• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عربی زبان کی خصوصیات۔۔ضرور مطالعہ کریں

شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
arbi zuban.jpg

عربی زبان کی خصوصیات اورہمارے لئے اس کو سیکھنے کی ضرورت و اہمیت
(محمد طارق انصاری اِٹاوی)
زبان کی ضرورت:
زندگی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ زندگی کی صلاحیات اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال میں صرف ہو سکتی ہیں۔ برائیوں سے بچنے اور اچھائیوں کو اختیار کرنے کے لئے ہمیں یہ پتا لگانا بہت ضروری ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے؟ اسی کو ہدایت کہتے ہیں اور یہ صرف ہمارا بنانے والا ہی ہمیں بتا سکتا ہے۔
اِسی ہدایت کو پہنچانے کے لئے اللہ تعالٰی نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ۔ یہاں تک کہ پہلے ہی انسان کو نبی بنایا اور ایک دن کے لئے بھی انسانیت کو اندھیرے میں نہ چھوڑا۔ اللہ تعالٰی نے انبیاء پر پیغامِ ہدایت نازل کرنے کے لئے انسان کی ضرورت کا لحاظ فرمایا۔ پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے چونکہ انسان کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اللہ تعالٰی نے انسان کو پیغام پہنچانے کے لئے زبان اختیار فرمائی۔ اِس طرح انسان کو زبان کے ذریعے اچھے اور برے کا جاننا آسان ہو گیا۔
اب جو شخص زندگی کی صلاحیات کو برائیاں کرنے سے بچائےگا اور اچھائیوں میں استعمال کرے گا، اُسی کو اِس دنیا میں رہنے کا سلیقہ آئےگا اور وہی آخرت میں بھی کامیاب ہوگا۔ زندگی تو پگھلتی ہوئی برف کی طرح گزرتی جا رہی ہے۔ لِہٰذا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی کو صحیح راہ پر لگانے کے لئے اللہ کے پیغام کو سمجھنا اور اس کے لئے پیغام کی زبان کو سیکھنا کیسی ہنگامی ضرورت ہے۔
عربی زبان کی خصوصیات
اُمُّ الْاَ لْسِنَہ(اپنی مختصر تاریخ کے ساتھ):
اللہ تعالٰی نے آدم کو بنایا اور اُن سے کلام فرمایا۔ انسان زبان کے ذریعہ بات سمجھتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو بغیر زبان کے بھی بات پہنچا سکتا ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے بات کرنے کے لئے زبان اختیار فرمائی ، تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ اور ان کی زوجہ کو جنّت میں رکھا ۔ یہ دو انسانوں کا پہلا جوڑا جنّت میں ایک دوسرے سے باتیں کرتا ہوگا تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ کو زمین کے تمام اَسْمَاء سکھائے۔ اَسْمَاء اِسم کی جمع ہے اور اِسم زبان ہی کا حصّہ ہوتا ہے۔ تو یہ اسماء جس زبان کا حصّہ تھے وہ کون سی زبان تھی؟
دنیا میں آنے کے بعد مکہ مکرّمہ میں ان دونوں کی ملاقات کروا دی گئی۔ دنیا کی زندگی کے تقاضے کے تحت ، وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوں گے تو وہ کون سی زبان تھی؟
اِس جوڑے کو اللہ نے اولاد عطا کی اور اِس طرح توالُداور تناسُل کا سلسلہ شروع ہؤا اور نتیجے کے طور پر یہیں پہلا انسانی معاشرہ وجود میں آیا ۔ اسی لئے مکہ مکرّمہ کو امّ القراء (بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ) کہا گیا۔ یہ پہلے والدین اور اُن کےبچّے آپس میں ایک دوسرے سے کلام کرتے ہوں گے۔تو وہ کون سی زبان تھی؟
