- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
عبادت
(مفہوم، مراتب، انحرافات)
استفادہڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن حفظہ اللہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عرض مولف
یہ پوری کائنات اور کائنات کی ہر ہر چیز (نافرمان انس و جن کے ماسوا) اللہ رب العزت کی عبادت گزار ہے البتہ عبادت کا طریقہ ہر مخلوق کے لیے الگ الگ ہے:
﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل:۴۴)
“کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اسکی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں۔”
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾ (الحج:۱۸)
“کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔”
زمین و آسمان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ﴾ (فصّلت:۱۱)
“پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں۔”
فرشتے وہ مخلوق ہیں جن کی تخلیق ایک شفاف نور سے ہوئی ہے۔ فرشتوں کی عبادت یہ ہے کہ وہ دن رات، ہر لمحے اور ہر گھڑی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور وہ کسی بھی معاملے میں اللہ کی کبھی بھی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ مسلسل اللہ کی تسبیح کرتے ہیں؛ ایک لمحہ رکنے کا نام نہیں لیتے:
﴿وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ﴾ (الانبیاء: ۱۹۔۲۰)
“اور جو (فرشتے) اُس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ ہی تھکتے ہیں۔ رات دن (اُس کی) تسبیح کرتے رہتے ہیں اور ذرا سی بھی کاہلی نہیں کرتے۔”
﴿لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم:۶)
“جو حکم اللہ ان کو دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اس کو بجا لاتے ہیں۔”
انسانی تخلیق کا مقصد بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
“اور میں نے جن اور انسان اسی لیے ہی بنائے ہیں کہ وہ میری بندگی کریں۔”
اللہ تعالیٰ نے زمین کو زیب و آرائش سے بھر دیا، انسان کے دل میں مال، اولاد اور عزت کی محبت ڈال دی اور پھر انسان کو اس کی رنگینیوں کے بیچ چھوڑ دیا تاکہ آزما ئے کہ یہ دنیا کی رنگینیوں میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی کا طلبگار رہتا ہے یا اس کے احکامات سے اعراض کرتے ہوئے شیطان کی پوجا کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾ (الدھر :۲)
“بے شک پیدا کیا ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سےتاکہ اُس کا امتحان لیں، ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔”
﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملك:۲)
“اُس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کون تم میں سے نیک عمل کرنے والا ہے۔”
﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الكهف:۷)
“جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں کون نیک عمل کرنے والا ہے۔”
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ آزمانا چاہتا ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے مقصد "عبادت" کو پورا کرتا ہے یا نہیں، جب انسان کی تخلیق عبادت کے لئے ہوئی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی عبادت کا انداز کیا ہو؟ اسے کس طرح اپنے رب کی بندگی کرنی ہے؟ اور عبادت کہتے کسے ہیں؟
عبادت کے مفہوم میں کس قدر بگاڑ واقع ہو چکا ہے اس کا اندازہ محمد قطب رحمہ اللہ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:
آج جب ہم کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو بتاتے ہیں کہ: “جہان کی سب مشکلات کا حل اسلام ہے۔ سب مسائلِ عالم کی کنجی یہ لا الٰہ الا اللہ ہے۔ اِس الجھی ہوئی صورتحال سے نکلنے کی راہ صرف اللہ اکیلے کی عبادت اختیار کرنا ہے”… تو پھر کیوں نہ یہ نوجوان کندھے اچکا کر اور ایک خندۂ استہزاء کے ساتھ پوچھے: یہ اسلام جو آپ کے یہاں پایا جاتا ہے ہمارا دیکھا بھالا ہی تو ہے، آپ کا یہ لا الٰہ الا اللہ اپنا نظارہ کروا تو رہا ہے، وہ عبادت جس کو آپ حل قرار دے رہے ہیں یہاں پر ہو تو رہی ہے، پھر آپ کے یہ "مسلمان" ہی سب سے بڑھ کر پسماندہ کیوں ہیں؟ دنیا کے اندر سب سے بڑھ کر آپ کے یہ "کلمہ گو" ہی اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گرفتار کیوں ہیں؟ سب سے زیادہ بدحال اور قابل ترس دنیا بھر میں آپ کے یہ مسلم معاشرے ہی کیوں ہیں؟ سب سے زیادہ ان کے ہی گھروں میں راکھ کیوں اڑتی ہے؟ کیا اِس اسلام میں ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈیں جس کے "ہوتے ہوئے" تمہارے ہاں ایسی خاک اڑتی ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنے مسائل کا حل ہم کہیں اور ڈھونڈیں؟
