• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عجلت کا فساد

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اللہ تعالی نے انسان کی آزمائش کے لیے کچھ کمیاں اور کوتاہیاں اس کی خلقت میں رکھ چھوڑی ہیں تا کہ وہ اپنی تربیت وتزکیہ کے زریعے ان کمیوں پر کنٹرول حاصل کرے اور اپنے امتحان میں کامیاب ٹھہرے۔ عجلت جسے ہم اپنی زبان میں جلد بازی ہیں، انسان کے ان عیوب میں داخل ہے جو پیدائشی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
خُلِقَ الْإِنْسانُ مِنْ عَجَلٍ
انسان کو عجلت کے خمیر سے پیدا کیا گیا ہے۔

ہم یہ بات اس پہلے بھی کر چکے ہیں کہ جو اوصاف انسان میں پیدائشی ہوتے ہیں، انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پیدائشی اوصاف یا مزاج کا ختم کرنا ممکن نہیں ہے تو انسان سے تزکیہ نفس کا مطالبہ کیوں کیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا*فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا*قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا*وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا
اور قسم ہے نفس کی اور اس کے سنوارنے کی۔ اللہ نے انسان کے نفس میں اس کا تقوی اور فسق وفجور دونوں رکھ دیے ہیں۔ پس کامیاب وہ ہے کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا۔ اور ناکام وہ ہے جس نے اپنے نفس کو دبا دیا۔
اس آیت کریمہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ تقوی اور فسق وفجور دونوں نفس انسانی میں پیدائشی طور رکھے گئے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کو کامیاب قرار دیا گیا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو فسق وفجور سے پاک کر لیا اور اسے ناکام قرار دیا گیا کہ جس نے اپنے نفس کو اس فسق وفجور کے ساتھ خاک میں ملا دیا۔

نفس انسانی میں موجود پیدائشی عیوب کو دو طرح سے ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ ہے کہ انہیں کنٹرول کیا جائے اور دوسرا ان کے امالے یعنی نیکی کے رخ پر مائل کرنے کی کوشش کی جائے۔

عجلت انسانی مزاج کی ایک ایسی بیماری ہے جو نہ صرف نفس انسانی کے بگاڑ بلکہ معاشرے میں بھی فساد کا باعث بنتی ہے۔ یہ بیماری عموما نوجوانوں میں زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ عمر کے ساتھ انسان کی زندگی میں ٹھہراو آ ہی جاتا ہے۔ اسی طرح مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس کا انسان کے مزاج سے ہے اور مزاج جذبات سے بنتا ہے اور جذبات کا پہلو عورتوں میں نسبتا غالب ہوتا ہے۔

جدید دور کے انسان کا المیہ یہ بھی ہے کہ کیپٹل ازم کے عالمی نظام میں مارکیٹنگ کے سبجیکٹ نے عجلت کی کمزوری کو اسی طرح بھڑکا دیا ہے کہ جیسے سلگتا ہوا کوئلہ پٹرول کےچھڑکنے سے بھڑک اٹھا ہے۔ نیا موبائل، نیا آئی فون، نیا ٹیبلٹ نیا لیپ ٹاپ، نئی گاڑی ان میں سے کیا کچھ انسان کی ضرورت میں داخل ہے؟ لیکن اس کے باوجود انسانوں کی اکثریت ٹیلی ویژن ایڈز، اخباری اشتہارات اور شاہراہوں پر لگے بل بورڈز سے متاثر ہو کر وہ سب کچھ خرید لینے میں عجلت سے کام لیتے ہیں کہ جو نہ تو ہماری ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ہم میں اس کی خرید کی استطاعت ہوتی ہے۔ جن کے پاس قوت خرید ہوتی ہے لیکن ان کی ضرورت نہیں ہوتی تو ان کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی اس چیز سے اکتا جاتے ہیں اور نئے ماڈل کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور جن کی قوت خرید نہیں ہوتی وہ مہینے کے شروع میں خرید تو لیتے ہیں لیکن مہینے کے آخر میں قرض ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