یہی وہ زبان تھی جو تمام زبانوں کی ماں (اُمُّ الْالْسِنَہ) کہی جا سکتی ہے۔
مکہ مکرّمہ اور اس کے قریب کا علاقہ رہائش کے لئے دشوار بھی تھا اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے آبادی اور وسائل کو نقصان بھی پہنچ جاتا تھا۔ لِہٰذا یہ علاقے متعدد بار آباد بھی ہوئے اور یہ آبادیاں یہاں سے منتقل بھی ہوتی رہیں یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے تو خانہ بدوشی ہی کو اپنا طرزِ زندگی بنا لیا۔ اولادِ آدمؑ آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی جہاں آج شام ،یمن، فلسطین اور عراق وغیرہ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں بس جانے والے لوگ اپنے ساتھ وہی زبان ، اُمُّ الْالْسِنَہ لائے تھے۔ وقت کے ساتھ اِس زبان میں کچھ تَنَوُّع بھی پیدا ہؤا۔ پھر ایک طرف یہ ہؤا کہ اللہ تعالٰی نے اِبراہیم ؑ کے بیٹے اِسماعیل ؑ سے اور یمن سے آنےوالے قبیلے جُرْھُم سے اِس خطّے کو پھر سے آباد فرما دیا اور جو زبان ان کے پاس تھی، وہ اُمُّ الْالْسِنَہ ہی کی ایک شکل تھی، وہی زبان پھر سے اِس علاقے کی زبان ہو گئی اور عربی زبان کے نام سےجانی جانے لگی ۔
دوسری طرف اِرْتِقَاء کے مراحل طے کرتے ہوئےفونیقی قوم (PHOENICIANS) نے جو حجاز کے شمال میں واقع تھی زبان کو لکھنا شروع کیا جس طرح وہ آج لکھی جاتی ہے اور آس پاس کی اقوام نے ان سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ اب لکھی اور پڑھی جانے لگی۔
وقت گزرنے سے اُمُّ الْالْسِنَہ کی مختلف شکلیں حجاز کے قرب و جوار میں وجود میں آئیں مگر دینِ محمّدﷺ کے فروغ کے ساتھ ان علاقوں میں بھی حجاز کی زبان ہی کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ۔ آج اُمُّ الْالْسِنَہ کی اُن تمام قدیم شکلوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے سوائے عربی زبان کے۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ کی جو شکل آج موجود ہے وہ صرف عربی زبان ہی ہے اور کوئی نہیں۔ لہٰذا آج ہم عربی ہی کو اُمُّ الْالْسِنَہ کہہ سکتے ہیں۔
اب ہم عربی زبان کی چند اور خصوصیات کا بہت ہی اختصار سے ذکر کریں گے:
قدیم: یہ بہت قدیم ہے کہ اس سے زیادہ قدیم زبان آج کہیں موجود نہیں ہے۔
قوی: یہ بہت قوی ہے کہ ہزارہا سال سے قائم ہے۔
خوبصورت: یہ بہت خوبصورت ہے کہ اس کو نہ جاننے والے گونگے شمار ہوتے رہے۔
آسان: یہ بہت آسان ہے کہ اس کے قواعد کی تعداد بہت کم ہے۔
منظم: یہ بہت منظم ہے کہ اس میں لغت و بیان کے مستقل نظام موجود ہیں۔
محفوظ: یہ بہت محفوظ ہے کہ اللہ کی محفوظ کتاب اسی زبان میں ہے۔
عربی زبان سیکھنے کی اہمیت:
بنیادی طور پر ایک زبان ہر کسی کو ضرور ہی اچھی طرح آنی چاہیئے۔اور وہ ہے اس کی مادری زبان۔ مادری زبان ہی کے ذریعے مختلف علوم سیکھنے چاہیئے۔ یہاں تک کہ دوسری زبانیں بھی مادری زبان کے سہارے سیکھنی چاہیئے۔ مادری زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان کو سیکھنا صرف ضرورت پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے؛ اور ضرورت اہمیت سے پیدا ہوتی ہے۔
