• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصرِحاضر میں بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک ’’جمہوریت ‘‘کا فتنہ ہے

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
عصرِحاضر میں بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک ’’جمہوریت ‘‘کا فتنہ ہے اورلوگو ں کی اکثریت اس فتنے میں مبتلا ہے اورکیفیت یہ ہے کہ وہ اس جمہوریت کا دفاع کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہیں۔ یہ حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرکے کبھی اس کو اسلامی نظام شوریٰ کی جدیدشکل قراردیتے ہیں اور اس کے نظام انتخاب کو مشاورت کا نام دیتے ہیں تو کبھی خلفائے راشدین کے طریقۂ انتخاب کوتوڑمروڑ کرجمہوریت کے حق میں دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی طرح دورِ نبویﷺاوردورِخلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ کثرتِ رائے کی بنیاد پر ہوتے تھے اور کبھی اس جمہوریت کواختیار کرنے کے لئے مصلحتوں اور ضروریات کو دلیل بنایا جاتا ہے لیکن یہ فعل درحقیقت حق وباطل ، نور وضلالت اور توحید و شرک کو خلط ملط کرنے کے مترادف ہے۔ جمہوریت اللہ کے دین کے مقابل ایک مستقل دین ہے اور توحید کے خلاف ایک ملت ہے اوراسی طرح جمہوریت کی پارلیمانی اور اسپیکر کی نشستیں صریح شرک اور بت پرستی ہے ،جن سے اجتناب کرنا توحید کی سا لمیت کے لئے ضروری ہے جوکہ بندوں پر اللہ کا حق ہے ۔اس نظام کی بیخ کنی کرنا اور ا سکے متعلقین سے بغض وعداوت رکھنا اور ان کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے اور یہ کہ یہ جمہوریت کوئی ’’اجتہادی مسئلہ ‘‘بھی نہیں جیسا کہ بعض اس شیطانی دجل وفریب کا شکار ہیں۔ بلکہ یہ وہ واضح اورقدیمی شرک وکفر ہے جس سے اللہ نے اپنی محکم تنزیل میں ڈرایا ہے اورنبی علیہ السلام طویل عرصہ اس کے خلاف برسرپیکاررہے ہیں۔ لہٰذا نبی ﷺکی اسی سنت کو تھامتے ہوئے اُن کے متبع اور مددگار بننے کی کوشش کریں جو شرک ومشرکین اور ان کے نظام زندگی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے تھے اور حق واہل حق کی اجنبیت کے اس دور میں اس گروہ میں شامل ہوجائیں جو دین اللہ کے قیام کے لئے رسول کریمﷺکے دیئے ہوئے طریقے کے مطابق سرگرم عمل ہے۔ جس کے متعلق نبی مصطفی علیہ السلام نے فرمایا:
((لا تزال طائفة من امتی یقاتلون علی الحق ظاھرین علی من ناواھم حتی یقاتل اخرھم المسیح الدجال)) (ابوداؤد،با ب دوام الجہاد)
’’ مسلسل میری امت میں سے ایک جماعت لڑتی رہے گی حق پر،غالب رہے گی اپنے مخالفین پر یہاں تک کہ وہ آخر میں مسیح دجال سے قتال کرے گی‘‘۔
٭کیاجمہوریت ایک الگ اور مستقل نظام زندگی ہے…؟؟
٭کیاجمہوریت اسلامی شورائیت کی جدید شکل ہے …؟؟
٭کیا ووٹ کو مشورہ پر قیاس کیا جاسکتاہے…؟؟
٭کیا خلفائے راشدین کا انتخاب جمہوری بنیادوں پرہوا تھا…؟؟
٭کیا دورِ نبوی ﷺاوردورِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں فیصلے کثرتِ رائے کی بنیاد پر ہوتے تھے…؟؟
٭کیا جمہوریت کے راستے مکمل اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہے …؟؟
٭کیا جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کیا جاسکتاہے…؟؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جمہوریت کی تعریف
جمہوریت کی لغوی معنی ’’لوگوں کی حکمرانی‘‘ Rule of the Peopleکے ہیں ۔یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ Demoیعنی ’’لوگ‘‘ اور Kratosیعنی ’’حکومت‘‘ سے مل کر بنا ہے۔بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لوگوں کی ’’اکثریت کی بات ماننا‘‘لیکن درحقیقت یہ ’’اکثریت کی اطاعت ‘‘کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی مفکر ہیروڈوٹس (Herodotus)کہتا ہے کہ :
’’ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
چناچہ سابق امریکی صدر ’’ ابراہم لنکن‘‘ کا یہ قول جو کہ جمہوریت کا نعرہ ہے ،اسی حقیقت کی عکاسی کرتاہے:
’’Goverment of the poeple, by the people, for the people‘‘
’’عوام کی حاکمیت ، عوام کے ذریعے ، عوام پر‘‘
تاریخ جمہوریت
جمہوریت کا سب سے پہلا سراغ ہندوستان میں ملتا ہے۔6سو سال قبل از عیسوی اور ’’بدھا‘‘ کی پیدائش سے قبل ھند میں جمہوری ریاستیں موجود تھی اور ان کو Janapadas(جانا پداس)کہاجاتا تھا۔ان میں سب پہلی ریاست ’’وشانی‘‘ ریاست تھی جو کہ آج ’’بہار‘‘ کے نام سے مشہورہے۔اسی طرح سکندر اعظم کے دور میں 400قبل از عیسوی یونانی دانشور وںکے مطابق SabastaiاورSabaracaeکی ریاستیں جو موجودہ پاکستا ن اور افغانستان ہیں ،یہاں بھی جمہوری حکومت تھی نہ کی شاہی حکومت۔اسی طرح ۵ صدی قبل مسیح میں Greece میں بھی کونسل اور اسمبلی کا تصور ملتاہے۔Jalius Cessarاور سینٹ کے سربراہ Ponpeyکے درمیان خانہ جنگی کے بعد 49Bcمیں پہلی دفعہ ’’رومن ایمپائر‘‘(Roman Empaire)وجود میں آئی۔اسی طرح تمام جمہوری ادارے ہمیشہ سے ہی جزوی اور محدود جمہوریت کے ساتھ انسانی تاریخ میں موجود رہے۔اس سلسلے میں چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) ہندو ستان میں پنچائیت
(۲) جرمن قبائلی نظام (Tacitus)
(۳) فرینکش کسٹم آف مارچ فیلڈ(Frankish Custom of March Field)
(۴) آل تھنگ آف پارلیمنٹ آئس لینڈ (All Thing Parliment of Ice Land)
(۵) توتھا سسٹم آف آئر لینڈ (Tutha system of Ireland)
(۶) قریش کا دارالندوہ (قصیٰ ابن کلاب)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جمہوریت کے حوالے سے ایک غلط فہمی
دورِ حاضر میں بشمول دینی عناصر ،لوگوں کے ذہن میں جمہوریت کے حوالے سے ایک مغالطہ یہ ہے کہ جمہوریت 200سال قبل انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی ایک نئی قسم ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘(Liberal Democracy) انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔چناچہ اس کے ساتھ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اس جمہوریت کی تاریخ کیا ہے اوراس کا سفر کیسے طے ہوا ہے؟

1265ء میں انگلستان کی پہلی انتخابی پارلیمنٹ کی صورت میں ’’کامل جمہوریت‘‘ کی طرف پہلا قدم طے ہوا۔1517ء میں جب مارٹن لوتھر (MartinLuthar)نے یورپ کی نشاء ۃ ثانیہ اور اصلاح (Reformation)کے نام پر اپنے مقالے چرچ کے دروازے نصب کرکے چرچ سے آزادی اکا اعلان کردیا۔یہی نظریہ 1688ء کی’’انگلش سول وار‘‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوا،جبکہ ’’سینٹ‘‘ (Senate)کے لیڈر کروم ویل (Cromwell) نے انگلستان کے بادشاہ ہنری آئی(Hennry I)کو شکست دیکر سولی پر چڑھادیا۔ اس انقلاب کو ’’گلوریس ریولیشن‘‘(Golorios Revelotion) کہاجاتا ہے، اور اسی کے بعد بادشاہت کا خاتمہ اور جمہوری دور کاآغاز ہوا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ :
(۱) تمام مذاہب برابر قرار پائے،جس کی رو سے (Freedom of religon)کا نظریہ سامنے آیاجوکہ (Free from the religon)یعنی تمام مذاہب سے آزادی کا باعث بنا۔
(۲) کلیسا اور اسٹیٹ میں جدائی ہوگئی یعنی ریاست کے معاملات میں مذہب کا عمل دخل ختم کردیاگیا۔
(۳) Bank of England کاقیام عمل میں آیاجس کے ذریعے سرمایا دارنہ نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
(۴) سیاست جاگیرداروں Land Lords سے منتقل ہوکر سرمایہ داری میں منتقل ہوگئی۔

