴿ لَأَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰ تِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنِ أَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ أَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَائِلِھِمْ وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ ﴾ شیطان نے کہا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے آپ (اللہ)کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کے داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ (اللہ)ان میں سے اکثروں کو شکر گزار نہ پائے گا۔(الاعراف:۱۷۔۱۶) میں کہیں زیادہ کامیاب ہے،کیونکہ شیطان رجیم جو انسانوں کو گمراہ کرنے پر بے حد حریص ہوتا ہے ہمیشہ لوگوں کو ان کے وہم وگمان کے مطابق ہی گمراہ کیا کرتا ہے۔جیسا کہ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ"شیطان نے ہمیشہ ہر قوم کو ہر زمانے میں اس کی سمجھ کے مطابق ہی بے وقوف بنا کر گمراہ کیا ہے "(اغاثۃ اللہفان:۲۰۲/۲)

میرے دینی بھائیواوربہنو!دورحاضر میں مسلمان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اللہ رحمن و رحیم ہے ،غفار ذنوب ہے، معافی کو پسند کرتا ہے وعلی ھذاالقیاس یعنی امید و رجاء میں شیطان نے حد سے آگے بڑھا دیا اور ایسے لوگوں کو " أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُعْتَدُوْنَ " (حد سے آگے بڑھ جانے والے )کا حقدار بنادیا،حالانکہ یہ بات تو طے ہے کہ صرف امید سے ہی کوئی چیز حاصل نہیں کی جا سکتی ہے ،اسی لئے اللہ کے بنی ﷺ نے فرمایا کہ انسان آرزوؤں کے پیچھے پڑا رھتا ہے اور موت اس کو اس سے پہلے ہی اچک لیتی ہے اوراس کی امیدیں باقی رہ جاتی ہیں۔(الصحیحۃ للألبانی:3428)اور شیطان ملعون نے لوگوں کے دلوں میں مغفرت کی امیدکی آس دلاکرخوف الٰہی کو دلوں سے یکسر ہی مٹادیا ہے،جب کہ حدیث قدسی ہے "وَعِزَّتِیْ لَا أَجْمَعُ عَلٰی عَبْدِیْ خَوْفَیْنِ وَلَا أَجْمَعُ لَہُ أَمْنَیْنِ اِذَا أَمِنَنِی فِیْ الدُّنْیَا أَخَفْتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَاِذَا خَافَنِی فِی الدُّنْیَاأَمِنْتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ" یعنی اللہ تعالی فرماتاہے کہ مجھے اپنی عزت کی قسم !میں اپنے بندے پر دو ڈر جمع نہیں کروں گااور نہ ہی اس کے لئے دو امن اکٹھے کروں گا ،جو دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا اس کو آخرت میں خوف زدہ کر دوں گا اور جو دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہا اس کو قیامت کے دن میں بے

خوف کردوں گا۔ (الصحیحۃ للألبانیؒ: 2666) کہیں ہم ایسے لوگوں میں شامل تو نہیں !