اگر ہم دنیا کی آسانی کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر اس کے حصول کے لئے کسی زبان کا سیکھنا ضروری ہو جائے تو ہم جی توڑ کوشش کر کے اس زبان کو سیکھتے ہیں۔ ہم کسی فن یا ہنر کے ماہر کی بات سمجھنے کے لئے اس کی زبان سیکھ لیتے ہیں۔ اس لئے کہ اس فن یا ہنر کے ذریعے ہم اپنے معاش کا انتظام کرتے ہیں اور اپنی دنیا کو آسان بناتے ہیں جو ہمارے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔
عربی زبان کے ذریعے ہم انبیاءِ کرام کے پہنچائے ہوئے وہ حقائق و اصول سیکھ سکتے ہیں جس سے ہماری زندگی بھی صحیح راہ پر گامزن رہے اور آخرت میں بھی کامیابی مل جائے۔ پھر کیا ہمیں زندگی گزارنے کے صحیح طریقے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا آخرت کی کامیابی ہمارے لئے اہم نہیں رہی؟ یا ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں رہا ؟ اور کیا اس طرح واقعی ہم اپنی دنیا بھی آسان بنا رہے ہیں؟
نہیں بلکہ اس طرح ہم نہ صرف اپنی آخرت میں بلکہ اپنی دنیا میں بھی ناکامی کا انتظام کر رہے ہیں۔
اس ہنگامی ضرورت اور اس کی اہمیت کا ادراک کیجئے! اپنے رب کی طرف لوٹ آئیے!اس کے پیغام کو سمجھنے کے لئے اس کے کلام کی زبان سیکھنے کی کوشش کیجئے!اس کو اہمیت دیجئے اور اس کے لئے وقت نکالیئے!یاد رکھیئے،، شیطان آپ کا دشمن ہے! وہ ضرور اس عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا ؛ سستی پیدا کرےگا ۔ بندے کو اس کے رب کا کلام سمجھنے کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دشمن کی سازش ہے۔
دشمن کے خلاف کمر بستہ ہو جایئے! اپنے آپ کو بھی آگ سے بچائیئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی آگ سے بچائیئے! ڈر جایئے! خدارا، ڈر جایئے!

http://www.islamicmsg.org/index.php/component/content/article/22-slide-show/346-arbi-zuban
 

اٹیچمنٹس

شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
11360 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
عربی زبان کی خصوصیات اورہمارے لئے اس کو سیکھنے کی ضرورت و اہمیت
(محمد طارق انصاری اِٹاوی)
زبان کی ضرورت:
زندگی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ زندگی کی صلاحیات اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال میں صرف ہو سکتی ہیں۔ برائیوں سے بچنے اور اچھائیوں کو اختیار کرنے کے لئے ہمیں یہ پتا لگانا بہت ضروری ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے؟ اسی کو ہدایت کہتے ہیں اور یہ صرف ہمارا بنانے والا ہی ہمیں بتا سکتا ہے۔
اِسی ہدایت کو پہنچانے کے لئے اللہ تعالٰی نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ۔ یہاں تک کہ پہلے ہی انسان کو نبی بنایا اور ایک دن کے لئے بھی انسانیت کو اندھیرے میں نہ چھوڑا۔ اللہ تعالٰی نے انبیاء پر پیغامِ ہدایت نازل کرنے کے لئے انسان کی ضرورت کا لحاظ فرمایا۔ پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے چونکہ انسان کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اللہ تعالٰی نے انسان کو پیغام پہنچانے کے لئے زبان اختیار فرمائی۔ اِس طرح انسان کو زبان کے ذریعے اچھے اور برے کا جاننا آسان ہو گیا۔
اب جو شخص زندگی کی صلاحیات کو برائیاں کرنے سے بچائےگا اور اچھائیوں میں استعمال کرے گا، اُسی کو اِس دنیا میں رہنے کا سلیقہ آئےگا اور وہی آخرت میں بھی کامیاب ہوگا۔ زندگی تو پگھلتی ہوئی برف کی طرح گزرتی جا رہی ہے۔ لِہٰذا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی کو صحیح راہ پر لگانے کے لئے اللہ کے پیغام کو سمجھنا اور اس کے لئے پیغام کی زبان کو سیکھنا کیسی ہنگامی ضرورت ہے۔