انقلابِ فرانس(French Revuolation) جس کو انسانی تاریخ میں’’جمہوریت‘‘کی ابتداء کی بنیاد قرار دیا جاتاہے۔ یہ دراصل والٹیئرVolataire (1694-1778)اور روسلRossel (1712-1778)جیسے بد قماش اور بدمعاش انسانوں کے فلسفوں اور نظریات کا نتیجہ تھا جن کوآج انسانی تاریخ کے عظیم مفکرین کے طورپرپیش کیاجاتا ہے ۔ان بدقماشوں کے عقائد میںیہ بات شامل تھی کہ ’’عیسائیت ‘‘پر عمل کرنا دراصل گھر پر کام کرنے والی خادمائوں پر لازم ہے ،ہمیں اس کی ضرورت نہیں اور ان لوگوں کے عشق ومحبت کی فسانے اور زناکاریاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔چناچہ ان دونوں کی تحریروں کے نتیجے میں1789ء انقلابِ فرانس رونما ہواجس کے درجِ ذیل بھیانک نتائج نکلے:
(۱)لامذہبیت (Seculerism)کو قانونی تشخص حاصل ہوا۔
(۲)مذہب سے آزادی حاصل ہوئی۔یعنی مذہب کو ایک بے کار اور uselessشے سمجھا گیا۔
(۳) سیاسی حقوق میں مساوات کے تصور کو تسلیم کیاگیاجس کی رو سے معاشرے کے ہر فرد کے حق رائے دہی کو بغیر کسی تخصیص کے برابر تسلیم کیاگیا۔ جس کے نتیجے میں Liberal Democracy کا فلسفہ معرض وجود میں آیا۔
(۴) تقسیم الحکم یعنی نظام حکومت کوتثلیث کی شکل میں تقسیم کردیاگیا۔مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ۔
(۵) آزاد انتخاب کا تصور سامنے آیا۔
(۶)اور یہودیوں کا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار’’بینک ‘‘یعنی بینک آف فرانس قیام عمل میں آیا۔

یہ بات بھی قابل غورہے کہ اس Liberal Democracy کو 1900ء تک یعنی انقلابِ فرانس کے 100سال تک بقیہ دنیا میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور 1900ء تک کل تین ہی ممالک یعنی امریکہ،برطانیہ اور فرانس ان جمہوری اصولوں پر قائم تھے۔’’جمہوریت ‘‘کو اصل فروغ پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور خصوصاً جنگ عظیم دوم کے بعد حاصل ہوا ۔اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اورخانۂ جنگی کے بعد (Colonolization)اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی۔جیسے جنگ عظیم اول کے بعد آسٹریا،ہنگری اور ترکی وغیرہ میں، جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں، ’’کلو نائیزیشن‘‘کے بعد ہندوستان او ر پاکستان میں، اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں ۔

موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ2001ء میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر2003ء میں اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذکے لئے ہمیں دو خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطیٰ میں اسی جمہوریت کے نفاذ کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔پس جان لیجئے کہ کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی ۔

بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے​

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے ہمیشہ سے ہی مذہب اباحیت ،دین کے منکر ،مذہب اور دین کو جدا کرنے والے اور سودی کاروبار کو فروغ دینے والے بنے۔لہٰذا نفاذاور استحکام جمہوریت کے نتیجے میں ہمیشہ دین مغلوب ،مذہب سے دوری ،اخلاقی انحطاط اور سودی کاروبار کو استحکام اور فروغ ملااور آج پاکستان میںبھی جمہوری دانشوروں اور علمبردار طبقے میںزیادہ تر یہی لوگ نظر آئیں گے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
نظام جمہوریت کے اجزائے ترکیبی
جیسا کہ یہ واضح ہوچکا کہ جمہوریت دراصل ’’لوگوں کی اطاعت اور حکمرانی‘‘ کا نام ہے لہذااس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگاکہ اس جمہوریت کے تحت وجود میں آنے والا نظام ،کن عناصر کے باہمی تعامل سے وجود میں آتاہے:

(۱)ریاست (State):
لبر ل ڈیموکریسی Liberal Democracyکے نظریہ کے تحت تاریخی تجربوں ،جغرافیائی سرحدوں ،مشترک زبان ، نسلی قربت اور ثقافت کی بنیاد پرموجودہ ’’مغربی قومیت ‘‘ کے تصورسامنے آیاچناچہ اس کے نتیجے میں ایک حکومت ،سیاسی آزادی اور خود اردیت کے ذریعے ’’ خود مختاری‘‘ (Sovereignty)کی تشکیل ہوئی اورپھر مغربی قومیت اور خودمختیاری سے مل کر ’’قوم‘‘ (Nation) کا تصوربنا۔اسی طرح ’’مارکس ازم‘‘(Marxism)نظریہ اشتراکیت اور سرمایہ داری نے طبقاتی کشمکش (Class War)کے نظریات دیئے اور Liberal Democracyکے نظریہ کے تحت’’قومیت‘‘ اور’’ طبقاتی کشمکش‘‘ کے باہمی تعامل سے Nation State کا تصوریعنی ’’وطن‘‘کا تصور سامنے آیااور آج مشرق و مغرب میں یہی تصور پورے آب وتاب کے ساتھ رائج ہے۔

(۲)تقسیم الحکم /امر:

Liberal Democracyکے اصول کے تحت اس کو تقسیم کیا گیا لہذا ’’الحکم‘‘ کی جگہ’’ تثلیث ِحکم‘‘ قائم کی گئی۔یعنی
٭ مقننہ
٭ عدلیہ
٭انتظامیہ
اور ان تینوں کو خود مختا ر قرار دیا گیا۔
(۳) مساوات مذہب:
نظام جمہوریت میں تمام عقائدکے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ تبلیغ و ترویج صرف مذہب یعنی فرد کے انفرادی معاملات کی حد تک ہو۔
(۴)حکومت اور مذہب کی علیحدگی :
نظام جمہوریت کا ایک اہم جزمیں یہ ہے کہ نظام حکومت سے مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے ۔
(۵)سیاسی مساوات:
نظام جمہوریت کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ اس میں عام شہری کے سیاسی حقوق مساوی ہوتے ہیں، جیسے عورت /مرد اور مسلم /غیر مسلم کے سیاسی حقوق یکساں قرار پاتے ہیں۔
(۶) آزاد انتخابات :
نظام جمہوریت کا ایک بنیادی جز ’’آزاد انتخاب ‘‘کا اصول بھی ہے جس کو ہم ’’مادر پدر آزاد انتخاب‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔جس میں تمام معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیاجاتاہے۔اپنی جماعت کے امیدوار کو ’’فرشتہ ‘‘اور مخالف امیدوار کو ’’شیطان ‘‘قرار دیاجاتاہے۔
(۷)تصور نمائندگی:
نظام جمہوریت کے ایک بنیادی عنصرصائب الرائے لوگوں کو اہمیت دینے کے بجائے صرف اپنے لوگوں کے حق میںفیصلہ دینا ہے چاہے وہ کسی بھی کرداراور شخصیت کا حامل ہو ۔
(۸) اکثریت کی اطاعت :
نظام جمہوریت کا سب سے بنیادی عنصر ’’اکثریت کی اطاعت‘‘ہے جس پر اس کی نظام کی پوری امارت کھڑی ہے۔
(۹) جمہوریت اور سرمایہ کا گٹھ جوڑ :
جمہوریت کی ابتداء ہی فساد(Corruption )سے ہوتی ہے۔انتخابی مہم میں جس طرح پیسہ بہایا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔امریکہ کے صدارتی انتخاب کا معاملہ اس کی بہترین تصویر ہے ۔جس میں بڑے بڑے بینکرز اور انویسٹر اس میں ملین آف ملین ڈالر لگاتے ہیں اور بعد میں اس کا فائدہ’’ٹھیکوں ‘‘کی صورت میں بلین آف بلین ڈالر کماتے ہیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اسلام اور جمہوریت
اسلام ’’الدین‘‘ہے:
اس سے پہلے کہ ہم جمہوریت اور اس کے اجزائے ترکیبی کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھیں۔اس سے پہلے ہم اسلام، جس کو قرآن نے ’’دین اسلام ‘‘قرار دیا:
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ} (آل عمران:۱۹)
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’دین ‘‘صرف اسلام ہے‘‘۔
اس کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کے ’’دین ‘‘ہونے کے کیا معنی ہیں؟قرآن کریم میں ’’دین‘‘ چار معانی میں استعمال ہواـ:
(۱)بدلہ …{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ}(الفاتحۃ:۳)’’وہ بدلہ کے دن کا مالک ہے‘‘۔
(۲)قانون …{دِیْنِ الْمَلِکِ}(یوسف:۷۶)’’بادشاہ کا قانون‘‘۔
(۳)نظام …{ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِینَکُمْ}(المومن:۲۶)’’مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارے نظام کو نہ بدل دے‘‘۔
(۴)اطاعت…{اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ}(الزمر:۳)’’خبردار!اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص اطاعت کرنا‘‘۔
اور ان چاروں معانی میں ایک باہمی ربط ہے ۔ہر اچھے اور برے اعمال کا بدلہ ملنا چاہیے، اور یہ بدلہ کسی قانون کے تحت دیا جاتا ہے،اور قانون کسی نہ کسی نظام کے تحت ہوتا ہے یا اس کا عکاس ہوتا ہے ،اور نظام وہی ہوتا ہے جس کی جزوی نہیں بلکہ مکمل اطاعت کی جائے۔اس لئے قرآن کریم نے اسلام کے لئے’’دین ‘‘(A Deen)کا لفظ نہیںبلکہ ’’الدین‘‘(The Deen)کا لفظ استعمال کیا۔ یعنی اس نظام کے آنے کے بعد جس کواللہ تعالیٰ نے’’کامل دین ‘‘قراردیا:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا} (المائدۃ:۳)
’’آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین(نظام )کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طورپر پسند کیا‘‘۔

اب اس کے بعد زندگی کے کسی بھی معاملے میں چاہے وہ عبادات سے متعلق ہویاانسان کے بودوباش سے متعلق، انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی معاملات مثلاً نظام معیشت ،نظام معاشرت اور سب سے بڑھ کرنظام سیاست سے متعلق ہو ،دین اسلام کے علاوہ کسی اور’’دین ‘‘یعنی نظام سے کوئی رہنمائی لے گا یا اس کے کسی عنصر کو اپنانے کی کوشش کرے گاتووہ ہرگزقبول نہیں کیا جائے گااور ایسا شخص آخر ت میں خسارہ اٹھانے والا ہوگا۔

اب ہم جمہوریت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمہوریت میں دراصل’’ حاکمیت‘‘ کا حق عوام کو حاصل ہوتا ہے اور ان کا ہر حکم قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔گویا وہ حاکمیت جو فرعون اور اس جیسے دوسرے بادشاہ ’’دعوئے حاکمیت‘‘ کی صورت میں کرتے تھے اب وہ حاکمیت کا دعویٰ ’’عوام کی حاکمیت‘‘ (Sovereignty of the people) کی صورت میں تبدیل ہوچکا ہے۔اس کی مثال یو ں سمجھئے کہ پہلے ایک بادشاہ گندگی کا ایک ٹوکرا ’’دعوئے حاکمیت‘‘کی صورت میں اپنے سر پر لئے بیٹھا ہوتا تھا جیسے فرعون نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ:
{ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ} (سورۃ الزخرف :۵۱)
’’لوگو!کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے اور یہ نہریں میرے نیچے (قبضے میں ) نہیں بہہ رہی ہیں…؟‘‘

اب وہ گندگی اور غلاظت ’’عوام کی حاکمیت ‘‘ کی صورت میں تولہ تولہ، ماشہ ماشہ ایک ایک ووٹ کی صورت میں پوری عوام میں بانٹ دی گئی ۔چناچہ علا مہ اقبال اپنی نظم’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘میں جمہوریت کے حوالے سے شیطان کی حکمتِ عملی کو اپنے الفاظ کے پیرائے میں یوں بیان کرتے ہیں :
ؔہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا خود شناس و خودنگر​

چناچہ عوام کی حاکمیت کی صورت میں عوام کے منتخب نمائندے قانون سازی میں بااختیار ہوتے ہیں۔منتخب نمائندوں کی اکثریت جو قانون چاہے بناسکتی ہے ۔اب چاہے امریکہ کی پارلیمنٹ کی اکثریت شراب کو حلال کردے،چاہے برطانیہ کی پارلیمنٹ کی اکثریت Homosextuality یعنی ’’مردکی مرد سے شادی‘‘ اور ’’عورت کی عورت سے شادی‘‘ جائز ہونے کا بل تالیوں کی گونج میں پاس کردے یا چاہے پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریت ’’حدود اللہ ‘‘جو کہ قرآن وسنت میں نصِ قطعی سے ثابت ہیں ،اُس میں یکسر تبدیلی کرکے شریعت کی دھجیاں بکھیر دے،یہ اختیار ان کوحاصل ہوتا ہے۔

اس کے برعکس اسلامی نظام میں حکومت اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہی ’’اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن‘‘ ہے اور پوری انسانیت اسی کی محکوم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ} (سورۃ یوسف:۴۰)
’’حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کا ہے‘‘۔

{وَّلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا} (سورۃ الکہف :۲۶)
’’اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اپنے حکم کے اختیار میں کسی کو شریک کرتا ہے‘‘۔

ؔسروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
اسی طرح اسلامی حکومت میں خلیفۃ المسلمین اللہ کا نائب ہوتا ہے اور وہ قرآن وسنت کے مطابق حکومت کرتاہے اور کسی بھی معاملے میں قانون کی تشریح وہ ’’شوریٰ ‘‘(وہ لوگ جو قرآن وحدیث کا گہرا علم رکھنے والے ہوں ان کے مشورہ)کے ذریعے قرآن وحدیث کے دیئے ہوئے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کرتا ہے گویا وہ مطلق العنا ن غیر محدود اختیارات کا مالک نہیں ہوتا ہے۔چناچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہِ} (سورۃا لحجرات:۱)
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول (کے مقرر کردہ حدود ) سے آگے نہ بڑھو۔اور( اس معاملے میں) اللہ کی نافرمانی سے بچو‘‘۔

اس کے برعکس آج کا جمہوری نظام جودراصل ’’طاغوت‘‘ ہے ،اس میں اس با ت کی کوئی قید نہیں کہ قانون سازی کرنے والے کون ہیں ؟؟اور اُن کا قرآن وحدیث کے بارے میں علم کتنا ہے؟؟وہ کس سیرت و کردا ر کے حامل ہیں؟؟اور وہ کن اصولوں اور بنیا دوں پر قانون سازی کررہے ہیں ؟؟بس اصول ایک ہے ،وہ یہ کہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت نے یہ قانون پا س کیاہے اور بس!!

اسی طرح جمہوریت کی ایک تعریف ’’اکثریت کی اطاعت ‘‘ بھی قرآن وحدیث سے متصادم ہے ۔کیونکہ قرآن نے ہمیں واضح طورپر صرف اللہ اور اس کے رسول اورشریعت کے دائرے میں اپنے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے نہ کہ اکثریت کی اطاعت کرنے کا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ} (سورۃ النسآء:۵۹)
’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور اُن لوگو ںکی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں‘‘۔

دراصل جمہوری نظام کاخاصہ یہ ہے کہ اس کفریہ نظام میں عوام کی غالب اکثریت کی رائے کو معیارِ حق تسلیم کیا گیا ہے یعنی عوام کی اکثریت کی جو رائے ہے وہی حق ہے۔اس کے برعکس قرآن نے واضح طور پر ااس حقیقت کو واضح کردیا کہ :
{وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (سورۃ الاعراف:۱۱۶)
’’اور(اے نبی ﷺ)آپ اگرکہامانیں گے اس اکثریت کا جو زمین میں بستی ہے تو وہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے سے ہٹا دیں گے‘‘۔

اس بات سے یہ ثابت ہوگیا کہ خلافت اور جمہوریت دو متصادم نظام ہیں۔اسلام کی رو سے اللہ کے علاوہ کسی اور کو حاکمِ حقیقی سمجھنا اور اسے قانون سازی کا حق دیناسراسر گمراہی اورکفر و شرک ہے۔الغرض جمہوریت کی بنیاد غیر اسلامی نظریہ پر قائم ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
نظامِ جمہوریت قرآن و سنت کی روشنی میں
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ادیان کفر میں سے ہر ایک ایسے نظام ومنہج پر مشتمل ہوتا ہے جوکہ سراسر اسلام کے خلاف اور اس کی ضدہے۔ اس میں کمیونزم ،سوشل ازم، سیکولر ازم اور مشنریز وغیرہ جیسے جتنے نئے نظام واصول سب شامل ہیں۔لوگ ان کواپنے پراگندہ خیالات سے تشکیل دیتے ہیں اور پھر بطور دین انہیں اختیار کرلیتے ہیں ۔’’دین جمہوریت‘‘ بھی اس میں شامل ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کے دین کے سوا ایک دین ہے۔ اس نئے دین میں جس کے فتنے میں اکثر لوگ بلکہ اکثر مسلمان مبتلا ہیں ۔اس گمراہی واضح کرنے کے لئے چند بنیادی باتیں پیش خدمت ہیں تاکہ آپ یقین کرلیں کہ’’ جمہوریت‘‘ ملت توحید سے الگ ایک مستقل دین اور صراط مستقیم سے الگ ایک مستقل راستہ ہے، جس کے دروازے پر شیطان بیٹھاجوکہ جہنم کی طرف داعی ہے۔لہذا یہ ضروی ہے کہ اہل ایمان اس سے اجتناب کریں اور اس سے اجتناب کی دعوت دیں مومنوں کی یاد دہانی، غافلوں کی بیداری ،ضدی سرکشوں پر اقامت حجت اور رب العالمین کے ہاں عذر خواہی کے لئے۔کیونکہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
{وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ} (آل عمران:۸۵)
’’اور جو اسلام کے سوا کوئی اوردین چاہے گا وہ اس سے کبھی قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا‘‘۔
1وطن:
جمہوری نظام میں ایک نمایاںجزو’’ وطن‘‘ کا تصور ہے جو کہ تاریخی ،جغرافیائی،نسلی،قومی یا ثقافتی(Culture) وغیرہ کی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں۔اور جب ان بنیادوںپریہ وطن وجود میں آتے ہیں تو پھراز خود’’ خود مختاری‘‘ کا تصور بھی جنم لیتا ہے کہ ہر ملک آزاد ہے اور وہ اپنے معاملات طے کرنے میںخود مختار ہے۔یوں’’نیشن اسٹیٹ‘‘ (Nation State)کا تصور سامنے آتاہے ۔لیکن اسلام ان تمام تصورات کی نفی کر تا ہے جو قومی،نسلی اور تعصب کی بنیاد پر ہوں۔اسلام پوری دنیا کے مسلمانوں کوایک جسم کی مانندجوڑتاہے اور انہیں ایک امت قرار دیتا ہے ۔
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (سورۃ ال عمران:۱۱۰)
’’تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی بھلائی ) کے لئے نکالا گیا ہے‘‘۔
یہی وہ’’ وطن‘‘ کاشرکیہ تصور ہے جس نے آج پوری امت ِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ،لسانی اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔علامہ اقبال اسی تصور کی نفی کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ:
ؔان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے​

اس کے برعکس بقول علامہ اقبال، اسلام کا تصوریہ ہے کہ:
ؔاسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے​

2تقسیم الحکم /امر۔(Division of Authority)
اسلام میں’’ الحکم ‘‘یا’’ امر‘‘ شرعی اعتبار سے قابل ایک صالح خلیفہ کے گرد گھومتا ہے۔ مختلف معاملات میںمشورہ کے لئے صائب الرائے افراد پر مشتمل شوریٰ توہوتی ہے مگرخلیفہ کے پاس اصل ختیارات ہوتے ہیں لیکن Liberal Democracyکے اصول کے تحت اس کو تقسیم کردیا گیا۔لہذا ’’الحکم‘‘ کی جگہ’’ تثلیث ِحکم‘‘ قائم کی گئی اور ان تینوں کو خود مختا ر قرار دیا گیا۔جس کوآج ہمارے ہاں ریاست کے ’’تین ستون‘‘کانام دیاجاتاہے:
٭ مقننہ
٭ عدلیہ
٭ انتظامیہ
اسی خباثت کے پھیل جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺنے فرمایاتھا :
((لتنتقضن عری الاسلام عروۃعروۃفکلماانتقضت عروۃ تشبت الناس بالتی تلیھا فأولھن نقضاً الحکم واٰخرھن الصلاۃ)) (شعب الایمان ج:۴ص:۳۲۶۔المعجم الکبیرج:۸ص:۹۸صحیح ابن حبان)
’’جب دین میں کوئی ایک چیز ٹوٹ جائے گی تو لوگ بقیہ چیزوں پر قناعت کرلیں گے ،یہاں تک کہ آخری چیز بھی ٹوٹ جائے گی ۔ پھر جو چیز سب سے پہلے ٹوٹے گی وہ ’’الحکم ‘‘ ہوگی اور سب سے آخر میں ٹوٹنے والی چیز ’’الصّلوۃ‘‘(یعنی نماز) ہوگی ‘‘۔

لہذا المیہ یہ ہے کہ آج ’’خلافت ‘‘ کا خاتمہ نہیں بلکہ ’’فلسفہ ء خلافت ‘‘کو بھی بھلا دیاگیااور اسی کا مظہرہم نے افغانستان میں دیکھا کہ طالبان کے اسی نظریہ خلافت کی وجہ سے ان کی حکومت اور ملا عمر کا وجود کفریہ طاقتوں کوبرداشت نہیں تھا۔
3حکومت اور مذہب کی علیحدگی :
نظام جمہوریت کی بنیا دی عناصر میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس میں حکومت اور مذہب کا باہمی تعلق ختم کردیا جاتا ہے۔یعنی مذہب کوریاست اور اس کے قوانین و معاملات میں کسی عمل دخل کی اجازت نہیں ہوتی اور جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ :
ؔجدا ہو دین سے سیاست، تو رہ جاتی ہے چنگیزی

چنا چہ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا :
((الاان رحاالاسلام دائرۃ فدوروامع الکتاب الا ان الکتاب والسلطان سفترقان فلا تفارقواالکتاب )) (معجم طبرانی کبیرعن معاذ بن جبلؓ)
’’اسلام کی چکی گردش میں ہے تو جدھر قرآن کا رخ ہو اسی طرف تم بھی گھوم جاؤ، ہوشیار رہو! قرآن اور اقتدار عنقریب الگ الگ ہو جائیں گے(خبردار )قرآن کو نہ چھوڑنا ‘‘۔
4مذہبی مساوات:
اسی طرح آزاد جمہوری نظام(Liberal Democracy) میں مذہبی مساوات بھی ہوتی ہے۔جس میں ہر مذہب کو اپنے اپنے عقائد کی تبلیغ کی کھلی اجازت ہوتی ہے۔جبکہ اسلامی نظام میں سوائے اسلام کے ہر مذہب کوچار دیواری کے اندر رہتے ہوئے اپنے مذہب اور عقائد کی تبلیغ کی اجازت ہوتی ہے۔ اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتا کہ مشرکانہ اور باطل عقائد کی کھلم کھلاتبلیغ کی اجازت دی جائے اورلاکھوں لوگوںکو مرتداور اسلام سے متنفر کر دیا جائے ۔ جس کی مثال خود ہمارے ملک میں موجود ہے کہ عیسائی اور قادیانی مشنریز کے ذریعے کس طرح ہر سال ہزاروں مسلمان اسلام کی نعمتِ عظیم سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیںاور مرتد ہوجاتے ہیں۔چنانچہ اس لحاظ سے بھی جمہوریت اور اسلام ایک دوسری کی ضد ہیں،جن کا دور تک کوئی تعلق اور نسبت نہیں ۔
5سیاسی مساوات:
اسی طرح جمہوری نظام میں منتخب عوامی نمائندوں کی اکثریت کی رائے کو ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ان کی رائے کو قانون کا درجہ حاصل ہوجاتاہے ،چاہے یہ رائے شریعت کے مطابق ہو یا شریعت کے خلاف ہو اس سے کوئی بحث نہیں ہوتی ہے۔اسی طرح جمہوریت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تعلیم سے نابلد، عالم اور جاہل ، ماہر فن اور فن سے نابلد،چوکیدار، کلرک ،صحافی ، ماہرنفسیات،ماہر سیاسیات، پروفیسر،معیشت دان ، تاجر، مزدور ،عورت ،مردحتیٰ کہ مسلم اور غیر مسلم کی حیثیت برابر اور ان کی رائے اور ووٹ کا ایک ہی درجہ ومقام ہوتا ہے۔یہ بات نہ صرف خلافِ اسلام بلکہ سراسر خلاف عقل ودانش ہے۔ہر شخص نہ تو ایک جیسی عقل وذہانت کا مالک ہوتا ہے اور نہ ایک جیسی صلاحیت رکھتا ہے، اسی لئے ان کی آراء اور افکارونظریات میں بھی واضح فرق ہوتا ہے۔ اسلام نے اس فرق کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ واضح کردیاہے کہ صاحبِ علم اور جاہل ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔ارشاد ِ ربای ہے:
{قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ} (سورۃ الزمر:۹)
’’آپ کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں۔بے شک اس میں اہل عقل کے لئے نصیحت ہے ‘‘۔

دراصل حکومت اور ملکی نظم ونسق چلانے کے لئے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی بنسبت زیادہ صلاحیت واستعداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اَن پڑھ اور جاہل عوام جنہیں سیاسیات کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی وہ نظام ِ حکومت کو چلانے کے مستحق کیسے قرار پا سکتے ہیں؟ نیز جب انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ملکی معاملات اور نظم ونسق کو کیسے چلایا جاتا ہے تو انہیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ فلاں شخص ملکی نظم ونسق چلانے کا زیادہ مستحق ہے۔ لہٰذا وہ صحیح اور باصلاحیت افراد کو بھی بطور نمائندہ منتخب کرنے سے قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اوپر ذکر کردہ سورۃ الاعراف کی آیت ۱۱۶کے اگلے حصہ میں انسانوں کی عظیم اکثریت کی ذہنی ناپختگی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا :
{اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلاَّ یَخْرُصُوْنَ} (الاعراف:۱۱۶)
’’ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ نہیں لگاتے مگر صرف تخمینے۔‘‘