یاد رکھئے! مومن خوف و رجاء،امیدوبیم کے درمیان زندگی گذارتاہے۔​

امید ،امید ،امیدیہی وہ سمجھ ہے جس کے ذریعہ شیطان نے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے مغفرت کی امید پر شرک وکفر تک کروا دیتا ہے،عبادتوں سے پہلے کوتاہی پھر دوری پھر نفرت کی بیج بو کر اللہ اور انسان کے درمیان حائل ہو جاتا ہے حالانکہ قرآن نے ایمان والوں کو یہ پیغام دے دیا ہے﴿یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطَانِ وَ مَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّہُ یَأمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ﴾ کہ اے ایمان والو!شیطان کے قدم بقدم نہ چلو،جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے گا تو وہ اسے تو بے حیائی اور برے کامو ں کا ہی حکم دے گا۔(النور:۲۱)مگر ہائے افسوس !آج کامسلمان اس قول ربانی پر کان دھرنے پر راضی ہی نہیں ،جبھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ عبادتو ں سے منحرف شخص شیطان کا خاص دوست بن جاتا ہے، اور چاہ کر بھی سال کے بقیہ ایام میں اللہ کی عبادت و بندگی نہیں کرپاتا ہے،اس بات پر قرآن بھی شاہد ہے﴿ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ وَ اِنَّھُمْ لَیَصُدُّوْنَھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ أَنَّھُمْ مُھْتَدُوْنَ﴾ اور جو شخص رحمان کی یاد سے غفلت کرتا ہے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رھتا ہے اور وہ (شیطان)انہیں راہ(صراط مستقیم)سے روکتے ہیں اور یہ (پھر بھی)اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں ۔(الزخرف:۳۷۔۳۶)اب جو شخص بعد رمضان فرائض و واجبات سے منہہ موڑلے،غفلت و لاپرواہی سے کام لے تو من جانب اللہ اس کے اوپر شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے،اب ذراتھوڑی دیرکے لیے سوچئے کہ جس شخص پر شیطان مسلط ہو جائے تو وہ اسے ہمیشہ اللہ و رسول کی نافرمانی ہی کروائے گا،اور پھر شیطان ایسے انسان کے ذھن ودماغ پر اتنا غالب آجاتا ہے کہ انسان باطل کو حق اور حق کو باطل ،خیر کو شر اور شر کو خیر سمجھنے لگتاہے،شیطان کے اس مکر وفریب کو قرآن نے جابجا واضح الفاظ میں بیان کیاہے،جیسے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے ﴿ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔(انعام:۴۳)

٭یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ ہے کہ جو مساجد یکم رمضان سے اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہے ،چاند نظر آتے ہی مسلمانوں کی غفلت و بے حسی پر ماتم کرتی نظر آتی ہے۔

٭یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو چند روزہ عمل سے جنت کا ٹھیکیدار سمجھنے لگتاہے۔

٭یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سارے بیان کردہ عقوبات، قبر وحشر کے کٹھن مراحل، پل صراط و جہنم کی سختی وغیرہ کو فراموش کردیتاہے اور صرف مغفرت کی امید لئے زندگی گذارتا ہے خواہ شیطان نے ان کے دل سے توحید جو مغفرت کی اصل ہے کو نکال کر کفر وشرک ،بدعات وخرافات کی جڑیں پیوست ہی کیوں نہ کردی ہو۔

٭یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ ہے کہ جب کسی کو نیکی کی تلقین کی جاتی ہے تو وہ اپنے بد اعمالیوں کو ترک کرنے کے بجائے قرآن وحدیث سے غلط تاویلات و توجیہات بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔

٭یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ ہے کہ عبادتوں سے دوری بھی اور ھٹ دھرمی بھی،یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ ہے کہ لوگ بعد رمضان عبادتوں کو یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم نے رمضان میں اتنی اتنی عبادتیں کرلی ہیں،اب بس،بہت ہوگیا ۔۔نعو ذباللہ ۔۔

٭یہ شیطانی تسلط ہی توہے کہ آج کامسلمان نصیحت کرنے والے دین کے داعیوں سے نفرت کرتاہے۔

٭ یہ شیطانی تسلط ہی کانتیجہ ہے کہ انسان نصیحت کرسن کربھی اثرقبول نہیں کرتاہے۔

٭ یہ شیطانی تسلط ہی کانتیجہ ہے کہ آج کا مسلمان جان بوجھ کرجمعہ کے لیٹ آتاہے۔

٭ یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ ہے کہ اچھاخاصہ نمازی انسان بے نمازی ہوگیا۔