یہاں، ضروری ہو جاتا ہے (افراد پر حکم لگانے کے منہج سے دور رہتے ہوئے) کہ ہم خود اپنے اور پھر لوگوں کے ساتھ صراحت اور صاف گوئی سے کام لیں: دیکھئے حضرات! آج جو چیز اِن مسلم معاشروں میں پائی جا رہی ہے اس کا نام “اسلام” نہیں۔ یہ وہ “دین” نہیں جو اللہ کے ہاں سے نازل ہوا ہے۔ یہ وہ “عبادت” نہیں جس کا اللہ نے حکم دے رکھا ہے۔ یہاں “اسلام”، “ایمان”، “دین” اور “عبادت” کی بابت تصورات کو ہی سرتاپا بدلا جانا ہے اور پھر ان صحیح و مستند مفہومات کی بنیاد پر ایک مکمل نئی عمارت اٹھانی ہے۔ ہمیں اِس نوجوان کو صاف صاف یہ بتانا ہے: مسلم معاشروں میں تمہیں آج جو یہ خاک اڑتی نظر آتی ہے، یہ پسماندگی جو تہذیبی، علمی، سائنسی، عسکری، سیاسی، مادی، روحانی، اقتصادی، سماجی اور فکری ہر ہر میدان میں تم کو دکھائی دیتی ہے اس کی وجہ نہ ان کا "مسلمان" ہونا ہے اور نہ ہی کوئی نام نہاد “معاشی ادوار”! اس کا سبب صرف ایک ہے: مسلمان عمل اور کام کرنے کے میدان میں اسلام کی حقیقت سے دور ہو چکے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فہم اور تصور کے میدان میں بھی اسلام کی حقیقت سے غافل ہیں۔ آج یہ جس چیز کو اسلام سمجھتے ہیں وہ اسلام نہیں کچھ اور ہے…
ورنہ…
* جس روز “وَأعِدُّوْا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنۡ قُوَّۃٍ” ایک عبادت تھی… اُس روز کسی مائی کے لال کی جرأت نہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی زمین پر پیر بھی رکھ کر دکھائے؛ اِن کو نسل درنسل غلام بنا کر رکھنا، اِن کے وسائل کو لوٹنا اور خود اِنہی کی بیوروکریسی سے اپنے لیے ٹیکس کلکٹری کروانا تو بہت دور کی بات ہے!
* جس روز “طلب العلم فريضۃ” ایک عبادت تھی… اُس روز یہاں کوئی علمی پسماندگی اور سائنسی بدحالی نہیں تھی، بلکہ اُس روز امتِ مسلمہ علم اور آگہی میں دنیا کی امام تھی۔ یہی یورپ ہے جو اُس روز ہمارے سکولوں اور ہماری جامعات میں داخلے لیتا پھرتا تھا!
* جس روز “فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ” ایک عبادت تھی… اُس روز مسلم معاشرے دنیا کے خوشحال ترین معاشرے تھے!
* جس روز “كلكم راعٍ وكلكم مسئولٌ عن رعيتہ” ایک عبادت تھی، اور “والی” یہ جانتا تھا کہ دراصل وہ ایک راعی (چرواہا) ہے جس کو اپنے گلے کی بابت پوچھ گچھ ہونی ہے… اُس روز مسلم معاشرے کے غریبوں اور ناداروں کو جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں تھی! غربت اور معاشی ناہمواریوں کا علاج تو خود اِس شریعت کے اندر ہے جو کہ اُس روز مسلم معاشرے کے اندر قائم تھی۔
* جس روز “وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعۡرُوْفِ” ایک عبادت تھی اُس روز مسلم عورت اپنے 'حقوق' کے لیے سڑکوں پر خوار ہوتی نہیں پھر رہی تھی۔ کیونکہ سب حقوق اور سب سماجی ضمانتیں بدرجۂ اتم اس شریعت میں درج ہیں، جس کی لفظ بلفظ پابندی آپ سے آپ اللہ واحد قہار کی "عبادت" ہے!
اور جی ہاں… اس امت کا آخری حصہ ہرگز نہ سنورے گا جب تک وہ نقشہ نہ ہو جس پر اِس کا اولین حصہ سنوارا گیا تھا… (مفاہیم ینبغی ان تصحح)
عبادت کا یہ مفہوم جو سلف صالحین کے ہاں پایا جاتا تھا اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس رسالے میں ہم نے اس مفہوم کو کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس رسالے کو لکھنے میں استاد محمد قطب رحمہ اللہ کی کتاب (مفاہیم ینبغی ان تصحح) (جو کہ مفہومات کے نام سے مطبوع ہے) سے استفادہ کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین۔
دعاگو
ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن