• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عدل وانصاف کے پیکر ۔۔حضوراکرم ﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عدل کی تعریف:
(۱) حضرت علی ہجویری و امام غزالی کی نظر میں عدل کا مفہوم یہ ہے کہ
”کسی چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھا جائے“
(۲) سید سلیمان ندوی اس کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ
”جو بات ہم کہیں یا جو کام کریں اس میں سچائی کی میزان کسی طرف جھکنے نہ پائے“
(۳) سید ابو ا لاعلیٰ مودودی کی نظر میں
”عدل کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے: ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن و تناسب قائم ہو، دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقے سے دیا جائے…“
گویا عدل و انصاف کے معنی ہیں ہر ایک انسان اور ذی روح سے یکساں اور مناسب سلوک کرنا، تمام لوگوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا، امیر و غریب،گورے کالے، عربی عجمی‘ اور شاہ گدا کی تمیز کو ختم کرنا۔ ایک اچھے منصف کے لئے یہ بات لازم ہے کہ وہ ان سب کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔ اس طرح کے مثالی منصف کو نڈر و بیباک‘ بے لوث و بے غرض اور صادق و امین ہونا چاہیے تاکہ وہ ہر کسی کے ساتھ انصاف روا رکھ سکے اور لوگ اس کے سابقہ کردار کو اچھی طرح جانتے ہوں تاکہ سب کو اطمینان ہو کہ اُن کے ساتھ ہر حال میں انصاف ہی ہو گا۔
آئیے ذرا اس ہستی کے شب و روز کا مطالعہ کریں جسے حق تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے یہ حقیقت ہم پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جب بھی آپ کے سامنے کوئی مقدمہ یا مسئلہ لایا گیا تو آپ نے بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب ہر کسی کے ساتھ انصاف کیا۔ خواہ آپ سے انصاف کا طالب کوئی اپنا تھا یا غیر…!
اللہ وحدہ لا شریک اس بات پر شاہد ہے کہ اُس نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو اس جہاں میں منصف ِاعلیٰ بنا کر بھیجا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام بہت جلد عام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ ورنہ آپ سے قبل دنیائے عرب جہالت و گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبکیاں کھا رہی تھی۔ ہر طرف ظلم و ستم کا دور دورہ تھا۔ حقیقی انصاف نام کی چیز دنیا سے ناپید تھی۔ حالانکہ عدل و انصاف کرنا سب سے مقدم اور اہم فریضہ ہے اس لیے کہ عدل و انصاف کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ انسانی حقوق کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ اس لئے آپ نے عدل و انصاف کو قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس متاعَ بے بہا کو دنیا میں اس طرح متعارف کروایا کہ آپ کے فیصلوں کو مدَ نظر رکھتے ہوئے کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کی مثالی زندگی کے چند روشن واقعات حسب ِذیل ہیں جو آپ کی شخصیت کے اس پہلو کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوں گے :
سردارانِ قریش:قریش اور عرب کے سرداروں نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے کہا: ہم تمہارے پاس کیسے آ کر بیٹھیں‘ تمہاری مجلس میں ہر وقت غریب‘ مفلس اور نچلے طبقے کے لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹاؤ تو ہم آ کر بیٹھیں گے۔ مگر وہ نبی جو رنگ و نسل‘ خاک و خون کے بتوں کو توڑنے کے لئے آیا تھا، اُس نے ان سرداروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا…یہ واقعہ مفسرحافظ ابن کثیر نے سورة الانعام کی آیت ۵۲ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے جو اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ آپ کی نظر میں ذات پات کی کوئی تمیز اور ادنیٰ و اعلیٰ کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
الصادق و الامین:جبکہ ہر طرف عیاشی کا چرچا اور دھڑے بندی کا دور دورہ تھا، شراب‘ جوا‘ زنا اور جھوٹ جیسی برائیاں عام تھیں، اس دور میں بھی لوگ آپ کو ’الصادق و الامین‘ کے نام سے پکارتے اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو آپ کے منصف ہونے کی روشن دلیل ہے۔
واقعہ حجر اسود:حجر اسود کے واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ خانہٴ کعبہ کی دیواریں سیلاب کی وجہ سے گر چکی تھیں۔ تمام قبائل نے اُسے دوبارہ تعمیر کرنے میں یکساں کردار ادا کیا تھا۔ لیکن جب حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کا موقعہ آیا تو ہر قبیلے کی یہی خواہش تھی کہ یہ شرف انہیں ہی نصیب ہو۔ اب قریب تھا کہ تلواریں میانوں سے باہر آ جائیں، ہر طرف خون کی ندیاں بہنا شروع ہو جائیں۔ سمجھ دار لوگ اس معاملے کو نمٹانے کے لئے کعبہ میں جمع ہوئے اور طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو اُسے حَکمَ (جج) مان لیا جائے اور وہ جو فیصلہ کرے، وہ سب کے لئے قابل قبول ہو گا۔ اس تجویز پر سب رضامند ہو گئے۔ دوسرے دن سب نے دیکھا کہ ’الامین‘ ا کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہو رہے ہیں۔ سب پکارے اٹھے : هذا محمد ، هذا الأمين قد رضينا به
”لو، محمد ا آ گئے، ان کے فیصلہ پر تو ہم سب ہی خوش ہیں“
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے چادر میں حجر اسود کو رکھا اور سب قبیلوں کے سرداروں کے موقع دیا کہ چادر کو کونوں سے پکڑ کر اوپر اُٹھائیں اور اس نیکی کے کام میں شریک ہوں۔ جب مقدس پتھر اپنی مخصوص جگہ کے برابر پہنچ گیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اُسے اُٹھا کر دیوار میں نصب کر دیا۔ اس سے سب مطمئن ہو گئے ،کسی کو شکایت کا موقعہ نہ ملا اور جس نے سنا آپ کی تعریف کی کیونکہ اس طرح تمام قبیلوں کی نمائندگی ہو گئی۔(سیرت ابن ہشام مترجم: جلد اوّل)
فاطمہ بنت ِمحمد ا بھی قانون سے مستثنیٰ نہ تھیں:قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی، وہ ایک امیر گھرانے کی خاتون تھی۔ سردارانِ قریش نے حضرت اسامہ کو بارگاہِ رسالت میں سفارش کے لئے بھیجا جنہیں آپ بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حضور ا قبیلہ کی عزت کا خیال کرتے ہوئے یقیناسزا میں تخفیف کر دیں گے۔ اس کے برعکس جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اسامہ کی بات سنی تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا:
”تم سے پہلی قومیں اسی لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اُسے چھوڑ دیتے تھے لیکن جب کوئی عام آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے تھے۔ الله کی قسم! محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا“ (صحیح بخاری ومسلم)
یہ ہے انصاف کا وہ عالی قدر نمونہ کہ اگر مجرم اپنی اولاد بھی ہو تو اسے معاف نہ کیا جائے!
ہجرتِ مدینہ کے موقع پر:جب کافروں کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو آپ اللہ کی اجازت سے مکہ کو خیرباد کہہ دیا، اس وقت بھی لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں۔ مدینہ چھوڑتے ہوئے حضرت علی  کوحکم دیا کہ اگلے دن یہ امانتیں ان کے مالکوں کو لوٹا کر تم بھی مدینے چلے آنا۔(سیرت ابن ہشام جلد اوّل)
یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کا اس بات پر یقین کامل تھا کہ آپ کے پاس جو بھی چیز رکھ دی جائے، وہ انہیں اسی طرح واپس مل جائے گی۔ یہ بھی آپ کی منصف مزاجی و امانت داری کی منہ بولتی دلیل ہے۔
جنگ بدر کے قیدی:حسن سلوک کے سلسلے میں سرکارِدو عالم کی مساوات پسندی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے اعزہ و اقارب کو بھی عام قیدیوں کی طرح رکھا اور ان کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ پسند نہ کیا۔
اسیرانِ بدر کی مدینہ منورہ میں پہلی رات تھی اور مسلمانوں نے انہیں خوب کس کر باندھ رکھا تھا۔ ان میں رحمت ِدو عالم کے چچا حضرت عباس بھی تھے۔ وہ پروردہٴ نازونعم انسان تھے۔ اس لئے ہاتھ پاؤں کی بندشیں انہیں بہت تکلیف دے رہی تھیں اور وہ درد سے کراہ رہے تھے۔ سرورِدو عالم ا سے ان کا کراہنا برداشت نہیں ہو رہا تھا‘ اس لئے آپ بھی جاگ رہے تھے اور مضطرب پھر رہے تھے۔ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک صحابی نے عرض کی :”یا رسول الله! مزاجِ عالی کیوں بے قرار ہے؟ “
فرمایا: ”عباس کی کراہوں نے بے تاب کر رکھا ہے۔“
وہ صحابی گئے اور چپکے سے حضرت عباس کی بندشیں ڈھیلی کر آئے۔ تھوڑی دیر بعد رحمت ِ دوعالم نے حیرت سے پوچھا: ” کیا بات ہے‘ اب عباس کی کراہوں کی آواز نہیں آ رہی ہے؟“
”یا رسول الله ! میں نے ان کی بندشیں نرم کر دی ہیں“… صحابی نے بتایا ۔
”پھر اس طرح کرو“ داعی مساوات نے فرمایا ” کہ تمام قیدیوں کی بندشیں ڈھیلی کر دو۔“ یہ واقعہ بھی آپ کی منصف مزاجی کا شاہد ہے۔
جنگ ِحنین کے قیدی:جنگ حنین میں ۲۴ ہزار اونٹ‘ ۴۰ ہزار بکریاں‘ چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے ” نبی رحمت نے فرمایا: میں اپنے اور بنو عبدالمطلب کے قیدیوں کو بلا کسی معاوضہ کے رہا کرتا ہوں۔ انصار و مہاجرین نے کہا: ہم بھی اپنے اپنے قیدیوں کو بلا کسی معاوضہ کے آزاد کرتے ہیں۔ اب بنی سلیمہ و بنی فزارہ رہ گئے، ان کے نزدیک یہ عجیب بات تھی کہ حملہ آور دشمن پر (جو خوش قسمتی سے زیر ہو گیا ہو) ایسا لطف و کرم کیا جائے، انہوں نے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد نہ کیا۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے انہیں بلایا۔ ہر ایک قیدی کی قیمت چھ اونٹ قرار پائی۔ یہ قیمت نبی کریم انے خود ادا کر دی اور اس طرح باقی قیدیوں کو بھی آزادی دلائی۔
یہ واقعہ جہاں آپ کی رحمدلی کی گواہی دیتا ہے، وہاں اس حقیقت کو بھی آشکارا کرتا ہے کہ حضور کی منصف پسند طبیعت کو یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ چند قیدی تو اپنے رشتہ داروں کی وجہ سے چھوٹ جائیں اور چند کو بدستور قیدی رکھا جائے چنانچہ آپ نے باقی ماندہ کی قیمت ادا کرکے انہیں رہائی دلا دی۔
قرآن سے گواہی:قرآن پاک میں الله تعالیٰ خود اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم کو دنیا میں انصاف کا حکم دے کر بھیجا ہے۔ حضور کو یہود کے مقدمات میں انصاف کا حکم دے کر اس کی ترغیب اُمت کو دی ہے۔
”(اے رسول ا) جب آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ کریں۔ بے شک الله تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“ (سورة مائدہ:۴۲)
اس کے علاوہ حضور کی زبان سے قرآن میں کہلایا گیا ہے :
” کہو ! مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں“ (سورة شوریٰ : ۱۵)
