" جسے مسلمان حسن اور اچھا سمجھتے ہيں وہ اللہ كے ہاں اچھا اور حسن ہے "
اس سے وہ عقلى تحسين مراد نہيں جو شريعت كے مخالف ہو، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے:
" جس نے استحسان كيا تو اس نے قانون بنايا "
اس سے وہ تحسين مراد نہيں جسے لوگوں ميں كوئى ايك شخص اچھا سمجھے عام لوگوں كے علاوہ، بلكہ اس كلام كو دو معنوں ميں سے ايك پر محمول كرنا صحيح ہے، اور وہ دونوں ہى صحيح ہيں:
1 - اس سے مراد عرف كا وہ عمل ہے جو شريعت كے مخالف نہ ہو.
2 - اس سے حجيت اجماع مراد ہے.
چنانچہ جب مسلمان كسى چيز كے استحسان پر جمع ہو جائيں تو يہ اجماع حجت ہے، تو يہ چيز اللہ كے حكم ميں حسن اور اچھى ہو گى، اور يہ چيز اس قول پر دلالت كر سكتى ہے:
" جسے مسلمان اچھے ديكھيں تو وہ اللہ كے اچھا ہے "
ديكھيں: المبسوط للسرخسى ( 12 / 138 ) اور الفروسيۃ ابن قيم ( 398 ).
يہ تو اس وقت ہے جب ہم ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى كلام سب مسلمانوں ميں عام شمار كريں، حالانكہ ان كى كلام كے سياق و سباق سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے اس سے صحابہ كرام مراد ليے ہيں ان كے علاوہ دوسرے لوگ نہيں، ان كى كلام بالنص يہ ہے:
كسى بھى حال ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى كلام سے اللہ تعالى كى حرام كردہ چيز كو حسن اور اچھا جاننے ميں استدلال كرنا صحيح نہيں، مثلا مشركوں سے مشابہت كرنا وغیرہ
اس سے وہ عقلى تحسين مراد نہيں جو شريعت كے مخالف ہو، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے:
" جس نے استحسان كيا تو اس نے قانون بنايا "
اس سے وہ تحسين مراد نہيں جسے لوگوں ميں كوئى ايك شخص اچھا سمجھے عام لوگوں كے علاوہ، بلكہ اس كلام كو دو معنوں ميں سے ايك پر محمول كرنا صحيح ہے، اور وہ دونوں ہى صحيح ہيں:
1 - اس سے مراد عرف كا وہ عمل ہے جو شريعت كے مخالف نہ ہو.
2 - اس سے حجيت اجماع مراد ہے.
چنانچہ جب مسلمان كسى چيز كے استحسان پر جمع ہو جائيں تو يہ اجماع حجت ہے، تو يہ چيز اللہ كے حكم ميں حسن اور اچھى ہو گى، اور يہ چيز اس قول پر دلالت كر سكتى ہے:
" جسے مسلمان اچھے ديكھيں تو وہ اللہ كے اچھا ہے "
ديكھيں: المبسوط للسرخسى ( 12 / 138 ) اور الفروسيۃ ابن قيم ( 398 ).
يہ تو اس وقت ہے جب ہم ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى كلام سب مسلمانوں ميں عام شمار كريں، حالانكہ ان كى كلام كے سياق و سباق سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے اس سے صحابہ كرام مراد ليے ہيں ان كے علاوہ دوسرے لوگ نہيں، ان كى كلام بالنص يہ ہے:
مسند احمد حديث نمبر ( 3418 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے عقيدۃ طحاويۃ كى تخريج ( 530 ) ميں اسے حسن كہا ہے." اللہ سبحانہ و تعالى نے بندوں كے دلوں كو ديكھا تو ان ميں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا دل سب سے بہتر پايا تو اسے اپنے ليے چن ليا، اور انہيں اپنى رسالت دے كر مبعوث كيا، پھر محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے دل كے بعد بندوں كے دلوں كو ديكھا تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كے دلوں بندوں كے دلوں سے سب سے بہتر پايا تو انہيں اپنے نبى كے وزير بنا ديا وہ اس كے دين پر جہاد كرتے ہيں، چنانچہ جو مسلمانوں نے حسن ديكھا تو وہ اللہ كے ہاں اچھا اور حسن ہے، اور جسے وہ برا ديكھيں تو وہ اللہ كے ہاں برا ہے "
كسى بھى حال ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى كلام سے اللہ تعالى كى حرام كردہ چيز كو حسن اور اچھا جاننے ميں استدلال كرنا صحيح نہيں، مثلا مشركوں سے مشابہت كرنا وغیرہ