• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ اور آمین بالجہر

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
أَمَّنَ ابْنُ الزُّبَيْرِ وَمَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً(صحیح البخا ری :ج1ص107بَاب جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ)
جواب 1:
امام بخا ری نے اس کی سند بیا ن نہیں کی بلکہ تر جمۃ الباب میں لا ئے ہیں اور بقول زبیر علی زئی کے بے سند بات قابل حجت نہیں ۔
(الحدیث شمارہ 59:ص:33)
جواب 2:
یہ روایت عن ابن جریج عن عطا ء کے طریق سےمصنف عبد الرزاق(ج2،ص،63رقم الحدیث 2642 ،باب آمین )میں بھی موجود ہے ۔
اس کی سند کا پہلا راوی عبد الرزا ق طبقہ ثا لثہ کا مدلس ہے۔
(طبقات المدلسین لابن حجر :ص69، الفتح المبین از زبیر علی زئی :ص45 ،جزء منظوم لبدیع الدین راشدی :ص89، الحدیث شمارہ 32:ص13)
اور غیر مقلدین کے نزدیک طبقہ ثا لثہ کے مدلس کی حد یث بغیر تصریح سماع کے قابل حجت نہیں ۔لہذا یہ حد یث ضعیف ، اورنا قابل حجت ہے ۔
اس سند میں دوسرا راوی ابن جر یج طبقہ ثا لثہ کا مدلس ہے ۔ (طبقات المدلسین لابن حجر :ص:95، الفتح المبین از زبیر علی زئی :ص:55)
اور خود علی زئی نے ایک مقام پر تصریح کی ہے :ابن جریج مشہور مدلس ہےاور آ گے لکھا ہے : ابن جر یج کی یہ روایت ’’عن ‘‘سے ہے او ر عا م طا لب علمو ں کو بھی معلوم ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہو تی ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔ (الحدیث شمارہ 32:ص:15)
جواب 3:
سیدناحضرت ابن زبیر اور دیگر لو گ سب امتی ہیں اور غیر مقلدین ان کے افعا ل واقوال حجت نہیں ۔ (حوالہ جات گزر چکے)
جواب4:
اس اثر میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ سورۃ فاتحہ کے بعد والی آمین ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آمین قنوت نازلہ فی الفجر والی ہو۔ چنانچہ خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و لعلہ حین کان یقنت فی الفجر علی عبد الملک وکان ہو یقنت علی ابن زبیر و فی مثل ھذ ہ الایام تجری المبالغات
(فیض الباری ج2ص290 باب جہر الامام بالتامین)
جواب 5:
صحیح بخاری کے اس اثر میں أَمَّنَ ابْنُ الزُّبَيْرِ (فعل ماضی) کا ذکر ہے ، اس سے دوام اور تکرار ثابت نہیں ہوتا۔
جواب6:
حضرت ابن زبیر صغار صحابہ میں سے ہیں۔ ہجرت کے بعد اول مولود فی المدینۃ کہلائے۔ آپ نے آمین بالجہر کا عمل کیا جبکہ کبار صحابہ مثلاً حضرت عمر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت علی کے ہاں اس طرح کی آمین کا ثبوت نہیں ملتا۔اس سے صاف معلوم ہوا کہ ان تمام حضرات کے خلاف یہ عمل اختیار کرنے میں ضرور کوئی مصلحت ہے اور وہ تعلیم ہی ہو سکتی ہے۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن زبیر ہی سے بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھنے کا اثر منقول ہے۔ علامہ زیلعی نے اس کی مصلحت یہ بیان فرمائی ہے:
قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْهَادِي: إسْنَادُهُ صَحِيحٌ، لَكِنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْإِعْلَامِ بِأَنَّ قِرَاءَتَهَا سُنَّةٌ، فَإِنَّ الْخُلَفَاءَ الرَّاشِدِينَ كَانُوا يُسِرُّونَ بِهَا، فَظَنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ أَنَّ قِرَاءَتَهَا بِدْعَةٌ، فَجَهَرَ بِهَا مَنْ جَهَرَ مِنْ الصَّحَابَةِ لِيُعْلِمُوا النَّاسَ أَنَّ قِرَاءَتَهَا سُنَّةٌ، لَا أَنَّهُ فِعْلُهُ دَائِمًا
( نصب الرایۃ ج 1ص357 باب صفۃ الصلاۃ)
یہی بات ہم آمین بالسر میں کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن زبیر نے آمین جہراً کہ کر لوگوں کو تعلیم دی کہ اس مقام پر آمین کہنا سنت ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جواب 1:
امام بخا ری نے اس کی سند بیا ن نہیں کی بلکہ تر جمۃ الباب میں لا ئے ہیں اور بقول زبیر علی زئی کے بے سند بات قابل حجت نہیں ۔
(الحدیث شمارہ 59:ص:33)
امام بخاری رحمہ اللہ نے سند بیان نہیں کی ہے لیکن دیگرکتب میں یہ روایت باسند موجود ہے اس کے باوجود بھی اسے بے سند کہہ کر ناقابل حجت قراردینا ہٹ دھرمی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جواب 2:
یہ روایت عن ابن جریج عن عطا ء کے طریق سےمصنف عبد الرزاق(ج2،ص،63رقم الحدیث 2642 ،باب آمین )میں بھی موجود ہے ۔
اس کی سند کا پہلا راوی عبد الرزا ق طبقہ ثا لثہ کا مدلس ہے۔
(طبقات المدلسین لابن حجر :ص69، الفتح المبین از زبیر علی زئی :ص45 ،جزء منظوم لبدیع الدین راشدی :ص89، الحدیث شمارہ 32:ص13)
اور غیر مقلدین کے نزدیک طبقہ ثا لثہ کے مدلس کی حد یث بغیر تصریح سماع کے قابل حجت نہیں ۔لہذا یہ حد یث ضعیف ، اورنا قابل حجت ہے ۔
امام عبدالرزاق کا مدلس ہونا ثابت ہی نہیں ہے۔
بفرض ثبوت وہ پہلے طبقہ کے مدلس ہوں گے جن کا عنعنہ مقبول ہوگا۔
نیز کئی رواۃ نے امام عبدالرزاق کی متابعت بھی کی ہے۔