کیا یہ سب شیطانی تسلط نہیں؟؟؟

عزیز سامعین وسامعات!اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگرہم مسلمان اپنے معبود حقیقی کی عبادت و ریاضت میں مخلص ہوتے تو شیطان کی ہم پر نہ تو تسلط ہوتا اور نہ ہی شیطان نے ہمیں گمراہ ہی کیا ہوتا کیونکہ شیطان نے خود بارگاہ الٰہی میں اہل مخلص کے تعلق سے اپنی کمزوری و بے بسی کا اظہار کچھ یوں کیا ﴿ فَبِعِزَّتُکَ لَأُغْوِیَنَّھُمْ أَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقُّ أَقُوْلُ﴾ شیطان نے کہاپھر تو تیری عزت کی قسم!میں ان سب کو یقینا بہکا دوں گا بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں ،اللہ نے فرمایا سچ تو یہ(یہی)ہے اور میں سچ ہی کہتا ہوں۔(ص:۸۴۔۸۲) کاش کہ ہم نے اپنی عبادتوں میں اخلاص پیدا کیا ہوتاتورب العالمین ہمیں بھی اپنی رحمت کی چادرمیں ڈھانپ لیاہوتااورہمیں اس طرح سے گمراہ نہیں ہونے دیاہوتاتھا!مگرہم نے ایسانہیں کیا!ہائے افسوس!

یاد رکھیں! رمضان میں جس شخص کی نیت خالص تھی اوراس نے اس عزم مصمم کے ساتھ اللہ کی عبادت وبندگی کی کہ بعدرمضان برائی کے طرف نہیں پلٹے گا،عبادتوں کونہیں چھوڑے گاتواس کے روزے اوردیگراعمال صالح دربارالہی میں شرف قبولیت سے نوازاجائے گا(ان شاء اللہ) یہ بھی یاد رکھیں کہ اعمال کے قبول کئے جانے کی یہ بھی علامات ہمارے اسلاف کرام نے بیان کئے ہیں کہ نیک اعمال کرنے کے بعد جب انسان اسی پرقائم رہے اوریہ سلسلہ اسی طرح چلتارہے تومطلب یہ ہے کہ اس کے نیک اعمال قبول کرلیے گئے اوراگراس نے نیک اعمال کرناچھوڑدے تومطلب یہ کہ اس کے تمام اعمال مردود ہوگئے،اب جس کی یہ نیت تھی کہ بس بس ایک مہینے کی توبات ہے جتنی نمازیں پڑھنی ہے پڑھ لو،جتنی عبادتیں کرنی ہے کرلو بعدرمضان ان سب کے لیے وقت کس کے پاس ہوتاہے تو اس کے روزے اوردیگراعمال سب مردود ہیں جیساکہ امام کعبؒ نے فرمایاکہ’’ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَھُوَ یُحَدِّثُ نَفْسَہُ أنَّہُ اِنْ أفْطَرَ رَمَضَانَ أنْ لَا یَعْصِی اللہّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ مَسْألَۃٍ وَلَا حِسَابٍ وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَھُوَ یُحَدِّثُ نَفْسَہُ أنَّہُ اِذَاأفْطَرَ عَصَی رَبَّہُ فَصِیَامُہُ عَلَیْہِ مَرْدُوْدٌ ‘‘جس شخص نے رمضان کے روزے اس نیت سے رکھے کہ وہ بعدرمضان اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا تو وہ بغیرحساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوگا(ان شاء اللہ)اور جس نے رمضان کے روزے اس نیت وارادے سے رکھاکہ وہ بعدرمضان اللہ کی نافرمانی کرے گاتوایسے آدمی کا روزہ ناقابل قبول ہے۔(وظائف رمضان ازشیخ عبدالرحمن بن محمد بن قاسم:ص:80)

میرے دینی بھائیو!ایک بات یادرکھوجس جس نے بھی رمضان میں عبادتیں کی اوراب بھی کررہے ہیں تو وہ اپنابھلاکررہے ہیں اورجن جن لوگوں بعدرمضان عبادتوں سے منہ پھیرلیے ہیں انہوں نے خود اپنانقصان کیاہے،اوراس نقصان کی بھرپائی کل بروزقیامت وہ خودکریں گے جیساکہ فرمان باری تعالی ہے ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ أسَاء َ فَعَلَیْھَا ثُمَّ اِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ﴾ جونیکی کرے گاوہ اپنے ذاتی بھلے کے لیے اورجوبرائی کرے گااس کاوبال اسی پرہے،پھرتم سب اپنے پروردگارکی طرف لوٹائے جاؤگے۔(الجاثیۃ:13) رب العالمین کسی کی عبادت کامحتاج نہیں ،اس کی عبادت کرنے کے لیے اس کائنات میں بے شمارایسے مخلوق ہیں جو ہروقت ،ہرلمحہ اللہ کی عبادت وبندگی میں مصروف ہیں،آج یہ بات اپنے دل میں بیٹھاکرجائیں کہ کائنات کہ تمام لوگ اللہ والے بندے بن جائیں،متقی وپرہیزگاربن جائیں، نمازی بن جائیں توپھربھی اللہ کی بادشاہت وسلطنت میں کچھ اضافہ نہیں کرسکتے اوراگرسارے کے سارے لوگ فاسق وفاجربن جائیں، بے نمازی بن جائیں توپھربھی اللہ کاکچھ نقصان نہیں کرسکتے ،اللہ کی بادشاہت وسلطنت میں کچھ کمی نہیں کرسکتے ،جیساکہ حدیث قدسی ہے ’’ یَاعِبَادِیْ اِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوْا ضَرِّیْ فَتَضُرُّوْنِیْ وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِیْ فَتَنْفَعُوْنِیْ یَاعِبَادِیْ لَوْ أنَّ أوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْاعَلَی أتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَازَادَ ذَالِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئًا یَاعِبَادِیْ لَوْ أنَّ أوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْاعَلَی أفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَانَقَصَ ذَالِکَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا ‘‘یعنی اللہ رب العزت فرماتاہے کہ اے میرے بندو!(تم میں اتنی طاقت وقوت نہیں کہ)تم مجھے نفع و نقصان پہنچاسکواورنہ ہی تم مجھے نفع ونقصان پہنچاسکتے ہو!اے میرے بندو!اگرتمہارے اول وآخر،انس وجن سب مل کراس ایک شخص کی طرح ہوجائیں جس کے دل میں سب سے زیادہ اللہ کاڈرہوتویہ بات بھی میری بادشاہت وسلطنت میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتی،اے میرے بندو!اوراگرتمہارے اول وآخر،انس وجن سب کے سب اس ایک شخص کی طرح ہوجائیں جوکائنات کا سب سے زیادہ فاسق وفاجرہوتاہے تویہ بات بھی میری بادشاہی وفرمانروائی میں کوئی کمی نہیں کرسکتی۔ ۔۔۔۔الحدیث۔(مسلم:2577)