اللہ تعالی نے انسان کے اندر پیدائشی طور ان چیزوں کی محبت رکھی ہے، اس سے انکار نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (14)
انسانوں کے لیے عورتوں، بیٹوں، سونے اور چاندی کے ڈھیروں، عمدہ گھوڑوں، مال مویشی اور کھیتی کی خواہشات کی محبت خوبصورت بنا دی گئی ہے۔ لیکن یہ سب دنیا کا حقیر ساز وسامان ہے اور اللہ کے پاس عمدہ ٹھکانہ ہے۔

یہ خواہشات اللہ نے انسان میں رکھی ہیں۔ ہم انہیں ختم نہیں کر سکتے۔ اگر یہ ختم ہو جائیں تو آزمائش ختم ہو جائے۔ اور ان خواہشات کا ختم کرنا شریعت اسلامیہ کا مقصود بھی نہیں ہے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہم ان خواہشات کو کنٹرول کریں۔ تو جلد بازی کی صفت کو کنٹرول کرنا ایک مطالبہ ہے اور اس کو نیکی کی طرف مائل کرنا ایک دوسرا پہلو ہے۔ نیکی کے کاموں یا اللہ سبحانہ وتعالی کو راضی کرنے میں مسارعت یعنی جلدی کرنا شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے۔ دنیا کے معاملے میں عجلت کو ممکن حد تک کنٹرول کریں اور اللہ کو راضی کرنے کے معاملے میں عجلت سے کام لیں۔ تو کنٹرول اور امالہ، ان دو طریقوں سے ہم اپنا تزکیہ نفس کر سکتے ہیں۔

جلد بازی کا معاشرتی فساد کیا ہے، اس کے لیے ہمارے معاشروں کی ایک چھوٹی سی مثال ہی کافی ہے۔ اگر بائیک یا گاڑی پر سوار ہو کر سڑک پر نکل جائیں اور شاہراہ پر اپنے دائیں بائیں یا ٹریفک اشاروں کے مقامات پر خاص طور غور کریں تو آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے ہر شخص اتنی جلدی میں ہے کہ اللہ نہ کرے جیسے فائر بریگیڈ کی گاڑی کہیں آگ بجھانے کے لیے جا رہی ہو۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہر دوسرا شخص پریشان اور ٹینس نظر آتا ہے۔ اس نے اس کو کٹ مار دیا، ٹریفک سگنل یہاں کا کھلا تھا، دوسری طرف کی ٹریفک جاری ہو گئی، اس کی بائیک اس کے بمپر سے کچھ ٹچ کر گئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ عجلت اکثر اوقات ٹریفک حادثات کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ سوچ آتی ہے کہ کیا انسان اتنا کمزور ہے کہ وہ اپنے آپ کو یہ نہیں سمجھا سکتا کہ کیا ہوا اگر میں پانچ منٹ لیٹ پہنچ جاوں۔ اگر کوئی شخص لیٹ ہے اور اسے ضروری طور وقت پر پہنچنا ہے تو اسے اپنے لیٹ ہونے کے اسباب پر غور کرنا چاہیے تا کہ آئندہ لیٹ نہ ہو نہ کہ ٹینشن میں بائیک یا گاڑی دوڑا کر خود کو بھی پریشان کرے اور دوسروں کو بھی اذیت دے۔ اور تو اور اب اگر ایک ایم بی اے بھی فاسٹ ڈرائیونگ پر ٹوکنے کے جواب میں یہ کہے کہ مجھے جلدی ہے کیونکہ میں لیٹ ہو رہا ہوں تو اس کی ڈگری کے بارے کیا تبصرہ کر سکتے ہیں؟ اسے تو معاشرے کی اصلاح کرنی تھی، اسے مینجمنٹ سکھانی تھی نہ کہ علم سے خود بھی محروم رہنا تھا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
التأني من الله والعجلة من الشيطان ۔ رواہ ابو یعلی فی مسندہ وحسنہ الالبانی
ٹھہراو اللہ کی طرف سے ہے اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے۔
اس روایت سے مراد یہی ہے کہ شیطان انسان کی کمزوریوں کو ایکسپلائٹ کرتے ہوئے اسے گمراہ کرتا ہے اور جن کمزوریوں کو وہ ایکسپلائٹ کرتا ہے، ان میں سے ایک عجلت بھی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top