دنیا میں کوئی عادل ایسا نہیں ہو گا جس کے عدل کی گواہی خود خالق کائنات نے دی ہو۔
مسلمان اور یہودی کا مقدمہ:ایک منافق (جو بظاہر مسلمان تھا) اور یہودی کے درمیان کوئی تنازعہ تھا‘ دونوں حصولِ انصاف کی خاطر حضور اکرم کے پاس چلے گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے دونوں کے دلائل سننے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ منافق کو اس کا بہت رنج ہوا اور وہ یہودی کو لیکر حضرت عمر فاروق  کے پاس جا پہنچا اور اپنا تنازعہ بیان کیا۔ یہودی نے حضرت عمر فاروق  کو بتایا کہ اس سے قبل حضورِ اکرم میرے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق  نے کہا: میں ابھی فیصلہ کرتا ہوں، آپ اندر گئے اور اپنی تلوار لے آئے اور اُس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا اور کہا ”جسے حضور کا فیصلہ منظور نہیں، اُس کے لئے عمر  کا یہی فیصلہ ہے“ گویا رسالت کے تابناک ستارے عمر فاروق  کا یہ یقین ہی نہیں بلکہ ایمان بھی تھا کہ حضور ا کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتے خواہ اس کا مذہب کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ (تفسیر ابن کثیر ، سورة النساء، آیت ۶۵ کی تفسیر میں، روایت سنداً ضعیف ہے، ادارہ)
مسجد کی تعمیر:مسجد ِنبوی کی جگہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی‘ آپ نے اُس وقت تک اس کی بنیاد نہ رکھی جب تک اُس کی قیمت ادا نہ کر دی۔ اگر آپ چاہتے تو بلاقیمت و اجازت مسجد تعمیر کر سکتے تھے۔ لیکن یہ پیکر عدل وانصاف کی شان کے خلاف تھا۔ (سیرت ابن ہشام: جلد اول)
یہودیوں سے معاہدات:مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مدینہ میں ہونے والے معاہدے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ ”ہر طرح کے جھگڑوں کا فیصلہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم خود فرمائیں گے“
یہ بات بھی آپ کی اس صفت کو اور ٹھوس بناتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ کافروں کو بھی آپ پر پورا اعتماد تھا۔
جیش العسرة:غزوہٴ تبوک میں بھوک سے تنگ آکر چند سپاہیوں نے ریوڑ کی ایک بکری ذبح کر لی‘ حضور کو پتہ چلا تو آپ ا نے پکی ہوئی ہانڈیاں اپنی کمان سے اُلٹ دیں، اسے حرام ٹھہرایا اور بکری کی قیمت ادا کی گئی۔
صلح حدیبیہ:صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی :
”قریش میں سے اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینے چلا جائے تو اسے واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مدینے سے مکے آئے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا“
اس شرط کے بعد ایک مظلوم صحابی ابو جندل کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مدینے آ گئے۔ جب اہل مکہ نے آ کر آپ کو صلح حدیبیہ کی شرائط کی طرف توجہ دلائی تو آپ نے ان سے انصاف کرتے ہوئے ابوجندل کو واپس کر دیا۔(الرحیق المختوم: ص ۵۵۷)
بیویوں سے سلوک:یہ تو باہر کے معاملات تھے۔ آپ نے عدل و انصاف کے دامن کو اپنے خانگی معاملات میں بھی تھامے رکھا۔ آپ نے تقریباً ہر عمر کی عورتوں سے شادی کی اور اُن سے مساوی سلوک کرتے رہے اور اس طرزِعمل کو آخری دم تک نبھاتے رہے۔ جب آخری وقت آپ حضرت عائشہ کے حجرہ میں تشریف لائے تو اس سے پیشتر آپ نے تمام اَزواجِ مطہرات سے اجازت حاصل کی تھی۔( صحیح بخاری : باب مرض النبی ووفاتہ ، ص ۹۱۶)
مالِ غنیمت کی تقسیم:مختلف جنگوں سے آپ کے پاس بے شمار مال و متاع آیا کرتا تھا لیکن آپ نے کبھی بھی یہ کوشش نہیں کی کہ میں مقرر شدہ حصہ سے زیادہ مال حاصل کر لوں۔ یہ بات بھی آپ کے انصاف کو اجاگر کرتی ہے۔