عربی زبان کی خصوصیات
اُمُّ الْاَ لْسِنَہ(اپنی مختصر تاریخ کے ساتھ):
اللہ تعالٰی نے آدم کو بنایا اور اُن سے کلام فرمایا۔ انسان زبان کے ذریعہ بات سمجھتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو بغیر زبان کے بھی بات پہنچا سکتا ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے بات کرنے کے لئے زبان اختیار فرمائی ، تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ اور ان کی زوجہ کو جنّت میں رکھا ۔ یہ دو انسانوں کا پہلا جوڑا جنّت میں ایک دوسرے سے باتیں کرتا ہوگا تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ کو زمین کے تمام اَسْمَاء سکھائے۔ اَسْمَاء اِسم کی جمع ہے اور اِسم زبان ہی کا حصّہ ہوتا ہے۔ تو یہ اسماء جس زبان کا حصّہ تھے وہ کون سی زبان تھی؟
دنیا میں آنے کے بعد مکہ مکرّمہ میں ان دونوں کی ملاقات کروا دی گئی۔ دنیا کی زندگی کے تقاضے کے تحت ، وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوں گے تو وہ کون سی زبان تھی؟
اِس جوڑے کو اللہ نے اولاد عطا کی اور اِس طرح توالُداور تناسُل کا سلسلہ شروع ہؤا اور نتیجے کے طور پر یہیں پہلا انسانی معاشرہ وجود میں آیا ۔ اسی لئے مکہ مکرّمہ کو امّ القراء (بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ) کہا گیا۔ یہ پہلے والدین اور اُن کےبچّے آپس میں ایک دوسرے سے کلام کرتے ہوں گے۔تو وہ کون سی زبان تھی؟
یہی وہ زبان تھی جو تمام زبانوں کی ماں (اُمُّ الْالْسِنَہ) کہی جا سکتی ہے۔
مکہ مکرّمہ اور اس کے قریب کا علاقہ رہائش کے لئے دشوار بھی تھا اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے آبادی اور وسائل کو نقصان بھی پہنچ جاتا تھا۔ لِہٰذا یہ علاقے متعدد بار آباد بھی ہوئے اور یہ آبادیاں یہاں سے منتقل بھی ہوتی رہیں یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے تو خانہ بدوشی ہی کو اپنا طرزِ زندگی بنا لیا۔ اولادِ آدمؑ آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی جہاں آج شام ،یمن، فلسطین اور عراق وغیرہ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں بس جانے والے لوگ اپنے ساتھ وہی زبان ، اُمُّ الْالْسِنَہ لائے تھے۔ وقت کے ساتھ اِس زبان میں کچھ تَنَوُّع بھی پیدا ہؤا۔ پھر ایک طرف یہ ہؤا کہ اللہ تعالٰی نے اِبراہیم ؑ کے بیٹے اِسماعیل ؑ سے اور یمن سے آنےوالے قبیلے جُرْھُم سے اِس خطّے کو پھر سے آباد فرما دیا اور جو زبان ان کے پاس تھی، وہ اُمُّ الْالْسِنَہ ہی کی ایک شکل تھی، وہی زبان پھر سے اِس علاقے کی زبان ہو گئی اور عربی زبان کے نام سےجانی جانے لگی ۔
دوسری طرف اِرْتِقَاء کے مراحل طے کرتے ہوئےفونیقی قوم (PHOENICIANS) نے جو حجاز کے شمال میں واقع تھی زبان کو لکھنا شروع کیا جس طرح وہ آج لکھی جاتی ہے اور آس پاس کی اقوام نے ان سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ اب لکھی اور پڑھی جانے لگی۔