بقول علامہ اقبالؒ کہ:
اس راز کو ایک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ھر چند کے دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے​
6عوام کو کلی اختیاردینا
جمہوری نظام کا بنیادی فکر ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے،عوام کے لئے‘‘اسلامی فکرسے بالکل متصادم ہے۔اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر عوام سے ووٹ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے قانون سازی اور حکومت کے حق کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور انہیں یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ اسلام کوقبول کریں یا اس کے بالمقابل و متصادم باطل نظام کو ۔ عوام کو اس بات کا حق دینا اور ان کے اس حق کو تسلیم کرنا ’’صریح کفر‘‘ اوراللہ کی حاکمیت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
7اکثریت رکھنے والی جماعت کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کرنا
پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے ولی سیاسی جماعت کو قانون سازی کا حق ہوتا ہے۔ جب تک دینی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی ، تب تک وہ قانون سازی نہیں کرسکتی ۔ جب تک دینی سیاسی جماعت اقلیت میںرہتی ہے، اس وقت تک مقابل اکثریت کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کیا جاتاہے کہ وہ چاہے تو اسلام سے متصادم قانون سازی کر سکتی اور پالیسیاں بنا سکتی ہے۔ حالانکہ ان کا یہ حق تسلیم کرنابھی سراسر’’کفر و شرک‘‘ ہے۔
{اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اﷲُ وَ لَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ}(الشوری:۲۱)
’’کیا ا ن کے لئے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کے وہ قانون بنائے جس کی اللہ نے اجازت نہ دی اوراگر کلمہ فصل نہ ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیاجاتا‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
8اقتدار میں آنے والی جماعت کا پانچ سال بعد دستبردار ہوجانا
انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں آنے والی جماعت کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا حق ہے۔ اقتدار میں آنے والی جماعت کو یہ شرط قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ یہ کفریہ جمہوری نظام کا بنیادی اصول ہے۔ بالفرض اگر جمہوری طریقے سے کسی دینی سیاسی جماعت کا اقتدار قائم ہوجا تا ہے اور وہ اسلامی نظام بھی نافذ کردیتی ہے(جوکہ محال ہے)تو اسلامی نظام کا نفاذ پانچ سال تک کے لئے ہوگا ، جس کے بعد اس جماعت کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑے گا جو کہ اجماع کے خلاف ہے کیونکہ خلیفہ(جب تک اہل ہے) تاحیات حکمران ہوتا ہے، نیز یہ اصول اسلامی احکامات کے بھی صریح خلاف ہے کیونکہ شریعت کی بالادستی اسلامی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ پانچ سال بعد اقتدار سے دستبردار ہونے کا مطلب عوام کو پھر سے اسلامی نظام یا باطل نظام کے انتخاب کا حق دینا ہے۔ نیز یہ کہ باطل نظام اور اس کی حامل سیکولر جماعتوں کو دوبارہ سے برسرِ اقتدار آنے موقع فراہم کرتاہے ،جو کسی صورت اللہ اور اس کے رسولﷺ کو قبول نہیں ۔
9 ریاست تک محدود رہنا
جمہوری طریقے سے بر سرِ اقتدار آنے والی دین کانام لیوا جماعت اگر اسلامی نظام نافذ بھی کردے تو کیا وہ ایک خالص اسلامی ریاست کے تقاضے پورے کرے گی؟جمہوری طریقے سے اقتدار پر براجمان ہونے والی جماعت جمہوری اصول وضوابط کی نہ صرف قائل بلکہ اس پر عمل پیرا ہوتی ہے ،توایسی کوئی جماعت کیااسلامی ریاست کے سب سے اہم فریضہ’’ دعوت واقدامی جہاد‘‘ کو سر انجام دے سکے گی؟جبکہ بین الاقوامی طور پر مسلمہ جمہوری اصول قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ان کی رو سے اپنی ریاست تک محدود رہنااور وہ ممالک جو مسلمانوںپر ظلم وستم توڑنے والے ہوں اوراس کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کا بھی استہزا اور مذاق اڑانے والے ہوں، ان سے بھی امن وسلامتی اور تعاونِ باہمی پر مبنی خوشگوارتعلقات قائم رکھنا ضروری ہیں اور اس اصول سے روگردانی کرنیوالی جماعت یا حکومت جمہوریت کے اصول و قواعد کے مطابق قابل گرفت اور قابل سزاہوتی ہے۔
10انتخابی سیاست
جمہوری اصطلاح میں’’ پولیٹکس‘‘(Politics) دراصل یونانی لفظ ’’ (چہرہ)tica +(کئی)poli‘‘سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہی ’’کئی چہروں والا‘‘۔دورحاضر میںیہی وہ انتخابی سیاست ہے جہاں سے منافقانہ طرزِ عمل وجود میں آتا ہے کہ کل جس شخص یا پارٹی کی برائی بیان کی جاتی ہے یا اس کے خلاف دھرنا دیا جاتا ہے توآج اسی شخص یا پارٹی سے انتخابی سیاست کے نام پراتحادکر نے میں کوئی مضائقہ بھی محسوس نہیں کیا جاتا۔پھر اسی انتخابی سیاست کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیشہ اپنی پارٹی یا اپنی قوم کے مفادات کی بات کی جاتی ہے ،اگرچہ غلط ہی کیوں نہ ہو اور اپنے مخالف کی ہر بات کو غلط قرار دیا جاتا ہے اگر چہ وہ مبنی بر حق ہی کیوں نہ ہو۔اس کے برعکس قرآن جو ہمیں طرز ِ عمل بتا تا ہے وہ بالکل مختلف ہے۔
{ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ} (سورۃالنسآء:۱۳۵)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو،کھڑے ہو جائو عدل کے علمبردار بن کر اللہ کے لئے گواہ بنتے ہوئے، خواہ (یہ گواہی ) تمہاری اپنی جانوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو یا خواہ یہ والدین کے خلاف کیوں نہ ہو اور خواہ قرابت داروں کے خلاف کیوں نہ ہو‘‘۔
11لادین جماعتوں کے ساتھ اشتراک ِ عمل
انتخابی سیاست میں شرکت کرکے اقتدار میں آنے کا ایک لازمی نتیجہ غیر اسلامی بلکہ لادین تحریکوں کے ساتھ اتحاد کی صورت میں نکلتا ہے۔اتحاد میں شریک مختلف نظریات و مقاصد کی حامل جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ اگرچہ وقتی طور پر ایک خاص ایشو پر اتحاد ہوجاتا ہے لیکن کوئی جماعت اپنے اساسی اصول ونظریات ترک کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوتی بلکہ بعض جماعتیں تو الٹا اسلام نظام اور اس کی سزاؤں کو وحشیانہ اور خلافت کے نظام کو دقیانوسی نظام گردان کر اس کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہیں۔چناچہ غیر اسلامی اور لادینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد (ممکن ہے اس وقت یہی چیز وقت کا تقاضہ ہو یا مجبوری ہو)کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ یہی جماعتیں اسلامی نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آئیں اور انہوں نے اسلامی دستور اور آئین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
{قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن} (سورۃالانعام :۱۰۰)
’’آپ فرمادیجئے کہ خبیث اورطیب برابر نہیں ہوسکتے ،گو آپ کوخبیث (چیز) کی کثرت کتنی بھلی لگتی ہو۔اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔اے عقل مندوں !(اس بات کو سمجھو) ۔تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔

{وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ البقرۃ:۴۲)
’’ اور(دیکھو)حق اور باطل کو مت ملاؤ‘‘۔
چناچہ ہوا یہ کہ لادینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد سے اسلامی نظام کا نفاذ تو ممکن نہیں ہوا لیکن ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کی بعض کمزوریاں ، خامیاں بلکہ برائیاں دینی جماعتوں کے نظم میں بھی گھس آئیں۔