عقبہ بن عامر کے ہمراہ سفر:ایک مرتبہ آپ سفر میں تھے، حضرت عقبہ بن عامر آپ کے ہمراہ تھے لیکن اونٹ ایک ہی تھا ۔کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے عقبہ سے فرمایا: ”اب تم بیٹھ جاؤ میں پیدل چلوں گا‘ حضرت عقبہ ہچکچائے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم تو پیدل چلیں اور وہ خود اونٹ پر سوار ہوں۔ اس بات کو انہوں نے بے ادبی جانا‘ لیکن جب آپ نے اصرار فرمایا اور حکم دیا تو عقبہ نے حکم کی تعمیل کی۔
یہ اس عدل وانصاف کی اعلیٰ مثال ہے جو آقا و غلام‘ ادنیٰ واعلیٰ کی تفریق کو ختم کر دیتا ہے۔
صحابہ کے برابر کام کرنا:مسجد ِقبا کی تعمیر ہو یا خندق کی کھدائی، آپ نے دیگر صحابہ کرام کے دوش بدوش اس میں حصہ لیا اور کسی بھی موقعہ پر دامن انصاف کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ایک دفعہ حضورِ اکرم چند صحابہ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے، راستے میں کھانے پکانے کی ضرورت پڑی تو تمام صحابہ نے آپس میں کام بانٹ لیا ۔کسی نے کہا: میں یہ کروں گا، کسی نے کہا: میں وہ کروں گا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا: میں آگ جلانے کے لئے لکڑیاں لاؤں گا۔ صحابہ نے کہا: آپ کے حصے کا کام بھی ہم کریں گے لیکن آپ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
اسی طرح آپ ا کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں آپ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ صحابہ نے آ گے بڑھ کر عرض کی: یا رسول الله! اجازت ہو تو ہم یہ تسمہ گانٹھ دیں لیکن حضور ا نے صحابہ کو اس کی اجازت نہ دی… یہ ہے انصاف کہ ایک آقا اپنے غلام سے اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھتا بلکہ ایک راہبر اپنے پیرؤں کے دوش بدوش مٹی کھودتا اور گارا لاتا ہے۔
اولاد کے درمیان عدل:والدین کا فرض ہے کہ اولاد کے درمیان مساوی سلوک کریں کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دوسرے مذاہب کی طرح عدل میں چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں۔ آج اہل یورپ عدل و انصاف کے علمبردار بنے پھرتے ہیں لیکن آج بھی یورپ کے جن ممالک میں نوابی کا دور دورہ ہے، بڑے بیٹے کو جائداد میں زیادہ حصہ ملتا ہے۔ اسلام اس عدمِ توازن کو مٹاتا ہے۔ آج اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو لڑکی کو والدین کے ترکہ میں قانونی شریک ٹھہراتا ہے۔
”ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے ایک بیٹے کو غلام ہبہ کیا‘ اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر چاہا کہ اس معاملہ پر آپ کی گواہی بھی ہو جائے۔ آپ نے پوچھا: کیا دیگر بچوں کو بھی ایک ایک غلام دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں تو فرمایا : میں تو ظلم کا شاہد نہ بنوں گا، اسے واپس کردو“ (مسلم :کتاب الہبات)
دشمنوں کا اعتراف:نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس صفت کا اعتراف اَعداء بھی کرتے تھے۔ ربیع بن خثیم سے روایت ہے کہ بعثت سے پیشتر بھی لوگ اپنے مقدمات کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے حضور میں فیصلہ کے لئے لایا کرتے تھے۔ (شفاء: ص ۱۵)
بادشاہوں کو تبلیغ:حضور صلی الله علیہ وسلم نے عالمگیر تعلیمات کو عام کرنے کے لئے بادشاہوں کو تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تھا چنانچہ شہنشاہِ روم جو پوری عیسائی دنیا کا حاکم تھا کو آپ کا خط ملا تو اُس نے آپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے حکم دیا کہ حجاز کا کوئی شخص اگر یہاں موجود ہو تو اُسے دربار میں حاضر کیا جائے۔ خدا کی قدرت کہ ابو سفیان (جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے) جیسا اسلام کا دشمن تجارت کی غرض سے شام گیا ہوا تھا۔ ساتھیوں سمیت اُسے دربار بلایا گیا۔ قیصر روم اور ابو سفیان کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اُس کے چند مکالمات یہ تھے: (صحیح بخاری: ص ۳،۴)