آج کل لوگوں کا یہ نظریہ بن گیاہے کہ انہوں نے رمضان میں اللہ کی عبادت کرکے کمال کردیا،اللہ کی عبادت کاحق اداکردیاکائنات کے رب کی قسم جس نے بھی ایساسوچااس نے اللہ کوپہچاناہی نہیں،انسان کو اللہ کی عظمت کا احساس نہیں اسے پتہ نہیں کہ اللہ کی عبادت کماحقہ کوئی مخلوق چاہے انسان ہویافرشتہ نہیں کرسکتاجیساکہ حدیث میں ہے فرشتے خود اس بات کا اقرارکریں گے کہ اے الہ العالمین ہم نے تیری عبادت ویسی نہیں کہ جیسی کہ کرنی چاہئے تھی،فرمان نبویﷺ ہے’’ یُوْضَعُ الْمِیْزَانُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَلَوْوُزِنَ فِیْہِ السَّمٰوٰتُ وَالْأرْضُ لَوَسَعَتْ فَتَقُوْلُ الْمَلَائِکَۃُ یَارَبِّ لِمَنْ یَّزِنُ ھٰذَا فَیَقُوْلُ اللہُ تَعَالَی لِمَنْ شِئتُ مِنْ خَلْقِیْ فَتَقُوْلُ الْمَلَائِکَۃُ سُبْحَانَکَ مَاعَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ وَیُوْضَعُ الصِّرَاطُ مِثْلَ حَدِّ الْمُوْسیٰ فَتَقُوْلُ الْمَلَائِکَۃُ مَنْ تُجِیْزُ عَلَی ھٰذَا فَیَقُوْلُ مَنْ شِئتُ مِنْ خَلْقِی فَیَقُوْلُوْنَ ُ سُبْحَانَکَ مَاعَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِک‘‘ یعنی قیامت کے دن اتنے بڑے بڑے ترازوں رکھے جائیں گے کہ اگران میں زمین وآسمان کاوزن کیاجائے تووہ کافی ہوگا(یہ ترازودیکھ کر)فرشتے پوچھیں گے کہ اے میرے رب یہ ترازوکس کے لئے ہے؟تواللہ تعالی فرمائے گاکہ میں اپنی مخلوق میں سے جس کوچاہوں گا(اس کا وزن کروں گا،یہ سن کر)فرشتے کہیں گے کہ اے اللہ توپاک ہے،ہم کماحقہ تیری عبادت نہ کرسکے،پھرپل صراط کو(جہنم کے اوپر)نصب کیاجائے گاجواسترے کی دھارکی طرح (تیز)ہوگا ،فرشتے پوچھیں گے کہ اے اللہ تویہ پل صراط کس کوپارکرائے گا؟اللہ رب العالمین جواب دے گاکہ میں اپنی مخلوق میں سے جس کوچاہوں اس کو پار کراؤں گا،(یہ بھی سن کر)فرشتے کہیں گے اے اللہ توپاک ہے ہم تیری ویسی عبادت نہیں کرسکے جیسی کرنی چاہئے تھی۔اللہ اکبر!!! (الصحیحۃ للألبانی:941)اورآج کا مسلمان ایک مہینے عبادت وبندگی کرکے یہ سمجھتاہے کہ ہم نے بہت عبادت کرلی مگر رب کعبہ کی قسم !انسان کو عبادت کی اہمیت قیامت کے دن عذاب کودیکھ کرمحسوس ہوگاکہ عبادت کیاچیزہے،تاجدارمدینہ احمد مصطفیﷺنے فرمایاکہ’’ اِنَّ عَبْداً لَوْ خَرَّ عَلَی وَجْھِہِ مِنْ یَوْمِ وُلِدَ اِلَی أنْ یَمُوْتَ ھَرَماً فِیْ طَاعَۃِ اللہِ لَحَقَّرَہُ فِیْ ذَالِکَ الْیَوْمِ وَلَوَدَّ أنَّہُ رُدَّ اِلَی الدُّنْیَا کَیْمَا یَزْدَادَ مِنَ الْأجْرِ وَالثَّوَابِ ‘‘یعنی اگر کوئی شخص پیداہونے سے لے کربوڑھاہوکرمرنے تک اللہ تعالی کی مرضی اوراس کی اطاعت وبندگی میں سربسجودرہے تووہ بھی اس دن اپنی عبادتوں کوحقیرسمجھے گااورخواہش کرے گاکہ اسے دنیامیں ایک بارپھرلوٹادیاجائے تاکہ وہ اورزیادہ اجروثواب حاصل کرسکے۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:446)

سامعین وسامعات کرام!عبادتوں سے منہ پھیرلینے والے کو رب العالمین نے جہنم کی وعید سنائی ہے،فرمان باری تعالی ہے ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْن﴾ یقین جانوکہ جولوگ میری عبادت سے اعراض کریں گے وہ عنقریب ذلیل ہوکرجہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ (المؤمن:60)۔۔۔۔أللھم أجرنامن النار،آمین۔۔اتناہی نہیں بلکہ عبادتوں چھوڑکراللہ کواس دنیامیں بھلادینے والوں کوبھی رب العالمین بروزقیامت جہنم کی آگ میں ڈال کربھول جائے گااورایسے انسانوں سے کہاجائے گاکہ جیساتم نے دنیاکے اندرکیاآج ویسے ہی تمہارے ساتھ کیاجائے گا،فرمان باری تعالی ہے ﴿ أَلَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَھُمْ لَھْواً وَلَعِباً وَغَرَّتْھُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ نَنسَاھُمْ کَمَا نَسُواْ لِقَآءَ یَوْمِھِمْ ہَـذَا وَمَاکَانُواْ بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ ﴾جنہوں نے دنیامیں اپنے دین کوکھیل اورتماشابنارکھاتھااورجن کودنیاوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھاتھا،(ایسے لوگوں کو)ہم بھی بروزقیامت بھول جائیں گے جیساکہ وہ لوگ اس دن کوبھول گئے اوردرحقیقت یہ لوگ ہماری آیتوں کاانکارکرتے تھے۔ (الأعراف:51)