12انتخابی مہم چلانے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہانا
انتخابی مہم چلانے کے لئے لاکھوں کروڑ وں روپے درکار ہوتے ہیںاور اتنی بڑی رقم جاگیر دار اور لوٹ کھسوٹ کا مال بٹورنے والے ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ ایک عام آدمی جس کے گھر کا نان نفقہ ہی مشکل سے پورا ہوتا ہو بھلا وہ کیسے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے؟ انتخابا ت میں شرکت تو درکنار اسے انتخابات سے کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں ہوتی اسے تو بس یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ وہ شام کو گھر کا چولہا کیسے جلائے گا۔اسی طرح وہ افراد اور گروہ جن کا تعلق مذکورہ طبقے سے نہیں ہوتا وہ انتخابات میں شرکت کی احمقانہ سوچ سے بھی دور رہتا ہے ۔اگر کوئی آدمی جمہوریت کے خوش کن نعروں سے متاثر ہوکر مذکورہ طبقے کے مقابلے میں اٹھ کھڑ ا ہوتا بھی ہے تو اس کا جو حشر ہوتا ہے وہ کم از کم پاکستا ن کی عوام سے پوشیدہ نہیں ۔ایسا آدمی تو اپنی آئندہ آنے والی نسل کے لئے بھی وصیت کر کے جاتا ہے کہ وہ ان چکروں میں پڑنے کی حماقت کبھی نہ کریں۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری دینی سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابی سیاست میں شرکت کس قدر مشکل ہے۔ کیا وہ انتخابی سیاست میں مذکورہ طبقے کا مقابلہ کرسکتی اور کارکنوں کے انفاق فی سبیل اللہ کو انتخابی مہم چلانے کے لئے پانی کی طرح بہا سکتی ہے؟اگر وہ ایسا کریں تو شرعاًواخلاقاً اس کی کیا حیثیت ہوگی ؟ کیا اس پر بھی کبھی غور کیا گیا ہے؟؟
13امیدواربننا
انتخابی مہم کے دوران امیدوار انتخاب جیتنے کے لئے ہر جائز وناجائز طریقے اور ذرائع کے استعمال کو روا رکھنے پڑتے ہیں۔ دھوکہ فراڈ، دھاندلی، فریق مخالف پر جھوٹے الزامات، خلافِ حقیقت پروپگنڈہ اور ووٹروں سے جھوٹے وعدے کرناانتخابی سیاست کالازمی حصہ ہے۔ الغرض اخلاقیات کا اس میں جنازہ نکل جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس با ت کی اجازت دیتاہے کہ آپ اقتدار کے حصول کے لئے اپنی تعریف اور کارناموں پر خود ہی قلابیں ملائیں اور اس کے پوسٹر اور بینر لگائیں اور اسے عدسی شیشوں سے بڑا کرکے دکھائیں جبکہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں دو اشخاص آئے اور کہا کہ اللہ نے آپ کو جن علاقوں پر حاکم بنایا ہے ،اُ ن میں سے کسی علاقے پر ہمیں بھی گورنر بنادیں۔اس پر رسول ﷺنے اُ ن کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(( وَاللّٰہِ لَا نُوَلِّیْ ھَذٰ ا لْعَمَلَ اَحَداً سَاَلَہٗ، اَوْ اَحَداًحَرَصَ عَلَیْہِ)) (بخاری،مسلم بروایت عن موسیٰ اشعریؓ)
’’ اللہ کی قسم ! ہم اس آدمی کو کوئی عہدہ حوالے نہیں کرتے جو اُس کا سوال کرے یا اُس کی لالچ رکھے۔‘‘

اور پھر کیا اسلام اس با ت کی بھی اجازت دے سکتا ہے کہ آپ اپنے انتخابی جلسوں میں اپنے مخالف پر بے جاتنقید کریں اور ان پر کیچڑ اچھالیں اور ان کو برابھلا کہیں ۔تو سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی دینی جماعتیں اقتدار میں آنے کے لئے ایسی جمہوری روایات کو جس میں اسلامی تعلیمات کے برخلاف عمل کیا جاتا ہے،اس کو اپنائے بغیر انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکیں گی …؟؟
14اسلام جمہوری طریقے سے نافذ کرنا
ہر نظام کی ایک اساسی فکر ہوتی ہے اور اس نظام کونافذکرنے کے لئے ’’طریقہ کار‘‘ اسی فکر سے ماخوذ ہوتا ہے جو اس فکر کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ جمہوری نظام کا اساسی فکر سیکولر ازم ہے اوراسی فکر سے ماخوذ طریقہ انتخابات ہیں ، جو اسی فکر کے ساتھ خاص ہے ۔اسی طرح نظام ِ خلافت کا اساسی فکر اسلام ہے۔ اس نظام تک پہنچنے کا طریقہ بھی اسلام نے’’دعوت وجہاد‘‘ بتلایا ہے جواسلام کے ساتھ خاص ہے۔عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے نظام ِ جمہوریت تک پہنچا جا سکتا ہے نہ کہ نظام ِ خلافت تک۔ اسلامی نظام اپنی اصل اور مکمل شکل وصورت کے ساتھ اسلامی طریقہ سے ہی آسکتا ہے۔ اس میں دوسرے باطل نظاموں کی پیوند کاری کرنا اور انہی باطل نظاموں کے باطل طریقوں سے قائم کرنے کی کوشش کرنا غیر فطری اور خلافِ عقل بھی ہے اور خلاف شریعت بھی۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جمہوریت کی اصل حقیقت
ان تمام حقائق سے واضح ہوا کہ جمہوریت دراصل ایک نیا’’ کفری دین‘‘ہے۔جمہوریت، لادینیت یا سیکولرازم کی ناجائز اورغیر قانونی باندی ہے اور سیکولرازم وہ نظریہ ہے جو زندگی اور ریاست وحکومت سے دین کو نکا ل باہر کرتا ہے۔ جمہوریت اللہ کے قانون محکم کا بالکل اعتبار نہیں کرتی،سوائے یہ کہ اللہ کا وہ قانون جو آئین و دستور کے تابع ہوجائے یا پھر عوامی خواہشات کے اور ان سب سے پہلے وہ’’ طاغوت ‘‘یا ’’سربراہ طبقے‘‘ کی ترجیحات واغراض کے عین مطابق ہوجائے۔لہٰذا جمہوریت اللہ کے دین کے مدمقابل ایک مستقل دین ہے ۔جس میں طاغوت کی حکمرانی ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی اور جھوٹے معبودان متفرقہ کی شریعت ہے نہ کہ اللہ واحدو قہار کی۔ مخلوق میں سے جو بھی اسے اختیار کرے یا اس کی موافقت کرے تودرحقیقت وہ اپنے لئے اللہ واحد قہار کے قانون کے مدمقابل قانون ساز ی کے حق کو قبول کررہا ہے۔چناچہ اب وہ اسے قبول کرنے کے بعد قانون سازی میں شریک ہو یا نہ ہو اور ان شرکیہ انتخابات میں جیتے یا ہار جائے۔ اس کا’’ دین‘‘ جمہوریت کے مطابق ان میں حصہ لینا یا حصہ لینے والوں کی موافقت کرنا اور اپنے لئے قانون سازی کو قبول کرنا اور اپنے بنائے ہوئے قانون کو اللہ کی کتاب وقانون پر مقدم کئے جانے کو قبول کرلینا ہی ’’عین کفر‘‘ ہے اورواضح گمراہی ہے بلکہ معبود حقیقی سے ٹکر لے کر اس کے ساتھ’’ شرک‘‘ کرنا ہے۔ لہٰذا عوام کا اپنے لئے عوامی نمائندے مقرر کرنا ایسا ہی جیسے ہر قبیلے اور جماعت نے ان میں سے اپنا ایک رب مقرر کرلیاہوتاکہ وہ ان کی خواہشات وآراء کے مطابق ان کے لئے قوانین بنائے۔
{ اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اﷲُ وَ لَوْ لاَ کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْم} (الشوریٰ:۲۱)
’’کیا ان کے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین سے وہ کچھ قانون قرار دیا جس کی اللہ نے اجازت نہ دی اور اگر کلمہ فصل نہ ہوتا تو ان کے مابین فیصلہ کردیاجاتا اور بے شک ظالموں کے دردناک عذاب ہے۔‘‘

چناچہ جمہوری نمائندے درحقیقت اپنے اپنے بت کدوں (پارلیمنٹس)میں جھوٹے معبود وں کی مانندہیں جو کہ دین جمہوریت اور دستور کے قانون کے مطابق قانون سازی کرتے ہیں اور اس سے بھی پہلے وہ اپنے رب اور معبود یعنی بادشاہ یا صدر یا سربراہ کا حکم مانتے ہیں جو ان کے قوانین کا فیصلہ کرتا ہے،یعنی ان کی تصدیق یا تردید کرتا ہے ۔