قیصر: تم نے اُسے (محمد ا کو) کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے؟
ابو سفیان: نہیں
قیصر: کیا یہ نبی کبھی وعدہ کرکے پھر بھی گیا ہے؟
ابو سفیان: اب تک تو ایسا نہیں ہوا۔ اب جو معاہدہ ہوا ہے، دیکھیں وہ اس کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟
اس مکالمہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جو شخص وعدہ خلافی نہ کرے اور جھوٹ نہ بولے، وہ اپنے پرائے سے انصاف کرنے میں کیا کسر اٹھا رکھے گا۔
بدوی کو جواب:سرق ایک صحابی تھے، ان سے ان کی وجہ تسمیہ دریافت کی گئی توکہنے لگے کہ ایک بدوی دو اونٹ لے کر آیا، میں نے خرید لئے۔ پھر میں (قیمت لانے کے بہانہ سے) اپنے گھر میں داخل ہوا اور عقب خانہ سے نکل گیا اور اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت پوری کی۔
میں نے خیال کیا کہ بدوی چلا گیا ہو گا۔ میں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کھڑا ہے۔ وہ مجھے پکڑ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور واقعہ عرض کیا ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول الله! میں نے اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت روائی کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بدوی کو قیمت ادا کردو۔ میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو سرق ہے۔ پھر بدوی سے فرمایا کہ تم اس کو بیچ کر اپنی قیمت وصول کر لو۔ چنانچہ لوگ اس سے میری قیمت پوچھنے لگے۔ وہ ان سے کہتا تھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہتے تھے کہ ہم خرید کر اسے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر بدوی نے کہا کہ میں تمہاری نسبت ثواب کا زیادہ مستحق و خواہاں ہوں۔ اور مجھ سے کہا کہ جاؤ، میں نے تم کو آزاد کر دیا۔ (صحیح بخاری)
اسید بن حضیر کا واقعہ:ایک انصاری صحابی اُسید بن حضیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک روز وہ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے۔ ان کا آپس میں مزاح تھا۔ وہ اس وقت انہیں ہنسا رہے تھے کہ نبی کریم نے انہیں ایک چھڑی سے پیچھے ہٹایا۔ انہوں نے کہا: مجھے بدلہ دیجئے۔ آپ نے فرمایا: مجھ سے بدلہ لو۔ انہوں نے کہا: آپ کے (بدن) پر قمیص ہے اور مجھ پر قمیص نہ تھی تو نبی کریم انے اپنی قمیص کچھ اٹھائی۔ انہوں نے حضور کو سینے سے لگا لیا اور آپ کا پہلو چومنے لگا۔ انہوں نے کہا یا رسول الله میں تو یہی چاہتا تھا۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ اور ملاحظہ ہو۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم جنگ ِبدر کے لئے صف آرائی کر رہے تھے۔ حضرت سواد بن غزیہ انصاری صف سے آگے نکلے ہوئے تھے۔ آپ نے ایک تیرکی لکڑی سے ان کے پیٹ کو ٹھوکا دیا اور فرمایا۔
اِستوِ یا سواد ”اے سواد! برابر ہو جاؤ“ اس پر سواد نے حضور سے قصاص طلب کیا۔ آپ نے فوراً اپنا شکم مبارک ننگا کر دیا اور فرمایا ”قصاص لے لو“ (سیرت ابن ہشام)
سبحان الله! انصاف پسند ہو تو ایسا جو نہ صرف دوسروں کے بارے میں عدل کرے بلکہ خود بھی اس کے لئے ہر وقت تیار رہے۔
کھجوریں اُدھار لینا:ایک دفعہ آنحضرت نے ایک شخص سے کھجوریں اُدھار لیں۔ کچھ مدت کے بعد اس نے تقاضاکیا۔ حضور نے ایک انصاری صحابی سے اس شخص کو کھجوریں دینے کے لئے فرمایا۔کھجوریں دی گئیں تو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ میری کھجوریں بہتر تھیں۔ انصاری صحابی نے کہا کہ تم حضور کی کھجوریں لینے سے انکار کرتے ہو۔ وہ بولا: اگر رسول الله عدل نہ کریں گے تو اور کون عدل کرے گا؟ حضور نے یہ جملے سنے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمایا کہ بالکل سچ ہے!