خبردار!اس کائنات میں جولوگ اللہ کوبھول جاتے ہیں ایسے لوگ فاسق ہیں اوررب العالمین نے اپنی کلام پاک کے ذریعے ہمیں ایسے فاسق وفاجربننے سے منع کیاہے فرمان باری تعالی ہے ﴿ وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاھُمْ أَنفُسَھُمْ أُوْلَئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُون﴾ اورتم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجنہوں نے اللہ کوبھلادیاتواللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کردیا،اورایسے ہی لوگ نافرمان فاسق ہوتے ہیں۔ (الحشر:19)اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک انسان اللہ کی عبادت وبندگی سے دورہوجاتاہے اورایسے عملوں سے غافل ہوجاتاہے جن میں اس کافائدہ تھااورجن کے ذریعے سے وہ اپنے نفسوں کو عذاب الہی سے بچاسکتے تھے توبطورجزاوبدلہ کے اللہ انہیں ایسابنادیتاہے کہ اس کی عقل اس کی صحیح رہنمائی نہیں کرتی،اس کی آنکھیں اس کو حق کا راستہ نہیں دکھاتیں اور اس کے کان حق کے سننے سے بہرے ہوجاتے ہیں نتیجتاً وہ ایسے کام کرتا ہے جن میں اس کی خوداپنی تباہی وبربادی ہوتی ہے۔(تفسیراحسن البیان)

یادرکھنا!!دنیاکوحاصل کرنے کے لئے جس نے نمازیں چھوڑدیں!کاروبارکے لئے جس نے مسجدآناچھوڑدیا،ترقی کی راہ میں جس نے دینداری کو رکاوٹ قراردیا، امیری حاصل کرنے کے لئے جس نے اللہ کے درکوچھوڑدیااسے کبھی بھی کامیابی نہیں ملے گی،اس کی غریبی ومفلسی کبھی دورنہ ہوگی بلکہ وہ پریشان تھااورپریشان رہے گایہ میں نہیں کہہ رہاہوں بلکہ فرمان رسولﷺ ہے’’ مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ھَمَّہُ فَرَّقَ اللہُ عَلَیْہِ أمْرَہُ وَفَعَلَ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَلَمْ یَأتِہِ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا مَا کُتِبَ لَہُ وَمَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ نِیَّتُہُ جَمَعَ اللہُ لَہُ أمْرَہُ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہِ وَأتَتْہُ الدُّنْیَاوَھِیَ رَاغِمَۃٌ ‘‘یعنی جس آدمی کارنج وغم،دوڑدھوپ صرف دنیاہی دنیاہو تواللہ تعالی اس پراس کے معاملات کومنتشرکردیتاہے،اس کی فقیری ومحتاجی کواس کی آنکھوں کے درمیان رکھ دیتاہے اوراسے دنیاسے بھی وہی کچھ ملتاہے جو اس کے مقدرمیں لکھاجاچکاہوتاہے،(لیکن اس کے برعکس) جس آدمی کی فکرآخرت ہی آخرت ہو ،اللہ تعالی اس کے تمام معاملات کی شیرازہ بندی کردیتاہے،اوراس کے دل کوغنی کردیتاہے اوردنیاذلیل ہوکر(اس کے مقدرکے مطابق)اس کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ (الصحیحۃ للألبانیؒ:950)

میرے عزیزدینی بھائیوں،ماں اوربہنو!رمضان گیاہے رمضان کارب نہیں!اب بھی وقت ہے اللہ کے طرف لوٹ آیئے،اپنے لئے توشۂ آخرت جمع کرلیں،آج ہی اللہ کوراضی کرلیں،کل کس نے دیکھا ہے ،رمضان کاآنااورتیزی سے گزرجاناہمیں یہ پیغام دے رہاہے کہ ہم بھی پوری تیزی کے ساتھ موت کی دہلیزپر قدم رکھنے کے لئے آگے بڑھتے جارہے ہیں،اگرہم نے آج اپنی پوری زندگی کورمضان بنالیاتوزندگی کے اختتام پرجودن آئے گا وہ ہمارے لیے عیدکادن ہوگا،ایسی خوشی میسرآئے گی جس کے بعدنہ آزمائشیں آئینگی نہ ہی کوئی خوف وخطر ہوگا،اس دن ہمارے لیے ہمیشہ کی عید کااعلان کردیاجائے گااورکہاجائے گا﴿ یَا أَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ،اِرْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ،وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ اے اطمینان والی روح تواپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجااورمیری جنت میں چلی جا۔(الفجر:27-30)اسی لیے ہم آرام وراحت کوتیاگ دیں کیونکہ فرمان نبوی ﷺہے’’ اِنّمَایَسْتَرِیْحُ مَنْ غُفِرَ لَہُ ‘‘کہ آرام تووہ کرتاہے جسے بخش دیاگیاہو۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:1710)

ذراسوچیں!کیاہمیں معلوم ہے کہ ہماری مغفرت ہوئی!کیاہمیں پتہ ہے کہ ہماری عبادتیں قبول ہوئیں!نہیں،ہرگزنہیں!پھرکیوں نہ ہم اللہ کی طرف لوٹ جائیں جس میں ہماری دنیاوآخرت کی بھلائی ہے، کل ہمیں اللہ کے سامنے حاضرہوناہے ، ہماراحساب وکتاب ہونے والاہے ،رب العالمین نے ہمیں بیکارنہیں پیداکیافرمان باری تعالی ہے ﴿ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُون﴾ کیاتم نے یہ گمان کررکھاہے کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکارپیداکیاہے(نہیں نہیں)بلکہ تم سب ہمارے پاس ایک نہ ایک دن لوٹائے جاؤگے۔(المؤمنون:115)ہم مسلمانوں کے لئے صحابۂ کرام ؓ کی ساری زندگی اسوہ و نمونہ کے طور پر موجود ہے ،بالخصوص غزوۂ بد ر میں شریک ہونے والے صحابۂ کرام جن کی دنیا میں ہی مغفرت کر دی گئی تھی اورکہاگیاتھاکہ وہ آج کے بعدسے تادم حیات کچھ بھی کریں ان کی مغفرت ہوچکی ہے،انہیں رب کی جنت عطاکردی گئی مگرپھربھی انہوں نے رب کی بندگی کبھی نہ چھوڑی نیز اسی طرح عشرۂ مبشرہ صحابۂ کرام کہ جنہوں نے دنیا میں جنت کی خوشخبری پا کر بھی ہمہ وقت فکر آخرت لئے زندگی کذارا،خوف الٰہی ہر وقت ان پر غالب رہتا ،عبادت و ریاضت کو کبھی نہ چھوڑا، اورایک ہم سب ہیں نہ ڈھنگ کے مسلمان ہیں،نہ ہمیں یہ پتہ ہے کہ رب ہم سے راضی ہے،نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہماراٹھکانہ کہاں ہے،پھربھی عبادتوں سے ہم کتنے دورہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی پناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم خودفیصلہ کریں کہ ہم کس ڈگرپرچل رہے ہیں ؟شیطان کی راہ پر یاپھراللہ کی راہ پر۔۔۔۔۔۔



حرف دعا:اب آخرمیں اللہ سے دعاگوہوں کہ الہ العالمین تو ہم سب کو اپنی اطاعت وبندگی ہمیشہ کرتے ہی رہنے کی توفیق عطافرمااورتادم حیات تو اپنے دین پر استقامت کے ساتھ قائم وادئم رکھ۔



﴿أللھم یامصرف القلوب ثبت قلوبناعلی طاعتک ودینک﴾آمین یارب العالمین

﴿ان أریدالاالاصلاح مااستطعت وماتوفیقی الاباللہ علیہ توکلت والیہ انیب﴾



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 
Top