• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب القبر کا ذکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عذاب القبر کا ذکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں

عذاب قبر کے سلسلہ میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے ہم صرف چند ہی احادیث کا یہاں ذکر کرتے ہیں اور مزید تفصیل ہماری مفصل کتاب ’’الدین الخالص پہلی قسط اور دوسری قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔
1 پہلی حدیث: سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔
کے متعلق فرمایا کہ
یہ آیت عذاب القبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ (قبر میں میت سے) کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا باب عرض المقعد علی المیت و عذاب القبر نیز ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب اثبات عذاب القبر)۔
صحیح بخاری میں جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب مومن کو اس کی قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں پھر وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے
پس یہی مطلب ہے آیت: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِکا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ مسلم سے جب قبر میں سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دیتا ہے اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ
’’اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھتا ہے اہل ایمان کو قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔
(بخاری کتاب التفسیر باب: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ۴۶۹۹)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ عذاب القبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۷ عذاب القبر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور قبر میں میت کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح بخاری کی اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے) اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ قبر کاسوال و جواب حق ہے اور اہل اسلام میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ تمام اہل ایمان قبر کے سوال و جواب پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوال و جواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور قبر کے مسئلے کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اس لئے اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا گمراہی اور جہالت ہے کیونکہ میت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اوراب وہ آخرت کے مراحل سے گذر رہی ہے۔
منکرین عذاب القبر احادیث کے انکار میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ وہ حدیث پر تنقید کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کر جاتے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھتے کہ ان کے قلم نے کیا لکھ مارا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عثمانی صاحب کا ایک انتہائی اندھا مقلد اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’اسی طرح یہ فرقہ پرست اور قبر پرست قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ارضی قبر کی زندگی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں … اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو دنیا میں بھی ثابت قدم رکھے گا اور آخرت میں بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کی مدد کرے گا۔ چونکہ اس آیت کا ذکر بخاری کی حدیث میں عذاب القبر کے ساتھ کیا گیا ہے اس لئے بعض جاہل اور گمراہ بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے عقیدے (مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے) (حالانکہ کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں ۔ ابوجابر) کا ثبوت قرآن کی یہ آیت ہے‘‘۔ (دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی ص۶۷)
یہ ہے ابوانور گدون کی ’’دعوت قرآن‘‘ اور ان کا ’’ایمان خالص‘‘۔ اس آیت کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا تعلق عذاب القبر کے ساتھ ہے لیکن موصوف نے فتویٰ لگایا ہے ’’فرقہ پرست‘‘ ’’قبر پرست‘‘ ’’جاہل‘‘ ’’گمراہ‘‘ ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر توہین کرنے والا کبھی مومن نہیں ہو سکتا اور ایسے شخص کی موت کفر کے علاوہ کسی اور چیز پر نہیں ہو سکتی۔ اور شیطان رُشدی جیسے لوگوں کا انجام اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ و ذالک جزاء الظالمین۔ تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’دعوت قرآن کے نام سے قرآن و حدیث سے انحراف‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
(۲)۔ دوسری حدیث: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کوخلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔
گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔
عثمانی فرقہ کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے لیکن اس کی تاویل کی ہے۔ اس کا پہلے یہ کہنا تھا کہ اس حدیث میں حقیقت نہیں بلکہ مجاز بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جوتیوں کی آواز سنی جا سکتی ہے کہ میت کے پاس فرشتے آجاتے ہیں اور یہ تأویل اس نے بعض دیوبندی علماء کی کتابوں سے اخذ کی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس حدیث کی دوسری تأویل یہ پیش کی کہ میت فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتی ہے۔ لیکن (اول) تو اس حدیث کا سیاق و سباق ہی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ (دوم) اس کے بعد والی صحیح بخاری کی حدیث اس حدیث کی مزید وضاحت و تشریح بیان کرتی ہے۔ اور (سوم) صحیح مسلم کی مختصر حدیث اس بات کی تأویل کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان المیت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا
’’بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس لوٹتے ہیں‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنتہ)۔
اس حدیث میں فرشتوں کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے اور صرف دفن کر کے واپس لوٹنے والوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے وہ باطل مفروضہ پاش پاش ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ جو لوگ قرآن و حدیث کے بجائے ڈاکٹر موصوف پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر موصوف کی اس باطل تأویل کو درست مانتے ہیں اور صحیح حدیث کو رَدّ کر دیتے ہیں۔ قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مومنین۔

حوالہ
 
Top