فتح مکہ:جب مکہ فتح ہوا تو آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے والے، آپ پر اوجھریاں ڈالنے والے ، آپ کے قتل کی سازشیں کرنے والے سب سر جھکائے ہوئے کھڑے تھے …آپ نے فرمایا:
”لوگو! تمہارا کیا خیال ہے؟ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟“
انہوں نے کہا :”اچھا… آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹیہیں۔“
آپ نے فرمایا: لاَ تَثْرِيْبَ عَلْيَکُمُ الْيَوْمَ ‘ اِذْ هَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ
” آج تم پر کوئی سرزنش نہیں‘ جاؤ تم سب آزاد ہو۔“
حالانکہ اگر آپ چاہتے تو ان ظالموں سے بدلہ لے سکتے تھے جن کی وجہ سے نہ صرف آپ بلکہ دوسرے صحابہ کو بھی بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن آپ نے بلا تفریق سب کو معاف کر دیا۔
مساواتِ محمدی:”اہل عرب آزاد شدہ غلاموں کو بھی کمتر اور حقیر سمجھتے تھے۔ سرکارِدو عالم نے ان نظریات کو باطل کرنے کے لئے ایک طرف تو خطبے میں یہ اعلان فرما دیا کہ جاہلیت کا غرور اور اَنساب کی بنا پر برتری کے دعوے الله تعالیٰ نے باطل قرار دے دیئے ہیں، دوسری طرف اس مساوات کا عملی مظاہرہ یوں کیا کہ جب آپ مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت اُسامہ کو اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا‘ اور جب کعبہ میں داخل ہوئے تو حضرت اُسامہ  اور حضرت بلال کی معیت میں داخل ہوئے‘ حالانکہ وہاں ابو بکر و عمر‘ عثمان و علی رضی الله عنہم سبھی موجود تھے۔ مگر رحمت ِدو عالم نے اپنی معیت کا اعزاز ایک غلام اور ایک غلام زادے کو بخشا‘ تاکہ اہل مکہ مساواتِ محمدی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اسلامی عدالت کے کھلے دروازے:حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
”من ولي عن أمرالناس شيأ ثم أغلق بابه دون المسلمين أوالمظلوم أوذي الحاجة أغلق الله دونه أبواب رحمته عند حاجته وفقره أفقرما يکون إليه“
”لوگوں کے کاموں میں سے کسی کام کا جو شخص ذمہ دار بنایا جائے اور پھر وہ اپنا دروازہ مسلمانوں یا مظلوم اور ضرورتمند انسانوں پر بند کرے تو الله بھی ایسے شخص پر اپنی رحمت کے دروازوں کو اس کی اس ضرورت اور محتاجی پر بند کر لیتا ہے جس میں وہ سب سے زیادہ مضطر ہوتا ہے“ (مشکوٰةکتاب الامارة)
بیت الله کی چابیاں:ایک دفعہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ سے کہا کہ بیت الله کھول دو لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ آپ نے فرمایا: اے عثمان! دیکھنا ایک دن یہ چابی میرے پاس ہو گی۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے عثمان بن طلحہ سے وہی چابی لی اور بیت الله کا دروازہ کھول کر خانہٴ خدا کو بتوں سے پاک کیا۔ حضرت عباس نے حضورِ اکرم سے کہا کہ ”یہ چابی بنو ہاشم کو دے دی جائے“ لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم نے چابی پھر عثمان بن طلحہ کو لوٹا دی جو مدت سے بیت الله کا کلید بردار چلا آ رہا تھا۔اگر آپ چاہتے تو یہ چابی اپنے خاندان والوں کو بھی عطا کر سکتے تھے لیکن آپ نے چابی اصل حقدار کو لوٹا دی۔