اس سند میں دوسرا راوی ابن جر یج طبقہ ثا لثہ کا مدلس ہے ۔ (طبقات المدلسین لابن حجر :ص:95، الفتح المبین از زبیر علی زئی :ص:55)
اور خود علی زئی نے ایک مقام پر تصریح کی ہے :ابن جریج مشہور مدلس ہےاور آ گے لکھا ہے : ابن جر یج کی یہ روایت ’’عن ‘‘سے ہے او ر عا م طا لب علمو ں کو بھی معلوم ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہو تی ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔ (الحدیث شمارہ 32:ص:15)
اس روایت میں ابن جریج عطاء سے نقل کرتے ہیں اور ابن جریج نے خود صراحت کردی ہے کہ وہ عطاء سے صرف وہی بات نقل کرتے ہیں جو عطاء سے سنے ہوتے ہیں
امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حدثنا إبراهيم بن عرعرة ، قال : حدثنا يحيى بن سعيد القطان ، عن ابن جريج, قال : إذا قلت : "قال عطاء" فأنا سمعته منه ، وإن لم أقل سمعت.[تاريخ ابن أبي خيثمة 3/ 250 واسنادہ صحیح]

مزید یہ کہ ایک روایت میں صراحت بھی ہے کہ ابن جریج نے یہ بات عطاء سے سنی ہے[مصنف عبد الرزاق: 2/ 96 واسنادہ صحیح]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جواب 3:
سیدناحضرت ابن زبیر اور دیگر لو گ سب امتی ہیں اور غیر مقلدین ان کے افعا ل واقوال حجت نہیں ۔ (حوالہ جات گزر چکے)
اسی طرح کی فلسفہ سنجی کرنی ہو تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مقلدین صحابہ کیا اللہ اوراس کے رسول کے اقوال کو بھی حجت نہیں مانتے بلکہ ان کی نظر میں صرف ان کے امام کا قول ہی حجت ہوتا ہے ۔
الحمدللہ اہل حدیث صحابہ کے اقوال وافعال کو بھی حجت مانتے ہیں الا یہ کہ کتاب وسنت میں اس کے خلاف کوئی نص مل جائے یا دیگر صحابہ سے مخالفت ثابت ہوجائے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جواب4:
اس اثر میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ سورۃ فاتحہ کے بعد والی آمین ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آمین قنوت نازلہ فی الفجر والی ہو۔ چنانچہ خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و لعلہ حین کان یقنت فی الفجر علی عبد الملک وکان ہو یقنت علی ابن زبیر و فی مثل ھذ ہ الایام تجری المبالغات
(فیض الباری ج2ص290 باب جہر الامام بالتامین)
سراسر غلط بیانی ہے اورسچائی یہ ہے کہ اس اثر میں پوری صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ آمین سورہ فاتحہ کے بعد والی ہے ملاحظہ ہوں اس اثر کے الفاظ :


امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
عن ابن جريج قال: قلت لعطاء: آمين؟ قال: «لا أدعها أبدا» قال: إثر أم القرآن في المكتوبة والتطوع؟ قال: «ولقد كنت أسمع الأئمة يقولون على إثر أم القرآن آمين، هم أنفسهم ومن وراءهم حتى أن للمسجد للجة»[مصنف عبد الرزاق: 2/ 97]

امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
عن ابن جريج، عن عطاء قال: قلت له: أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن؟ قال: «نعم، ويؤمن من وراءه حتى أن للمسجد للجة» ، ثم قال: «إنما آمين دعاء» وكان أبو هريرة يدخل المسجد وقد قام الإمام قبله، فيقول: «لا تسبقني بآمين»[مصنف عبد الرزاق: 2/ 96]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جواب 5:
صحیح بخاری کے اس اثر میں أَمَّنَ ابْنُ الزُّبَيْرِ (فعل ماضی) کا ذکر ہے ، اس سے دوام اور تکرار ثابت نہیں ہوتا۔
یہ روایت سند کے ساتھ جن کتب میں ہے ان میں مضارع کے ساتھ ہے چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
عن ابن جريج، عن عطاء قال: قلت له: أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن؟ قال: «نعم، ويؤمن من وراءه حتى أن للمسجد للجة» ، ثم قال: «إنما آمين دعاء» وكان أبو هريرة يدخل المسجد وقد قام الإمام قبله، فيقول: «لا تسبقني بآمين»[مصنف عبد الرزاق: 2/ 96]

نیز یہ کون سا اصول ہے کہ نماز کا کوئی مسئلہ تبھی ثابت ہوگا جب اس میں دوام کی صراحت بھی ملے؟
کیا آمین کے علاوہ نماز کے جن مسائل پر مقلدین عمل پیرا ہیں ان سب میں دوام کی صراحت ہے ؟؟؟ اگر ہاں تو تکبیر سے تسلیم تک ثبوت پیش کریں
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جواب6:
حضرت ابن زبیر صغار صحابہ میں سے ہیں۔ ہجرت کے بعد اول مولود فی المدینۃ کہلائے۔ آپ نے آمین بالجہر کا عمل کیا جبکہ کبار صحابہ مثلاً حضرت عمر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت علی کے ہاں اس طرح کی آمین کا ثبوت نہیں ملتا۔اس سے صاف معلوم ہوا کہ ان تمام حضرات کے خلاف یہ عمل اختیار کرنے میں ضرور کوئی مصلحت ہے اور وہ تعلیم ہی ہو سکتی ہے۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن زبیر ہی سے بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھنے کا اثر منقول ہے۔ علامہ زیلعی نے اس کی مصلحت یہ بیان فرمائی ہے:
قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْهَادِي: إسْنَادُهُ صَحِيحٌ، لَكِنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْإِعْلَامِ بِأَنَّ قِرَاءَتَهَا سُنَّةٌ، فَإِنَّ الْخُلَفَاءَ الرَّاشِدِينَ كَانُوا يُسِرُّونَ بِهَا، فَظَنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ أَنَّ قِرَاءَتَهَا بِدْعَةٌ، فَجَهَرَ بِهَا مَنْ جَهَرَ مِنْ الصَّحَابَةِ لِيُعْلِمُوا النَّاسَ أَنَّ قِرَاءَتَهَا سُنَّةٌ، لَا أَنَّهُ فِعْلُهُ دَائِمًا
( نصب الرایۃ ج 1ص357 باب صفۃ الصلاۃ)
یہی بات ہم آمین بالسر میں کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن زبیر نے آمین جہراً کہ کر لوگوں کو تعلیم دی کہ اس مقام پر آمین کہنا سنت ہے۔
یہ آپ کو کس نے بتادیا کہ کبار صحابہ آمین بالسر کہتے تھے ؟ ذرا ثبوت پیش کریں ۔اس کے بعد مخالفت کا دعوی کریں ۔
علاوہ بریں اگر یہ عمل تعلیم کے لئے تھا تو پوری مسجد والے آمین بالجہر کیوں کہتے تھے؟
رہی بسم اللہ والی مثال تو کیا بسم اللہ بالجھر سے بھی کبھی کوئی مسجد گونجی ہے؟؟
 
Top