محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ان مذکورہ نصوص سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں ۔
:1 ابن سباء کی شخصیت کے وجود کا ثبوت اور ایسے گروہ کا وجود جو کہ اس کی مدد کرتا اور اس کی بات کو قبول کرتا تھا۔
:2 ابن سباء یہودی تھا، پھر اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا ۔ اگرچہ اس نے اسلام کا اظہار کیا لیکن درحقیقت یہ اپنی یہودیت پر ہی قائم رہا اور اس طرح اپنا زہر پھیلانا شروع کیا۔
:3 سب سے پہلے اسی نے ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن شروع کی، یہی ہے جس نے سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا دعویٰ کیا اور یہ کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اور اس نے یہ قول یہودیت سے ہی اخذ کیا تھا ۔ اور اس نے یہ باتیں اہل بیت کے ساتھ محبت، ان کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں جو کہ اس کے زعم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے پیروکار ہیں، سے دشمنی کے دعوے سے کہیں۔
تو عبد اللہ بن سباء کی شخصیت ایک ایسی حقیقت رکھتی ہے جس سے تجاہل اور انکار ممکن نہیں ۔ اسی لئے اس کے وجود کے بارے میں ہماری معتبر کتابوں میں بھی نصوص وارد ہوئی ہیں۔ اس شخصیت کے مزید تعارف کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
:1 الغارات للامام الثقفی :2 رجال الطوسی :3 الرجال للطوسی :4 قاموس الرجال للتستری :5الکنیٰ والالقاب لعباس القمی :6دائرۃ المعارف المسماۃ بمقتبس الاثر للاعلمی :7حل الاشکال لاحمد بن طاؤس المتوفی 673 ھ :8 الرجال لابن داؤد :9 التحریر للطاؤسی :10 مجمع الرجال للقھبائی :11 نقد الرجال للتفرشی :12 جامع الرواۃ للمقدسی الاردبیلی :13مناقب آل ابی طالب لابن شہر آشوب :14 محمدبن طاہر العاملی کی مرأۃ الانوار
یہ مصادر بطور مثال ذکر کئے ہیں بطور جمع نہیں ہیں۔
ہمارے مصادر میں سے بیس سے بھی زیادہ مصادر عبد اللہ بن سباء کے وجود پر دلالت کرتے ہیں۔ تعجب در تعجب ہے کہ پھر بھی مرتضیٰ عسکری اور سید محمد جواد مغنیہ جیسے ہمارے فقہا ء اس شخصیت کے وجود کا انکار کر رہے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا یہ قول صحت سے تعلق نہیں رکھتا۔