کنواں زم زم کا ڈول:آبِ زم زم کے کنویں کا ڈول آپ نے اس لئے خود نہ نکالا کہ کہیں قریش والے (ہاشمی) اس کو اپنا ہی حق نہ سمجھ لیں اور اس طرح دوسروں کی حق تلفی نہ ہو جائے۔
آخری خطبہ:اس تاریخی و بے مثال خطبہ میں جہاں آپ نے ذات پات‘ رنگ و نسل کے بتوں کو پاش پاش کیا، عورتوں اور غلاموں سے نیک سلوک کا حکم دیا۔ سود اور زمانہ جاہلیت کے تمام جھگڑوں کو ختم فرمایا، وہاں آپ کے الفاظ یہ بھی ہیں:”اپنے آپ کو بے انصافی سے بچائے رکھو“
وصال سے چند روز قبل:دنیا میں آج تک ایسا کوئی عادل نہیں گزرا جو یہ بات وثوق سے کہہ سکے کہ اس نے کبھی کسی سے ناانصافی نہیں کی اور اس پر اپنے آپ کو محاسبہ کے لئے پیش کرے لیکن آفرین صد آفرین اس اُمی عادل پرکہ جس نے راہِ عدم کو سدھارتے ہوئے بھی کہا تھا:
”اگر کسی شخص کا حق مجھ پر ہو تو بتا دے“
ایک نے کہا کہ حضور نے ایک مسکین کو مجھ سے تین درہم دلائے تھے‘ وہ نہیں ملے۔ یہ درہم آنحضرت نے اسی وقت ادا کر دیئے۔
مندرجہ بالا تمام واقعات اس بات کا زندہ و پائندہ ثبوت ہیں کہ آپ نے ہر حال میں طالبانِ انصاف سے انصاف کیا۔ لیکن آج جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھتے ہیں تو انسانیت تڑپتی اور سسکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آج منصف کی آنکھوں میں زر و جواہر کی خاک ڈال کر اندھا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ضمیر و قلم کو سفارش و رشوت کی زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ آج وہ دور آ گیا ہے کہ لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سالوں کوٹھڑیوں میں بند رکھا جاتا ہے۔ ماں کی کوکھ سے آزاد جنم لینے والے انسان کو حق کا ساتھ دینے کے جرم میں جو رو جفا کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔
حصولِ انصاف کا طریقہ بھی اس قدر فرسودہ اور ناکارہ ہے کہ انصاف کے طالبوں کو سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ ٹھوس شہادتیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن انصاف کے موجودہ ناخدا بندہٴ ہوا و ہوس اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کی داڑھ گرم کرنے کا سامان پیدا کرے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو کوئی بتائے کہ بالکل سیدھے سادھے مقدمات کو نمٹانے کے لئے لوگوں کو سالوں عدالتوں کے چکر کیوں کاٹنے پڑتے ہیں۔
قابل ستائش تھا وہ دور جب لوگ ہر لحاظ سے محفوظ تھے، کسی کی جان و آبرو کو کوئی کھٹکا نہیں تھا۔ آج ہمارے معاشرے کو اس طرزِ انصاف کی ضرورت نہیں بلکہ اس عدل و انصاف کی ضرورت ہے جس کی طرح نبی ٴعادل محمد صلی الله علیہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر خلفائے راشدین و صحابہ کرام نے ڈالی تھی !
 
Top