درحقیقت جمہوریت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ دین کو ریاست کے معاملے سے الگ کردیتی ہے اور اسی پر اس کے وجود کا دارومدار ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب یورپی اقوام نے اپنی زندگی سے دین کو نکال پھینکا تو اس جمہوریت نے اس کفر کی مٹی میں جنم لیا۔ پھر اس نے شرک وفساد کے کھلیانوں میں نشو ونماپائی اور ان کی فضاؤں کو زہریلا کرنا شروع کردیا اوربالاخر مغرب میں دین کو ریاست سے الگ کرکے رکھ دیا جس کے نتیجے میں اس گندی جمہوریت نے ان کے لئے لواطت وشراب نوشی وجنسی آزادی ودیگر فواحش کو قانونی حیثیت دی۔ چناچہ اسلام کے علاوہ دین جمہوریت پر ایمان رکھنے والاہی یاجاہل بیوقوف اس جمہوریت کے جائزہونے یا اس کوشوریٰ کے مساوی قرار دے کر اس کا دفاع کرسکتا ہے ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
دین جمہوریت کے جواز میں پیش کے جانے والے چند شبہات کاردّ
کچھ دیندار عناصردرج بالا حقائق کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام خباثتیں تو ’’مغربی جمہوریت ‘‘ کا نتیجہ ہیں اور ہم تو ’’اسلامی جمہوریت ‘‘ کے قائل ہیں اور اس کے لئے وہ جمہوریت کو ’’شریعت کا لبادہ‘‘اڑھانے کے لئے چند واقعات و احکامات کو توڑ مروڑ کر دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔چناچہ یہ ضروری ہے کہ اُن کی اس غلط فہمی کوبھی دور کیاجائے اور اصل حقیقت کو سامنے لایا جائے۔

1جمہوریت کوجائز قراردینے کے لئے اسے’’ شوریٰ‘‘ کانام دینا
اوّل: بعض عقل کے اندھے اور بصیرت سے کورے اس باطل ،کفری اورجمہوری دین کے لئے اہل ایمان بندوں کی صفات سے متعلق ان قرآنی ارشادت سے دلیل لیتے ہیں :
{ وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ} (شوریٰ:۳۸)
’’اور ان کا معاملہ باہم مشورہ سے ہوتا ہے‘‘۔

{وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ} (آل عمران:۱۵۹)
’’اور آپ معاملے میں ان سے مشورہ لیں ‘‘

اور اس کفری مذہب کو جائز قرار دینے کے لئے اس پر شوریٰ کا’’شرعی لبادہ‘‘ چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت اسلامی شورائیت کی جدیدشکل ہے‘‘۔لیکن جان لیجئے کہ نام بدل دینے سے چیزوں کے احکام نہیں بدلتے اور نہ ہی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کردیاجاتا ہے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
’’میری امت کا ایک گروہ شراب کوا یسے نام سے حلال کرے گا جو خودانہوں نے رکھا ہوگا‘‘۔(مسند احمد )

اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سلف وصالحین متفقہ طورپر ایسے لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں جو توحید کو برا کہے یا اس کی مخالفت کرے یا اسے خارجیت یا تکفیر کہے یا شرک کو اچھا یا جائز سمجھے یا اس کا مرتکب ہو یا اس کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دے۔ (ملاحظہ ہو الدررالسنیۃ فی الاجوبۃ النجدیۃ:۱/۱۴۵)

لہذا جمہوریت کواہل ایمان کے صائب الرائے لوگوں کی شوریٰ پر قیاس کرنا اور مجلس شوریٰ کو کفر وفسق وعصیان کی مجالس کے مشابہ قرار دینا دراصل کذب وباطل ہے کیونکہ قومی یا صوبائی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے مراکزدراصل’’ شرک کے قلعے‘‘ ہیں جس میں’’ جمہوری آلھہ وارباب‘‘ اور ان کے شرکاء اپنے دستور اور وضعی قوانین کے مطابق لوگوں کے لئے ایسے قوانین بناتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ}(یوسف:۳۹-۴۰)
’’کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا اکیلااللہ غالب تم اس کے سوا ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہوجنہیں تم نے اور تمہارے آباء نے رکھ لیا حالانکہ اللہ نے ان کی دلیل نہیں اتاری۔ حکم کرنا صرف اللہ کے لئے ہے اس نے حکم دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘۔

{اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اﷲُ} (الشوری:۲۱)
’’کیاان کے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے قوانین کودین قرار دیا جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا‘‘۔

لہٰذا جمہوریت کو ’’شوریٰ ‘‘پر قیاس کرلینا ایسے ہی ہے جیسے شرک کو توحید اور کفر کو ایمان پر قیاس کرنا اور اللہ پر بلاعلم جھوٹ باندھنا اور اس کی آیات میں الحاد،حق وباطل اور ظلمت کو خلط ملط کرنا ہے۔یہ جاننے کے بعد سمجھ لیں کہ شوریٰ جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے قانون کی حیثیت دی اس کے اور گندی جمہوریت کے مابین فرق آسمان وزمین جیسا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کر جو فرق خالق ومخلوق میں ہے۔اسی طرح کافرق ان دونوں میں بھی ہے۔جمہوریت اس کائنات میں عوام کو سب سے بڑی قانونی اتھارٹی مانتی ہے۔ یعنی اکثریت کا فیصلہ اکثریت جسے چاہے حلال کرے جسے چاہے حرام کردے۔ گویا جمہوریت میں اکثریت ہی’’ الٰہ اور رب ‘‘ہوتی ہے، جبکہ شوریٰ میں اکثریت اللہ اور ا س کے رسول پھر امام المسلمین کے احکامات وفیصلہ جات کی تابعداری کی پابند ہوتی ہے اور امام اکثریت کی رائے یا فیصلے کا پابند نہیں ہوتا جبکہ اکثریت ان کی اطاعت کی پابند ہوتی ہے اگرچہ وہ ظلم کریں سوائے اس کے وہ کسی ’’صریح کفر ِ بواح ‘‘ کا حکم دے،جب اس کی اطاعت جائز نہیں بلکہ اس کو معزول کرنا مسلمانوں پر ضروری ہوجاتاہے۔
چناچہ شوریٰ اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ ربانی نظام ومنہج ہے جبکہ جمہوریت ان ناقص انسانوں کی کارگزاری ہے جو خواہشات کے اسیر ہیں۔ چناچہ نیز نبی علیہ السلام نے فرمایا:
’’درحقیقت لوگ ایسے سو اونٹوں کی طرح ہیں جن میں توایک بھی سواری کے قابل نہ پائے گا‘‘۔ (عن ابن عمرؓ،متفق علیہ)

اسی طرح اللہ نے اپنی کتاب میں واضح طور پر اکثریت کے خلاف فیصلہ دیا ہے ۔فرمایا:
{ وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ} (الانعام:۱۱۶)
’’اور اگر آپ نے زمین پر رہنے والے افراد کی اطاعت کی تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکادیں گے وہ محض گمان پر چلتے ہیں اور صرف اندازے لگاتے ہیں ‘‘۔

{وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآءِٔ رَبِّہِمْ لَکٰفِرُوْنَ} (الروم:۸)
’’اور اکثر لوگ اپنے رب سے ملاقات کا انکار کرتے ہیں ‘‘۔

{ وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاﷲِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْن}
(یوسف:۱۰۶)
’’اورنہیں ایمان لائے ان میں سے اکثر اللہ پر مگر اس حال میں کہ وہ مشرک ہوتے‘‘۔

{وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ} (یوسف:۲۱)
’’لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ‘‘۔

{ فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا} (الاسراء:۸۹)
’’پس اکثر لوگوں نے انکار کردیا لیکن ناشکری سے‘‘۔
علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے{ وامرھم شوریٰ بینھم} ’’اور ان کا معاملہ باہم مشورے سے ہوتاہے ‘‘اس جیسی آیات کے ذریعے اپنی گندی جمہوریت کو جائز قرار دینے والوں کی بڑی موثر تردید کی ہے چنانچہ آیات :{وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ}(آل عمران:۱۵۹)’’اور معاملے میں ان سے مشورہ لو ‘‘{ وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ}(الشوریٰ:۳۸)’’اور ان کامعاملہ باہم مشورہ ہوتا ہے‘‘کی تفسیر کے حاشیے میں فرماتے ہیں :
’’عصر حاضر میں دین کو مذاق بنالینے والے علماء وغیرہ ان دونوں آیات کو اپنی باطل تاویل اورگمراہ کرنے کے لئے مشقِ ستم بناتے ہیں تاکہ فرنگی کے بنائے ہوئے دستوری نظام کو جائز قرار دیں، جس کانام انہوں نے’’ جمہوری نظام ‘‘رکھ کر عوام کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔ یہ لوگ ان دونوں آیات کو سرورق اور ہیڈنگ بناتے ہیں تا کہ اسلام سے منسوب جماعتوں کو دھوکہ دے سکیں۔ درحقیقت یہ ایسا کلمہ حق ہے جس سے باطل مقصد پورا کیا جارہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام مشاور ت کاحکم دیتا ہے ۔یقینا اسلام مشاورت کا حکم دیتا ہے لیکن کس قسم کی مشاورت کا، اللہ اپنے رسول سے فرماتا ہے:{وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِِ}(آل عمران:۱۵۹)’’اورآپ معاملے میں ان سے مشورہ لیں پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں‘‘اس آیت کے معنی واضح اور صریح ہیں محتاجِ بیان نہیں، نہ ہی تاویل کے محتمل ہیں ۔اس میں حکم رسول ﷺکو ہے اور رسول کے بعد اس کے نائب یعنی حاکم کو ہے کہ وہ اپنے قابل اعتماداور قابل ساتھیوں سے مشورہ لے ان مسائل میں جن میں تنفیذ یا اجراء کے لئے آراء کے تبادلے اور اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے۔ پھر ان میں سے صحیح ترین یا قریب مصلحت رائے کو اختیار کرکے اس کے نفاذکا عزم کرلے اور کسی مخصوص گروہ کی رائے کا پابند نہ ہو اورنہ ہی کسی مخصوص تعداد یا اکثریت یا اقلیت کی رائے کا۔ پھرجب عزم کرلے تو اس کے عملی اجراء کے لئے صرف اللہ پر توکل رکھے ۔اس آیت میں سادہ مفہوم جسے کسی دلیل کی ضرورت نہیں،وہ یہ ہے کہ رسول ﷺیا اس کے نائب کو جن افراد سے مشاورت کا حکم ہوا ان سے اللہ کی حدود کی پابندی کرنے والے نیک اورمتقی رفقاء مراد ہیں ۔جو نماز وزکوٰۃاور جہاد فی سبیل اللہ کے پابندہوں ۔جن کے متعلق خودنبی علیہ السلام نے فرمایاکہ:’’عقلمند اور سمجھ دار مجھ سے قریب رہا کریں‘‘۔ان سے بے دین اور اللہ کے دین سے مصروف ِجنگ یا اعلانیہ گناہ کرنے والے یاخود کو اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے مخالف قوانین بنانے کا مستحق سمجھنے والے اور اللہ کے دین کو برباد کرنے والے ایسے لوگ مراد نہیں جو کفر اور فسق کے مابین ہوں۔ ان کا صحیح مقام یہ نہیں کہ مشیر کے مرتبے پر فائز کئے جائیں بلکہ ان کے لئے’’ تختہ دار‘‘ یا کوڑا ہے۔ ایک دوسری آیت میں ان باتوں کو صراحت سے بیان کیاگیا ہے فرمایا:
{وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ} (شوریٰ:۳۸)
’’اورجولوگ اپنے رب کی اطاعت کریں اورنماز پڑھیں اور ان کا معاملہ باہم مشاورت سے ہواور ہم نے انہیں جو کچھ عطاکیااس میں سے خرچ کرتے ہوں ‘‘۔ (عمدۃ التفسیر:۳/۶۴-۶۵)
لہذااب جو بھی جو اس جمہوریت کی حمایت کرے، اس کے لئے تباہی وبربادی ہو۔ خواہ اس کی داڑھی کتنی ہی طویل ہو یا وہ کوئی بھی ہو۔ ہم دنیا میں ان سے اس طرح اس لئے کہتے ہیں شاید وہ توبہ کرلیں جو ان کے لئے بہتر ہے اور یہ دنیا میں سن لینا بنسبت آخرت کے زیادہ سہل ہے کہ جب ساری انسانیت رب العالمین کے روبرو حاضر ہوگی۔ یہ لوگ اللہ کے نبی ﷺکے حوض کوثر پر جانا چاہیں گے لیکن فرشتے انہیں دھکیل دیں گے اور کہیں گے انہوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ یہ سن کر نبی الرحمۃﷺ فرمائیں گے ۔دور ہوجاؤ جنہوں نے میرے بعد تبدیلیاں کیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
2ووٹ کو مشورہ پر قیاس کرنا
اسی طرح جمہوریت کے شیدائیوں کا یہ مؤقف ہے کہ مشورہ اور ووٹ ایک ہی چیز ہے اور ووٹ مشورہ لینا کا ایک جدید طریقہ ہے۔اس بات کی وضاحت تو اوپر خلیفہ کے انتخاب کے عنوان کے ضمن میں واضح ہوچکی ہے مگر اس سلسلہ میں چند مزید چند اہم امور سامنے رہیں۔سب سے پہلے اصولی بات یہ ہے کہ مشاورت وہاں کی جاتی ہے جہاں نص موجود نہ ہو اور جب نص موجود ہوتو شوریٰ کی کوئی حیثیت نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا} (الاحزاب:۳۶)
’’کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کے لئے جائز نہیں جب اللہ اور اس کا رسول ایک بات کا فیصلہ کردیں کہ انہیں اپنے معاملے میں اختیار مل جائے‘‘۔

دوسرا یہ کہ مشورہ اور ووٹ دو الگ الگ نظاموں پر مبنی ہیں اور انہی کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ مشورہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ،رسول اللہ ﷺکی سنت اور حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل ہے۔اس کے برعکس ووٹ کا ذکر نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی احادیث میں کہیں ملتا ہے اورامت کی ۱۴ سو سالہ تاریخ یعنی 1924ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک ووٹ کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
مشورہ کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
{وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ} (آل عمران:۱۵۹)
’’’اورآپ معاملے میں ان سے مشورہ لیں پھر جب آپ فیصلہ کرلیں تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتاہے‘‘۔
یہاں فرمایا ’’ جب آپ فیصلہ کرلیں ‘‘، یہ نہیں فرمایا کہ ان سے مشورہ لیں اور ان کی رائے کے مطابق فیصلہ کرلیں۔یہ بھی نہیں فرمایا کہ ان سے مشورہ لیں اور اکثریت کے مطابق فیصلہ کرلیں۔اسلا م کا مزاج یہ ہے کہ مشورہ لینے والا ہی فیصلہ کرے ،مشورہ دینے والے نہیں۔ چناچہ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ’’مشورہ ‘‘ الگ چیز ہے اور قصد یا فیصلہ کرنا الگ چیز ہے۔اگر مشورہ دینا فیصلہ قرار پاتا تو بات یوں کی جاتی کہ اکثریت کے فیصلہ کے مطابق ہی فیصلہ کیا کریں چناچہ پھر مشورہ کو ووٹ قرار دیا جاسکتا تھا۔

اسی طرح سورۃ الشوریٰ کی آیت۳۸میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ{وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ} ’’وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں ‘‘۔یہ نہیں فرمایا کہ ’’وہ اپنے معاملات اکثریت کے مشورہ کے مطابق کرتے ہیں‘‘۔اگر اللہ تعالیٰ اس طرح فرمادیتے تو قیامت تک کے لئے اکثریت کے مشورے اور رائے فیصلہ بن جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے مشور ہ کو فیصلہ نہیں بنایا۔

اس کے برعکس جمہوریت میں حاکمیت ہی افراد کی ہوتی ہے اس لئے ہر انسان کاووٹ اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔اگر ووٹ عوام کا فیصلہ نہیں اور صرف مشورہ ہے تو پھر ان کی حا کمیت بنتی ہی نہیں ۔حاکم حکم دیتے ہیں چناچہ مشورہ دینے والے حاکم نہیں ہوسکتے۔چونکہ جمہوریت میں اکثریت حاکم ہے اس لئے اگر ہم ووٹ کو مشورہ اور رائے بنادیں گے تو ہمیں لوگوں کی حاکمیت کے جمہوری تصور اور نظریہ سے انکار کرنا پڑے گااور پھر جمہوریت کی تعریف ہی غلط ہوجاتی ہے۔اس لئے ووٹ نہ تو رائے ہے نہ مشورہ۔اسی طرح مشورہ عاقل اور عابد سے لیا جاتا ہے جبکہ ووٹ ہر جاہل و عالم دیتا ہے ۔مشورے میں بعض اوقات ایک آدمی کی رائے سو آدمیوں کی رائے پر بھاری ہوجاتی ہے۔جبکہ جمہوریت میں بقول علامہ اقبال ؔ کہ:
ؔجمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے​

اس حوالے سے آخر میں ایک حدیث بات کو بالکل واضح کردیتی ہے۔مجمع الزوائد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
((قلت یارسول اللّٰہ ﷺ!أرأیت ان عرض لناامر لم ینزل فیہ القرآن ولم تمض فیہ سنۃمنک قال تجعلونہ شوریٰ بین العابدین من المؤ منین ولا تفضونہ برأی خاصۃ)) (الطبرانی فی الکبیر بحوالہ مجمع الزوائدج:۱ص:۱۷۸)
’’میں نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ!اگر پیش آئے ہمیں کوئی ایسا امر جس کو ہم قرآن میں نازل نہ پائیں اور نہ آپ کی سنت میں ؟آپﷺنے فرمایا:’’اہل ایمان میں سے نیک لوگوں کی شوریٰ بناؤاور کسی اکے دکے کی رائے پر فیصلہ نہ کرو‘‘۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
((قال شاوروافیہ الفقھاء والعابدین ولا تضوا فیہ رأی خاصۃ)) (الطبرانی فی الاوسط واسنادہ ،مجمع الزوائد ج:۱ص:۱۷۸)
’’آپﷺنے فرمایا:مشاورت کرواس میں فقہاء اور نیک لوگوں سے اور نہ چلو کسی اکے دکے کی رائے پر‘‘۔
(جاری ہے)
 
Top