وقت گزرنے سے اُمُّ الْالْسِنَہ کی مختلف شکلیں حجاز کے قرب و جوار میں وجود میں آئیں مگر دینِ محمّدﷺ کے فروغ کے ساتھ ان علاقوں میں بھی حجاز کی زبان ہی کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ۔ آج اُمُّ الْالْسِنَہ کی اُن تمام قدیم شکلوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے سوائے عربی زبان کے۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ کی جو شکل آج موجود ہے وہ صرف عربی زبان ہی ہے اور کوئی نہیں۔ لہٰذا آج ہم عربی ہی کو اُمُّ الْالْسِنَہ کہہ سکتے ہیں۔
اب ہم عربی زبان کی چند اور خصوصیات کا بہت ہی اختصار سے ذکر کریں گے:
قدیم: یہ بہت قدیم ہے کہ اس سے زیادہ قدیم زبان آج کہیں موجود نہیں ہے۔
قوی: یہ بہت قوی ہے کہ ہزارہا سال سے قائم ہے۔
خوبصورت: یہ بہت خوبصورت ہے کہ اس کو نہ جاننے والے گونگے شمار ہوتے رہے۔
آسان: یہ بہت آسان ہے کہ اس کے قواعد کی تعداد بہت کم ہے۔
منظم: یہ بہت منظم ہے کہ اس میں لغت و بیان کے مستقل نظام موجود ہیں۔
محفوظ: یہ بہت محفوظ ہے کہ اللہ کی محفوظ کتاب اسی زبان میں ہے۔
عربی زبان سیکھنے کی اہمیت:
بنیادی طور پر ایک زبان ہر کسی کو ضرور ہی اچھی طرح آنی چاہیئے۔اور وہ ہے اس کی مادری زبان۔ مادری زبان ہی کے ذریعے مختلف علوم سیکھنے چاہیئے۔ یہاں تک کہ دوسری زبانیں بھی مادری زبان کے سہارے سیکھنی چاہیئے۔ مادری زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان کو سیکھنا صرف ضرورت پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے؛ اور ضرورت اہمیت سے پیدا ہوتی ہے۔
اگر ہم دنیا کی آسانی کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر اس کے حصول کے لئے کسی زبان کا سیکھنا ضروری ہو جائے تو ہم جی توڑ کوشش کر کے اس زبان کو سیکھتے ہیں۔ ہم کسی فن یا ہنر کے ماہر کی بات سمجھنے کے لئے اس کی زبان سیکھ لیتے ہیں۔ اس لئے کہ اس فن یا ہنر کے ذریعے ہم اپنے معاش کا انتظام کرتے ہیں اور اپنی دنیا کو آسان بناتے ہیں جو ہمارے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔
عربی زبان کے ذریعے ہم انبیاءِ کرام کے پہنچائے ہوئے وہ حقائق و اصول سیکھ سکتے ہیں جس سے ہماری زندگی بھی صحیح راہ پر گامزن رہے اور آخرت میں بھی کامیابی مل جائے۔ پھر کیا ہمیں زندگی گزارنے کے صحیح طریقے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا آخرت کی کامیابی ہمارے لئے اہم نہیں رہی؟ یا ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں رہا ؟ اور کیا اس طرح واقعی ہم اپنی دنیا بھی آسان بنا رہے ہیں؟
نہیں بلکہ اس طرح ہم نہ صرف اپنی آخرت میں بلکہ اپنی دنیا میں بھی ناکامی کا انتظام کر رہے ہیں۔
اس ہنگامی ضرورت اور اس کی اہمیت کا ادراک کیجئے! اپنے رب کی طرف لوٹ آئیے!اس کے پیغام کو سمجھنے کے لئے اس کے کلام کی زبان سیکھنے کی کوشش کیجئے!اس کو اہمیت دیجئے اور اس کے لئے وقت نکالیئے!یاد رکھیئے،، شیطان آپ کا دشمن ہے! وہ ضرور اس عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا ؛ سستی پیدا کرےگا ۔ بندے کو اس کے رب کا کلام سمجھنے کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دشمن کی سازش ہے۔
دشمن کے خلاف کمر بستہ ہو جایئے! اپنے آپ کو بھی آگ سے بچائیئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی آگ سے بچائیئے! ڈر جایئے! خدارا، ڈر جایئے!

http://www.islamicmsg.org/index.php/component/content/article/22-slide-show/346-arbi-zuban
جزاك الله خير
 
Top